Home History شیر شاہ سوری

شیر شاہ سوری

by bigsocho
0 comment

دوستو شیر شاہ سوری نے ہندوستان پر تقریبا پانچ سال حکومت کی اور اس مختصر دور حکومت میں انہوں نے ریاست میں عدل قائم کرنے کی ایسی شاندار مثالیں قائم کیں کہ مخالفین بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے عدالتی نظام رائج کیا اور ایسے سخت اصول بنائے کہ ان کے کسی رشتے دار کو بھی ظلم و زیادتی کرنے پر معاف نہیں کیا جاتا تھا۔ 

اس حوالے سے ایک برطانوی مورخ نے لکھا ہے کہ

 “کسی حکومت نے حتیٰ کہ برٹش حکومت نے بھی ملک کے نظم و نسق میں گڈ گورنس اورانتظامی مہارت کا وہ ثبوت نہیں دیا جو شیر شاہ سوری نے دیا۔”

اس کے علاوہ سکوں اور روپیے کی درجہ بندی اور ویلیو متعین کرنا شیر شاہ کا ایسا کارنامہ جو آج بھی ان کی دوراندیشی اور دانشمندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے چاندی کے سکے کو روپیہ، تانبے کے سکے کو دام اور سونے کے سکے کو مُہر کا نام دیا۔ یہ نام آج بھی برصغیر اور دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہیں۔ ان کے دور حکومت میں کرنسی کا جو نظام متعارف کروایا گیا وہ ان کے بعد آنے والے مغلیہ حکمرانوں حتی کہ برٹش حکومت نے بھی تھوڑی سی تبدیلی ساتھ جاری رکھا۔ 

اس کے علاوہ شیر شاہ کا ایک اور شاندار کارنامہ جرنیلی سڑک اور قبل مسیح کے ہندوستانی راجا چندرگپت موریا کے دور کی تعمیر شدہ شاہراؤں کی تعمیر و توسیع ہے۔ ان شاہراؤں میں سب سے شاندار گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جی ٹی روڈ ہے جرنیلی سڑک کو یہ نام انگریزوں کے دور میں دیا گیا۔ یہ شاہراہ تقریباً 2500 کلومیٹر لمبی ہے اور بنگال سے شروع ہوکر کابل تک چلی جاتی ہے۔ ایک سڑک آگرہ سے برہان بور، ایک سڑک آگرہ سے راجستھان اور ایک شاہراہ ملتان سے لاہور تک چلی آتی ہے۔ یہ شاہرائیں آج بھی مختلف ناموں سے ہندوستان، افغانستان اور پاکستان میں موجود ہیں۔ 

اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستان کی اہم ترین شاہراوں کے اردگرد درخت لگوائے اور 1700 کے قریب ایسی سرائیں تعمیر کروائیں جہاں مسافروں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ان سراؤں میں مساجد، کنوئیں اور مسافروں کی جان و مال کی حفاظت کیلیے چوبیس گھنٹے عملہ موجود رہتا تھا۔ ہندووں اور مسلمانوں دونوں کے لئے کھانے پینے کا الگ الگ انتظام ہوتا تھا اور ان تمام انتظامات کا خرچ ریاست کے ذمے تھا۔ 

انہوں نے جگہ جگہ راستوں پہ ایسی چھاؤنیاں بنوائیں جہاں ڈاک پہنچانے کے مکمل انتظامات موجود تھے۔ ان چھاؤنیوں میں وقت پر ڈاک اور حکومتی احکامات پہنچانے کے لئے ہر وقت چاک و چوبند گھڑ سوار موجود رہتے تھے۔  

دوستو ان تمام کارناموں کے علاوہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ کچھ ایسی زرعی اصلاحات تھیں جن کے بدولت اس وقت کا کاشتکار خوشحال ہوا۔ انہوں نے پورے ہندوستان میں کسانوں کی زمین کی پیمائش کے لئے پیمانے مقرر کئے۔ انہی پیمانوں کے حساب سے ٹیکس کا نظام متعارف کروایا۔ انہی زرعی اصلاحات کی بدولت لینڈ ریکارڈ جیسے محکمے کی بنیاد پڑی۔ دوستو شیر شاہ کی یہ زرعی اصلاحات ایک ایسا دانشمندانہ عمل تھا کہ بعد میں آنے والے حکمران بھی انہیں اپنانے پر مجبور ہوئے۔ 

ہندوستان میں جو بدامنی اور جرائم کا سلسلہ اس دور میں چل رہا تھا اس کو ختم کرنے کا سہرا بھی شیر شاہ کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے مجرموں کے لئے ایسے سخت قوانین بنائے کہ جرائم پیشہ افراد انکا تصور کر کے ہی کانپ اٹھتے تھے۔ انہوں نے ہر گاؤں کے سردار پر ذمہ داری عائد کردی تھی کہ ان کی حدود میں اگر کوئی جرم ہوا اور مجرم نہ پکڑا گیا تو اس کی سزا سردار کو ملے گی۔ ان کے عدل کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار انہوں نے اپنے  بیٹے عادل خان کو ایسی سخت سزا سنائی کہ پورا دربار کانپ اٹھا تھا۔

قلعہ شیرگڑھ اور قلعہ روہتاس 

شیر شاہ نے اپنی زندگی میں بہت سے عظیم و شان قلعے بنوائے جو آج بھی اپنے شاندار ماضی کا پتہ دیتے ہیں۔ ان میں ایک قلعہ شیر گڑھ ہے جو صوبہ بہار میں واقعہ ہے۔ یہ قلعہ 1540 سے 1545 کے درمیان تعمیر ہوا اور اس کا نام شیر شاہ سوری نے اپنے نام پر رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی عظیم تعمیرات میں پرانا قلعہ دہلی بھی شامل ہے جو ہمایوں نے اپنے دور میں بنوانا شروع کیا تھا لیکن 1541 میں اس قلعے کی مزید توسیع اور مرمت شیر شاہ سوری کا کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ  پاکستان کے ضلع جہلم میں دریائے جہلم کے کنارے موجود قلعہ روہتاس بھی انہی کی عظیم و الشان تعیرات میں شامل ہوتا ہے۔ یہ قلعہ 1542 میں تعمیر ہوا اور آج پاکستان کے مقبول تاریخی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے چھوٹے بڑے قلعے بنوائے جن میں بہار کے علاقہ سہسرام میں واقع  ان کا اپنا مقبرہ بھی شامل ہے جو ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے مکمل کروایا۔

شیر شاہ سوری کا خاندانی پس منظر 

شیر شاہ سوری کے اباو اجداد سور قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قبیلے کے جد امجد محمد سور کا تعلق غوری خاندان سے بتایا جاتا ہے۔ افغانستان آکر انہوں نے ایک سردار کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہیں بس گئے۔ دوستو یہ وہ دور تھا جب دہلی پر افغان قبیلے ساہوخیل کے سردار سلطان بہلول لودھی حکومت کر رہے تھے۔ سلطان کی خواہش تھی ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ افغان آکر آباد ہوں۔ انہوں نے افغانوں کو نوکریاں، جاگیریں اور معاش کے ذرائع دینے کا وعدہ کیا۔ ان کی اس فیاضی کو دیکھتے ہوئے بڑی تعداد میں افغان ہجرت کرکے دہلی اور اردگرد کے علاقوں میں آکر آباد ہونا شروع ہوگئے۔ انہی ہجرت کرنے والوں میں سور قبیلے سے شیر شاہ کے دادا ابراہیم خان بھی اپنے بیٹے ساتھ ہندوستان آگئے۔ ہندوستان آکر وہ ایک سردار جمال خاں سارنگ خانی کے ہاں ملازم ہوگئے اور بے مثال خدمت پر کئی گاؤں اور چالیس گھڑ سواروں کی فوج تحفے میں حاصل کی۔ 

شیر شاہ سوری کے ابتدائی حالات زندگی

دوستو شیر شاہ کے والد نے اپنی زندگی میں چار شادیاں کیں اور ان کے آٹھ بیٹے ہوئے۔ شیر شاہ اپنے آٹھ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کی پیدائش 1486 عیسوی میں دہلی کے ایک علاقے فیروزہ میں ہوئی اور ان کا نام فرید خان رکھا گیا۔ شیر شاہ کی پیدائش کے کچھ سال بعد انکے دادا ابراہیم خاں وفات پا گئے تو سلطان بہلول کے ایک وزیر عمر خاں نے ضلع روہتاس میں سہسرام  اور کچھ مزید علاقے بھی بطور تحفہ شیر شاہ کے والد کو دے دئیے۔ سوتیلی ماں اور بھائیوں سے ان جاگیروں کی تقسیم پر انکے اختلافات پیدا ہوگئے اور وہ ناراض ہوکر جون پور آگئے۔ یہاں آکر انہوں نے جمال خاں سارنگ خانی کے ہاں ملازمت اختیار کرلی۔ اسی ملازمت کے دوران انہوں نے اپنی تعلیم پر بھی توجہ دی اور عربی ، فارسی کے علاوہ مختلف مذاہب کا مطالعہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد جمال خان نے باپ اور بیٹے کی صلح کروا دی اور شیر شاہ کو سہسرام اور خواص پور کی جاگیر مل گئی۔

دوستو شیر شاہ نے ان علاقوں کا انتظام سنبھالا تو بہت سی ایسی اصلاحات نافذ کیں جن کی بدولت ان کی گڈ گورننس کا چرچا دور دور تک ہونے لگا۔ لیکن کچھ خاندانی اختلافات کے باعث وہ اس جاگیرکو چھوڑ کر ایک مغل گورنر بہار خان لوہانی کے پاس آگئے جو اس وقت اُن علاقوں پہ حکمران تھے جن میں شیر شاہ کی جاگیر بھی آتی تھیں۔ بہار خان لوہانی نے ہی انہیں ایک بار شیر کا شکار کرنے پر شیر خان کا لقب عطا کیا تھا۔ 

مغل فوج میں شمولیت

دوستو یہ وہ دور تھا جب لودھیوں کی حکومت ختم ہورہی تھی اور ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کا سورج طلوع ہورہا تھا۔ انہی دنوں بہار خاں اور شیر شاہ کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوئے جس کے بعد 1527 عیسوی میں وہ “کھانوا” کی جنگ کے بعد بابر کی فوج میں شامل ہوگئے۔ تقریباً سوا سال تک مغل فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد انہیں ان کی جاگیر واپس مل گئی۔  

بابر سے اختلافات 

دوستو اس عرصے میں شہنشاہ بابر، شیر شاہ کی قائدانہ صلاحیتوں کو بہت قریب سے دیکھ چکے تھے اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خائف تھے۔ دوسری جانب شیر شاہ بھی چوکنا ہوگئے اور وہاں سے نکل کر ایک بار پھر بہار کے حاکم بہار خاں لوہانی کے دربار میں آگئے۔ بہار خاں نے اختلافات بھلا کر انہیں اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کردیا۔ کچھ عرصے بعد بہار خاں لوہانی کا انتقال ہوگیا تو شیر شاہ نے صوبہ بہار کا سارا انتظام خود سنبھال لیا۔ دوسری جانب اسی دوران 1530 میں شہنشاہ بابر کا بھی انتقال ہوگیا اور ہمایوں نے تخت سنبھال لیا۔ 

بنگال اور چنار کے قلعے کی فتح

دوستو اسی زمانے میں شیر شاہ کے لوہانی قبائل سے بھی اختلافات ہوگئے اور بہار کا انتظام بنگال کے حاکم کے پاس چلا گیا۔ شیر شاہ نے کئی افغان قبائل کو ساتھ ملا کر ایک بڑی فوج تیار کی اور 1533 میں انتہائی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے بنگالی فوج کو شکست سے دوچار کر دیا۔

دوستو اس جنگ کے بعد شیر شاہ کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ بنگال کی فتح کے بعد ان کا اگلا معرکہ اترپردیش میں چنار کا قلعہ تھا۔ یہ قلعہ اس وقت ہندوستان کے مضبوط ترین قلعوں میں شمار ہوتا تھا اور ایک سردار تاج خاں سارنگ کے پاس تھا۔ انہیں یہ قلعہ فتح کرنے کے لئے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑی کیونکہ تاج خان کو اس کے اپنے بیٹے نے قتل کردیا اور اس کی بیوی سے شیر شاہ نے نکاح کر لیا۔ اس فتح کے باعث ان کے ہاتھ بے انتہا دولت آئی۔  

ہمایوں سے جنگیں

دوستو ہمایوں کو جب افغانوں کی فتوحات کی خبر ہوئی تو وہ جنگ کرنے کی خاطر آگرہ سے فوج لے کر لکھنئو کی جانب بڑھا۔ اس وقت افغان قبائل کے سردار سلطان محمود شاہ تھے۔ یہ جنگ 1537 میں ہوئی۔ دوران جنگ شیر شاہ نے ہمایوں کو خفیہ طور پر پیغام بھیجا کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہوگا اور عین جنگ کے موقع پر درمیان میں سے نکل جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ شیر شاہ کے نکل جانے سے ہمایوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی۔ اس معرکے کے دو سال بعد ہمایوں ایک بار پھر فوجیں لے کر بڑھے لیکن اس بار ان کے سامنے شیر شاہ سوری تھے۔ شیر شاہ نے انہیں 1539 میں جنگ “چوسہ” میں شکست سے دوچار کیا اور فریدالدین شیر شاہ سوری کا لقب اپناتے ہوئے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔۔ ایک سال بعد شکست خوردہ ہمایوں ایک لاکھ فوج اکٹھی کرکے دوبارہ شیر شاہ کے سامنے آیا۔ قنوج کے مقام پر دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا لیکن ایک بار پھر ہمایوں کو شکست سے دوچار ہونا۔ اس شکست کے بعد ہمایوں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اس جنگ میں فتح حاصل کرنے بعد شیر شاہ پورے شمالی ہندوستان کے شہنشاہ کی حیثیت سے جانے گئے۔ 

وفات 

دوستو شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دینے کے بعد فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہی فتوحات کے سلسلے میں وہ اپنی فوج کو لے مدھیا پردیشن کے قلعے کالنجر کو فتح کرنے پہنچے۔ کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ نے پہلے اس قلعے پر صرف تیروں اور گولیوں کی بارش برسانے کا حکم دیا کیونکہ وہ اس قلعے میں موجود پٹار نامی ایک رقاصہ کو زندہ گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ راجہ کیرت سنگھ جو کہ کالنجر کے قلعے پر حاکم تھا اس نے خوب مقابلہ کیا اور قلعہ بند کر لیا۔ آخر کار شیر شاہ نے فوج کو قلعے پر گولہ باری کا حکم دیا۔ دوستو اسی گولہ باری کے نتیجے میں ایک گولہ دیوار سے ٹکرا کر واپس آیا جس سے شیر شاہ زخمی ہوگئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مئی 1545 عیسوی میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں صوبہ بہار میں سہسرام کے مقبرے میں دفن کیا گیا۔

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu