Home Interesting Facts کیا واقعی پرانے لوگوں کی عمریں زیادہ ہوا کرتی تھیں؟

کیا واقعی پرانے لوگوں کی عمریں زیادہ ہوا کرتی تھیں؟

by bigsocho
0 comment

انسان تمدنی زندگی کے آغاز سے پہلے جنگلوں میں شکار کھیلتا تھا، سرد موسم غاروں میں چھپ کر گزارتا تھا اور بھوک مٹانے کے لیے بے شمار جتن کرتا تھا، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان کا زندگی گزارنے کا طریقہ بھی ماضی سے مختلف ہوتا گیا، پچھلی چند دہائیوں میں دنیا بھر میں اوسط لائف یا لائف ایک۔سپیک۔ٹنسی۔ کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے- جس کی بڑی وجہ بہتر طبی سہولیات کی فراہمی ہے۔ لیکن آج بھی ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہماری نسبت ہمارے آباؤاجداد زیادہ لمبی زندگی جیتے تھے، آج کی اس ویڈیو میں ہم سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر اس مٖفروضے کا جائزہ لیں گےاور  جاننے کی کوشش کریں گے کہ دورِحاضر کا انسان اپنے آباواجداد کی نسبت کم جی رہا ہے اور کیا واقعی گزرے زمانوں میں انسانوں کی عمریں آج کے انسان سے زیادہ ہوا کرتی تھیں یا یہ محض مفروضے ہی ہیں۔

19ویں صدی کے بعد سے انسانی عمر میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بڑی وجہ حفاظتی ٹیکے، محفوظ زچگی، متعدی امراض پر قابو اور بہتر صفائی ستھرائی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے 1960 سے دنیا بھر کے افراد کی اوسط عمر کا ڈیٹا اکٹھا کرنا شروع کیا- اس وقت دنیا بھر میں انسانوں کی اوسط عمر 52.5 سال تھی- جبکہ آج یہ اوسط 72 سال ہے- 

برطانیہ میں پیدائش اور اموات کا اندراج سنہ 1841 سے ہو رہا ہے- اس ریکارڈکے مطابق 1841 میں پیدا ہونے والے لڑکے کی اوسط عمر 40 سال اور لڑکی کی اوسط عمر 42 سال ہوا کرتی تھی-جبکہ آج برطانیہ میں پیدا ہونے والے لڑکے کی اوسط عمر 79 سال اور لڑکی کی 83 سال ہے- اس تحقیق سے یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ دورے حاضر میں انسان جدید طبی ٹیکنالوجی اور صحت عامہ کی بہتری کی وجہ سے اپنے آباواجداد سے ذیادہ طویل زندگیاں تو پا رہا ہے مگرافسوس وہ ماضی کی طرح خوش باش نہیں رہا۔ 

ایک اورسائنسی تحقیق کے مطابق انسان اپنی زیادہ سے زیادہ طبعی عمر تک پہنچنے والا ہے جس کے بعدلائف ایکسپیکٹنسی کو مزید بڑھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا- 

سمتبر 2018 میں ادارے برائے قومی شماریات نے یہ بات واضح کی ہے کہ برطانیہ میں افراد کی اوسط عمر میں اضافے کی شرح صفر ہو گئی ہے اوراسی طرح تمام دنیا میں لائف ایکسپیکٹنسی کے بڑھنے کی شرح کم ہو رہی ہے

قدیم رومن ڈیموگرافی کے ایک ممتاز اسکالر ، اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے تاریخ دان والٹر شیڈیل کا کہنا ہے کہ ، ” لائف ایکسپیکٹنسی اور لائف سپیں کے درمیان ایک بنیادی امتیاز ہے۔” آپ کی آسانی کے لیے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ لائف ایکسپیکٹنسی اور لائف سپیں میں بنیادی فرق ہے کیا۔ انسان کی اوسط عمر یعنی اوریجلائف ایکسپیکٹنسی اور انسان کی طبعی عمریعنی   لائف سپیں دو مختلف چیزیں ہیں.

انسان کی  اوریج لائف ایکسپیکٹنسی ایک شماریاتی تصور ہے جس میں ہر مرنے والے کی عمر شمار کی جاتی ہے اور اس ڈیٹا سے اوسط عمر کیلکولیٹ کی جاتی ہے- مثال کے طور پر اگر کسی معاشرے میں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے تو اس معاشرے کی اوسط عمر کم ہوگی۔ 

یعنی اگر کسی شخص کے دو بچے ہوں جن میں سے ایک 70 سال کی عمر میں وفات پائے لیکن دوسرا ایک سال سے کم کی عمر میں ہی وفات پا جائے تو اس شخص کے بچوں کی اوسط عمر 35 برس شمار ہو گی-

اس کے برعکس انسان کی طبعی عمر کا تصور یہ ہے کہ اگر انسان کسی موذی بیماری کا شکار نہ ہو اور طبعی موت مرے تو اس کی عمر کتنی ہو گی۔ اس عدد میں بچپن یا جوانی میں مرنے والوں کی عمر شامل نہیں کی جاتی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو افراد 40 سال سے زیادہ عمر پاتے ہیں ان کی اوسط عمر کتنی ہوتی ہے۔ اوسظ عمر یا لائف ایکسپیکٹنسی ہمیں بنیادی طور پر بچوں کے ماحول سے متعلق معلومات فراہم کرتی ہے- جس معاشرے میں بیماریاں زیادہ ہوں گی اور دواؤں تک پہنچ کم ہو گی اس معاشرے میں لائف ایکسپیکٹنسی ریٹ بھی کم ہوگا-

 صدیاں پہلےاکثر معاشروں میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں-اس وجہ سے ماضی میں انسان کی اوریج  لائف ایکسپیکٹنسی نسبتاً کم ہوا کرتی تھی، آج بھی دیکھا جائے تو کئی ملکوں میں بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔  کچھ ترقی پذیر ملکوں میں لائف ایکسپیکٹنسی ریٹ اب بھی ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ 

تاریخ میں نظر دہرائی جائے تو طبی سہولتوں کے مکمل فقدان کی وجہ سے قدیم یونان میں لوگوں کی اوسط عمر یعنی اوریج لائف ایکسپیکٹنسی صرف 30 سے 35 سال ہوا کرتی تھی- لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ اس زمانے میں 30 سال کے افراد کو بوڑھا تصور کیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم یونانی اور روم کے لوگ 50 یا 60 سال کی عمر کے کسی شخص کو دیکھ کے حیرت زدہ ہو جایا کرتے تھے، 

قدیم یونانی مصنفین عمومی طور پر اس بات کے حق میں تھے کہ 30 سال سے کم عمر کے لوگوں کو کوئی سیاسی عہدہ نہ دیا جائے-تاہم شہنشاہ آگسٹس کےدور میں عمر کی حد کو کم کرکے 25 کردیا گیا تھا۔ آگسٹس کا خود 75 سال میں انتقال ہوگیا تھا۔ پرانے وقتوں میں یونانی کونسل کا ممبر بننے کے لیے کم سے کم عمر کی حد 43 سال تھی۔ ساتویں صدی قبل مسیح کے شروع میں ، یونانی شاعر ہیسیوڈ نے لکھاتھا کہ ” آپ کو 30 سال کی عمر میں شادی کر لینی چاہیے نہ اس سے پہلےکرنی چاہیے  اور نہ بعد میں، ان دنوں کی دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو سو برس یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک زندہ رہے- پرانی قبروں کے لوحِ مزار پر بھی بع ض اوقات مرنے والے کی عمر لکھی ہوتی تھی- اس زمانے کے ایسے لوحِ مزار موجود ہیں جن میں مرنے والے کی عمر سو سال کے لگ بھگ لکھی گئی ہے- 

اس تحقیق سے یہ بات تو طے ہے کہ آج سے دو اڑھائی ہزار سال پہلے بھی کچھ لوگ سو سال کے لگ بھگ کی عمر پاتے تھے- تاہم مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے لیے زندگی گزارنا ان دنوں میں انتہائی مشکل ہوا کرتا تھا۔ پہلی صدی میں ، رومی مصنف پلینی نے اپنی کتاب  میں قدرتی تاریخ کا ایک پورا باب ان لوگوں کے لئے وقف کیا جو طویل عرصے تک زندہ رہتے تھے۔تاہم ایک جگہ پلینی نے کہا انسان کے لیے قدرت کا خوبصورت تخفہ کم زندگی ہے۔

اسے طرح 1994میں 100 قبل مسیح سے پہلے اور بعد میں پیدا ہونے والے چار سو افراد کی عمروں پر تحقیق کی گئی، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ جو افراد 100 قبل مسیح سے پہلے پیدا ہوئے تھےان لوگوں کی اوریج لائف ایکسپیکٹنسی 72 سال تھی، جبکہ 100 قبل مسیح کے بعد پیدا ہونے والے یونانی افراد کی اوریج لائف ایکسپیکٹنسی66 سال تھی، اس فرق کی بنیادی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ اسی زمانے میں یونان میں سیسہ یعنی lead کے پائپ پانی کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے لگے تھے-

آج ہم جانتے ہیں کہ lead poisoning انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے- ہوسکتا ہےاسی lead poisoning کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں کی لائف ایکسپیکٹنسی ریٹ کم ہو گئیں۔ اس کے برعکس 1850 اور 1949 کے درمیان وفات پانے والے افراد کی اوریج لائف ایکسپیکٹنسی 71 سال تھی جو 100 قبل مسیح کی اوسط عمر کے تقریباً برابر ہے- 

لیکن 100 قبل مسیح سے متعلق کی گئی یہ سٹڈی بہت زیادہ قابلِ اعتماد تصور نہیں کی جاتی۔ کیونکہ اس سٹڈی میں صرف مردوں کو شامل کیا گیا تھاسٹدی میں شامل تمام افراد کا تعلق امیر خاندانوں سےتھا جن کے پاس بہت سی سہولیات موجود تھیں۔  جبکہ اس سٹڈی میں ایک بھی خاتون شامل نہیں تھی۔ چنانچہ اس سٹڈی سے ہم صرف یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آج سے دو اڑھائی ہزار سال پہلے یونان کے امیر مردوں کی طبعی عمر کم و بیش وہی تھی جو آج ہے۔ اس سٹدی سے متعلق کچھ ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں متوسط طبقے کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور سوائے چند امیر خاندانوں کے کسی کے پاس ایسی سہولیات میسر نہیں تھیں جن سے عام انسان اتنی لمبی عمر پا سکتے-

روم کی لا سیپینزا یونیورسٹی کی میڈیکل مورخ ویلنٹینا گازانیگا کا کہنا ہے کہ ، “ایک غریب اور امیر رومن کے طرز زندگی میں بہت زیادہ فرق تھا۔” “زندگی کے حالات ، طبی علاج تک رسائی ، حفظان صحت کے مواقعہ غریب کی نسبت امیر کے پاس ذیادہ بہتر ہوا کرتے تھے،

2016 میں  ویلنٹینا گازانیگا نےایک نئی سٹڈی شائع کی،جس میں 2000 کے لگ بھگ قدیم رومن ڈھانچوں کا تجزیہ کیا گیا تھا جو عام شہریوں کے تھے جنہیں عام قبروں میں دفن کیا گیا تھا۔ ان میں سے اکثر ڈھانچوں سے یہ ظاہر ہوا کہ مرنے والوں کی عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی-

 ان کہ ہڈیوں کی حالت زار سے ظاہر تھا کہ یہ لوگ سخت محنت کش مزدور طبقے کے لوگ تھے اور ان میں سے اکثر کو جوڑوں کی بیماریاں مثلاً آرتھرائٹس لاحق تھیں- مزدوری اور حادثات کی وجہ سے بہت سے ڈھانچوں میں ٹوٹی ہڈیوں کے آثار بھی موجود تھے-

ان ڈھانچوں میں مردوں اور عورتوں کے ڈھانچے تقریباً برابر تعداد میں تھے- اس زمانے میں خواتین نہ صرف کھیتوں میں سخت محنت کرتی تھیں بلکہ حمل اور بچوں کی پیدائش بھی انہیں ادھ موا کر دیتی تھی- اس کے علاوہ بہت سی خواتین بچوں کی پیدائش کے عمل کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی تھیں- آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک مورخ جین ہمفریس کا کہنا ہے کہ ، “ہم جانتے ہیں ،حاملہ ہونے سے عورت کے مدافعتی نظام پر منفی اثر پڑتا ہے ، اور ان دنوں میں خطرناک بیماریوں کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے- پرانے زمانے میں خواتین میں حمل کے دوران ٹی بی کا خطرہ خصوصی طور پر زیادہ ہوا کرتا تھا۔ 

ویلنٹینا گازانیگا نے اپنی ریسرچ میں کہا کہ پرانے زمانے میں انسانوں کے پاس خوراک کی قلت رہتی تھی- ایسی صورت میں مردوں کو زیادہ غذائیت بھری خوراک دی جاتی تھی جبکہ خواتین کو کم خوراک میسر ہوتی تھی- اس وجہ سے لڑکیوں میں کمر کے نیچے کی ہڈیاں یعنی pelvic bones درست طور پر نشونما نہیں پاتی تھیں جس کا نتیجہ حمل میں پیچیدگیوں کی صورت میں نکلتا تھا۔ چنانچہ ان دنوں میں صرف ان عورتوں کی اوسط عمر زیادہ ہوتی تھی جن کے بچے نہ ہوں یا کم ہوں۔

ایک ریسرچ کے مطابق زمانہ قدیم میں پیدائش کے بعد تقریباً ایک تہائی بچے پہلے سال میں ہی وفات پا جاتے تھے- آدھے سے بھی کم بچے دس سال سے زیادہ عمر پاتے تھے- البتہ وہ شخص جو تیس سال سے زیادہ زندہ رہتا اس کے دیر تک زندہ رہنے کے امکانات روشن ہو جاتے تھے کیونکہ ایسے لوگ بہت مضبوط مدافعتی نظام کے مالک ہوتے تھے-

اس ریسرچ کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ادھیڑ عمر تک پہنچنے والے لوگوں کی اوسط عمر اس زمانے میں بھی قریب قریب وہی  تھی جو آج کل ہے لیکن ادھیڑ عمر تک پہنچنے کا امکان کم ہوتا تھا کیونکہ زیادہ تر لوگ بچپن یا جوانی میں ہی کسی بیماری یا بھوک اور افلاس کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتے تھے- سنہ 1200 سے 1745 کے عرصے میں یورپ کے باسیوں کی اوسط عمر سے متعلق بہت سا ڈیٹا دستیاب ہے- اس زمانے میں جو خوش نصیب 21 سال تک زندہ رہ پاتے،  ان کی لائف ایکسپیکٹنسی  62 سے 70 سال کے لگ بھگ ہوتی تھی۔

قدیم دور میں یورپی بادشاہوں اور لارڈز کے پاس بے انتہا دولت ہوا کرتی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس دولت کی حفاظت کے لیے انہیں مسلسل جنگوں میں شریک ہونا پڑتا تھا- اس وجہ سے اس زمانے میں بادشاہوں اور لارڈز کی اوریج لائف ایکپیکٹینسی عام شہریوں کی لائف ایکپیکٹینسی  سے کم ہوا کرتی تھی۔ لیکن جب سائنس کا دور شروع ہوا اور امراء نے جدید طبی سائنس سے فائدہ اٹھانا شروع کیا تو جنگوں کے باوجود امراء کی لائف ایکپکٹینسی عام شہریوں کی  لائف ایکپکٹینسی سے زیادہ ہو گئی-

قدیم معاشروں کے بارے میں اب تک جو ڈیٹا دستیاب ہے اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان کی اوسط عمر یعنی لائف ایکپیکٹینسی جتنی آج کل ہے اتنی پہلے کبھی نہیں رہی- دورے حاضر میں جدید طبی سہولیات کی وجہ سے شیرخوار بچوں میں اموات کی شرح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، بچے کی پیدائش کے دوران خواتین کی اموات کی شرح بھی مسلسل کم ہو رہی ہے- اس وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ طبعی عمر تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں- لیکن انسان کی طبعی عمر یعنی لائف سپیں میں کوئی زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور آج سے دو اڑھائی ہزار سال پہلے بھی انسان کی طبعی عمر کم و بیش وہی تھی جو آج ہے-

 یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے ہاں جو قصے مشہور ہیں کہ پرانے زمانے میں لوگوں کی عمریں کئی سو برس ہوا کرتی تھی  یہ تمام محض قصے یا حکایات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں- انسان کی طبعی عمر کئی صدیوں پر محیط ہونا بائیولوجیکلی ممکن نہیں ہے

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu