Home History صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام، بہتر کونسا؟

صدارتی نظام یا پارلیمانی نظام، بہتر کونسا؟

by bigsocho
0 comment

پاکستان میں آج کل صدارتی نظام کی گونج ہے، ہر کوئی اس کے حق اورمخالفت میں سیاسی دلائل دے رہا ہے۔۔ اس سیاست سے بالاتر ہوکر ہم آپ کو بتائیں گے کہ صدارتی نظام ہے کیا، اس کی کیا خوبیاں اور کیا خامیاں ہیں۔۔ یہ دنیا کے کس کس ملک میں رائج ہے۔ اور یہاں سربراہ حکومت کا انتخاب کس کس طرح ہوتا ہے۔ توچلئے آپ کوصدارتی نظام کا مکمل تعارف کرادیتے ہیں۔ اورساتھ ہی یہ بھی بتادیتے ہیں کہ  صدارتی اور پارلیمانی نظام ایک دوسرے سے مختلف کس طرح سے ہیں۔

صدارتی نظام بمقابلہ پارلیمانی نظام

حکومت کا سربراہ کون؟

تو جناب!  پہلے دونوں نظاموں کے بنیادی خدوخال کا جائزہ لے لیتے ہیں تو صدارتی نظام ایسا سسٹم ہے، جس میں تمام انتظامی اختیارصدرکے پاس ہوتے ہیں، وہ ناصرف حکومت بلکہ اکثراوقات ریاست کا بھی سربراہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب پارلیمانی نظام میں حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے جبکہ مملکت کی سربراہی صدر، ملکہ یا بادشاہ کے پاس ہوتی  ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم ہی طاقت کا منبع ہوتا ہے اور سربراہ مملک کی حیثیت رسمی ہوتی ہے، یعنی وہ وزیراعظم کی ایڈوائس پرعمل درآمد کرنے کا پابند ہوتا ہے۔۔۔ 

طریقہ انتخاب

 صدارتی اورپارلیمانی نظام میں دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ صدارتی نظام  میں صدرپارلیمنٹ  سے براہ راست منتخب ہوتا ہے اورنہ ہی اس کوبراہ راست جواب دہ ہوتا ہے تاہم پارلیمنٹ اس کا مواخذہ کرکے اسے ہٹا سکتی ہے۔ امریکا میں تو الیکٹرول کالج صدر کا انتخاب کرتا ہے لیکن امریکہ کے علاوہ جہاں جہاں مکمل صدارتی نظام رائج ہے، وہاں صدرکا انتخاب براہ راست الیکشن سے ہی ہوتا ہے۔ صدارتی نظام میں عوام کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دے رہے ہیں۔ یہی نہیں کچھ ملکوں میں سربراہ حکومت اور سربراہ مملکت ایک ہی ہوتا ہے اوراس کا انتخاب بھی پارلیمنٹ ہی کرتی ہے۔ دوسری جانب پارلیمانی نظام میں سربراہ حکومت یا وزیراعظم پارلیمنٹ کا حصہ ہوتا ہے، اس کا رکنِ پارلیمنٹ ہونا ضروری ہوتا ہے، اس نظام کی ایک خامی یہ سمجھ لیں کہ عوام کو بعض اوقات پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا اگلا سربراہ حکومتِ کون ہوگا؟ اس نظام میں سربراہ حکومت کو ہٹانے کا اختیار کہیں صدرکے پاس ہے تو کہیں پارلیمنٹ کے پاس۔۔ اور بعض ملکوں میں تو دونوں ہی یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ صدارتی نظام کے برعکس پارلیمانی نظام میں سربراہِ حکومت پارلیمنٹ کوجواب دہ بھی ہوتا ہے۔

کابینہ کی تشکیل

 دونوں بڑے نظاموں میں تیسرا فرق کابینہ کی تشکیل کا ہے، صدارتی نظام میں زیادہ ترٹیکنوکریٹس کوشامل کیا جاتا ہے تاہم ارکانِ پارلیمنٹ بھی کابینہ کا حصہ ہوسکتے ہیں تاہم پارلیمانی نظام میں انتظامیہ یعنی حکومتی وزیروں کا تعلق پارلیمنٹ سے ہی ہوتا ہے۔۔ اور  وہ عام طورپر حکومتی جماعت سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ سربراہ حکومت اپنی مرضی سے معاون اورمشیربھی مقررکرسکتا ہے۔ لیکن وہ اکثرملکوں میں کابینہ کا حصہ نہیں ہوتے۔

اسمبلیاں توڑنا

 صدارتی اورپارلیمانی نظام میں چوتھا بڑا فرق یہ ہے کہ صدارتی نظام میں صدراسمبلیاں نہیں توڑسکتا لیکن پارلیمانی نظام میں وزیراعظم یہ کام کرسکتا ہے۔ 

عہدے کی مدت

پانچواں فرق یہ ہے کہ صدارتی نظام میں صدر کے عہدے کی ایک مدت متعین ہوتی ہے اوراسے مواخذے کے سوا نہیں ہٹایا جاسکتا لیکن پارلیمانی نظام میں وزارتِ عظمیٰ کی مدت مقرر ہونے کے باوجود اس کی کسی بھی وقت چھٹی ہوسکتی ہے، چاہے عدم اعتماد آئے یا صدراسے گھر بھیج دے۔

اختیارات کی تقسیم

اب ایک اور بڑے اوراہم فرق کا ذکر کرلیتے ہیں۔ صدارتی نظام کی یہ خوبی ہے کہ اس نظامِ حکومت میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہوتی ہے، یعنی صدر انتظامی اختیارات کا مالک ہوتا ہے، پارلیمنٹ آئین اور قانون سازی کرتی ہے اور عدلیہ آئین کی تشریح کرنے کے ساتھ ساتھ قانون پر عمل داری کو یقینی بناتی ہے، دوسری جانب۔ پارلیمانی نظام میں ایسا نہیں ، اس میں سربراہ حکومت کو پارلیمنٹ منتخب کرتی ہے، انتظامیہ پارلیمنٹ کا حصہ ہوتی ہے اور عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں ناصرف عدلیہ کا اختیارہوتا ہے بلکہ انتظامیہ اور پارلیمنٹ بھی ان کے تقرر کے عمل کا حصہ بن جاتی ہے، یعنی اس نظام میں اداروں کی حدود و قیود کبھی بھی واضح نہیں ہوتیں، اور ہر وقت یہ کہنا پڑتا ہے کہ ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کرکام کریں تو بہتر ہوگا۔

نظامِ حکومت

 الیکشن ٹرن آؤٹ

ایک اوراہم فرق یہ ہے کہ جن ملکوں میں صدارتی نظام رائج  ہے، وہاں الیکشنز میں ٹرن آؤٹ پارلیمانی نظام کے حامل ملکوں سے عموماً زیادہ ہی رہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عوام جس کو اپنا سربراہ بنانا چاہتے ہیں، اس کا انہیں 100 فیصد پتہ ہوتا ہے۔

صدارتی اور پارلیمانی نظام پرناقدین کی رائے

دونوں نظاموں کی خصوصیات کے بعد ذراناقدین کا تبصرہ بھی سن لیں۔ ماہرین کے مطابق اختیارات کی تقسیم، فیصلوں میں تیزی، سیاسی استحکام اور براہ راست الیکشن صدارتی نظام کی  اہم خوبیاں ہیں۔  سیاسی استحکام کی وجہ سے معاشی پالیسیاں بھی مستحکم ہوتی ہیں، جس سے ترقی دیرپا ہوتی ہے۔۔ خامیوں میں صدرکے فیصلوں میں آمریت کا رجحان سب سے اہم ہے۔ اس نظام میں  انتظامیہ اور مقننہ میں سیاسی کشمکش جاری رہتی ہے، جس سے احتساب کا عمل کمزور پڑجاتا ہے۔ ایک خامی یہ بھی بتائی گئی ہے کہ غیرمقبول ہونے کے باوجود صدرکو ہٹایا نہیں جاسکتا۔ دوسری جانب پارلیمانی نظام پارلیمانی نظام  حالات سے موافقت رکھتا ہے۔ ورلڈبینک کی دوہزار ایک کی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی نظام میں کرپشن کا تناسب کم رہتا ہے۔ پھر جب بھی ضروری ہوں، مڈٹرم الیکشن کا انعقاد بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ اس کی خامیوں میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات کی  نامکمل علیحدگی، ذاتی پسند اور ناپسند پر مبنی قانون سازی اور سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری شامل ہیں۔  

صدارتی نظام اور امریکا

صدارتی نظام کی بات کریں تو جناب! مکمل صدارتی نظام کی سب سے بڑی مثال امریکا کی ہے، جہاں صدر کا انتخاب چار سال کیلئے ہوتا ہے، اوروہ زیادہ سے زیادہ دوبارصدربن سکتا ہے۔صدرپارلیمنٹ کے بنائے کسی بھی قانون کو ویٹو کرسکتا ہے۔امریکی صدر افواج کا کمانڈرانچیف ہے۔ تاہم کسی ملک کے خلاف اعلانِ جنگ کا اختیارصرف کانگریس کے پاس ہے۔۔فوج کی ذمہ داریوں کا تعین بھی کانگریس ہی کرتی ہے۔ ۔۔۔ ۔ صدر کوکابینہ اورنامزد ججوں سمیت تمام تقرریوں  اوردیگرملکوں سے تجارتی معاہدوں کی کی منظوری سینیٹ سے لینا پڑتی ہے۔ ۔ کانگریس صدر سمیت کسی  بھی  کابینہ کے رکن اور وفاقی جج مواخذہ کرسکتی ہے۔ کسی بھی آئینی شق اور قانون پر نظرثانی کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کا جج تاحیات رہتا ہے۔ ۔۔

صدارتی نظام کہاں کہاں رائج ہے؟

میکسیکو، برازیل، ارجنٹائن، چلی، کولمبیا، انڈونیشیا، فلپائن، ترکی اور نائیجریا سمیت تینتالیس ملکوں میں عوام براہ راست صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ  امریکا میں الیکٹرول کالج کے ووٹوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ترکی میں دوہزارسترہ میں ایک آئینی ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام نافذ کیا گیا ہے۔ امریکا کی طرح ترکی میں بھی ہر کوئی صدر کا امیدوارنہیں ہوسکتا۔ اورصرف وہی جماعت صدرنامزد کر سکتی ہے جس نے پارلیمنٹ کے الیکشن میں پانچ فیصد ووٹ لئے ہوں یا پھراس کی پارلیمنٹ میں کم سے کم بیس نشستیں ہوں۔ صدارتی الیکشن میں جب کوئی امیدوار پچاس فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکے تو دوسرا مرحلہ بھی ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدوار مدمقابل ہوتے ہیں اور زیادہ ووٹ لینے والا صدر بن جاتا ہے، صدر کے عہدے کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔۔ برازیل میں بھی صدر کا انتخاب ترکی کی  طرح سادہ اکثریت حاصل کرنے کے ٹو راؤنڈ سسٹم کے تحت ہوتا ہے لیکن یہاں اس عہدے کی مدت چار سال ہے۔۔ میکسیکو اس لحاظ سے منفرد ملک ہے کہ یہاں کوئی بھی صدر صرف زندگی میں ایک بار چھ سال کیلئے منتخب ہوتا ہے، پھر وہ دوبارہ صدارتی الیکشن نہیں لڑسکتا۔  اس نظام میں کوئی نائب صدر نہیں ہوتا۔ دوسری جانب وینزویلا میں صدر کے عہدے کی مدت تو چھ سال ہی ہے لیکن وہ دوبارہ بھی الیکشن لڑسکتا ہے۔ امریکا کے برعکس فلپائن میں صدر اور نائب صدر کے الیکشن الگ الگ ہوتے ہیں۔ نائیجیریا میں کسی بھی پارٹی کا رکن الیکشن لڑسکتا ہے تاہم کسی آزاد امیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں۔۔

نیم صدارتی نظام کہاں کہاں رائج ہے؟

 اب آپ کو یہ بھی بتادیں کہ کئی ملک ایسے بھی  ہیں، جہاں نیم صدارتی نظام رائج ہے،جس میں اختیارات صدر اور وزیراعظم دونوں میں تقسیم ہوتے ہیں، وزیراعظم اوران کی کابینہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ صدر کا انتخاب کہیں براہ راست ہوتا ہے تو کہیں پارلیمنٹ صدر کومنتخب کرتی ہے۔۔ جن ملکوں میں صدراختیارات کا مرکز ہے، ان میں سے ایک نام بیلا روس کا ہے، یوں تک صدر کو عوام منتخب کرتے ہیں لیکن نظام آمرانہ ہے۔۔ دوسری جانب ایوانِ نمائندگان ناصرف وزیراعظم کومنتخب کرتا ہے بلکہ تحریکِ عدم اعتماد سے اسے ہٹا بھی سکتا ہے۔اس نظام میں وزیراعظم کونسل آف منسٹرز کا حصہ ہوتا ہے، جس میں پانچ نائب وزیراعظم بھی ہوتے ہیں۔۔ اب بات کرلیتے ہیں وسطی ایشیائی ملک قازقستان کی ، جہاں یونٹری Unitary سٹیٹ سسٹم رائج ہے یعنی پورا ملک ایک ریاست ہے۔۔ یہاں صدر کوامریکی صدر کی طرح پارلیمنٹ کی قانون سازی کو ویٹو کرنے کا حق ہے،۔ یہاں سربراہِ حکومت وزیراعظم ہے، جس کے ساتھ تین نائب وزیراعظم اور سولہ وزیرہوتے ہیں۔ اب بات ایک یورپی ملک فرانس کی، جہاں صدرسربراہ مملکت اوروزیراعظم سربراہ حکومت ہے، وزیراعظم کا انتخاب صدرکرتا ہے۔ صدر صرف وزیراعظم کو ہی عہدے سے نہیں ہٹا سکتا بلکہ پارلیمنٹ کو بھی چلتا کرسکتا ہے، یہی نہیں صدر کسی بھی معاملے پر ریفرنڈم کراکر پارلیمنٹ کے اختیارات سلب بھی کرلیتا ہے۔ ججوں اور سول سرونٹس کی تقرری کا اختیار بھی صدر کے پاس ہے۔ یہاں روس کی مثال دینا بھی ضروری ہے، جہاں کچھ ترامیم کے ساتھ صدارتی پارلیمانی نظام رائج ہے۔جہاں صدر سربراہ مملکت ہے اور چھ سال کیلئے منتخب ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ وزیراعظم، اس کے نائبین اور وزرا کو نامزد کرتا ہے، جن کی منظوری پارلیمنٹ دیتی ہے۔ جن کو صدر ناصرف خود ہٹا سکتا ہے بلکہ یہ کام پارلیمنٹ بھی کرسکتی ہے، روس اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس ایک فیڈریشن میں بائیس خودمختار جمہوریہ ہیں، جن کا اپنا آئین، پرچم، ترانہ اوراپنی قومی زبان ہے۔ یہی نہیں تاتارستان ریاست کا سربراہ توصدر کہلوانے کا بھی حقدار ہے۔۔

چین مختلف کیوں؟

یہاں چین کا تذکرہ بھی ضروری ہے، جہاں یوں تو یک جماعتی نظام نافذ ہے یعنی صدر اوروزیراعظم کا انتخاب عوام نہیں بلکہ ایک ہی جماعت  چائنز کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کرتی ہے، تاہم چین میں بھی اختیارات کا بڑا حصہ صدر کے ہی پاس ہے۔ اور وہ سوائے اپنی پارٹی کی کانگریس کے کسی کو جواب دہ نہیں۔۔

ایران کا منفرد صدارتی نظام

ایران کا صدارتی نظام بھی دنیا بھرمیں منفرد حیثیت رکھتا ہے، جہاں ریاست کا سربراہ براہ راست عوام کا منتخب کردہ نہیں، اسے سپریم لیڈرکہا جاتا ہے، جسے ایک کونسل آف ایکسپرٹس Experts منتخب کرتی ہے۔ ملک میں حکومتی امور چلانے کی ذمہ داری صدر کی ہوتی ہے۔ صدر اپنا نائب خود مقرر کرتا ہے، یعنی نائب صدر بھی عوام کے ووٹوں سے نہیں آتا۔ ریاست سے متعلق تمام امور سپریم لیڈر ہی سرانجام دیتے ہیں، وہ ناصرف افواج بلکہ عدلیہ  اور سرکاری ٹیلی ویژن کا بھی سربراہ ہے۔۔معاشی امور میں بھی ان کی رائے حتمی مانی جاتی ہے۔

 یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ دنیا کے 90سے زائد ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں صدارتی نظام رائج  ہے۔۔

صدارتی نظام کا ناکام تجربہ

توجناب! اب ان ملکوں کا تذکرہ ہوجائے جنہوں نے صدارتی نظام کا تجربہ کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔۔ اب تک چوبیس ملکوں میں کم از کم ایک سال کیلئے صدارتی نظام کا تجربہ ہوچکا ہے، ان ملکوں میں کیوبا میں توستاون سال تک یعنی انیس سو دو سے انیس سو انسٹھ تک صدارتی نظام نافذ رہا۔تائیوان، ہیٹی، آذربائیجان، ویت نام، بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا نے بھی صدارتی نظام اپنایا تاہم ۔ ان ملکوں نے بعد میں پارلیمانی نظام کو اپنا لیا۔ پاکستان میں انیس سو باسٹھ سے انیس سو ستر تک صدارتی نظام کو آزمایا گیا،  اس دوران زیادہ عرصہ تک سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ محمدایوب خان صدر رہے۔ بھارت سے ایک جنگ اس عرصے میں ہوئی اور دوسری اس مدت کے اگلے ہی سال ہوگئی، اس کے بعد پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا۔ پاکستان میں سترہ سال تک نیم صدارتی نظام بھی رائج رہا، جس میں زیادہ اختیارات صدر کے پاس تھے، اس دور میں ضیاءالحق دس سال اور پرویزمشرف سات سال صدررہے۔ یہ دونوں صدر اسمبلیاں توڑ کو حکومت کو چلتا بھی کرسکتے تھے۔

پارلیمانی نظام کہاں کہاں رائج ہے؟

صدارتی نظام کے مقابلے میں پارلیمانی نظام لایا جاتا ہے۔تو ذرااس کے بھی خدوخال کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں صدر کی بجائے وزیراعظم یا چانسلربااختیار ہوتا ہے۔۔ جبکہ سربراہ مملکت کا عہدہ محض رسمی ہی ہوتا ہے، چاہے وہ بادشاہ یا ملکہ ہی کیوں نہ ہو۔۔پارلیمانی نظام زیادہ تر ان ملکوں میں رائج ہے جوکبھی تاجِ برطانیہ کی کالونی رہے ہیں۔ دنیا کے ساٹھ سے زائد ملکوں میں پارلیمنٹری سسٹم موجود ہے۔ اوشیانا زون کے ممالک کی اکثریت نے بھی پارلیمانی نظام کواپنا رکھا ہے۔۔ اس نظام کے حامل بڑے ملکوں میں برطانیہ، سپین جرمنی، سویڈن، ڈنمارک اور ناروے، یونان، اٹلی، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش،، آسٹریلیا، جاپان، ملائیشیا اورکینیڈا شامل ہیں

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu