Home Geopolitics انٹارکٹیکا کس کا ہے؟

انٹارکٹیکا کس کا ہے؟

by bigsocho
0 comment

اگر آپ خلا سے زمین کے جنوبی حصے کو دیکھیں تو اس میں سفیدی ہی سفیدی نظر آئے گی.

یا اگر میز پر رکھے ہوئے ایک فٹبال سائزکے گلوب کا مشاہدہ کریں تو اس کے  ساؤتھ پول پر یعنی  نچلے حصے پر ایک ٹینس بال کے سائز جتنا سفید حصہ نظر آئے گا…یہ سفیدی اصل میں دنیا کا پانچواں بڑا براعظم اور دنیا کا سب سے بڑا برفانی صحرا انٹارکٹکا ہے۔

ہماری زمین کا یہ حصہ کب اور کیسے وجود میں آیا؟  یہ براعظم کیا امریکہ یا کسی اور ملک کے کنٹرول میں ہے؟ اسکی جیو پولیٹکل یا جغرافیائی لحاظ سے کتنی اہمیت ہے؟ کیا یہ علاقہ ہمیشہ سے ایسا ہی برفستان تھا اور کیا یہ  آئندہ بھی ایسا ہی رہیگا یا اسکی برفیں پگھل جائیں گی؟، ہم اس ویڈیو میں جاننے کی کوشش کریں گے…… 

زمین کا یہ حصہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا. آج سے  کروڑوں سال پہلے زمین کا یہ جنوبی حصہ سپر کنٹنٹ  super continent گونڈوانا

Gondwana

پر مشتمل تھا جسمیں موجودہ دور کے براعظم افریقہ، برصغیر،ا فریقہ اور جنوبی امریکہ شامل تھے۔ آج سے  تقریباً اڑھائی کروڑ سال پہلے زمین کا یہ ٹکڑا گونڈوانا  کے باقی حصوں کی طرح  الگ ہو گیا اور موجودہ براعظم انٹارکٹکا وجود میں آیا..

براعظم آسٹریلیا، جنوبی امریکہ، افریقہ اور بحر ہند اور بحرالکاہل کے درمیان گھرا ہوا یہ براعظم تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر  رقبہ پرمشتمل ہے..

 اس کا تقریباً 98 فیصد حصہ برف سے ڈھکا ہوا ہے برف  کی اس پرت کی  اوسط موٹائی تقریباً دو کلومیٹر ہے. اس علاقے کا اوسط  سالانہ درجہ حرارت تقریباً منفی 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ 1983 میں یہاں سب سے کم ترین درجہ حرارت یعنی منفی 89 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا. یہاں پر اوسط سالانہ بارش دس سینٹی میٹر ہوتی ہے.ہمارے سیارے زمین پر موجود کُل برف کا 90 فیصد اور صاف پانی کا 70 فیصد حصہ اسی براعظم انٹارکٹکا میں پایا جاتا ہے. 

انٹارکٹکا پر کس ملک کا کنٹرول ہے؟ 

سخت ترین موسمی حالات اور دور دراز ہونے کی وجہ سے یہ خطہ صدیوں تک انسانی پہنچ سے دور رہا  تھا، لیکن انیسویں صدی کے اوائل میں  مختلف ممالک نے انٹارکٹکا کے مختلف علاقوں پر اپنا کلیم شروع کر دیا. سب سے پہلے اس براعظم کی کھوج لگانا اور مسلسل اس خطے پر موجود رہنا، یہ کچھ  اسطرح کے دلائل تھے جن کی بنیاد پر مختلف ممالک اس پر اپنا استحقاق سمجھتے تھے ……

 سب سے پہلے 1909 میں برطانیہ نےانٹارکٹکا کے مختلف علاقوں پر اپنی ملکیت  کا دعوی کیا  .بیسویں صدی کے وسط تک انٹارکٹکا کے مختلف علاقوں میں اپنی ملکیت کا کلیم کرنے والے ممالک کی تعداد سات ہو چکی تھی ، جن میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، چلی، فرانس، نیوزی لینڈ، ناروے اور برطانیہ شامل تھے.. . 

دوسری جنگ عظیم کے دوران بہت سے ممالک انٹارکٹکا میں مہم جوئی کر رہے تھے جن میں امریکہ اور جرمنی پیش پیش تھے….. دسمبر 1938 میں جرمنی نے انٹارکٹکا کی طرف ایک مشن روانہ کیا جس کا بنیادی مقصد انٹارکٹکا میں کسی ایسی جگہ کی تلاش تھ ی جہاں پر جرمنز  اپنی ملکیت کا کلیم کرنے کے ساتھ ساتھ وہیلنگ آئل کے حصول کے لیے ایک سٹیشن بھی قائم کر سکیں…. ویل آئل اس زمانے میں ایک اہم ترین 

Raw material

تھا.   جرمنز کچھ عرصہ بعد اپنے عارضی کیمپس ختم کر کے انٹارکٹکا سے چلے گئے تھے۔ امریکہ کی نظر انٹارکٹکا پر انیسویں صدی کے وسط ہی س ے تھی اور امریکی مشنز اس براعظم پر تب ہی سے جا رہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی فتح کے بعد اس براعظم کو کنٹرول کرنے کی کشمکش مزید شدت پکڑنا شروع ہو گئی۔  جرمنی شکست کے بعد اب ظاہر ہے اس دوڑ سے باہر ہو چکا تھا اور برطانیہ  سپر پاور کی حیثیت بھی کھو چکا تھا۔

ان تنازعات کو ختم کرنے کے لیے 1958 میں بارہ مختلف ممالک کے سائنسدانوں نے تمام سیاسی اختلافات کو بھلا کر، مل کر ریسرچ کرنے کے لیے اس دور دراز براعظم کا رخ کیا. انہوں نے اس ریسرچ کے دوران نہ صرف اس سیارے کے لیے، انٹارکٹکا کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ مختلف ممالک کے تعاون سے اس پر  مشترکہ گورننس پر بھی زور دیا…اگلے سال یکم دسمبر 1959 کو یہی 12 ممالک واشنگٹن میں ملے اور ایک معاہدہ پر دستخط کئے جسے 

Antarctic treaty

کہا جاتا ہے… اس معائدہ کا بنیادی مقصد، انٹارکٹکا کو سائنٹفک ریسرچ کے لیے مختص کرنا اور یہاں امن قائم کرنے کے علاوہ، ہر طرح کی ملٹری ایکٹیویٹیز پر پابندی لگانا تھی…. کوئی بھی ملک، یہاں پر سائنٹفک ریسرچ سنٹر قائم کر سکتا ہے.  مختلف ممالک کے کیے گئے ملکیت کے  تمام دعووں کو بھی کالعدم قرار دیا گیا……..

ہمارے سوال “انٹارکٹکا کس کی ملکیت ہے” کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اس کا  اکیلے مالک نہیں ہے، بلکہ وہی 12 ابتدائی ممالک جنہوں نے 

Antarctic treaty 

پر دستخط کیے تھے اب بڑھتے بڑھتے 54 ممالک بن چکے ہیں، جن کا اس خطہ پر مشترکہ کنٹرول ہے… 

ان 54 ممالک کو مزید دو گروپس یعنی 

Consultative groups

جن کی تعداد 29 ہے اور 

Non consultative groups 

جن کی تعداد 25 ہے، میں تقسیم کیا گیا ہے…..

کنسلٹیٹیو گروپ میں شامل ممالک، باقاعدہ ریسرچ کرنے اور مختلف فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، جبکہ نان کنسلٹیٹیو گروپ کے پاس یہ اختیار نہیں ہے… 

پاکستان اور انٹارکٹکا

پاکستان اسلامی ممالک میں وہ پہلا ملک تھا جس نے  انٹارکٹکا میں اپنا مشن بھیجا.. 1991 سے 1993 تک پاکستان خطے میں دو سائنٹفک سٹیشن جناح انٹارکٹک سٹیشن ون اور ٹو اور ایک موسمیاتی سٹیشن جو اقبال آبزرویٹری کے نام سے جانا جاتا ہے قائم کر چکا تھا.  پاکستان 15جون 1992 کو 

Scientific committee on Antarctic research (SCAR) 

کا ایسوسی ایٹ ممبر بن  گیا تھا لیکن ابھی تک فل ممبر نہی بن سکا انڈیا 1984 سے ادارے کا فل ممبر ہے  اور اسکا ریسرچ پروگرام کافی ایڈوانس سٹیج پر ہے…. پاکستان نے حال ہی میں چائینہ کے ساتھ مشترکہ طور پر پھر سے مہم جوئی کا آغاز کیا گیا ہے. 

منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا دارہ National Institute of Oceanographyپاکستان کے انٹارکٹکا سے متعلق ریسرچ پروگرامز کا زمہ دار ہے۔ 

 پاکستان بھی اب انٹارکٹکا میں اپنی ایک مستقل بیس بنانے کا خواہاں ہے  جو کہ سائنسدانوں کے لیے سارا سال وہاں موجود رہنے اور سائنسی تحقیق کرنے میں معاون ثابت ہو گا…

انٹارکٹکا کی آبادی کتنی ہے؟ 

اس براعظم کی  کوئی مستقل آبادی نہیں ہے بلکہ یہاں رہنے والے لوگ مختلف ممالک کے سائنسدان ہیں جن کی تعداد گرمیوں میں اوسطاً پانچ ہزار اور سردیوں میں ایک ہزار تک رہ جاتی ہے…اس کے علاوہ انٹارکٹکا کا اپنا کوئی ٹائم زون بھی نہیں ہے بلکہ جو لوگ وہا‌ں جاتے ہیں اپنے ملک کے حساب سے ٹائم سیٹ کرتے ہیں… 

انٹارکٹکا اور پینگوئن 

 خشک، سرد اور خطرناک موسم کے باوجود یہ حصہ نا صرف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلکہ اب تک کی دریافت کے مطابق، ساٹھ مختلف اور نایاب نسل کے پرندوں، نایاب نسل کے جانوروں  جن میں penguins اور whales seals  شامل ہیں، کا مسکن انٹارکٹکا ، اپنے اندر چار سو سے زائد  (sub-glacial) جھیلیں بھی سموئے ہوئے ہے.

دوستو جب بھی انٹارکٹکا کا نام لیا جاتا ہے تو ذہن میں پینگوئن کا خ یال لازمی آتا ہے جیسے پینگوئن اور انٹارکٹکا لازم و ملزم ہوں. دنیا میں پائے جانے والی  17 مختلف نسل کی  پینگوئنز میں سے 8 کا مسکن انٹارکٹکا ہے. پینگوئنز پرندے ہیں لیکن یہ اڑ نہیں سکتے.  انٹارکٹکا میں پائے جانے والے پینگوئنز میں سب سے نمایاں نسل 

Emperor penguin 

کی ہے. فی میل ایمپرر پینگوئن صرف ایک ہی انڈہ دیتی ہے جسے

 وہ انکیوبیشن کے لیے میل پینگوئن کے حوالے کر کے خود خوراک کے حصول کے لیے نکل جاتی ہے. میل پینگوئن نو ہفتے کم و بیش 65 دن بغیر کچھ کھائے پیے وہیں موجود رہتا ہے اور اس دوران اپنا 45 فیصد وزن کم کر دیتا ہے. اس طرح فی میل پینگوئن کے آنے پر یہ خوراک کے حصول کے لیے نکل جاتا ہے….

کیا انٹارکٹکا کبھی زندگی سے بھرپور بھی تھا؟

انٹارکٹکا میں کسی قسم کے درخت نہیں پائے جاتے البتہ دو مختلف اقسام کے

Flowering plants

پائے جاتے ہیں….. البتہ سائنسدانوں کو تحقیق کے دوران الیگزینڈر آئی لینڈ 

(Alexander Island ) 

کے ایک حصہ سے درختوں کے فوسلز ملے ہیں. 

ان فوسلز پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آج سے کروڑوں سال پہلے یہ درخت یہاں موجود تھے جن کی لمبائی تقریباً سات میٹر تک تھی… 

دو ہزار گیارہ میں  سائنسدانوں نے فٹبال کے سائز جتنا انڈا  انٹارکٹکا میں دریافت کیا جس کے بارے میں یہ قیاس کیا گیا کہ یہ موسا سارس

Mosasaurus 

کا ہو سکتا ہے. انڈوں کے فوسلز پر نئی ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کے کہ آج تک دریافت ہونے والے انڈوں میں یہ سب سے بڑا انڈہ ہے. سائنسدانوں نے اس انڈے کی خصوصیات کا 259 مختلف قسم کے ریپٹائلز  reptiles کے انڈوں سے موازنہ کیا. وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ کسی ایک جاندار کا انڈا ہو سکتا ہے جس کی لمبائی 23 فٹ یا 7 میٹر سے زائد ہو سکتی ہے. نتیجہ یہ نکالا گیا کہ یہ انڈا ممکنہ طور پر موسا سار کا ہو سکتا ہے جو آج سے تقریباً 66 ملین سال قبل اس خطے پر آباد تھے جن کا اوسط وزن تقریباً چودہ ہزار کلو گرام تھا… 

درخت کے فوسلز اور موسا سار کے انڈے کا ملنا، یہ دو ایسے شواہد ہیں جن سے ہمیں معلوم اہوتا ہے کہ انٹارکٹکا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ یہاں پر آج سے کروڑوں سال پہلے زندگی موجود تھی.. 

بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے انٹارکٹکا میں موجود برف ہر سال تقریباً 0.2 انچ تک پگھل رہی ہے.. سائنسدانوں کے مطابق اگر گلوبل وارمنگ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو آئندہ سالوں میں برف پگھلنے کی وجہ سے سمندر کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو سکتی ہے. اگر انٹارکٹکا میں موجود ساری برف پگھل جائے تو سمندر کی سطح 230 فٹ تک بلند ہو سکتی ہے.. شائد کروڑوں سالوں بعد انٹارکٹکا میں برف کی جگہ پھر سے زندگی جنم لے لے… شاید…

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu