Home Interesting Facts مرزا غالب کی زندگی کے چند دلچسپ واقعات

مرزا غالب کی زندگی کے چند دلچسپ واقعات

by bigsocho
0 comment

اردو ادب کی بات ہورہی ہو اور مرزا غالب کا ذکر نہ آئے، ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ آج ہمیں ادب میں جو جدت اور شوخی نظر آتی ہے وہ ان کے ہی مرہون منت ہے۔ اگرچہ ان کے بہت سے ہم عصر شعرا نے بڑا نام پیدا کیا لیکن جو مقام انہیں ملا شاید وہ کسی اور شاعر کو نصیب نہ ہوا۔ شاعری کے علاوہ ان کی نثر جو کہ ان کے خطوط ہیں، اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ یہ خطوط جو انہوں نے 1847 سے 1869 کے درمیان اپنے احباب کولکھے آج ڈیڑھ صدی گزرنے کے بعد بھی ایک ادبی سرمایہ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ بعض اردو زبان کے ادبی پنڈتوں کے مطابق اگر وہ شاعری نہ بھی کرتے اور صرف یہی خطوط ہی لکھ جاتے تو بھی ان کا آج یہی مقام ہوتا۔ ان خطوط میں شوخی اور ظرافت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ 

ان کی اسی شوخ طبیعت کے حوالے سے  بہت سے دلچسپ واقعات اور ادبی لطائف بھی مشہور ہیں۔ آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کے ساتھ ان کی زندگی کے کچھ ایسے ہی واقعات شئیر کریں گے۔ 

مرزا غالب اور استاد ابراہیم ذوق 

دوستو یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر دلی دربار میں مشاعرے منعقد کروایا کرتے تھے۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور ابراہیم ذوق کو اپنا استاد مانتے تھے۔ اسی نسبت کی بنا پر دربار میں انہیں کافی اونچا مقام حاصل تھا۔ غالب بھی ان مشاعروں میں شریک ہوتے تھے لیکن ان کو دربار میں وہ اہمیت حاصل نہیں تھی جو ابراہیم ذوق کو حاصل تھی۔ بعض محقیقین کے مطابق غالب اور ذوق میں اسی وجہ سے کافی چپقلش اور نوک جھونک بھی رہتی تھی۔ اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار ذوق پرانی دلی کی ایک گلی سے گزر رہے تھے تو غالب کی نظر ان پہ پڑ گئی۔ انہوں نے شرارتاً ذوق پر فقرہ کسا کہ

“ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا”

انہوں نے مصرعہ سن لیا لیکن جواباً کچھ نہ بولے۔ غالب نے دوسری بار مصرعہ دہرایا۔ ساتھ کھڑے ہوئے لوگ ہنس پڑے۔ ذوق کافی شرمسار ہوئے لیکن وہاں سے خاموشی سے چلے گئے اور اس بات کی شکایت بہادر شاہ ظفر سے کردی۔ کچھ عرصہ بعد دربار میں مشاعرہ منعقد ہوا تو اس میں غالب بھی مدعو تھے۔ بادشاہ نے مشاعرہ شروع کرنے سے پہلے کہا:

 کچھ لوگ ہمارے استاد پر بڑے فقرے کس رہے ہیں”۔

لوگوں نے کہا ایسا ممکن نہیں تو ذوق کے ایک شاگرد بول اٹھے کہ “غالب نے ذوق پر جملہ کسا ہے”

بادشاہ نے جب غالب سے دریافت کیا تو وہ بولے: یہ تو میری ایک غزل کے آخری شعر کا پہلا مصرعہ ہے۔ بادشاہ کو شک گزرا تو انہوں نے درخواست کی پورا شعر سنایا جائے۔ غالب نے شعر سنایا:

بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

لوگوں نے بڑی داد دی لیکن ذوق اچھی طرح جانتے تھے کہ غالب نے اس پر کوئی غزل نہیں لکھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ غزل کا آخری شعر ہے تو باقی غزل بھی ہوگی، وہ سنائیے۔۔ 

چنانچہ غالب نے وہیں بیٹھے بیٹھے فی البدیہہ پوری غزل سنا دی اور بہت سی داد وصول کی۔

سرکاری نوکری اور مرزا غالب

دوستو ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ انگریز حکومت نے 1842 میں دہلی کالج کا انتظام سنبھالا تو انہیں عربی اور فارسی کے اساتذہ درکار تھے۔ اس وقت حکومت ہند کے سیکرٹری مسٹر ٹامسن تھے۔ وہ دلی آئے اور فارسی استاد تلاش کرنے لگے۔ لوگوں نے انہیں مرزا صاحب کے متعلق بتایا تو انہوں نے بلاوا بھیج دیا۔ دوسرے دن غالب نے درباری سوٹ زیب تن کیا اور پالکی میں سوار ہوکر بڑے ٹھاٹھ سے مسٹر ٹامسن کی کوٹھی پر جا پہنچے۔ کافی دیر تک پالکی میں بیٹھے رہے لیکن کوئی انہیں لینے نہ آیا۔ ایک جمعدار نے پالکی سے نہ اترنے کی وجہ پوچھی تو بولے: میرا استقبال اعزاز کے ساتھ ہونا چاہئے اور سیکرٹری کو خود باہر آنا چاہئے۔ جمعداد نے اندر جاکر سیکرٹری صاحب کو اطلاع دی تو وہ باہر آئے اور کہا: جب آپ دربار گورنری میں تشریف لائیں گے تب آپ کا استقبال کیا جائے گا، ابھی آپ نوکری کے لئے آئے ہیں، ابھی آپ کو تعظیم نہیں دی جا سکتی۔ 

انہوں نے یہ جواب سنا تو بولے: میں سرکار کی ملازمت کو باعث اعزاز سمجھ کر آیا ہوں اس لئے نہیں آیا کہ پہلے والے اعزازات بھی گنوا بیٹھوں۔

ٹامسن نے کہا کہ یہ ہماری آئینی مجبوری ہے۔ لیکن غالب وہاں سے واپس آگئے اور نوکری نہیں کی۔   

مرزا غالب کی بادہ نوشی

دوستو مرزا غالب بلا کے بادہ نوش تھے۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا جب مے نوشی نہ کرتے۔ ایک بار حالات اتنے خراب ہوئے کہ بوتل نہ ملی۔ کافی تگ و دو کی لیکن جب کہیں سے کوئی انتظام نہ ہوا تو نماز پڑھنے کی نیت سے مسجد کی طرف چل نکلے۔ ان کے ایک ہندو شاگرد کو جب علم ہوا کہ آج مرزا صاحب کو بوتل میسر نہیں تو اس نے کہیں سے کچھ انتظام کر لیا اور بوتل لے کر سیدھا مسجد ہی پہنچ گیا۔ مرزا اس وقت سنتیں ادا کر چکے تھے اور جماعت کھڑی ہونے والی تھی۔ شاگرد نے مسجد کے باہر سے ہی انہیں بوتل دکھا کر اشارہ کیا۔ انہوں نے بوتل دیکھی تو وہیں سے باہر آگئے۔ اسی دوران کسی بے تکلف نمازی نے پوچھا کہ بھیا فرض تو پڑھ لو، جانے کیوں لگے ہو۔؟ مرزا نے کہا: جا اس لئے رہا ہوں کہ جس چیز کی دعا کرنے آیا تھا وہ تو سنتوں میں ہی مل گئی ہے۔

ان کی شراب نوشی کے حوالے سے ایک اور واقعہ بھی بڑا مشہور ہے کہ ایک بار کسی جاننے والے نے ان کے سامنے شراب کی مزمت کی اور کہا کہ شرابی کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔۔ یہ سن کر مرزا صاحب بولے: ارے میاں جس کو شراب میسر ہے اس کو اور کیا چاہیے جس کے لئے دعا مانگے۔۔ 

مرزا غالب اور آم 

دوستو مرزا غالب کو آم بہت پسند تھے۔ آموں کے حوالے سے ان کے کئی دلچسپ واقعات مشہور ہیں۔ ایک بار برسات کے موسم میں بہادر شاہ ظفر اور کچھ احباب آم کے باغات کی سیر کر رہے تھے۔ مرزا بھی موجود تھے اور بہت للچائی ہوئی نظروں سے آموں کو دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ نے دیکھا تو دریافت کیا کہ مرزا اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو۔؟ انہوں نے فوراً ہاتھ جوڑ کر کہا: حضور کسی بزرگ کا قول ہے کہ “دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام۔۔ میں بس یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسی آم پہ میرا یا میرے  باپ دادا کا نام تو نہیں لکھا ہوا۔ بادشاہ نے یہ سنا تو ہنس پڑے اور مرزا کو کافی مہنگے آم تحفے میں بھجوا دیے۔ 

اسی طرح ایک بار مرزا اپنے ایک دوست حکیم رض ی الدین کے ساتھ بیٹھے تھے۔ حکیم صاحب کو آم پسند نہیں تھے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے ایک گدھا گزرا۔ وہیں پر ایک آم کا چھلکا پڑا ہوا تھا، گدھے نے چھلکا سونگھا اور آخر بڑھ گیا۔ حکیم صاحب مسکرائے اور بولے: دیکھو آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی پسند نہیں کرتا۔ مرزا جھٹ سے بولے: بالکل گدھوں کو آم پسند نہیں ہوتے..

مرزا غالب کے لطائف

دوستو ان واقعات کے علاوہ مرزا غالب کی زندگی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کئی ایسے دلچسپ واقعات بھی جڑے ہیں جنہیں آج ادبی لطائف کا درجہ حاصل ہے۔ جیسے کہ ایک بار کسی کی جھوٹی گواہی پر انہیں قید ہوگئی۔ رہا ہوئے تو اپنے ایک دوست میاں کالے صاحب کے گھر آکر رہنے لگے۔ ایک دن ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے آکر رہائی پانے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا: ارے بھیا کس بات کی مبارکبار دے رہے ہو، گورے کی قید سے آزاد ہوا ہوں تو کالے کی قید میں آگیا ہوں۔

ایک بار سید سردار شام کے وقت غالب کے ہاں تشریف لے آئے۔۔  

تھوڑی دیر بعد جب وہ جانے لگے تو اندھیرا ہوچکا تھا۔ جب وہ جوتے پہننے لگے تو غالب نے شمع دان اٹھا کر ان کے قریب کردی۔ سردار صاحب بولے۔۔ ارے تم کیوں تکلیف کرتے ہو میں جوتا خود ہی پہن لوں گا۔۔ غالب فوراً بولے۔۔ ارے میں تو اس لئے شمع دان لایا ہوں کہ کہیں آپ میرا جوتا نہ پہن جائیں۔۔

ایک بار اپنے ایک شاگرد سے فرمانے لگے کہ جب میں مرجاوں تو کہیں سے پرانا کفن ڈھونڈ لانا اور مجھے اسی میں دفنانا۔ شاگر نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہوگا؟

مرزا بولے: ارے میاں جب منکر نکیر آئیں گے تو پرانا کفن دیکھ کر واپس چلے جائیں گے کہ اس سے تو پہلے سوال و جواب ہوچکے ہیں۔ 

دوستو برہان قاطع ایک فارسی کی لغت تھی جس میں سے مرزا غالب نے بہت سی غلطیاں نکالی تھیں۔ اس وجہ سے بہت لوگ مرزا کے مخالف ہوگئے تھے اور انہیں خطوط میں گالیاں دیتے تھے۔ ایک بار کسی نے خط میں انہیں ماں کی گالی دے دی تو مسکرا کر بولے: اس آدمی کو گالی دینے کا بھی سلیقہ نہیں ہے۔ بوڑھے آدمی کو ماں کی نہیں بلکہ بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اسے غیرت آئے۔ اسی طرح جوان آدمی کو اس کی بیوی کی اور بچے کو ماں کی گالی دی جاتی ہے کیونکہ وہ اس عمر میں انہیں خواتین سے مانوس ہوتے ہیں۔۔

مرزا صاحب جس کوٹھری میں اپنا ڈیرہ جماتے تھے وہ نہایت تنگ و تاریک تھی۔ گرمیوں کے موسم میں صبح سے سہہ پہر تک وہ اسی کوٹھری میں بیٹھتے تھے۔ ایک بار رمضان میں دوپہر کے وقت ان کی اس کوٹھری میں ان کے ایک دوست مولانا آرزدہ آ پہنچے۔ مرزا اس وقت تاش کھیل رہے تھے۔ مولانا نے دیکھ کر کہا : ہم نے تو سنا ہے رمضان کے مہینے میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ مرزا نے فوراً جواب دیا۔۔ جی آپ نے بالکل صحیح سنا ہے، دراصل یہ وہی کوٹھری ہے جس میں شیطان کو قید کیا جاتا ہے۔۔

میر مہدی مجروح مرزا غالب کے ہم عصر شاعر تھے اور سید تھے۔ ایک دن مرزا کی طبیعت خراب تھی تو میر صاحب ان کے پاؤں دبانے لگے۔ مرزا نے جھٹ ان کا ہاتھ پرے کیا اور کہا: آپ سید ہیں کیوں مجھے گناہگار کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ہاتھ نہ ہٹائے اور کہا کہ آپ اس کام کی اجرت دے دیجئے گا۔ مرزا خاموش ہوگئے۔ کچھ دیر بعد جب وہ جانے لگے تو اپنی اجرت کے بارے میں پوچھا۔ مرزا فوراً مُکر گئے اور کہا۔ میاں کون سی اجرت آپ نے میرے پاؤں دابے اور میں نے آپ کے پیسے دابے۔۔ حساب برابر۔۔۔

ایک بار کسی نے مرزا سے پوچھا کہ یہ بچھو سردیوں میں باہر کیوں نہیں نکلتے تو مرزا جھٹ سے بولے کہ گرمیوں میں ان کی کونسی عزت ہوتی ہے جو وہ سردیوں میں باہر نکلیں۔۔

دوستو غالب کی زندگی اسی طرح کے دلچسپ اور ظریف واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ان واقعات میں بجا بجا ان کی شوخی اور شرارت نظر آتی ہے۔ اسی شوخی کے باعث ان کی شاعری اور نثر میں بھی دلچسپی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu