Home History صحرائے اعظم

صحرائے اعظم

by bigsocho
0 comment

 آج ہم بات کریں گے ایک ایسے وسیع و عریض ریگستان کی جسے صحرائے اعظم یا “صحارا” کہا جاتا ہے۔ شمالی افریقہ کےوسیع رقبے پر پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا یہ صحرا جہاں شدید گرمی بھی پڑتی ہے اور برف باری بھی ہوتی ہے، کب وجود میں آیا؟ یہ ویران ، اجاڑ اور لق دق صحرا ہزاروں سال پہلے کیسا تھا، سینکڑوں میٹر اونچے ٹیلوں کا مرکز یہ علاقہ اپنے اندر کونسے راز لئیے ہوئے ہے۔۔؟ لاکھوں سال پہلے 30 ہزار اقسام کے جانوروں کا یہ مسکن کیا دوبارہ کبھی زندگی سے بھرپور ہوسکتا ہے؟  یہاں کتنے دریا، جھیلیں اور نخلستان موجود ہیں اور کتنے قبائل آباد ہیں۔۔ یہ سب جانیں گے آپ آج کی اس ویڈیو میں۔۔۔  

صحرائے اعظم کتنا بڑا ہے؟

دوستو، صحرا زمین کا ایسا بنجر،اجاڑ خطہ ہوتا ہے جہاں بارشیں نہ ہونے کے برابر ہوں اور زندگی ناپید ہو۔ ریتلے علاقوں کے علاوہ برفانی اور خشک پہاڑی علاقہ جات بھی صحرا میں شمار ہوتے ہیں۔ صحرائے اعظم یعنی صحارا کو دو برفانی صحراؤں آرکٹک (Arctic) اور انٹارکٹکا (antarctica)  کے بعد دنیا کا تیسرا جبکہ دنیا کے گرم اور ریتلے صحراؤں میں سب سے بڑا صحرا تصور کیا جاتا ہے۔ تقریباً 92 لاکھ مربع کلومیٹر وسیع و عریض ریت کا یہ سمندر گیارہ ممالک پر پھیلا ہوا ہے جن میں مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر، ماریطانیہ، مالی، نائیجر، چاڈ اور سوڈان شامل ہیں۔ جبکہ ایک ملک یا علاقہ مغربی صحارا کہلاتا ہے۔ یہ صحرا مشرق سے مغرب تقریباً 4800 کلومیٹر تک لمبا ہے جبکہ شمال سے جنوب اس کی چوڑائی تقریباً 800 سے 1200 کلومیٹر ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا کے کل رقبے کا 8 فیصد بنتا ہے اور چائنہ، یونائیٹڈ سٹیٹ آف امریکہ اور صحارا تقریباً ایک جتنے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق پچھلی ایک صدی کے دوران اس صحرا کا رقبہ تقریبا 10 فیصد بڑھ چکا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 

صحارا کا محل وقوع 

دوستو صحارا کے مغرب میں اٹلانک اوشن یعنی بحرِ اوقیانوس واقع ہے، شمال میں بحیرہ روم اور اطلس کا پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ مشرق میں ریڈ سی (Red Sea) یعنی بحیرہ احمر ہے جبکہ جنوب میں ایک سرحدی پٹی ہے جسے “ساحل” کہا جاتا ہے۔ یہ پٹی دراصل ایک نیم صحرائی چٹیل میدان کی صورت میں ہے جو پچھلی کچھ دہائیوں میں ہونے والی قحط سالی اور درختوں کی کٹائی کے باعث آہستہ آہستہ صحرا میں تبدیل ہورہی ہے۔ اس علاقے کو صحرا کے اثرات سے بچانے کے لئے افریقن یونین نے ایک پروگرام کے تحت لاکھوں درخت لگانے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔

دوستو ویسے تو اس صحرا کو عرف عام میں صحارا کہا جاتا ہے جو کہ عربی زبان کا لفظ ہے لیکن اس کے مختلف علاقوں کے اپنے علیحدہ علیحدہ مقامی نام بھی ہیں۔ مقامی لوگ اسے انہی ناموں سے پکارتے ہیں 

زمین کی بناوٹ اور آب و ہوا

دوستو دلچسپ بات یہ ہے کہ ریت کے اس وسیع و عریض سمندر میں ریت کی مقدار صرف 25 فیصد ہے۔ باقی 75 فیصد علاقہ پتھریلی زمین، نمکیات، چٹانوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس میدان میں کئی پہاڑی سلسلے موجود ہیں صحارا کا سب سے اونچا مقام یعنی آتش فشانی پہاڑ “ایمی کوسی” (Emi Koussi) ہے۔ اس پہاڑ کی اونچائی تقریباً 3415 میٹر ہے۔ 

صحارا کا سب سے زیریں مقام مصر میں ہے جو سطح سمندر سے تقریباً 133 میٹر نیچے ہے۔ 

دوستو صحارا عموماً سارا سال خشک ہی رہتا ہے لیکن اس کے شمال اور جنوب کے کچھ حصوں میں بارشیں ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں کئی کئی سال بارش نہیں ہوتی۔ اس گرم اور خشک صحرا کا اوسطاً درجہ حرات 30 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 58 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دن کے مقابلے میں یہاں کی راتیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور بعض علاقوں میں تو ٹھنڈ کے باعث برف تک جم جاتی ہے۔ رات کے وقت کم سے کم درجہ حرات منفی 6 سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 

ریت کے ٹیلے اور آندھیاں

دوستو صحارا میں جو سب سے حیران کن اور دلچسپ چیز ہے وہ اس کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں۔ یہ ٹیلے زیادہ تر گریٹ ایسٹرن ارگ (Great Western Erg) میں واقع ہیں۔ بعض مقامات پر ان ٹیلوں کی اونچائی 200 میٹر تک ہوسکتی ہے۔ تیز ہواؤں اور خوفناک آندھیوں کے باعث یہ ٹیلے اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔ یہ آندھیاں بعض اوقات دو دو دن لگاتار چلتی رہتی ہیں اور پورے صحرا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ طوفان 15 سو میٹر بلند ہوسکتے ہیں۔ ان مٹی کے طوفانوں کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ 2011 میں آنے والا ایک طوفان تقریباً 1100 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ 

صحارا کب وجود میں آیا

دوستو صحارا کی صحیح عمر کے حوالے سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ کچھ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق یہ وسیع و عریض اور لامحدود میدان آج سے تقریباً 3 ملین سال پہلے خشک ہو کر صحرا کی شکل اختیار کرگیا۔ جبکہ 2006 میں چاڈ میں ملنے والے 7 ملین سال پرانے ایک ٹیلے کی عمر سے کچھ ماہرین یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ میدان کئی  ملین سال پرانا ہوسکتا ہے۔ لیکن آج اس کی موجودہ بناوٹ پہ تقریباً تمام ماہرین متفق ہیں کہ تقریباً پچھلے دو ہزار سال سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ ریگستان کی شکل میں ہی موجود ہے۔ انسانی زندگی کا ثبوت اس صحرا میں تقریباً 7 ہزار سال قبل ملتا ہے۔ پہاڑوں پر موجود کچھ نقاشی اور مصوری سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 7 ہزار سال پہلے رہنے والے انسان یہاں مویشی پالتے تھے اور کاشت کاری بھی کرتے تھے۔ 

صحارا کی انسانی آبادی 

اس بے آب و گیاہ میدان میں ویسے تو زندگی کا تصور ناممکن سا نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کچھ قبائل رہائش پذیر ہیں۔ ان خانہ بدوش قبائل کے افراد کی تعداد تقریباً دو ملین کے قریب ہے۔ یہاں پر کچھ ایسے قبائل کے شواہد بھی ملتے ہیں جو صدیوں سے آباد ہیں۔ ان میں سب سے مشہور قبیلہ بربر (Berber) قبیلہ ہے جو صحرا کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ اونٹ ، بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں اور یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اس کے علاوہ ایک قبیلہ توریگ (Tuareg) ہے جو اپنی جنگجو فطرت اور بہادری کی وجہ سے مشہور ہے۔ صحرا کے مغربی حصے میں قبیلہ مورز(Moors) کے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر آبادی مسلمان قبائل پر مشتمل ہے۔ 

صحارا میں حیوانات و نباتات 

دوستو اس سنسان ریگستان میں نہ صرف انسانی آبادی موجود ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں کی بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ اونٹ، بھیڑ، بکریاں، بھینیس اور پرندوں میں عقاب، شاہین اور الووں کی کئی اقسام یہاں موجود ہیں۔ یہاں حشرات العرض اور ریپٹائل (Reptiles) کی بھی بیش شمار اقسام موجود ہیں جن میں سانپ، گلہریاں، چھپکلیاں اور بچھو شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ خشک موسم میں اگنے والی نباتات اور درختوں کی بھ ی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ کچھ علاقے جہاں بارشیں ہوتی ہیں وہاں کئی اقسام کے پودوں، بیلوں اور جنگلی جڑی بوٹیوں کی بہتات ہے۔ صحارا میں تقریباً 90 کے قریب ایسے نخلستان بھی ملتے ہیں جو کھجور کے درختوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔  

معدنیات اور زراعت

دوستو ہزاروں سال پہلے یہ صحرا ایک شاداب اور سرسبز میدان ہوا کرتا تھا۔ یہاں تواتر سے بارشیں ہوتی تھیں اور کئی ندی نالے اور دریا بہتے تھے۔ ماہرین کے مطابق ان دریاؤں اور جھیلوں کے آثار  آج بھی زیرِ زمین موجود ہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پچھلی کچھ دہائیوں میں مصری حکومت نے صحرا کو قابل زراعت بنانے کے لئے کافی اقدامات کئے ہیں۔ زیر زمین پانی کو مشینری کے زریعے باہر نکال کر دائروں کی شکل میں گندم اور آلو وغیرہ کے خوبصورت کھیت اگائے گئے ہیں۔ اس کامیاب تجربے کے بعد اس بے آب و گیاہ اور اجاڑ ریگستانی علاقے کو مزید قابل کاشت بنانے کے لئے کھیتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 

اس کے علاوہ لیبیا اور الجیریا میں آئل اور قدرتی گیسز اور مراکش میں فاسفورس  کے وسیع ذخائر بھی دریافت ہوچکے ہیں جو اس صحرا کی اہمیت میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ 

دلچسپ فیکٹس

صحارا تقریباً ہر 20 ہزار سال میں ایک بار سرسبز ہوجاتا ہے اور ایسا زمین کی گردش کے زاوئیے میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی کے باعث ہوتا ہے۔ سائنس کے مطابق تقریبا 15 ہزار سال بعد یہ صحرا ایک بار پھر سرسبز ہوجائے گا۔

 اس میلوں پھیلے ہوئے خشک اور گرم صحرا میں گزشتہ نصف صدی میں دو بار برف باری بھی ہوچکی ہے۔ پہلی بار یہاں 1970 میں جبکہ دوسری بار یہاں 2012 میں برف پڑی تھی

اس صحرا میں تقریبا 20 موسمیاتی جھیلیں موجود ہیں لیکن ان میں صرف ایک جھیل چاڈ ہی واحد ایسی جھیل ہے جس کا پانی قابل استعمال ہے۔

 اس صحرا میں ایک ریلوے ٹریک بھی موجود ہے۔ 704 کلومیٹر لمبا یہ ٹریک موریطانیہ حکومت نے 1963 میں بنایا تھا۔ اس پر دنیا کی سب سے لمبی 25 سو میٹر طویل ٹرین چلتی ہے۔

صحارا کا یہ میدان قدیم افریقہ کی ایک اہم تجارتی گزرگاہ بھی تھا۔ زمانہ قدیم میں اس راستے سے سوڈان اور مصر کے درمیان ہزاروں اونٹوں پر کوپر، نمک اور سونے کی تجارت ہوتی تھی

اس صحرا میں کچھ مقامات پہ ڈائینسارز کے ڈھانچے بھی ملے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق 80 ملین سال پرانے یہ  ڈھانچے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ صحرا کبھی ہرا بھرا اور زندگی سے بھرپور ہوا کرتا تھا۔

 اس ریت کے طویل سمندر کو پہلی بارایک برطانوی مہم جُو نے 1986 میں پار کیا تھا۔ اس نے تقریباً 4500 میل کا فاصلہ ایک اونٹ کے ساتھ طے کیا۔ مائیکل اس سفر کے دوران تقریبا تین سال تک سوڈان کے خانہ بدوش قبائل کے ساتھ رہا۔

اس صحرا میں دو دریا بھی بہتے ہیں جن میں سے ایک دریا نائیجر جبکہ دوسرا دریا نیل ہے۔ تقریبا ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر لمبا دریائے نیل صحارا میں تقریبا 1500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا ہ

ایک ریسرچ کے مطابق اگر صحارا میں سولر انرجی کے پینلز اور وِنڈ ملز (Windmills) لگا دی جائیں تو اس منصوبے سے کئی ملین (Millions) میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

 

 

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu