Home Interesting Facts آسٹریلیا کی جانوروں سے جنگیں

آسٹریلیا کی جانوروں سے جنگیں

by bigsocho
0 comment

دنیا کے اکثر ممالک کسی نہ کسی بیرونی دشمن سے نبرد آزما ہیں اور ان ممالک کی اپنے ان حریفوں سے  جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن دوستو کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں ایک ایسا ملک بھی  ہے جس کی کسی دشمن ملک کے انسانوں سے نہیں  بلکہ اپنے ملک کے جانوروں اور پرندوں سے جنگیں ہوئی ہیں۔ جی ہاں دوستو اس ملک کا نام آسٹریلیا ہے اور اس نے گزشتہ دو صدیوں میں مختلف جانوروں اور پرندوں کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں۔ 

آسٹریلیا کی یہ جنگیں کن جانوروں اور پرندوں کے ساتھ ہوئیں۔۔۔ کیا آسٹریلیا کو ان جنگوں میں شکست کا سامنا کرنا۔۔ آسٹریلیا کو مستقبل قریب میں کن جانوروں سے خطرہ ہے۔۔ یہ سب جانیں گے آج آپ کی اس ویڈیو میں۔۔۔۔

آسٹریلیا کی آب و ہوا اور محل وقوع

دوستو زمین کے جنوبی نصب کُرے پہ موجود آسٹریلیا کا یہ ملک دراصل دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم بھی ہے۔ چاروں جانب سے سمندر میں گھرا ہوا یہ براعظم دنیا کا سب پرانا خطہِ زمین سمجھا جاتا ہے اور اس کی مٹی زیادہ تر بنجر، جنگلی اور صحرائی میدانوں پر مشتمل ہے۔ آسٹریلیا کی تقریباً 98 فیصد آبادی ساحلی پٹی کے قریب آباد ہے اور اس کا درمیانی حصہ رین فاریسٹ اور جنگلات پر مشتمل ہے۔ یہاں دنیا بھر کی طرح کئی اقسام کی نباتات، جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں۔ بعض مقامات پہ یہ جانور اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ حکومت کو ان کے خلاف کئی سنجیدہ اقدامات کرنے پڑے۔ حتٰی کہ کچھ جانوروں کے ساتھ تو آسٹریلوی فوج نے باقاعدہ  ہتھیاروں سے لیس ہوکر جنگیں بھی لڑیں۔۔ 

دوستو آئیے جانتے ہیں کہ آسٹریلیا نے پچھلی دو صدیوں میں کن کن جانوروں اور پرندوں کے ساتھ جنگیں کی۔ 

ڈنگو فینس (Dingo Fence)

دوستو چونکہ آسٹریلیا کا درمیانی خطہ جنگلات اور بنجر زمین پر مشتمل ہے تو وہاں ہمیشہ سے جانوروں کی بہتات رہی ہے۔ نہ صرف جنگلی جانور بلکہ اس خطے میں پالتو جانور بھی بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بھیڑوں کی تعداد وہاں رہنے والے انسانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت آسٹریلیا میں 60 ملین سے زیادہ بھیڑیں پائی جاتی ہیں۔ 

 اس کے علاوہ انیسیویں صدی میں خرگوشوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ آسٹریلوی حکومت کو ان کی روک تھام کے لئے کئی اقدامات کرنے پڑے۔ جنوب مشرقی خطے میں 1880 میں باقاعدہ ایک باڑ کی تعمیر شروع کی گئی۔ شروع میں یہ باڑ کچھ علاقوں تک محدود تھی لیکن بیسیویں صدی میں مقامی لوگوں کو ایک اور مسئلے کا سامنا ہوا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ ڈنگو نامی جنگلی کتے مقامی لوگوں کی بھیڑ بکریوں کو چیر پھاڑ دیتے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس باڑ کی تعمیر سے پہلے صرف ایک سیٹیشن میں سالانہ تقریباً 11 ہزار بھیڑیں ان  کتوں کا شکار ہوجاتی تھیں۔ چنانچہ ان سے بچاو کے لئے اس باڑ کو مزید بڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا اور بیسیویں صدی کے اوائل میں اس کی طوالت میں مزید اضافہ کردیا گیا۔ آج اس چھ فٹ اونچی باڑ کی لمبائی تقریباً 5600 کلومیٹر ہے۔ یہ جنوبی آسٹریلیا سے شروع ہوکر مشرقی ساحل تک چلی جاتی اور آسٹریلیا کی تین سٹیٹس تک پھیلی ہوئی ہے۔ 

اس باڑ کی حفاظت کے لئے آسٹریلوی حکومت نے باقاعدہ عملہ تعنیات کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود اونٹ اور کینگروز جیسے بڑے جانور اس کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج بھی یہ جنگلی کتے اس باڑ کو پار کرکے سالانہ سینکڑوں بھیڑوں کا شکار کر لیتے ہیں۔ 

دوستو اس باڑ نے آسٹریلیا میں پالتو جانوروں اور فارمز کو ضرور نقصان سے بچایا ہے لیکن اسکی وجہ سے نیچرل ایکو سسٹم یعنی ماحولیاتی نظام کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اسکی وجہ سے ماہرینِ ماحولیات اسکو ختم کرنے کی تجاویز بھی دے رہے ہیں۔ 

ایمس وار (Emus War)

دوستو جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد آسٹریلوی حکومت نے بہت سے سابق فوجیوں اور ماہرین کو مغربی آسٹریلیا کے کچھ پسماندہ علاقے دے دئیے۔ تاکہ وہ ان زمینوں پر گندم کاشت کریں اور بھیڑیں پال کر ان کو آباد کریں۔   1929 میں حکومت کی طرف سے ان کے اقدامات کو سراہا گیا اور گندم کی مزید کاشت کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ لیکن اگلے چند سالوں میں یہ فوجی اور کسان حکومت کی طرف سے دئیے گئے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے اور اس کی وجہ وہاں پر آجانے والے سینکڑوں ایمس (Emus) تھے جو فصلوں کو برباد کر دیتے تھے۔ ایمس دراصل شتر مرغ کی طرح کا ایک پرندہ ہے جو شتر مرغ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا پرندہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرندے اڑ نہیں سکتے اور فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔  

دوستو شروع میں یہ ایمس چند سو کی تعداد تک ہی محدود رہے لیکن 1932 تک ان کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوا اور یہ تقریبا 20،000 کی تعداد تک پہنچ گئے۔ یہ ایمس آسٹریلیا کے بہت بڑے علاقے تک پھیل گئے تھے اور ان کے آگے جو فصل آتی تھی اس کا صفایا کردیتے تھے۔ 1932 کے آخری مہینوں میں فصلوں کے حالات اتنے خراب ہوگئے کہ ناچار آسٹریلوی حکومت کی جانب سے ایمس کے خلاف ایک ملٹری آپریشن کی تجویز پیش کی گئی جسے ایمس وار کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کا باقاعدہ آغاز 2 نومبر 1932 میں ہوا اور اس مشن کے لئے تین ملٹری آفیسر کو چنا گیا۔ اس مشن کے لئے ان سولجرز کو ایک گاڑی، دو مشین گنز اور تقریباً دس ہزار راؤنڈز اصلحہ دیا گیا۔ 

دوستو ایمس کے خلاف دو نومبر کو شروع ہونے والی اس جنگ میں پہلے دن چند پرندے ہی شکار ہوپائے۔ اگلا معرکہ دو دن بعد وقوع پذیر ہوا لیکن اس دن ہزاروں ایمس کے جھنڈ میں سے صرف ایک درجن ہی شکار ہوپائے اور مشین گنز خراب ہونے کی وجہ سے یہ سولجرز ناکام واپس لوٹ آئے۔ اگلے کچھ دن بھی یہی صورت حال رہی اور ایک رپورٹ کے مطابق 8 نومبر یعنی چھ دنوں میں ان سولجرز نے 2500 راؤنڈز استعمال کرکے صرف 200 ایمس ہلاک کئے۔ یہاں ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی اور اس مشن کو کمانڈ کرنے والے میجر نے قبول کر لیا کہ ہم یہ جنگ ہار گئے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ ایمس اتنے چالاک ہیں کہ دنیا کی کسی بھی فوج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ کسی سیاستدان نے کہا کہ اس جنگ میں شامل سولجرز کو کوئی میڈل بھی ملنا چاہئے تو فیڈرل منسٹر نے کہا اگر میڈل دینا ضروری ہے تو وہ ایمس کو دینا چاہئے کیونکہ اصل جنگ تو وہ جیت چکے ہیں۔ 

دوستو اس ناکامی کے بعد بھی آسٹریلوی حکومت نے ہار نہ مانی اور کمانڈر کہا کہ اگر مقامی کسانوں کو ہتھیار دے دئیے جائیں تو شاید ان پرندوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ 1934 میں اس علاقے کے  کسانوں کو ہتھیارفراہم کیے گئے جن کی بدولت کچھ ہی عرصے میں خاطر خواہ نتائج سامنے آئے اور 10 دسمبر 1932 تک 986 ایمس ہلاک کئے گئے۔  پھر ایک رپورٹ کے مطابق اگلے 6 سے 7 مہینوں میں 57 ہزار ایمس ہلاک کئے گئے۔ اسی طرح کے کچھ معرکے 1943 اور 1948 میں بھی ہوئے لیکن یہ جنگ آسٹریلیا کبھی جیت نہیں پایا اور ایک اندازے کے مطابق آج بھی آسٹریلیا میں ان ایمس کی تعداد چھ سے سات لاکھ کے قریب ہے۔ 

مینڈکوں کے ساتھ جنگ

دوستو ابھی آسٹریلیا ایمس کے عذاب سے نکل ہی رہا تھا کہ انہیں ایک نئی مصیب کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ یہ مصیبت کین ٹوڈ (Cane Toads) یعنی مینڈک تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نئی مصیبت آسٹریلیا نے خود اپنے گلے میں ڈالی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ 1935 میں آسٹریلین سٹیٹ کوئینزلینڈ میں کین بیٹل (Cane Beetle) نامی ایک کیڑا گنے کی فصل کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ کچھ ریسرچز سے یہ بات سامنے آئی کہ کین ٹوڈز ان کیڑوں کو کھا جاتے ہیں یعنی ان مینڈکوں سے ان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ حکام نے امریکہ کی سٹیٹ ہوائی (Hawaii) سے 102 ٹوڈز منگوائے اور انہیں کوئینز لینڈ کے کچھ علاقوں میں چھوڑ دیا۔ لیکن چند ہی دنوں میں حکام کو اندازہ ہوگیا کہ یہ تجربہ ناکام ہے کیونکہ یہ کیڑے گنے کے اوپر والے حصے کو نقصان پہنچاتے تھے جبکہ مینڈک فصل کی جڑ تک ہی رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا افزائش نسل کے معاملے میں بہت تیز تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ مینڈک ایک وقت میں 30 سے چالیس ہزار انڈے دے سکتے ہیں۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے میں ان مینڈکوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور یہ ہزاروں میل تک پھیل گئے۔ 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق 74 سالوں میں یہ مینڈک کوئینز لینڈ سے شمالی آسٹریلیا تک تقریباً 2000 کلو میٹر کے رقبے پر پھیل چکے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ان مینڈکوں کی تعداد دو سو ملین تک ہوچکی ہے اور یہ سالانہ 50 کلومیٹر کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ 

دوستو ان کے خاتمے کے لئے کئی اقدامات کئے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت اب تک 21 ملین آسٹریلوی ڈالر یعنی تقریباً اڑھائی ارب پاکستانی روپے خرچ کرچکی ہے۔ زہریلے سپرے متعارف کروائے گئے۔ انہیں برف اور ریفریجریٹرز میں رکھ کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ کچھ زہریلی ویکسینز (Vaccines) بھی متعارف کروائی گئیں لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود ان مینڈکوں کی مکمل نسل کشی نہ کی جا سکی۔ 

خرگوشوں کے ساتھ جنگ

دوستو ایمس اور مینڈکوں کے علاوہ ڈیڑھ صدی سے آسٹریلیا کی ایک جنگ جنگلی خرگوشوں کے ساتھ بھی جاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مینڈکوں کی طرح یہ خرگوش بھی آسٹریلیا کے مقامی جانور نہیں تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ 1859 میں کچھ برطانوی باشندوں نے شکار کرنے کی خاطر 13 خرگوش منگوائے اور انہیں وکٹوریا سٹیٹ میں چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے وہ برطانوی باشندے ان تمام خرگوشوں کا شکار نہ کر پائے اور ان خرگوشوں نے اپنی افزائش نسل انتہائی تیزی سے شروع کردی۔ موافق آب و ہوا اور سبزے کی فروانی کے باعث جلد ہی یہ خرگوش وکٹوریا سٹیٹ کے ساتھ ساتھ نیوساؤتھ ویلز سٹیٹ، کوئینرلینڈ اور شمالی آسٹریلیا تک پھیل گئے۔ ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا اور اگلی چند دہائیوں میں ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔  فصلوں کی تباہی اور اناج کی کمی کے باعث انیسیویں صدی میں آسٹریلوی حکومت نے اس خطرے سے نمٹنے کے لئے ایک باڑ تعمیر کی لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہ ہوا تو بیسیویں صدی میں حکام نے اس خطرے سے نبٹنے کا فیصلہ کیا اور انہیں باقاعدہ شوٹ کرنے کے آرڈر جاری کئے۔ اس کے علاوہ کچھ زہر بھی متعارف کروائے گئے لیکن ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ چنانچہ 1950 میں ان کے مکمل خاتمے کے لئے میکسوما (Maxoma) وائرس متعارف کروایا گیا۔ اس وائرس نے اپنا کام دکھایا اور کچھ ہی عرصے میں 6 سو ملین خرگوشوں میں سے صرف ایک سو ملین خرگوش باقی بچ گئے۔ 90 کی دہائی تک وائرس کافی کامیاب رہا لیکن کیونکہ کسی بھی وائرس کے خلاف جانوروں کا امیون سسٹم کچھ سالوں میں مدافعت پیدا کر لیتا ہے چنانچہ پچھلی کچھ دہائیوں میں خرگوشوں کے مدافعتی نظام مضطوط ہوگئے اور یہ ایک سو ملین خرگوش ایک بار پھر بڑھ کر تقریباً 200 ملین تک پہنچ گئے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ خرگوشوں سے بھی یہ جنگ آسٹریلیا ہار چکا ہے۔  

آسٹریلیا کو لاحق مزید خطرات 

دوستو ایک رپورٹ کے مطابق خرگوشوں، ایمس، کتوں اور مینڈکوں کے علاوہ آسٹریلیا کو جنگلی چوہوں سے بھی خطرہ ہے اور آسٹریلیا کی تاریخ کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ہوسکتا ہے آنے والے وقتوں میں آسٹریلیا کو ان چوہوں سے بھی جنگ کرنی پڑے۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے آسٹریلیا نے مختلف قسم کے اقدامات بھی شروع کردئیے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق نیو ساؤتھ ویلز کی حکومت نے چوہوں کو ختم کرنے کے کیمیکل بنانے کے لئے کئی ملینز آسٹریلوی ڈالر کے فنڈز بھی جاری کر دئیے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu