Home History راسپوٹین: روسی دربار کا مقدس شیطان

راسپوٹین: روسی دربار کا مقدس شیطان

by bigsocho
0 comment

زارِ روس نیکولس دوم کے ہاں 1904 میں پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ اس سے پہلے ان کے ہاں صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوتی رہیں۔ شہزادے کے آنے سے ملکہ اور شہنشاہ کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا لیکن کچھ عرصے بعد شہنشاہ اور ملکہ کے علم میں یہ بات آئی کہ شہزادہ ایک خطرناک بیماری کا شکار ہے جو اس کی جان بھی لے سکتی ہے۔ شہزادے کو اس بیماری سے چھکٹارہ دلانے کے لئے شہنشاہ کی بیوی الگزینڈرا نے بہت جتن کیے، کئی ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھایا لیکن اس بیماری کا علاج نہ ہو پایا۔ میاں بیوی شہزادے کی زندگی کے بارے میں فکرمند رہنے لگے۔ ان مایوس کن حالات میں آخری حربے کے طور پر ملکہ اور شہنشاہ نے اس وقت کے ایک پراسرار اور مشہور راہب کو شہزادے کے علاج کے لئے بلایا۔ اس راہب نے شہزادے کا علاج شروع کردیا اور جلد ہی شہزادے کی اس بیماری پر قابو پا لیا۔ یہ دیکھ کر شہنشاہ اور اس کی بیوی کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور انہوں نے اس راہب کو اپنا ذاتی معالج بنا لیا اور شہزادے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اسے سونپ دی۔ 

دوستو یہ راہب کوئی اور نہیں بلکہ راسپوٹین تھا۔ جی ہاں دوستو وہ راسپوٹین جسے آج دنیا میں Mad Monk یعنی خبطی راہب  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ راسپوٹین کون تھا، روسی سلطنت میں اس کا کیا عمل دخل تھا، جنگ عظیم اول میں اس کا کیا کردار تھا، یہ خود ساختہ مسیحا کیسے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا، کیا وہ کوئی جاسوس تھا، اس عجیب و غریب انسان کی موت اتنی پراسرار کیوں ہے؟ دوستو یہ سب جانیں گے آپ ہماری آج کی اس ویڈیو میں۔۔

راسپوٹین کون تھا۔۔

دوستو گریگوری راسپوٹین (Grigori Rasputin) ایک خود ساختہ روسی متنازعہ مذہبی رہنما اور انتہائی پراسرار شخصیت کا مالک تھا۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اس نے روسی اشرافیہ کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا اور کچھ مورخین کے مطابق زارِ روس نیکولس دوم کے دربار میں تمام فیصلے راسپوٹین کی مشاورت سے ہوتے تھے اور روسی شہنشہاہت کے خاتمے کا سبب بھی یہی شخص بنا۔ ایک عام غریب کسان کے گھر پیدا ہونے والے اس انسان کے لاکھوں فالورز اور چاہنے والے تھے۔ تاریخ میں اس انسان کو انتہائی مکار اور عیاش طبیعت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میلا کچیلا اور بدبودار ہونے کے باوجود اس کے گرد ہر وقت خواتین کا جھرمٹ لگا رہتا تھا۔ روسی سلطنت میں اپنے وقت کے سب سے طاقتور سمجھے جانے والے اس شخص کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے نہ صرف ہپناٹزم میں کمال حاصل تھا بلکہ اس کی پیش گوئیاں بھی سچ ثابت ہوتی تھی. انہی سپر نیچرل صفات کی بدولت اسے روسی دربار میں ایک اہم مقام حاصل ہوگیا تھا۔ 

ابتدائی زندگی

دوستو راسپوٹین کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں ان کے مطابق راسپوٹین 1869 میں سائیبریا کے ایک مشہور دریا ” تورا”  کے کنارے واقعہ ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ راسپوٹین کے والدین کے ہاں کئی بچے پیدا ہوئے لیکن زیادہ تر جانبر نہ ہو سکے۔ راسپوٹین کے علاوہ اس کی ایک بہن اور ایک بھائی کچھ عرصہ زندہ رہے لیکن وہ بھی مختلف  حادثات میں جان کی بازی ہار گئے۔ 

دوستو انیسویں صدی میں سائیبریا کا یہ علاقہ جنگلوں سے گھرا ہوا تھا اور علاقے میں زیادہ تر کسان لوگ ہی رہتے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1900 میں سائیبریا کی شرح خواندگی صرف 4 فیصد تھی جبکہ روس کی شرح خواندگی 20 فیصد تھی۔ سائیبریا کے زیادہ تر علاقوں میں لوگ ان پڑھ تھے۔ راسپوٹین بھی اپنے ماں باپ کی طرح بالکل ان پڑھ تھا۔

دوستو راسپوٹین کے بچپن سے ہی اس کے ساتھ کئی مافوق الفطرت کہانیاں منسوب تھیں۔ کہا جاتا ہے اس کے پاس بچپن سے ہی کچھ ایسی عجیب و غریب پراسرار صفات تھیں جو دوسرے بچوں سے اسے ممتاز کرتی تھیں۔ ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار اس نے اپنے باپ کا گھوڑا چوری کرنے والے چور کا نام اور جہاں گھوڑا چھپایا گیا تھا اس مقام کے متعلق بالکل درست بتا دیا تھا اور اس چور سے گھوڑا برآمد کروا لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ راسپوٹین میں اتنی ساحرانہ کشش تھی کہ اگر وہ اپنی گائے کے سامنے کھڑا ہوجاتا تو گائے کا دودھ بڑھ جاتا تھا، بیمار گھوڑوں کو صرف چُھو لیتا تو وہ ٹھیک ہوجاتے۔ لیکن ان سب باتوں کے علاوہ راسپوٹین کے متعلق زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بچپن ہی سے عجیب و غریب طبیعت کا مالک تھا۔ کچھ لوگوں نے انکشاف کیا ہے کہ وہ کئی چوریوں میں بھی ملوث تھا۔ اس پر ایک گھوڑا چرانے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ 1884 کی ایک رپورٹ کے مطابق اسے دو دن کی جیل بھی ہوئی تھی لیکن یہ جیل اسے ایک شخص سے بدتمیزی کرنے کی بنا پر ہوئی تھی۔ البتہ اس پر لگے ہوئے ان الزامات کو اس کی بیٹی ماریا نے جھٹلایا ہے۔ 

دوستو راسپوٹین جب 18 سال کا ہوا تو اپنے گاؤں سے دور ایک خانقاہ میں چلا گیا۔ کئی مہینوں بعد جب وہ وہاں سے واپس آیا تو ایک   نئے مذہبی فرقے کا پیروکار بن چکا تھا۔اِس فرقے کے مطابق گناہ کوئی بری چیز نہیں ہے اور یہ گناہ ہی دراصل نجات کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ جب وہ گاؤں واپس آیا تو اس نے باقاعدہ اس فرقے کی تبلیغ شروع کردی۔ 

دوستو اسی دوران اس نے شادی بھی کر لی۔ اس کے سات بچے پیدا ہوئے لیکن وہ اس شادی کونبھا نا پایا اور ایک دن تبلیغ کی غرض سے نکل کھڑا ہوا۔

سینٹ پیٹرزبرگ میں آمد

دوستو راسپوٹین 1901 میں تبلیغ کی غرض سے پہلے یونان اور پھر یوروشلم گیا۔ کچھ عرصہ وہاں گزارنے کے بعد 1903 میں وہ سینٹ پیٹرز برگ آگیا۔ سینٹ پیٹرز برگ میں قدم رکھنے کے بعد اس کی زندگی مکمل بدل گئی۔ اس نے یہاں کے لوگوں کے سامنے خود کو ایک خودساختہ ولی اور مسیحا کے روپ میں پیش کیا اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے تھوڑے ہی عرصے میں ہزاروں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اسے یہاں ایک چرچ میں رہنے کی جگہ بھی مل گئی اور اس نے یہاں اپنے متنازعہ نظریات کی تبلیغ شروع کردی۔

شہزادہ الیکسی کی بیماری اور راسپوٹین

دوستو زارِ روس کے ہاں چار بیٹیوں کے بعد پیدا ہونے والا شہزادہ الیکسی ہیموفیلیا نامی بیماری کا شکار تھا۔ شروع کے چند سال بیٹے کی اس بیماری کا علم شہنشاہ اور ملکہ کو نہیں تھا۔ ایک روز پارک میں کھیلتے ہوئے شہزادے کو چوٹ لگی اور اس کا خون بہنے لگا۔ کافی کوششوں کے بعد بھی خون نہ رکا تو ملکہ اور شہنشاہ پریشان ہوگئے۔ اس وقت راسپوٹین سینٹ پیٹرز برگ میں کافی مشہور ہوچکا تھا اور اس کی مسیحائی کے چرچے عام تھے۔ ملکہ اور شہنشاہ نے راسپوٹین کو شہزادے کے علاج کے لئے بلایا۔ مورخین کا خیال ہے کہ راسپوٹین نے شہزادے کو ہپنٹائز کیا اور شہزادے کا خون بہنا رک گیا۔ ملکہ نے راسپوٹین کا یہ کمال دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور راسپوٹین کو انتہائی عزت و اکرام سے نوازا۔ یوں راسپوٹین کا دربار میں آنا جانا شروع ہوگیا۔ 

دوستو کچھ ہی عرصے میں شہزادے کے علاج کے علاوہ اپنی چرب زبانی اور پیش گوئیوں کی بدولت راسپوٹین نے ملکہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ بہت جلد اس کے تعلقات شاہی خاندان سے اتنے گہرے ہوگئے کہ وہ دربار میں سب سے اہم ترین انسان سمجھا جانے لگا۔ شہنشاہ اور ملکہ اس کی پیش گوئیوں اور روحانی کرامات سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ سلطنت کے اکثر فیصلے اور کئی اہم تقرریاں اس کے مشوروں سے ہوتی تھیں۔ حتی کہ ملکہ کے کہنے پر اسے روسی چرچ کا سربراہ بھی مقرر کردیا گیا تھا۔ 

جنگ عظیم اول میں راسپتوین کا کردار

دوستو راسپوٹین کے متنازعہ نظریات اور حکومتی فیصلوں میں عمل حد سے بڑھا تو روسی وزیراعظم نے شہنشاہ نیکولس کو کسی نہ کسی طرح قائل کر کے اسے دربار سے نکلوا دیا  لیکن کچھ ہی مہینوں بعد ملکہ نے اسے پھر دربار میں واپس بلا لیا۔ اور پھر اگلے تین سال تک راسپوٹین دربار میں اپنی چالوں کی وجہ سے اور بھی زیادہ مضبوط ہوگیا۔

1914 تک راسپوٹین دربار میں اتنا مضبوط ہوچکا تھا کہ جنگ عظیم اول میں اس نے شہنشاہ کو جنگ میں اترنے سے روک دیا۔ لیکن چونکہ روسی اشرافیہ اس جنگ میں جرمنی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی اس لئے شہنشاہ کو جنگ میں اترنا پڑا۔ 1915 میں شہنشاہ جنگ کے لئے نکلا تو پیچھے روس میں تمام سیاہ سفید کی مالک ملکہ الیگزینڈرا تھیں۔ ملکہ نے راسپوٹین کو اپنا ذاتی مشیر بنا لیا اور راسپوٹین نے چرچ کے علاوہ باقی تمام معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ یہ سب دیکھ کر اشرافیہ کے کان بھی کھڑے ہوچکے تھے اور انہیں اس بات کا ادراک ہوچکا تھا کہ راسپوٹین اب ریاست کے لئے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ تو راسپوٹین کوجرمنی کا خفیہ ایجینٹ بھی تصور کرنے لگے تھے۔

گناہ کا مبلغ

دوستو راسپوٹین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک انتہائی میلا کچیلا انسان تھا اور روسی دربار کے آداب کے خلاف انگلیوں سے کھانا کھاتا تھا۔ کئی کئی دن بنا نہائے دھوئے ایک ہی لباس میں ملبوس رہتا تھا۔ اس کے جسم سے عجیب سی بدبو آتی تھی اور وہ ہمیشہ گناہ اور جنس پرستی کی باتیں کیا کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ گناہ ہی اصل میں ایسی چیز ہے جو انسان کو نیک بناتی ہے اور گناہ کرنے سے ہی انسان کے اندر سے گناہوں کی خواہش ختم ہوسکتی ہے۔ لیکن ان سب نظریات اور باتوں کے باوجود اس میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ وہ کسی بھی عورت کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا تھا۔ اس کے چرچ کی کئی خواتین سے مراسم تھے۔ اپنی چرب tبانی اور اسی ساحرانہ شخصیت کی بدولت وہ کسی بھی انسان کو گرویدہ بنا لیتا تھا۔ لاکھوں لوگ اسے ولی اور سچا مسیحا سمجھتے تھے۔ 

راسپوٹین کے خلاف اشرافیہ کے اقدامات

روس کی اشرافیہ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھی، کچھ لوگ تو ملکہ سے بھی اسکے تعلقات کے شبہ کا اظہار کرتے تھے۔ دوسری جانب چرچ میں بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں تھیں۔ 1914 میں اس پر ایک عورت کیطرف سے قاتلانہ حملہ بھی ہوا لیکن وہ بچ نکلا۔ اشرافیہ اسے ایک شیطان تصور کرنے لگی تھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود شہنشاہ اور ملکہ، راسپوٹین کے خلاف ایک لفظ سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھے۔  تمام  تر متنازعہ نظریات اور شاہی اشرافیہ کی مخالفت کے باوجود راسپوٹین ان کا منظور نظر تھا اور تمام تر فیصلے وہی کرتا تھا۔ شائد وہ اپنے بیٹے کی صحتیابی کی امید میں اس راہب کو ہر حال میں خوش رکھنا چاہتے تھے۔ 

دوستو اشرافیہ نے جب دیکھا کہ شہنشاہ اور ملکہ ان کی بات نہیں سننا چاہتے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ راسپوٹین کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ اس کام کی ذمہ داری شاہی خاندان کے ایک شہزادے فیلکس یوسوپو (Felix Yusupov) نے اٹھائی۔ شہزادے نے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک خفیہ منصوبہ بنایا۔ انہوں نے محل کے تہہ خانے میں راسپوٹین کو دعوت پر بلایا۔ وہاں فیلکس نے اسے زہریلی شراب پلائی اور پھر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ بعد میں اس کی لاش کو دریا میں بہا دیا۔ 

راسپوٹین کی موت 

دوستو روسی تاریخ کے اس پراسرار ترین شخص کی موت کیسے ہوئی، اس پر مختلف آراء ہیں۔ مورخین کے مطابق دسمبر 1916 کی رات شہزادے فیلکس نے اسے دعوت پر بلایا۔ شہزادے نے منصوبے کے مطابق شراب میں زہر ملا دیا۔ راسپوٹین نے زہریلی شراب پی لیکن پینے کے بعد بھی ویسے ہی مسکراتا رہا۔ شہزادہ فیلکس نے جب یہ حالات دیکھے تو اس نے اس پر فائر کھول دئیے۔ جس سے وہ زمین پر گر گیا۔ شہزادہ اسے مردہ سمجھ کر چلا گیا لیکن راسپوٹین ان گولیوں سے بھی نہیں مرا اور لڑکھڑاتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا ۔ فیلکس اور اس کے ساتھیوں نے اس کا پیچھا کرکے اس پر مزید گولیاں چلائیں اور اسے ایک برفیلے دریا “نیوا” میں پھینک دیا۔ جہاں سے تین دن بعد اس کی لاش ملی۔ 

دوستو یہاں پر کچھ عجیب و غریب کہانیاں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب اس کی لاش دریا سے نکالی گئی تو وہ زندہ تھا، جبکہ کچھ رپورٹس یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ زندہ نہیں تھا لیکن اس کی موت نہ تو زہر سے ہوئی اور نہ ہی گولیوں سے ہوئی بلکہ اس کی موت کی وجہ پانی میں ڈوبنا تھا۔ لیکن راسپوٹین کی موت کے کچھ عرصہ بعد ایک پولیس رپورٹ کے مطابق راسپوٹین کی موت گولی لگنے سے ہوئی اور دریا میں پھینکے جانے سے قبل وہ مر چکا تھا۔ اس کے علاوہ بعد کی کچھ رپورٹس جو 2004 اور 1993 میں سامنے آئیں ان کے مطابق راسپوٹین کے جسم میں کوئی زہر موجوود نہیں تھا اوراسکی ہلاکت گولی لگنے کیوجہ سے ہی ہوئی تھی۔

راسپوٹین کی پیش گوئیاں 

دوستو تعجب کی بات یہ ہے کہ راسپوٹین کی اکثر پیش گوئیاں سچ ثابت ہوتی تھیں جیسے کہ اس کی اپنی موت کے بارے میں پیش گوئی  بھی بالکل سچ ہوئی۔ اس نے شہنشاہ کو خط لکھا کہ اس کی موت جنوری 1917 سے پہلے ہوجائے گی اور بالکل ایسا ہی ہوا. راسپوٹین نے ایک پیش گوئی یہ بھی کی تھی کہ شہنشاہ اور ملکہ، روس کے اشرافیہ کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور اس کی یہ آخری پیش گوئی بھی سچ ثابت ہوئی اور انہیں واقعی کچھ عرصہ بعد 1918 میں قتل کردیا۔  البتہ یہ خط 1920 کے بعد منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ راسپوتین نے کئی ایسی پیش گوئیاں بھی کی ہیں جو جھوٹی ثابت ہوئیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ دنیا 2013 میں ختم ہوجائے گی لیکن ظاہر ہے یہ پیش گوئی جھوٹی ثابت ہوئی۔ 

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu