مصری تہذیب کو دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں شمار کیا جاتا ھے۔ آج سے کئی صدیوں پہلے یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ دور دور تک گرم اور خشک صحرا تھا اور کسی جاندار کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا تھا۔ آج بھی مصر کے نوے فیصد سے زائد رقبے پر صحرا ہی پھیلے ھوئے ھیں۔ لیکن دوستو تاریخ میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب مصر میں ہر طرف زندگی کے رنگ بکھرے ہوئے تھے، چاروں طرف ہریالی تھی، چرند پرند کی بہار تھی۔ اور پانی کی فراوانی تھی۔ دوستو ہماری آج کی ویڈیو اسی مصر کی lifeline کہلائے جانے والے دریا ، دریائے نیل کے بارے میں ھے۔ یہ دریا مصر کے لیے ایک life line کی حیثیت کیوں رکھتا ھے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ اگر یہ دریا نہ ھوتا تو مصر کا نام و نشان نہ ھوتا ۔ اور اگر آج بھی، فرض کریں، کہ اس دریا کا رخ تبدیل کر دیا جائے، تو مصر کی سر زمین پر انسانوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ دریا کتنا لمبا ھے؟ اس کا منبع کیا ھے؟ یہ کن کن ممالک سے گزرتا ھے ، تاریخی لحاظ سے کتنا اہم ھے، مصر کے لیے یہ دریا اتنا اہم کیوں ھے، اور مصر کی زیادہ تر آبادی اس دریا کے کنارے کیوں آباد ھے ؟ آج کی ویڈیو میں ہم یہی سب جانیں گے۔
دریائے نیل کا تعارف اور اہمیت
دوستو نیل، یونانی لفظ Nelios سے نکلا ہے جس کے معنی وادی کے ھیں۔ دوستو یہ دنیا کا سب سے طویل دریا ھے۔ اس کی لمبائی چھ ہزار چھ سو پچانوے کلو میٹر ھے۔ یہ براعظم افریقہ میں بہتا ھے اور کل گیارہ ممالک سے گذرتا ھوا بحیرہ روم میں گر جاتا ھے۔
دوستو دریائے نیل دراصل تین دریاؤں کے ملاپ سے بنا ھے۔ ایک کو نیل ابیض یعنی White Nile کہا جاتا ھے ، دوسرے کو نیل ازرق یعنی Blue Nile جبکہ تیسرے دریا کو پانی کا لیول کم ھونے کے باعث اہمیت نہیں دی جاتی۔ white nile مشرقی افریقہ کے ایک ملک روانڈا (Rwanda) سے نکلتا ھے جبکہ blue nile ایتھوپیا کی جھیل ٹانا سے نکلتا ھے۔ سوڈان کے شہر خرطوم میں ان دونوں دریاؤں کے ملنے سے ایک دریا بن جاتا ھے جسے ہم دریائے نیل کے نام سے جانتے ھیں۔ دوستو دریائے نیل کل گیارہ ممالک سے گزرتا ھے۔ ان میں تنزانیہ, برونڈی , روانڈا, کینیا, جمہوریہ کانگو,یوگینڈا,ایتھوپیا, اریٹیریا, سوڈان، اور مصر شامل ھیں ۔ اسکے بعد یہ دریا بحیرہ روم میں گر جاتا ھے۔دوستو یہ دنیا کے ان چند دریاؤں میں سے ایک ھے جو جنوب سے شمال کی سمت میں بہتے ھیں۔ 1971 میں مصر میں اس دریا پرایک ڈیم تعمیر کیا گیا جس کا نام اسوان ہائی ڈیم ھے۔ اس کا شمار دنیا کے سب سے بڑے ڈیمز میں ہوتا ھے۔ اس ڈیم سے آبپاشی کے لئے نہریں نکالی گئی ھیں، اور اس سے بجلی بھی پیدا کی جاتی ھے۔ اس کی وجہ سے ایک جھیل بھی تشکیل پائی جسے جھیل ناصر کہا جاتا ھے، اسکا کچھ حصہ مصر میں ھے اور کچھ سوڈان میں۔اس ڈیم کی وجہ سے معدنیات، جو مصر کے صحراؤں کو زرخیز بناتے تھے، وہ جھیل ناصر میں جمع ھونا شروع ھو گئے اور اسی لئے اب مصر کے کسانوں کو سالانہ دس لاکھ ٹن کھادیں استعمال کرنی پڑتی ھیں۔ دوستو جھیل ناصرانسان کی بنائی ھوئی سب سے بڑی جھیل ھے۔ اس کی لمبائی پانچ سو پچاس کلو میٹر اور میکسیمم چوڑائی پینتیس کلو میٹر ھے۔ یہ دریا مختلف ممالک کے مابین بحری آمد و رفت کا ذریعہ بھی ہے۔ دوستو مصر کے تمام شہر اسی دریا کے کنارے آباد ھیں، ان میں سکندر اعظم کے نام سے موسوم شہر اسکندریہ بھی شامل ھے۔ ایک اندازے کے مطابق مصر کی پچانوے فی صد آبادی دریائے نیل کے کنارے آباد ھے۔
دریائے نیل اور قدیم مصر
دوستو سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق دریائے نیل تین کروڑ سال پرانا ھے۔ کہا جاتا ھے کہ مقامی لوگوں نے آج سے تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح ، صحرائے اعظم یعنی صحارا ڈیزرٹ کی وسعت گیری کے بعد، اس دریا کے کنارے آباد ھونا شروع کیا۔ چونکہ یہ سارا علاقہ صحرا تھا لہذا یہ دریا ہی اس علاقے میں پانی کا واحد ذریعہ تھا۔ ہر سال اس دریا میں سیلاب آتا تھا اور سیلابی پانی آس پاس کی زمین کو بھی سیراب کر دیتا تھا۔ یہ سیلاب اس علاقے کے لئے بہت اہم تھا کیونکہ اس طرح یہ دریا حبشہ کے میدانوں سے اپنے ساتھ زرخیز مٹی لاتا تھا، جس نے آس پاس کی صحرائی زمین کو کھیتی باڑی کے قابل بنا دیا تھا۔ اس طرح مصر کی سر زمین زرخیز ھوتی چلی گئی اور کپاس، گندم اور کئی ایک پھلوں اور سبزیوں کی کاشت ممکن ہوگئی، پھر آہستہ آہستہ لوگوں نے اپنے سال کو اسی دریا کے مطابق ڈھال لیا۔ اور اس طرح دنیا کا پہلا کیلنڈر وجود میں آیا، ایک سال کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا گیا، سیلاب والا موسم، کھیتی لگانے کا موسم اور فصل کاٹنے کا موسم۔ مصریوں کی اس دریا پر انحصار کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے سیلابی پانی کا لیول ماپنے کے لیے ایک آلہ بھی ایجاد کر لیا تھا۔ لیول جتنا زیادہ ھوتا، فصل اچھی ھونے امکانات اتنے ہی زیادہ ھوتے۔ دریائی مٹی کی مدد سے یہ لوگ اینٹیں بھی بنانا شروع ھوگئے۔ مصر کو “دریائے نیل کا تحفہ” بھی کہا جاتا ھے۔ کیوں کہ یہاں زندگی کا تمام دارومدار اسی دریا پر ھے۔ اھرام مصر کی تعمیر میں بھی دریائے نیل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
دریائے نیل سے جڑے دلچسپ قصے اور روایات
دوستو قدیم مصری لوگ اس دریا کو بہت پراسرار سمجھتے تھے۔ ہر سال گرمیوں میں اس دریا میں سیلاب آجاتا تھا، اور مصری لوگ اس بات کو لے کر کافی خوفزدہ تھے کہ آخر ہر سال اپنے مخصوص وقت پر اس دریا میں اتنا زیادہ پانی کہاں سے آجاتاھے۔ اس دریا کا منبع کچھ ہی صدیوں پہلے شمالی افریقہ میں دریافت کیا گیا ھے۔
یہی وجہ ھے کہ دریائے نیل سے بے شمار روایات نے جنم لیا۔ انسانی تاریخ میں ایسی بےشمار مثالیں موجود ھیں جب انسانوں نے توہم پرستی کا شکار ھو کر معبود برحق کی بجائے دوسری طاقتوں کو اپنا خدا بنا لیا۔ دریائے نیل کے کنارے بسنے والے لوگ بھی اس دریا کے فوائد دیکھ کر ایسے حیرت زدہ ھوئے کہ اس دریا کو ہی خدا ماننے لگے اور اسکی پوجا شروع کر دی۔ انہوں نے اس دریا کے علاوہ بھی کئی ایک خدا بنا رکھے تھے۔
دوستو اس دریا سے ایک قصہ یہ بھی جڑا ھے کہ چھبیس سو ستر سال قبل مسیح اس علاقے کو قحط نے آ لیا۔ اس وقت کے بادشاہ کو خواب میں انکا کوئی دیوتا دکھائی دیا اور اسے دریا کے بیچ ایک جزیرے پر واقع اپنے مزار کی طرف جانے کا کہا۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ مزار زبوں حالی کا شکار ھے اور غصے کا اظہار بھی کیا۔ وہ بادشاہ صبح اٹھ کر اس مقبرے پر گیا اور اسکی کی مرمت کروائی۔ اس کے ساتھ ہی قحط کا خاتمہ ھوگیا۔ دوستو یہ روایات، یہ قصے صدیوں سے ایسے ہی چلے آ رھے ھیں اور چونکہ لوگ قحط سے کافی خوفزدہ ھوتے تھے، لہذا وہ ان پر یقین کر لیتے تھے۔
جب چھ سو چالیس صدی عیسوی میں حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا تو یہاں کے مقامی باشندوں نے انہیں بتایا کہ ہر سال اس دریا میں ایک نوجوان لڑکی کو ڈالا جاتا ھے، اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ھو جاتا ھے اور پورے علاقے میں قحط سالی شروع ھو جاتی ھے۔ دوستو چونکہ یہ دریا ہی اس صحرا میں زندگی کا واحد ذریعہ تھا، لہذا ایسی کئی ایک فرسودہ روایات ان لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں۔ صورت حال دیکھ کر خلیفہ وقت، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط لکھا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جوابی خط میں لکھا کہ ہمارا دین ایسی جاہلانہ رسومات کی اجازت نہیں دیتا۔ ۔دوستو دریائےنیل کو جنت کے چار دریاؤں میں سے ایک بھی مانا جاتا ھے۔
دریائے نیل کا قرآن پاک میں تذکرہ
دریائے نیل ان چند دریاؤں میں سے ایک ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ھے۔ سورت قصص میں جہاں حضرت موسی اور فرعون کے واقعات کا تذکرہ ھوا ھے وہیں دریائے نیل کا ذکر بھی آیا ھے۔
آج کا دریائے نیل
دوستو جہاں پوری دنیا ہی climate change کا شکار ھے وہیں بدلتے موسموں نے دریائے نیل کو بھی اپنے اثر میں لے لیا ھے۔ اب دریائے نیل مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہتا ہے۔ کبھی تو دریا میں بے انتہا پانی ھوتا ھے تو کبھی پانی کا لیول بہت کم ھو جاتا ھے۔ دو ہزار سولہ میں دریائے نیل میں اتنا شدید سیلاب آیا جس سے کروڑوں کا نقصان ہوا اور چھبیس افراد جان سے گئے۔
ایتھوپیا نے دو ہزار گیارہ میں اپنے شمالی پہاڑی علاقوں میں ڈیم کی تعمیر شروع کی تھی۔ آج بھی اس پر کام جاری ھے اور اگر اس ڈیم کی تعمیر مکمل ھو جائے تو یہ افریقہ کا پن بجلی بنانے کا سب سے بڑا مرکز بن جائے گا۔ لیکن مصر نے اس ڈیم کی مخالفت کی ھے کیوں اس سے جو پانی مصر تک پہنچتا ھے اس میں کافی کمی واقع ھو جائے گی۔ اور چونکہ مصر کا تمام تر دارومدار نیل کے پانی پر ھے، لہذا مصر کے لئے یہ ڈیم ایک خطرے کی گھنٹی ھے ۔ اس بارے میں ابھی بھی بحث جاری ھے اور کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا۔ اسکے علاوہ جنوبی سوڈان نے بھی دریائے نیل پر ڈیم بنانے کا اعلان کیا ھے۔
دوستو دریائے نیل قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز ھے۔ یہ بات سائنسی طور پر بھی ثابت ھوئی ھے اور اسی لئے دریائے نیل کو تاریخی طور پر بہت اہمیت حاصل ھے۔