Home Interesting Facts جہاز سفید کیوں ہوتا ہے؟

جہاز سفید کیوں ہوتا ہے؟

by bigsocho
0 comment

آپ میں سے بہت سے افراد نے کئی بار جہاز میں سفر کیا ہوگا۔ اور اگر نہیں کیا تو بھی ہوائی جہاز دیکھا ضرور ہوگا۔ لیکن کیا کبھی اسے دیکھ کے آپ کے کیوریس مائنڈ میں یہ سوال آیا کہ زیادہ تر جہاز کا رنگ وائٹ ہی کیوں ہوتا ہے؟طیارے میں موجود بلیک باکس ج  س کے بارے میں آپ سب نے سنا ہوگا کیا وہ سچ میں بلیک کلر کا ہی ہوتا ہے؟جہاز کی کھڑکیاں گول کیوں ہوتی ہے سکوئیر کیوں نہیں؟ اس کی کھڑکی میں ایک چھوٹا سا سوراخ کیوں موجود ہوتا ہے؟ اور زیاد تر طیاروں میں سیٹس بلیو کلر کی ہی کیوں ہوتی ہیں؟ 

ہوائی جہاز کو سفید رنگ کیوں کیا جاتا ہے؟

ہوائی جہازوں کی اکثریت سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ دنیا میں زیادہ تر ائیر لائنز اپنے جہازوں کو وائٹ پینٹ ہی کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ زیادہ تر جہاز وائٹ ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو دوستو اس کا جواب یہ ہے کہ طیاروں کو سن لائٹ ریفلیکٹ کرنے کے لیے ہلکے رنگ میں پینٹ کیا جاتا ہے۔  کیونکہ اتنی بلندی پر سورج کی تیز روشنی جہاز میں جذب ہوکر جہاز کو تیزی سے گرم کر سکتی ہے۔ اس لیے جہاز کو زیادہ تر وائٹ یا لائٹ کلر میں ہی پینٹ کیا جاتا ہے تا کہ یہ سن لائٹ ریفلیکٹ کرے absorb نہیں. لائٹ پینٹ کی وجہ سے ہوائی جہاز کو شمسی تابکاری یعنی سولر ریڈیشن سے بھی کم نقصان ہوتا ہے۔ یہ دونوں فائدے اسے ہوا اور زمین پر دونوں جگہ ملتے ہیں۔ دوسری طرف، گہرے رنگ سفید پینٹ کے مقابلے میں زیادہ تھرمل ایفکٹ فراہم کرتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ سفید رنگ کو منتخب کرنے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ وائٹ کلر پہ  سکریچ ، کوئی ڈینٹ، زنگ کے دھبے، دراڑیں یا تیل لیک ہونے کے نشان زیادہ آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یوں کوئی بڑا حادثہ ہونے سے پہلے ہی یہ فالٹ کلئیر کیے جاسکتے ہیں۔ 

دوستو وائٹ پینٹ کا آپ کو ایک اور دلچسپ فائدہ بتاتے ہیں وہ یہ کہ ہوائی جہاز کا سفید رنگ پرندوں کے ٹکرانے کے خطرے کو بھی کم کرتا ہے۔ دوران  پرواز پرندوں کا ہوائی جہاز سے ٹکرانے کا خطرہ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔ دوہزار انیس میں یونائٹید اسٹیٹ میں ہوائی جہاز اور پرندے کے ٹکراؤں کے 17,228 حادثات ریکارڈ کیے گئے۔ 

وائٹ پینٹڈ ائیر پلینز  پرندوں کے لیے دور سے ہی خطرے کی گھنٹی بجا دیتے ہیں۔ دراصل ڈ ارک کلر، ہوائی جہاز اور visual background کے درمیان فرق کو کم کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پرندوں کو ہوائی جہاز کا پتہ لگانے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ گہرے رنگ والے طیاروں کو دیکھنے میں پرندوں کو مشکل پیش آتی ہے اس لیے ان کے ٹکراؤں کا خطرا مزید بڑھ جاتا ہے۔جبکہ وائٹ یا لائٹ پینٹ والے جہاز پرندوں کو آسانی سے نظر آجاتے ہیں یوں ان کے ٹکرانے کے خطرات میں کچھ حد تک کمی ہو جاتی ہے۔ 

مائے کیوریس فیلوز ہوائی جہاز ہر وقت مختلف قسم کے شدید ماحول اور موسمی حالات کے اثر میں ہوتے ہیں۔ برف، ہوا، بارش اور درجہ حرارت کی باقاعدہ تبدیلیاں ان کے رنگ کو جلدی خراب کردیتی ہیں۔ رنگین پینٹ سفید رنگ سے زیادہ تیزی سے خراب ہو جاتا ہے۔ یعنی ڈارک کلر تیزی سے fade ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دیکھنے میں بھی اچھے نہیں لگتے۔ اس کے علاوہ پھرکمپنیوں کو بھاری قیمت پر اپنے طیاروں کو دوبارہ پینٹ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اور اس پینٹنگ پروسیس میں عام طور پر ایک سے دو ہفتے لگتے ہیں، اس دوران جہاز گراؤنڈ ہو جاتا ہے یعنی اس سے آمدنی بھی نہیں ہوتی۔ اور اس سب کی قیمت صرف ایک طیارے کے لیے $150,000 اور $300,000 کے درمیان بنتی ہے۔

مزید یہ کہ ایک نیا پینٹ ورک جہاز کے لیے اضافی وزن ہوتا ہے۔ یہ ہوائی جہاز میں 550 کلو گرام تک کا اضافہ کر سکتا ہے۔ وزن ایندھن کی کھپت کو بڑھاتا ہے اور یوں ایئر لائنز کے منافع کو کم کرتا ہے۔ سو دوستو سفید ہی وہ رنگ ہے جو بہت کم fade ہوتا ہے۔ اور اس سے کمپینز کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ پینٹ کم کروانا پڑتا ہے۔ ان کی بچت زیادہ ہوتی ہے۔ ویسے بھی ہوائی جہاز کا پینٹ عام مارکیٹ سے ملنے والے پینٹ سے بہت زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ یہ پینٹ اس لیے بھی زیادہ مہنگے ہیں کیونکہ طیارے پر پینٹ کی جانے والی سطح کا رقبہ بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ بوئنگ 737 کو پینٹ کرنے کے لیے کم از کم 240 لیٹر پینٹ کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایئربس A380 کے لیے 3,600 لیٹر تک پینٹ کی ضروت ہوتی ہے۔ چونکہ وائٹ کلر سب سے عام رنگ ہے، اس لیے سفید پینٹ مارکیٹ میں سب سے سستا بھی ہے۔ اس لیے یہ بہت سی ایئر لائنز کا اپنے طیاروں کے لیے ترجیحی رنگ ہے۔

لیکن دوستو دنیا میں ایک ایسی ائیر لائن بھی ہے جس کے طیارے بلیک کلر میں پینٹ کیے گئے ہیں۔ اور وہ ائیر لائن ہے ائیر نیوزی لینڈ۔ ائیر نیوزی لینڈ کے بیشتر طیاروں کو جزوی طور پر سیاہ یا مکمل طور پر سیاہ پینٹ کیا گیا ہے۔  جیسا آپ سکرین پہ دیکھ رہے ہیں یہ ائیر نیوزی لینڈ کو Boeing 787-9 ہے۔ اس ائیر لائن کے بلیک کلر نے اسے دنیا میں سب سے منفرد بنا رکھا ہے۔ یہ طیارے باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں۔ 

کیا بلیک باکس واقعی بلیک ہوتا ہے؟

فلائٹ ریکارڈر ایک الیکٹرانک ریکارڈنگ ڈیوائس ہے جسے ہوائی جہاز میں حادثات اور واقعات کی تحقیقات میں سہولت فراہم کرنے کے مقصد سے رکھا جاتا ہے۔ فلائٹ ریکارڈرز کو بلیک باکس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے-اس بلیک باکس کی ایجاد کا سہرا میلبورن میں ایروناٹیکل ریسرچ لیبارٹریز کے ڈیوڈ وارن کے سر سجا ہے۔ جنہوں نے  1953 میں بلیک باکس کی ایجاد کی۔ لیکن “بلیک باکس” کی اصطلاح سب سے پہلے برٹش نے دوسری جنگ عظیم کے دوران استعمال کی تھی۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا جب بھی کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو جائے حادثہ پر سب سے پہلے بلیک باکس کو سرچ کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا اس کا رنگ سچ میں کالا ہوتا ہے کیا اس کے کلر کی وجہ سے اسے بلیک باکس کہا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے دوستو۔۔۔ بلیک باکس حقیقتاً ارنج کلر کاہوتا ہے۔ بلیک نہیں ہوتا۔حادثے کے بعد انہیں تلاش کرنا آسان بنانے کے لیے انہیں برائٹ ریڈ یا اورینج کلر سے پینٹ کیا جاتا ہے۔ اس کا چمکدار  نارنجی رنگ حادثے کے مقام پر اس کو تلاش کرنا مدد فراہم کرتا ہے۔ ظاہر ہے اگر بلیک باکس بلیک کلر کا ہی ہو گا تو خود سوچیں دوستو اگر کوئی حادثہ رونما ہو جائے اور جہاز میں آگ لگ جائے تو یہ جہاز جل کر راکھ کا ڈیر بن جائے گا۔ ایسے میں اگر بلیک باکس بھی بلیک ہو تو اس کو تلاش تقریباً ناممکن ہو جائے گی اس لیےاسے اورینج پینٹ کیا جاتا ہے۔ اس کے رنگ کی وجہ سے جائے حادثہ پر اسے تلاش کرنا آسان ہوتا ہے۔ 1960 میں آسٹریلیا وہ پہلا ملک تھا جس نے ہوائی جہاز میں فلائٹ ریکارڈرز کو لازمی قرار دیا۔

ہوائی جہاز کی کھڑکیاں گول کیوں ہوتی ہیں؟

ونڈو والی سیٹ کسے نہیں پسند اور اگر بات ہو ہوائی سفر کی تو زیادہ تر لوگ ونڈو سیٹ پہ ہی بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ پر کیا کبھی آپ نے نوٹس کیا کہ جہاز کی ونڈو سکویئر شیپ کی کیوں نہیں ہوتی۔ اس کے ایجز ہمیشہ رونڈ کیوں ہوتے ہیں شارپ کیوں نہیں۔ تو دوستو اس کی ایک بنیادی وجہ ہے وہ یہ کہ رائونڈ ایجز زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ ونڈوز خصوصی طورپر ہوائی جہاز کے لیے ڈایزئن کی جاتی ہیں۔ اتنی بلندی پرطیارے کے اندر اور باہر ہوا کے دباؤ میں بہت فرق ہوتا ہے اگر سیکوئر ونڈو ہو تو اس کے شارپ ایج یہ دباؤ برداشت نہیں کر پاتے اور ٹوٹ سکتے ہیں۔ اس لیے کھڑکی کے کونے موڑکر انہیں رائونڈ کر دیا جاتا ہے۔  ایسا کرنے سے کھڑکی میں کوئی شگاف نہیں پڑتا اور اس کے ٹوٹنے کے امکان بہت کم ہو جاتے ہیں۔

ہوائی جہاز کی کھڑکی میں ایک چھوٹا سا سوراخ کیوں ہوتا ہے؟

اگر آپ نے کبھی ہوائی جہاز کی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ کر سفر کیا ہے اور اس کھڑی کو قریب سے دیکھا ہے تو وہاں آپ نے ونڈو میں ایک چھوٹا سا سوراخ دیکھا ہوگا۔ ہو سکتا ہے آپ کے کیوریس مائنڈ میں یہ سوال بھی آیا ہو کہ یہاں یہ سوراخ کیوں ہے؟ تو اس کیوں کا جواب کچھ یوں ہے دوستو بظاہر یہ چھوٹا سا سوراخ آپ کو اس ہوائی سفر میں محفوظ رکھے ہوئے ہے۔  اب آپ کا اگلا سوال ہو گا بھلا وہ کیسے؟ وہ ایسے دوستو کہ جب ہوائی جہاز 33,000 فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہوتا ہے۔ تو اتنی اونچائی پر ہوا کا دباؤ اور آکسیجن کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ مسافروں کے آرام کو برقرار رکھنے کے لیے، کیبن پریشر اور آکسیجن کی سطح کو ارد گرد کے ایٹموسفیر سے زیادہ سطح پر برقراررکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیول کو مینٹین رکھنے میں یہ ہول یہ سوراخ پوری پوری مدد فراہم کرتا ہے۔ اس ہول کو “بلیڈ ہولز” bleed holes کہا جاتا ہے۔ 

آپ یہ تو جانتے ہی ہیں کہ دباؤ کا یہ فرق یہ پریشر ڈیفرنس کھڑکیوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتا ہے۔ اور لاسٹ پوائنٹ میں ہم نے آپ کو یہ بھی  بتایا تھا کہ اس دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے ہی وینڈوز کے ایجز کو رونڈ رکھا جاتا ہے۔ لیکن دوستو جہاز کی کھڑکیوں کی ایک اور خصوصیت بھی ہے وہ یہ کہ یہ کھڑکیاں سینگل لیئر کی نہیں ہوتی بلکہ تین الگ تہوں میں بنائی جاتی ہیں۔ وینڈو کی وہ سرفیس جسے ہم طیارے کے اندر بیٹھے ہوئے چھو سکتے ہیں صرف سطحی ہوتی ہے پریشر ڈیفرنس کنٹرول کرنے میں اس کا کوئی عمل داخل نہیں ہوتا وہ بس ایک لیئر ہوتی ہے جیسے ہم چھو سکتے ہیں۔ اصل کنٹرول ونڈو کی مڈل اینڈ آؤٹ سائیڈ لیئر کرتی ہیں۔ بلیڈ ہول middle pane میں ہوتا ہے اور یہ ہول بیرونی پین کو ہوا کا کم دباؤ باہر نکلنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پسینجرکیبن میں پریشر کو ایکول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کا ایک اور دلچسپ فائدہ آپ کو بتاتے ہیں وہ یہ کہ یہ ہولز فوگنگ یعنی دھندلے پن کو روکنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اندر اور باہر کے درمیان درجہ حرارت کو کنٹرول کرکے یہ مسافروں کو پرواز کے دوران حیرت انگیز نظاروں سے لطف اندوز ہونے دیتے ہیں۔ 

زیادہ تر ہوائی جہاز کی سیٹ نیلے رنگ کی کیوں ہوتی ہیں؟

ہوا بازی کے ابتدائی دنوں میں، ایرلاینز کی نشستیں عام طور پر ہلکے بھورے اور سرمئی رنگوں کی ہوا کرتی تھیں، جن کا مقصد مسافروں کو پرسکون کرنا ہوتا تھا۔ لیکن پھر انیس سو ستر کی دہائی کے دوران، گہرے رنگوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ اس وقت طیاروں کی سیٹس کے لیے سرخ اور اورینج جیسے ڈارک کلر زیادہ عام ہو گئے۔

پھر اس کے بعد، نیلے اور گرے رنگ کے شیڈززیادہ استعمال ہونے لگے۔ آج بھی زیادہ تر ائیرلائنز میں سیٹ کا رنگ بلیو ہوتا ہے ایسا اس لیے ہے کیونکہ نیلی نشستیں صاف رکھنا سب سے آسان ہوتا ہے۔ بلیو سیٹ کو آسانی سے صاف کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ صفائی کے لیے پروازوں کے درمیان زیادہ وقت نہیں ہوتا ہے، اس لیے بلیو سیٹ کلر ہوائی جہازوں کے لیے بہترین انتخاب ہوتا ہے۔اگر اسے ٹھیک سے صاف نہ بھی کیا جائے تو بھی اس پر لگے داغ  دھبے یہ رنگ اپنے اندر جذب کر لیتا ہےاور سیٹ پر نمایا نہیں ہونے دیتا۔ جبکہ اس کے برعکس سفید یا کسی اور گہرا رنگ پر لگے داغ دھبے زیادہ نمایا ہوتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ نیلے رنگ کو امن اور خوشحالی کے احساس سے جوڑتے ہیں۔ نیلے رنگ کو وہ رنگ سمجھا جاتا ہے جو سکون لاتا ہے اور اسی لیے جو لوگ پرواز کے دوران اپ سیٹ رہتے ہیں، اس نیلے رنگ کے اثر کی وجہ ان کی بے چینی کچھ کم ہوجاتی ہے اور وہ راحت محسوس کرتے ہیں۔کچھ حد تک ان کا سفر کمفرٹیبل ہو جاتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu