انسان کی خواہشات لامحدود ھیں۔ وہ زمین پر بستے ھوئے چاند اور ستاروں پر کمند ڈالنے کا ارادہ رکھتا ھے۔ اس وسیع کائنات میں اگرچہ انسان کا وجود بہت چھوٹا سا ھے البتہ انسان نے خلا کو بھی تسخیر کرنے کا عزم کر رکھا ھے۔ ہماری آج کی ویڈیو ایک ایسے ادارے کے بارے میں ھے جس کی کامیابیوں نے نا صرف انسان کو چاند پر پہنچایا ھے، بلکہ دوسرے سیاروں اور کائنات کی وسعتوں سے بھی انسان کو روشناس کروایا ھے۔
ناسا کی بنیاد کیسے رکھی گئی؟ روس اور امریکہ کی space race کیا تھی؟ ناسا اپنے پراجیکٹس پر کتنا پیسہ خرچ کرتا ھے؟ حال ہی میں آپ نے ناسا کی جیمز ویب ٹیلی سکوپ (james webb telescope) کا ذکر بھی سنا ھوگا۔ یہ ٹیلی سکوپ کیا کام کرتی ھے؟ آج کی ویڈیو میں ہم یہی سب جانیں گے۔
روس کی کامیابیاں – تاریخ
انیس سو ستاون (1957) میں روس نے دنیا کی پہلی آرٹیفیشل سیٹلائٹ بنا لی۔ اگرچہ یہ ایجاد انسانی تاریخ کی ایک بڑی کامیابی تھی، البتہ امریکہ اس سےہرگز خوش نہیں تھا۔ ناسا کے قیام سے پہلے امریکہ میں national advisory committee for aeronautics کے نام سے ایک ادارہ موجود تھا۔ جس کا کام خلا پر ریسرچ کرنا ہی تھا۔ البتہ روس خلائی ٹیکنالوجی میں امریکہ سے بہت آگے تھا۔ یہ بات امریکہ کو اپنی سلامتی کے لئے ایک خطرہ محسوس ھوتی تھی۔ دوستو خلا پر کی جانے والی ریسرچ خلا اور پوری کائنات کے بارے میں تو معلومات فراہم کرتی ہی ھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ معلومات راکٹس، جیٹس، اور دیگر جنگی جہاز بنانے میں بھی کارآمد ثابت ھوتی ھیں۔ اسی لئے روس کی کامیابی امریکہ کو کھٹک رہی تھی۔جنگ عظیم دوم کے بعد بھی ان دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہی تھے۔
ناسا کا قیام اور سپیس ریس
انتیس جولائی انیس سو اٹھاون (1958) کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن national aeronautics and space agency یعنی ناسا کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یکم اکتوبر 1958 کو ناسا نے باقاعدہ طور پر کام کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ہی سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سپیس ریس کا بھی آغاز ھوگیا۔ سپیس ریس یا خلائی جنگ سے مراد یہ ھے کہ یہ دونوں سپر پاورز سپیس ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے کو ہرانے کے درپے تھیں۔ ابھی تک بنی نوع انسان میں سے کوئی بھی خلا میں نہیں جا سکا تھا۔ دونوں ممالک کی خواہش تھی کہ یہ اعزاز انہیں کو ملے اور خلا میں پہلا قدم انہی کے خلا باز رکھیں۔ بارہ اپریل انیس سو اکسٹھ (1961) کو روس کو اپنے ایک اہم مشن میں کامیابی ملنے کے بعد، اس ریس میں ابتدائی برتری حاصل ہوئی اور سوویت یونین کا ایک پائلٹ خلا میں بھیجا گیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ناسا کو انیس سو ساٹھ (1960) کی دہائی کے اختتام سے پہلے چاند پر ہر حال میں جانے کا ٹارگٹ دے دیا۔ ناسا کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔
سپیس ریس کا خاتمہ اور سپیس سٹیشن
1969 انیس سو انہتر میں ناسا کے خلا باز نے پہلی بار چاند پر قدم رکھا۔ اس مشن پر پچیس اعشاریہ چار بلین یعنی پچیس ارب چالیس کروڑ ڈالر خرچ ھوئے۔ اس کے ساتھ ہی سپیس ریس میں امریکہ کو روس پر واضح برتری حاصل ھوگئی۔
انیس سو بہتر (1972) میں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین جاری اس سپیس ریس کا باقاعدہ طور پر خاتمہ ہوا اور ان کے سربراہان نے ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ اس معاہدے کی رو سے اب یہ ممالک خلائی مشنز میں ایک دوسرے کے حریف کی بجائے دوست تھے۔ اس کے بعد انیس سو اٹھانوے (1998) میں خلا میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی بنایا گیا۔ اس پر ایک سو ساٹھ بلین یعنی ایک کھرب ساٹھ ارب ڈالر لاگت آئی۔ یہ انٹرنیشنل سپیس سٹیشن دراصل ایک طرح کی آرٹیفیشل سیٹلائٹ ھے جو خلا میں زمینی مدار کے اندر معلق رہتی ھے اور ایک لیبارٹری کی طرح کام کرتی ھے۔ ہر نوے منٹس بعد یہ زمین کے گرد ایک چکر مکمل کرتی ھے اور سات خلابازوں کا ایک crew ہر وقت اس کے اندر موجود ھوتا ھے۔ اسے پانچ ممالک کی سپیس ایجینسیز کے اشتراک سے بنایا گیا ھے۔ ان میں امریکہ، روس، جاپان، یورپ اور کینیڈا کے خلائی ادارے شامل ھیں۔ اس سپیس سٹیشن میں مختلف طرح کے تجربات کئے جاتے ھیں، دوستو زمین کے مقابلے میں خلا میں کئے جانے والے تجربات زیادہ معنی رکھتے ھیں، اس لئے یہ سپیس سٹیشن تمام ممالک کے لیے ایک طرح کی سپیس لیب کی حیثیت رکھتا ھے۔
ناسا کے چند مہنگے ترین پراجیکٹس
ناسا ہر سال اربوں ڈالر اپنے پراجیکٹس پر خرچ کرتا ھے۔ سال دو ہزار اکیس میں ناسا کا بجٹ تئیس اعشاریہ تین بلین یعنی تئیس ارب، تیس کروڑ یو ایس ڈالر تھا۔جبکہ دو ہزار بیس میں اسکے کل ملازمین کی تعداد سترہ ہزار تھی۔
آئیے اب ناسا کے چند ایسے پروجیکٹس کے بارے میں جانتے ھیں جن پر ناسا کے اربوں ڈالر خرچ ھوئے البتہ ان کی بدولت بنی نوع انسان نہ صرف اپنے سیارے کے راز جان سکے ہیں بلکہ انہوں نے دوسروں سیاروں، اور اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں بھی راز کھوجنا شروع کر دئیے ہیں۔
دوستو ناسا نے انیس سو ستتر (1977) میں سپیس شٹل پروگرام کا آغاز کیا۔ اس پروگرام پر ناسا نے دو سو نو بلین یعنی دو کھرب نو ارب ڈالر خرچ کئے۔ اس پروگرام کے تحت ناسا نے ایک سو پینتس مختلف مشنز مکمل کئے۔ سپیس شٹل ایک ایسا سپیس کرافٹ یا خلائی جہاز ھوتا ھے جو کامیابی سے خلا میں اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد واپس زمین پر لینڈ کر سکتا ھے اور اسے دوبارہ بھی کسی مشن میں استعمال کیا جا سکتا ھے۔ سپیس شٹل پروگرام میں پانچ سپیس شٹلز نے حصہ لیا اور دو ہزار گیارہ میں ان سپیس شٹلز کا استعمال بند کر دیا گیا۔ ان سپیس شٹلز کو سپیس سٹیشن بنانے، خلابازوں کو خلا میں پہنچانے، اور مختلف سیٹلائیٹس خلا میں بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
دوستو آپ نے کہیں بھی جانا ھو، کوئی راستہ معلوم کرنا ہو، تو آپ “جی پی ایس ” کا استعمال کرتے ھیں۔ یہ سہولت ہمیں سب سے پہلے ناسا ہی کی بدولت میسر آئی ہے۔ اس مشن پر کام انیس سو تہتر(1973) میں شروع ھوا اور انیس سو چورانوے (1994 )میں مکمل ھوا۔ اس دوران چوبیس سیٹلائٹس خلا میں نصب کی گئیں۔ اس مشن پر بارہ بلین یعنی بارہ ارب ڈالر کا خرچ آیا۔
انیس سو نوے (1990) میں hubble telescope کو سپیس میں لانچ کیا گیا۔ یہ اپنے وقت کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ تھی۔ اس ٹیلی سکوپ کی مدد سے نئی گیلیکسیز دریافت کی گئیں اور بلیک ہولز کے متعلق ری سرچز میں بھی پیش رفت ھوئی۔آج بھی یہ سپیس میں ہی موجود ھے اور اس پر اب تک دس بلین یعنی دس ارب ڈالر خرچ ھو چکے ھیں۔
ناسا کی جیمز ویب ٹیلی سکوپ کیا ھے؟
آجکل پوری دنیا میں ناسا کی جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے دھوم مچا رکھی ہے۔ یہ جدید ترین ٹیلی سکوپ اب تک کی سب سے بڑی اور طاقتور ٹیلی سکوپ ھے۔ اس کا مقصد اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں جاننا ھے۔ بگ بینگ سے لے کر آج تک، کائنات میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ھوئی ھیں، سیارے کس طرح وجود میں آئے، ایلینز، مختلف گیلیکسیز، اور ستاروں کی تخلیق کیسے ھوئی، یہ ٹیلی سکوپ اس بارے میں تحقیق کرنے میں مدد دے گی۔ آپ نے اس ٹیلی سکوپ کے بارے میں یہ بھی سنا ھوگا کہ یہ ماضی میں دیکھ سکے گی۔ اس کا مطلب دراصل یہی ھے کہ اس سے دنیا کی تخلیق کے بارے میں معلومات ملیں گی اور بگ بینگ کے نتیجے میں ھونے والے دھماکے کے بعد جو روشنی پیدا ھوئی تھی، وہ روشنی آج بھی خلا میں ہی کہیں موجود ھے، ہم اس روشنی کو دیکھ سکیں گے۔ اس مشن کا آغاز انیس سو چھیانوے (1996) میں ھوا تھا۔ پلان کے مطابق دو ہزار سات میں (2007) اسے لانچ کیا جانا تھا، البتہ ایسا ممکن نہ ہو پایا ۔ اس کی تیاری میں کئی سال لگ گئے اور یہ ٹیلی سکوپ دو ہزار سولہ میں مکمل ھوئی۔ اس پر دس بلین یعنی دس ارب ڈالرز کی لاگت آئی۔ پچیس دسمبر دو ہزار اکیس کو اسے سپیس کے لئے روانہ کیا گیا اور تقریباً تیس دنوں میں یہ ایک اعشاریہ پانچ ملین کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے سپیس میں ایسے مقام پر پہنچی جہاں کشش ثقل اس پر اثر نہ کر سکے۔ پوری دنیا میں آج کل اسی ٹیلی سکوپ کی دھوم مچی ھوئی ھے۔ اور اب دیکھنا یہ ھے کہ یہ ٹیلی سکوپ کتنی کار آمد ھے۔ البتہ ابھی ان تحقیقات کے نتائج سامنے آنے میں کئی سال مزید لگ جائیں گے۔
ناسا مریخ پر
ناسا کئی دوسرے سیاروں کے بارے میں بھی تحقیقات کرتا رہتا ھے البتہ سب سے زیادہ کامیابی اسے مریخ پر ملی ھے۔ ناسا کا سب سے پہلا مارس مشن انیس سو چونسٹھ (1964) میں شروع ھوا تھا۔ اس کے بعد ناسا اب تک مزید کئی مارس مشنز کامیابی سے مکمل کر چکا ھے۔ چودہ نومبر انیس سو اکہتر (1971) کو ناسا کا ایک راکٹ پہلی بار مریخ کے مدار تک پہنچا۔ اس راکٹ نے اس سرخ سیارے کے متعلق کئی اہم معلومات اکٹھی کیں اور مریخ کئی ایک تصاویر بھی لیں۔ انیس سو بانوے (1992) میں ناسا نے ایک اور راکٹ مارس کے لیے روانہ کیا۔ البتہ یہ راکٹ مارس پر پہنچنے سے پہلے ہی کھو گیا اور ناسا کا اس سے رابطہ منقطع ھوگیا۔ اس سپیس کرافٹ پر آٹھ سو تیرہ ملین یعنی اکیاسی کروڑ تیس لاکھ ڈالر خرچ ھوئے تھے۔ البتہ ناسا کا یہ سارا پیسہ ضائع ھوگیا۔ انیس سو ستانوے (1997) میں ناسا نے مارس پر پانی کی موجودگی کی نشاندھی کی۔
دو ہزار چودہ میں ناسا نے اس سیارے پر زندگی کے آثار ڈھونڈنا شروع کر دئیے۔ ناسا کے مطابق کئی ہزار سال پہلے یہاں پر زندگی موجود تھی۔ دو ہزار سولہ میں مریخ پر برف کی موجودگی کے آثار بھی پائے گئے۔ ناسا نے دو ہزار تیس کی دہائی تک مریخ پر انسانی بستی بسانے کا اعلان بھی کیا ھے۔ آپ بھی ناسا کی ویب سائٹ پر جا کر مارس پر جانے کے لئے اپلائی کرسکتے ھیں۔
ناسا کے بارے میں کچھ مزید دلچسپ معلومات
ناسا چونکہ ایک حکومتی ادارہ ھے اس لئے ناسا کے تمام پراجیکٹس اور مشنز کی رپورٹ امریکی صدر کو دی جاتی ھے۔
ناسا نے کئی ممالک میں اپنے میوزیمز اور وزٹ سینٹرز بھی کھول رکھے ھیں۔ انیس سو اکسٹھ میں پاکستانی سپیس ایجنسی سپارکو کے کچھ افسران کو ٹریننگ کے لئے ناسا بھیجا گیا ۔انیس سو باسٹھ میں پاکستان نے اپنا پہلا راکٹ “رہبر-ون” لانچ کیا، ناسا نے اس سلسلے میں پاکستان کی بھرپور مدد کی البتہ امریکہ نے ایک شرط بھی رکھی کہ پاکستان اس راکٹ اور اسکے لانچ کے متعلق تمام معلومات امریکہ کو فراہم کرے گا۔ ناسا ان دنوں اپنے مون مشن پر کام کر رھا تھا اور وہ اس راکٹ لانچ کے ذریعے upper atmosphere میں ہوا کی رفتار، درجہ حرارت اور ایسی ہی دیگر معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔
ناسا آج دنیا کی سب سے بڑی سپیس ایجنسی ھے۔ آئے دن ہم ناسا کے کسی نہ کسی کامیاب مشن کے بارے میں خبریں سنتے رہتے ھیں۔ بلیک ہولز، ایلینز، گیلیکسیز، سیارے، یہ سب یقیناً انسان کے تجسس کو بڑھاتے ھیں اور انسان اس علم کی کھوج میں لگ جاتا ھے۔ ناسا اسی علم کی پیاس کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ھے۔