یا یونین آف سویت سوشلسٹ ریپبلکس جسے سویت یونین بھی کہتے ہیں، بحیرہ اسود اور بحیرہ بالٹک سے بحرالکاہل تک پھیلا 2 کروڑ 24 لاکھ مربع کلو میٹر پر مشتمل 15 سوشلسٹ ریپبلکس کا اتحاد تھا۔یہ اتحاد کب اور کیسے بنا تھا، اس میں کون کون سے ممالک کب کب شامل ہوئے تھے اور یہ کب اور کیسے ٹوٹا اور ٹوٹنے کے بعد کون کون سے ممالک وجود میں آئے اور آج کیا وہ ملک روس ہی کے اتحادی ہیں؟ یہی سب ہم آپ کو بتائیں گے-
پس منظر
دوستو رشین امپائر بیسویں صدی کے شروع تک ایک انتہائی وسیع عریض سلطنت تھی اور اس سلطنت میں بعد میں بننے والے سوویت اتحاد میں شامل 15 ریاستوں کے علاوہ فن لینڈ، پولینڈ اور ترکی کے کچھ علاقے شامل تھے-
1917 میں ہونے والے Russian انقلاب کے بعد ولادی میر لینن نے “زارِ روس” نکولس دوم کی حکومت کا تختہ الٹ دیا- اور اس کے بعد ولادی میر لینن کے حامیوں جنہیں Reds کہا جاتا تھا اور انقلاب کے مخالفین جنہیں Whites بھی کہا جاتا تھا, کے درمیان سول وار کا آغاز ہو گیا-یہ جنگ لینن کے حامیوں یعنی انقلابیوں جیت لی اور پرانے رشین امپائر میں 4 سوشلسٹ ریپبلک ریاستیں روس، بیلاروس، یوکرین اور ٹرانکیشین ریپبلک (Transcaucasian Republics) وجود میں آئے-
سول وار کے خاتمے پر دسمبر 1922 میں ان چاروں ریپبلکس کے درمیان ایک معاہدہ ہوا-اس معاہدے کے تحت سویت اتحاد وجود میں آیا-اس اتحاد میں سب سے پہلا ملک
Russain Soviet Federative Socialst Republic
یعنی روس تھا-
روس کے ساتھ ہی یوکرین، بیلاروس بھی اسی اتحاد کا حصہ بن گئے ان تین ریپبلکس کے علاوہ چوتھی ریپبلک ریاست تین ریاستی اتحاد پر مشتمل ٹرانکیشین ریپبلکس Transcaucasian Republics تھی جس نے سوویت یونین کو جوائن کیا، اس تین ریاستی اتحاد میں جارجیا، آزربائیجان اور آرمینیا شامل تھے-یعنی آپ یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ ابتدائی طور پر سوویت اتحاد کو چھ ریپبلکس نے جوائن کیا-
1924 میں سویت اتحاد کو دو سنٹرل ایشین ریپبلکس ترکمانستان اور ازبکستان نے بھی جوائن کر لیا-یہ اتحاد رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور 1929 میں تاجکستان بھی اس اتحاد میں شامل ہو گیا-
1936 میں سوویت یونین کو قزاقستان اور کرغیزستان نے بھی جوائن کر لیا اور اس اتحاد میں شامل ریپبلکس کی تعداد 11 ہو گئی-
1940 میں جنگ عظیم دوم کے دوران مزید 4 ریپبلکس کو سویت اتحاد میں شامل کر لیا گیا اور کل ریپبلکس کی تعداد
5 ہوگئی-1940 میں جوائن کرنے والے ریپبلکس میں تینوں بالٹک ریاستوں لیتھوانیا(Lithuania) لیٹویا(Latvia) اور ایسٹونیا(Estonia) کے علاوہ ،مالدووا(Moldova)، شامل تھا-
دوستو یہ وہ 15 ریپپلکس یا ریاستیں تھیں جن سے ملکر یہ عظیم الشان اورانسانی تاریخ کا ایک انتہائی بڑا سوویت سوشلسٹ اتحاد وجود میں آیا تھا۔
سوویت یونین اور جنگ عظیم دوم
جنگ عظیم دوم شروع ہونے سے کچھ ہی عرصہ پہلے سوویت یونین اور جرمنی کے درمیان Non Agression معاہدہ سائن ہو چکا تھا، جسمیں دونوں نے ایک دوسرے کیخلاف اگلے دس سال تک کسی قسم کی فوجی کاروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
لیکن دوستو ہوا کچھ اس کے برعکس، جب جنگ کے دوران جرمنی نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوویت یونین پر حملہ کر دیا تو اس صورتحال میں سوویت یونین کو اتحادیوں کو جوائن کرنا پڑا-وہ کہتے ہیں نا آپ کے دشمن کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے-ایسا ہی کچھ ہوا، کیونکہ سوویت یونین، برطانیہ، اور امریکہ کا ایک مشترک دشمن جرمنی تھا تو ان حالات میں سوویت یو نین نے اتحادیوں کو جوائن کرلیا-
جنگ کا اختتام بہرحال اتحادیوں کی فتح کی صورت میں ہوا، امریکہ اور سوویت یونین دو بڑی عالمی طاقتوں کے طور پر سامنے آئے-جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کا نظریاتی اختلاف انھیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے لے آیا-امریکہ چونکہ لبرل جمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کا حامی تھا جبکہ سوویت یونین ایک کمیونسٹ اتحاد تھا-امریکہ ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ کمیونزم کسی بھی صورت دنیا میں پروان چڑھے-
لہذا یہ نظریاتی اختلاف ایک اور تنازعے کی صورت حال اختیار کر گیا اور دنیا کے دو طاقتور ممالک کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوگیا-
جنگ عظیم کے بعد چونکہ برطانیہ اور فرانس کو یہ خطرہ تھا کہ سوویت یونین ان کے خلاف کوئی کاروائی کر سکتا ہے اور جرمنی کے دوباره قوت پکڑنے کے خدشات بھی کسی نا کسی حد تک موجود تھے لہذا ان حالات کے پیش نظر امریکہ، کینیڈا اور دوسری مغربی یورپی اقوام نے 1949 میں NATO اتحاد بنا لیا-اس کو بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سوویت یونین کے نظریاتی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکے اور اپنے دفاع کو مضبوط بنایا جا سکے-
اس معاہدے کے ردعمل کے طور سوویت یونین نے دوسری مشرقی اور وسطی یورپی اقوام جن میں البانیہ،ہنگری، پولینڈ،چیکوسلواکیہ،بلغاریہ، رومانیہ اور مشرقی جرمنی کے ساتھ مل کر 1955 میں وارسا پیکٹ Warsaw Pact سائن کر لیا تا کہ NATO کے کے مقابلے میں طاقت کا ایک توازن برقرار رکھا جا سکے-
اگرچہ امریکہ اور سوویت یونین براہ راست ایک دوسرے سے نہیں لڑرہے تھے لیکن اس وقت دنیا میں جاری جنگوں پر دونوں ممالک کی سرد جنگ کے اثرات بظاہر دکھائی دے رہے تھے-یہ جنگیں کوریا اور ویتنام میں لڑی گئیں اور ان جنگوں میں دونوں پاور بلاکس نے اپنے اپنے نظریاتی حامیوں کی بھر پورطریقے سے مدد کی-
دوستو سوویت یونین اور امریکہ کی یہ سرد جنگ صرف پراکسی وارز(Proxy Wars) تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ دونوں عالمی طاقتیں ہر لحاظ سے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا چاہتی تھیں-اس جنگ میں خلا کو تسخیر کرنا بھی شامل تھا-اس دوڑ میں سوویت یونین بازی لے گیا اور اکتوبر 1957 کو سوویت یونین نے اپنا پہلا Artificial Satellite یعنی مصنوعی سیارہ خلا میں بھیج کر امریکہ پر سسبقت حاصل کر لی-لیکن چاند پر پہلے پہنچنے کی دوڑ میں امریکہ بازی لے گیا-
اسی دور میں دونوں عالمی طاقتیں نیوکلئر ہتھیاروں کی دوڑ میں بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تجربات کر رہی تھیں-
سوویت یونین کیوں ٹوٹا؟
دوستو یہ ایک un-natural یعنی غیر قدرتی اتحاد تھا اس کا بہت زیادہ عرصے تک قائم رہنا مشکل تھا-اس کے علاوہ بھی اس کے ٹوٹنے کی کچھ وجوہات بھی ہیں جن کا ہم آپ سے ذکر کریں گے-
جنگ عظیم دوم کے بعد شروع ہونے والی سرد جنگ کے آغاز سے ہی سوویت یونین کی معیشت بری طرح گراوٹ کا شکار رہی، روز مرہ ضرورت کی اشیا کی قلت، ذخیرہ اندوزی میں اضافہ ایک معمول بن چکا تھا، صنعتی پیداوار بھی گر رہی تھی، معیار زندگی گرنا شروع ہو چکا تھا-
خراب معیشت کی وجہ سے سوویت یونین کے لئے مشکل ہو رہا تھا کہ وہ ہتھیاروں کی دوڑ میں امریکہ کا مقابلہ کر سکے- سوویت یونین چونکہ ایک بہت بڑی ملٹری پاور تھا لہذا اس کا دفاعی بجٹ ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا تھا-سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سوویت یونین 1979 میں افغانستان کی غیر ضروری جنگ میں بھی کود پڑا-جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے-
انھی حالات میں 1985 میں کمیونسٹ پارٹی کے سیاستدان میخائل گورباچوو سوویت یونین کے لیڈر کے طور پر سامنے آئے-انھیں سویت یونین کی خراب معیشت تو وراثت میں ملی تھی ہی، ساتھ میں بگڑا ہوا سیاسی نظام بھی ملا-انھیں ان سب معاملات میں اصلاحات لانی تھیں-
لہذا اس صورتحال میں انھوں نے سب سے پہلے گلاس نوسٹ (Glasnost) یعنی Opnenes کی پالیسی اپنائی تا کہ شہریوں کو کچھ آزادی دی جا سکے، ان کے دور میں سیاسی قیدیوں کو رہائی ملی-اب اخبارات حکومت پر تنقید کر سکتے تھے، کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ اب دوسری پارٹیز بھی الیکشن میں حصہ لے سکتی تھیں-
دوسری پالیسی جو انھوں نے اپنائی وہ Economic Restructuring یعنی اقتصادی تنظیم نو کے حوالے سے تھی تا کہ معیشت کو بہتری کی راہ پر لایا جا سکے، اور اس پالیسی کا نام پیرس ٹرائیکا (Perestroika) تھا-اب پہلی بار سویت یونین میں لوگوں کو اپنے پرائیویٹ بزنسز کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔انھوں نے سوویت یونین کو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے بھی کھول دیا-
میخائل گرباچوو کا یہ بھی ماننا تھا کہ سوویت یونین کی بہتر اکانومی کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ سوویت یونین دنیا کے دوسرے ممالک سے اپنے تعلقات کو بڑھائے-
اس کے علاوہ انھوں نے Non Intervention یعنی عدم مداخلت کی پالییسی کو اپناتے ہوئے 1989 میں افغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا اعلان بھی کر دیا جہاں وہ 1979 سے لڑ رہے تھے-یہ سب اقدامات تھے تو بہت اچھے لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی-
1980 کی دہائی کے آخری سالو ں میں سویت یونین کے اندر سے ہی آزادی کی تحریکوں نے جنم لینا شروع کر دیا تھا-اور اتحاد میں شامل ممالک ایک ایک کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کرنے لگے تھے-
سوویت یونین کے ٹوٹنے کا آغاز
دوستو 1988 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کا آغاز ہو چکا تھا جب سب سے پہلے بالٹک ریاست ایسٹونیا (Estonia) نے ایک الگ خود مختار ریپبلک ہونے کا اعلان کر دیا-
اس کے بعد 1989 میں باقی دونوں بالٹک ریاستوں یعنی لیتھوانیا(Lithuania)، لاٹویا (Latvia) کیساتھ آزربائیجان نے بھی (Azerbijan) علیحدگی کا اعلان کر دیا-
1990 میں سوویت اتحاد کے باقی ماندہ ریپبلکس جارجیا، یوکرائن، مالدووا، ازبکستان، کرغیزستان، تاجکستان، آرمینیا، ترکمانستان، بیلاروس اور قازقستان نے بھی اپنی اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیا-
25 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کا جھنڈا آخری بار لہرایا اور سوویت یونین کا ترانہ آخری بار بجایا گیا اور بالاخر 26 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا اور 15 نئی آزادریاستیں دنیا کے نقشے پر وجود میں آئیں-
دوستو یہاں پر آپ کو ایک انتہائی دلچسپ بات بتائیں کہ سوویت اتحاد کے 15 ممالک میں سے 3 بالٹک ممالک ایسٹونیا(Estonia)، لاٹویا(Latvia)، اور لیتھوانیا(Lithuania) بھی اب NATO میں شامل ہو گئے ہیں-یعنی وہی اتحاد جو سویت یونین کیخلاف 1949 میں بنا تھا۔بلکہ سوویت یونین میں شامل یوکرائن بھی اب NATO اتحاد کا حصہ بننا چاہتا ہے-
اس کے علاوہ WARSAW Pact یعنی وہ اتحاد جو نیٹو(NATO) کے ردعمل میں بنا تھا، اس کے تمام ممبر ممالک سوائے روس کے اب NATO میں شامل ہوچکے ہیں-