Home History تیانیمن سانحہ: جب چائینیز آرمی نے مظاہرین پر ٹینک چڑھا دئیے

تیانیمن سانحہ: جب چائینیز آرمی نے مظاہرین پر ٹینک چڑھا دئیے

by Adnan Shafiq
0 comment

چین ایک غیر جمہوری ملک ہے اور اس میں آزادی اظہار رائے اور حکومت پر تنقید کی اس طرح سے اجازت نہی ہے جس طرح جمہوری ممالک میں ہوتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ چینی عوام یہ کوشش کیوں نہیں کرتے کہ انکو بھی وہی حقوق اور اپنی رائے اور تنقید کرنے کا حق ملے جو مغربی اور جمہوری ممالک کی عوام کو میسر ہیں۔ تو دوستو آئیے ہم آپکو ایسی ہی ایک جدوجہد کی کہانی سناتے ہیں جو چین کے سٹوڈنٹس اور عام لوگوں نے اپنی حکومت کیخلاف کی تھی۔یہ تاریخی اور متنازعہ واقعہ کب اور کس طرح پیش آیا تھا؟ اس تحریک کا انجام کیا ہوا تھا؟ اور اسکا جواب چین کی حکومت نے کس طرح دیا تھا؟ آئیے سب جانتے ہیں

پس منظر

دوستو مائوزے تنگ کی وفات کے دو سال دسمبر 1978 میں   ڈینگ شیاؤپنگ (Deng Xiaoping) پیپلز ریپبلک آف چائنہ کے ماڈرن لیڈر کے طور پر سامنے آئے-انہوں نے چائنہ کی اکانومی کو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کھول دیا اور پرانی بندشیں ختم کر دیں-غیر ملکی سرمایہ کاری سے چین کے حالات بہتر ہونا شروع ہوئے تو ایک بہت بڑی مڈل کلاس سامنے آنے لگی-

چین ترقی تو کر رہا تھا سب کچھ بہتر انداز میں چل رہا تھا لیکن اس دوران کرپشن اور اقربا پروری میں اضافہ ہونے لگا-اس کے ساتھ ساتھ اظہار رائے پر مکمل پابندی تھی،چائینیز کمیونسٹ پارٹی پر تنقید کرنا جرم سمجھا جاتا تھا-

ان حالات میں چین کا نوجوان طبقہ اور بالخصوص طلبا مغربی ممالک میں عوام کی جمہوری آزادی کو رشک کی نظر سے دیکھتے تھے-یہ طبقہ  چین میں بھی ایسے ہی جمہوری نظام کا خواہشمند تھا -ان دنوں دنیا میں اکثر ممالک میں جمہوری تحریکیں زور پکڑرہی تھیں تو ایسے میں چین میں جمہوریت پسندوں کا منظر عام پر آنا فطری سی بات تھی

15 اپریل کو  1989 ہو یاؤ بینگ (Hu Yaoban) کے انتقال کے بعد جمہوریت پسندانہ آوازیں مزید توانا ہونے لگیں اور اس تحریک نے ایک باقاعدہ مزاحمت کی شکل اختیار کر لی-ویسے تو Hu Yao Bang چائینیز کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری تھے لیکن انھیں جمہوریت کے لئے نرم گوشہ  رکھنے کی وجہ سے 2 سال پہلے پارٹی سے نکال دیا گیا تھا-اپنے انہی جمہوریت پسند نظریات کی وجہ سے وہ نوجوان طالبعلموں میں خاصے مقبول تھے-

ہو یاؤبینگ (Hu Yaobang) کے انتقال پر کے بعد مظاہرین کی ایک بڑی تعداد بیجنگ کے تیان مین سکوائر پر جمع ہونے لگی-یہ وہی تیان مین سکوائر ہے جہاں ماوزے تنگ نے 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تھا-اسی وجہ سے چینی قوم کیلیے اس مقام کی اہمیت بہت زیادہ اور تاریخی تھی۔

تیان مین سکوائر پر جمع ہونے والے ان مظاہرین میں ایک بڑی تعداد طالبعلوں کی تھی جو یونیورسٹیز سے کلاسز چھوڑ کر یہاں جمع ہو رہے تھے-اگلے دو دن تک مزید لوگوں نے مظاہرین کو جوائن کر لیا اور وہ جمہوریت اور آزادی اظہار کے حق میں نعرے لگانے لگے-

17 اپریل کو چائینیز کمیونسٹ پارٹی کے پریمئر لی پنگ Li Peng نے مظاہرین کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا-تاہم کچھ  دوسرے حکومتی نمائندوں سے 4 طلبہ نمائندوں نے ملاقات کی اور انہیں آزادی اظہار اور جمہوریت سے متعلق  اپنے مطالبات پیش کئے جن کو حکومت کی طرف سے مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا-

حکومت مخالف اس تحریک  نے اس وقت شدت پکڑ لی جب 22 اپریل کو 

Great Hall of  the People میں Hu Yaobang کی آخری رسومات ادا کی گئیں-آخری رسومات کی ادئیگی کے بعد مظاہرین نے Hu Yaobang کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے-چائنہ کی کمیونسٹ حکومت کے لئے یہ سب ہر گز قابل قبول نہ تھا-

حکومت نے ان سٹوڈنٹس کو واپس کلاسز میں جانے کا حکم کا  حکم دیا اور وارننگ بھی دے دی کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا-نوجوان جو انقلاب کے خواب آنکھوں میں سجائے یہاں جمع ہو رہے تھے انھیں حکومت کی وارننگ سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ 24 اپریل کو طلبہ نے کلاسز کا مکمل باییکاٹ کردیا اورتیان مین سکوائر پر ان مظاہرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے لگا-

25 اپریل کو چائینیز کیمونسٹ پارٹی کے وائس چئیرمین رہنما ڈینگ شیاؤپنگ (Deng Xiaoping) نے سٹیندنگ کمیٹی کی ایک میٹنگ میں ان مظاہرین کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا حکم  دیا-اس دوران طالبعلموں نے ایک ” آٹونومس سٹوڈنٹ یونین” بنا لی تا کہ تحریک کو کچھ منظم انداز میں آگے بڑھایا جا سکے- 

حالات اس وقت مزید بگڑنے لگے جب 26 اپریل کے دن کے شائع ہونے والے سرکاری اخبار People’s Daily نے ان مظاہرین کو  “ریاست مخالف فسادی” قرار دیا جو دوسرے لوگوں کو بھی حکومت کے خلاف بھڑکا رہے تھے-

3 مئی کو حکومت نے مظاہرین کومذاکرات کی دعوت دی-ان مزاکرات میں  طالبعلموں نے مزید مطالبت بھی شامل کر دئے کہ ان کی تنظیم “آٹونومس سٹوڈنٹ یونین” کو حکومت کی طرف سے ایک آئینی سیاسی تنظیم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور حکومت 26 اپریل کے دن People’s Daily میں مظاہرین پر لگائے گئے الزامات جن میں انکو باغی اور فسادی قرار دیا گیا تھا ان سے بھی دستبردار ہو- یہ مزاکرات بلا نتیجہ رہے اور کسی بات پر فریقین میں اتفاق نہ ہو سکا۔ 

15 مئی کو سویت یونین کے صدر میخایئل گوربا چوف چین (Mikhail Gurbachov) نے چین کا دورہ کرنا تھا مظاہرین نے اس موقع پر حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے 13 مئی کو بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا-

15 مئی کو سوویت یونین کے صدر چین کے دورے پر آئے اس دوران کوئی بڑا واقعہ تو نہ ہوا لیکن ان مظاہروں کی وجہ سے ان کا روایتی انداز میں استقبال بھی نہ ہوسکا اور مظاہرین کی بھوک ہڑتال بھی اس دوران جاری رہی-

یہاں پر ایک دلچسپ بات یہ بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی کے نئے جنرل سیکریٹری Zhao Ziang  جو Hu Yaobang کے پارٹی سے اخراج کے بعد اس عہدہ پر آئے  تھے وہ بھی طالبعلموں کے ان مطالبات کی حمایت کر رہے تھے-انہوں نے 16 مئی کو سٹینڈنگ کمیٹی کی ایک میٹنگ میں 26 اپریل کے واقعے پر حکومتی اراکین سے دستبرداری کی استدعا بھی کی لیکن حکومت نے اس سے صاف انکار کر دیا-

19 مئی کو چائینیز کمیونسٹ پارٹی کے پریمئر لی پنگ (Li Peng) اور طالبعلم تنظیم کے نمائندوں کے درمیان میٹنگ ہوئی جس میں لی پنگ نے طالبعلم تیظیم کے رہنماؤں کو اپنے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں طاقت کے استعمال کا عندیہ بھی دے ڈالا-

لیکن اس روز ایک یہ پیش رفت ضرور ہوئی کہ جنرل سیکرٹری Zhao Ziang  نے مظاہرین کو بھوک ہڑتال ختم کرنے پر قائل کر لیا-

لی پنگ اور طالبعلموں کے درمیان ہونیوالی  ملاقات کی ناکامی کے بعد 20 مئی کو لی پنگ(Li Peng) نے دارالحکومت کے ایک بڑے حصے پر ماشل لا نافذ کر دیا اور تیان مین سکوائر کو پیپلز لبریشن آرمی نے گھیر لیا-فوج کی آمد کے بعد اس جگہ مزید لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے-تیان مین سکوائر کے علاوہ مظاہرین چین کے دوسرے شہروں میں بھی جمع ہو رہے تھے-لیکن سب سے بڑا مظاہرہ تیان مین سکوائر میں ہی ہو رہا تھا-

کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری Zao Ziang  مظاہرین کے خلاف ان حکومتی اقدامات اور طاقت کے استعمال کے سخت مخالف تھے-مظاہرین کے لئے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے انہیں اپنی ہی پارٹی کے اندر سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا-

30 مئی کو تیان من سکوائر میں مظاہرین نے

 Goddess of Democracy  کا مجسمہ نصب کر دیااس مجسمے کو “بیجنگ اکیڈ می آف آرٹس” نے تیار کیا تھا-اور دنیا اس وقت اس مجسمے کو امریکہ کے “مجسمہ آزادی” کے ترمیم شدہ ورژن کے طور پر دیکھ رہی تھی-اور یہ اس تحریک کی سب سے طاقتورعلامت کے طور پر سامنے آیا- 

فریقین کے درمیان مزاکرات کسی نا کسی سطح پر اب بھی جاری تھے لیکن یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہی آ رہا تھا-اب حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا-حکومت کی طرف سے تیان میں سکوائر خالی کروانے کے تمام حربے ایک ایک کر کے ناکام ہو رہے تھے اور حالات کسی بڑے تصادم کی طرف جاتے دکھائی دے رہے تھے۔

3 جون کو مظاہرین اور فوج کے درمیان ایک معمولی جھڑپ ہوئی جس میں مظاہرین پر گولیاں بھی چلائی گئیں اوراس جھڑپ کے بعد حکومت نے مظاہرین کو ایک آخری وارننگ  دے ڈالی کہ اگر یہ علاقہ خالی نہ کیا گیا تو حکومت کسی بھی حد تک جا سکتی ہے لیکن مظاہرین ٹس سے مس نہ ہوئے-

اگلے ہی روز یعنی 4 جون 1989 کو فورسز کو مظاہرین سے تیان مین سکوائر زبردستی خالی کروانے کا حکم دے دیا گیا-اس روز صبح کے وقت ہی چائینیز فورسز نے مظاہرین پر فائر کھول دئیے اور نہتے جمہوریت پسند مظاہرین پر ٹینک چڑھا دیے-چائینیز فورسز نے Goddess of Democracy کا مجسمہ بھی تباہ کر دیا- 

مظاہرین نے بھی اپنی طرف سے مزاحمت کی، فوجی گاڑیوں پر پتھراؤ بھی ہوا، کئی فوجی گاڑیوں کو جلا دیا گیا کئی فوجی بھی مارے گئے، لیکن یہ سب طاقتور چائینیز فورسز کے سامنے ظاہر ہے کچھ بھی نہیں تھا-یہ آپریشن اس وقت تک جاری رہا جس وقت تک یہ علاقہ مظاہرین سے مکمل طور پر خالی نہیں کروا لیا گیا-

ریاستی تشدد کے اس واقعے میں کتنی اموات ہوئیں اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا مشکل ہے-چائینہ کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اموات کی کل تعداد صرف 300 کے لگ بھگ ہے اور اس میں بھی زیادہ تر ہلاکتیں چائینیز فورسز کی ہوئیں-لیکن مغربی میڈیا کے مطابق ہلاکتوں کی یہ تعداد ہزاروں میں ہے

ٹینک مین

دوستو تیان مین سکوائر میں ہونے والے ان واقعات کے دوران ایک 19 سالہ نوجوان ٹینکوں کی  قطار کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور ان کا راستہ روکنے لگا-اس منظر کو وہاں آس پاس کے ہوٹلوں میں موجود صحافیوں نے اپنے کیمروں میں محفوظ کر لیا اور سمگل کر کے چین سے باہر بھیج دیا-مغربی میڈیا نے اس نوجوان کو “ٹینک مین” کا نام دیا اور اسے پوری دنیا میں مزاحمت کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا-یہ شخص کون تھا، اب کہاں اور کس حالت میں ہے اس بارے میں کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں-

سانحے کے بعد چائنہ اور دنیا کا ردعمل

چائینہ کی حکومت نے ریاستی تشدد کے اس واقعے پر کبھی کوئی معافی نہیں مانگی-بلکہ حکومت نے چائینز فورسز کی طرف سے کئے گئے کریک ڈاؤن کو سراہا اور مظاہرین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا-چائینہ میں آج بھی اس واقعے سے متعلق کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں بلکہ وہاں اس واقعے کے متعلق بات کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے-

البتہ ہانگ کانگ میں ہر سال اس واقعے کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ایک تقریب کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ 

دوستو دنیا میں انسانی حقوق کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی پر چائنییز حکومت کی شدید مزمت کی گئی- مغربی ممالک نے چائنہ پر کچھ معاشی پابندیاں بھی عائد کی تھیں-

اس سانحے کے بعد کئی جمہور یت پسند طلبا رہنماوں کو جلا وطن کر دیا گیا یا پھر جیلوں میں ڈال دیا گیا-اس کے واقعے کے بعد سے آج تک چین میں کوئی بڑی حکومت مخالف تحریک بھی سامنے نہیں آئی-

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu