Home Interesting Facts پیسا ٹاور جھکا ہوا کیوں ہے؟

پیسا ٹاور جھکا ہوا کیوں ہے؟

by bigsocho
0 comment

اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ ٹاور رات میں کسی وقت گر جائے گا اور اسے سیدھا رکھنے کے لیے اسے سہارا چاہیے تو آپ غلط ہیں۔ یہاں رات گزر جائے گی اور یہ مینار گہرے سرمئی رنگ سے نکل کر سورج کی روشنی میں دودھیا سفید ہو جائے گا لیکن یونہی کھڑا رہے گا کیونکہ یہ صدیوں سے یونہی کھڑا ہے۔  ہاں بس اتنا فرق ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے جھکاؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اسے تعمیر کیوں کیا گیا تھا؟ کیا اسے ایسے ہی لیننگ سٹائل میں بنایا کیا گیا تھا؟ اور اگر یہ بعد میں جھکا تو پھر ابھی تک گرا کیوں نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر آپ کے کیوریس مائنڈز میں آتے ہوں گئے۔ سو اس ویڈیو میں ہم آپ کو  دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ جیسے ہم پیسا ٹاور کے نام سے جانتے ہیں اس کی مکمل ہسٹری دکھائیں گئے اور آپ کے متجسس دماغ میں آنے والے کچھ سوالوں کے جوابات دیں گے۔ 

لیکن پہلے آپ کو اس کا اصل نام کیا ہے وہ بتاتے ہیں۔ آپ اسے ہمیشہ پیسا ٹاور ہی کہتے ہیں لیکن اس کا درست تلفظ اس کی پرونسیشن پیسا نہیں پیزہ ہے (pea-za) اسے آپ وہ فاسٹ فوڈ والا پیزا نہ سمجھ لینا۔ کیونکہ یہ وہ پیزا نہیں بلکہ یہ اٹلی کا شہر پیزہ ہے جہاں یہ ٹاور تعمیر کیا گیا۔ اس شہر کے نام کی مناسبت سے اس ٹاور کو ٹاور آف پیزہ کا نام دیا گیا۔ ویسے ت و اٹیلین پیزا بھی بہت فیمس ہے لیکن آج کی اس ویڈیو میں ہم اٹیلین پیزا نہیں بلکہ اٹیلین ٹاور آف پیزہ کی بات کریں گئے۔ 

سو دوستو لیننگ ٹاور آف پیسا کی تعمیر آج سے نو صدیاں پہلے اگست 1173 میں شروع ہوئی۔ لیکن پھر کئی بار اس کی کنسٹرکشن کو اس کی تعمیر کو حالات و واقعات کے پیش نظر روک دیا گیا۔ اور یوں کئی مراحل میں اس کو تعمیر کیا گیا۔ اسے مکمل تعمیرہونے میں ایک سو ننانوے سال کا عرصہ لگا۔ پیسا ٹاور آخرکاردو صدیوں بعد 1372 میں مکمل ہوا۔ اور 1987 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

لیکن اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گئے کہ اس ٹیڑھے ٹاور کو تعمیر کرنے کی وجہ کیا تھی اسے کیوں تعمیر کیا گیا؟

تو دوستو قصہ کچھ یوں ہے کہ ٹاور آف پیسا دراصل ایک بیل ٹاور، ایک گھنٹا گھر تھا۔ یعنی اسے چرچ کے بیل ٹاور کے طور پر تعمیر کیا جاتا تھا۔ اس کی بیک گرونڈ ہسٹری کچھ یوں ہے کہ اٹلی کا یہ شہر پیسا جہاں یہ ٹاور تعمیر ہوا وہ ایک اہم اطالوی بندرگاہ تھا۔ اور اس کے علاوہ روز با روز اس شہرکی شہرت اور طاقت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کیونکہ یہاں اہم تجارتی معاہدے بھی ہوتےرہتے تھے۔اس شہر کے رہنے والے اپنے شہر کو بہت خاص اور طاقتور سمجھتے تھے پھر ایک دن 1063 میں پیسا کے لوگوں نے جزیرے سسلی کے شہر پلیرمو Palermo پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ کامیاب رہا۔ اور فاتحیں بڑے خزانے کے ساتھ پیسا واپس لوٹ آئے۔ انہیں اپنے شہر پر غرور تو پہلے ہی سے تھا اب فتح کا ایک اور چاند ان کے ماتھے پر سج چکا تھا سواب وہ پوری دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ان کا یہ شہر کتنا اہم ہے۔ اپنے اس فخر کو مزید تقویت دینے کے لیے  پیسا کے لوگوں نے وہاں ایک عظیم کیتھیڈرل کمپلیکس cathedral complex بنانے کا فیصلہ کیا۔یعنی ایک عظیم الشان چرچ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس منصوبے میں چار عمارتیں تعمیر کی جانا تھیں۔ ایک کیتھیڈرل، ایک baptistery ، ایک بیل ٹاور اور ایک سیمنٹری یعنی قبرستان شامل تھا۔ یہ بیل ٹاور جو تہوار یا خاص موقع پر گھنٹی بجانے کے لیے استعمال کیا جانا تھا، یہی وہ مشہور پیسا ٹاور ہے جو اٹلی کا اب ایک فیمس لینڈ مارک بن چکا ہے۔ 

ٹاور آف پیسا کا آئیڈیا کس کا تھا اس کا اصل آرکیٹیکٹ کون تھا یہ صحیح سے کسی کو معلوم نہیں یوں سمجھ لیں کہ یہ بھی ایک معمہ ہے ایک میسٹری ہے۔ لیکن اس کی تعیر کے پہلے مرحلے میں جو آرکیٹیکٹ سب سے زیادہ فیمس اور تاریخ میں جن کا نام موجود ہے وہ  بونانو پیسانو اور گیرارڈو ڈین گیرارڈو Bonanno Pisano and Gherardo din Gherardo ہیں۔

پیسا ٹاور کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ بارہ سو پچھتر میں شروع ہوا۔ اور اس وقت اس کے آرکیٹکٹ  گیوانی دی سیمون Giovani di Simone تھے۔ اور اس کی تعمیر مکمل کرنے کا کرڈیڈ ٹومامو پیسانو Tommaso Pisanoکو جاتا ہے جہنوں نے تیرہ سو پچاس سے تیرہ سوبہتر میں اس ٹاور کی تعمیر مکمل کی اسے فائنل شکل دی۔ 

اب آپ کو اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ اس میں جھکاؤ کیوں ہے کیا جان بوجھ کہ اسے ایسے تعمیر کیا گیا تھا؟ تو اس کا جواب ہے نہیں۔ کیونکہ اس کی تعمیر ایک نارمل سیدھے ٹاور کے طور پر ہی کی گئی تھی لیکن اپنی تعمیر شروع ہونے کےصرف پانچ سال تک ہی بمشکل یہ ٹاور سیدھا رہا۔ اور 1178 میں جب اس آٹھ منزلہ ٹاور کی ابھی بس تیسری منزل کی تعمیر شروع کی گئی تو اس نے ایک طرف جھکنا شروع کر دیا۔ اس کی وجہ اس کی بنیاد تھی یعنی جہاں جس جگہ جس مٹی پہ اسے تعمیر کیا جا رہا تھا وہ بہت سافٹ تھی نرم تھی جو اس ٹاور کا بوجھ نہ سہہ پائی اور ٹاور کو ایک طرف جھکا دیا۔ ٹاور اس نرم مٹی میں جنوب کی طرف دھنس گیا۔  انجنیرز جو اسے تعمیر کر رہے تھے وہ اب پریشان تھے۔ کہ اسے گرنے سے کیسے بچایا جائے ابھی وہ اس مسئلہ پر غور کر ہی رہے تھے کہ اٹلی میں جنگ چھڑ گئی۔ یہ جنگ اطالوی ریاستوں کی ایک دوسرے سے تھی۔ اس جنگ کی وجہ سے ٹاور کی تعمیر کو تقریبا ایک صدی کے لیے روک دیا گیا۔ اتنے لمبے عرصے کے لیے اس کی کنسٹرکشن کو روکنے کے بعد انجیئنرز یہ خیال کر رہے تھے کہ اب شاید یہ نرم مٹی سخت ہو جائے گی اور یہ ٹاور مزید نہیں جھکے گا۔ 

اس جھکاؤ کو ختم کرنے کی پہلی کوشش 1275 ء میں  کی گئی جب تعمیراتی سلسلہ دوبارہ بحال کیا گیا۔ اب انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی یہ مٹی تو سخت ہوئی ہی نہیں ویسے کی ویسے ہی نرم ہے۔ سو اس وقت کے بلڈرز نے اس ٹاور کو ایک طرف جھکنے سے بچانے کے لیے یہ کیا کہ ٹاپ سٹوریز یعنی اس ٹاور کی نئی سٹوریز کو نئی منزلوں کو تعمیر کرتے ہوئے جان بوجھ کےانہیں  ایک طرف سے تھوڑا اونچا تعمیر کیا تا کہ اس ٹاور کو سیدھا کیا جا سکے لیکن ان کا یہ کارنامہ ٹاور کو سیدھا تو نہیں کر سکا البتہ اسے مزید جھکنے میں اس نے پوری پوری مدد فراہم کی۔ آخر کار اس ٹاور کو 1372 میں مکمل تعمیرکر لیا گیا۔ کیونکہ یہ ایک بیل ٹاور تھا سو چرچ کی وجہ سے اس کو مخصوص رومن اسٹائل میں وائٹ ماربل سے تعمیرکیا گیا تھا ۔ اس کے مٹیریل میں ’’ کمپوسانٹو Composanto سمٹری استعمال کی گئی۔ جس کا مطلب ہے مقدس زمین سے نکالی گئی مقدس مٹی۔ یہ ٹاور کیونکہ رونڈ شیپ میں ہیں اس لیے اس میں Twin spiral staircases  یعنی دونوں طرف سیڑھیاں موجود ہیں جس میں 294 سٹیپس ہیں جو گرونڈ فلور سے اوپر بیل چیمبر تک جاتی ہیں۔ لیکن کیونکہ یہ ایک لیول پر نہیں ہے ایک طرف جھکا ہے سو سیڑھیوں میں ایک طرف دو سٹیپ زیادہ بنائے گئے ہیں تاکہ اس کے جھکاؤ کو کمپنسیٹ کیا جا سکے۔ یعنی اس کے شمال سے اگر آپ سیڑھیاں چھڑے گئے تو 294 سٹیپس ہیں اور اگر جنوب سے جائیں گئے تو 296 سٹیپس چھڑنا ہوں گئے۔ اس بیل ٹاور پر سات گھنٹیاں لگائی گئیں تھیں۔ جس میں سے سب سے بڑی بیل کا وزن تین ہزار چھ سو کلو گرام یعنی آٹھ ہزار پاونڈز کے قریب ہے۔بیسویں صدی کے شروع میں ان بھاری بیلز کوہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا۔ مطلب ان کا استعمال بند کر دیا گیا۔ کیوں کہ یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ان بیلز کی نقل و حرکت کی وجہ سے ٹاور کو مزید خطرہ ہو سکتا ہے یہ زیادہ جھک سکتا ہے اور ممکن ہے کہ گر جائے۔ 

سو دوستو ٹاور کی تعمیر کے بعد اگلے آٹھ سو سالوں میں ، یہ بات تو واضح ہوگئی کہ 55 میٹر لمبا یہ ٹاور صرف جھکا ہی نہیں بلکہ در حقیقت ہر سال ایک سے دو ملی میٹر سالانہ کی شرح سے گر رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں پیسا ٹاور 3.99 ڈگری پر جھکا ہوا ہے۔ ٹاور کی اونچائی زمین سے لوئر سائیڈ کی طرف 55.86 میٹر اور ہائیر سائیڈ کی طرف 56.67 میٹرہے۔ اور اس ٹاور کا وزن چودہ ہزار پانچ سوٹن ہے۔ ٹاور کے وزن اور اونچائی پر غور کرتے ہوئے، فزکس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہے کہ یہ ٹاور زیادہ سے زیادہ 5.44 ڈگری تک جھک سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ گر جائے گا کولیپس ہو جائے گا۔ ایسا فزیزسٹ کا کہنا ہے۔

 لیکن مائے کیوریس فیلوز آپ کو ایک حیران کن بات بتاتے ہیں کہ ایک ٹائم ایسا بھی تھاجب یہ ٹاور 5.5 ڈگری تک جھک گیا تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر یہ تب بھی نہیں گرا۔

5 ڈگری تک جھک جانے باوجود یہ عمارت گرتی کیوں نہیں اب یہ سوال آپ کے مائنڈ میں آیا ہوگا تو اس کا جواب ہے سینٹر آف گریویٹی۔۔۔۔ نیوٹن تھرڈ لاء آف موشن تو آپ سب نے پڑھا ہی ہوگا اور وہ سیب والی ایگثیپل بھی سب کو یاد ہوگی جب نیوٹن ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوتا ہے اور درخت سے سیب نیچے گرتا ہے نیوٹن نے اس پر غور کیا کہ یہ سیب نیچے ہی کیوں گرا ادر ادھر بھی تو گر سکتا تھا بس اسی پر ریسرچ کر کے اس نے یہ تھیوری پیش کی کہ زمین کی گریویٹشنل فورس ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اور ہر ایکشن کا ایکول اور اپوزیٹ ریکشن ہوتا ہے یعنی جہاں زمین کی گریویٹی چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہی زمین پر موجود چیزیں بھی پوری قوت سے اپنے ویٹ کے مطابق زور لگا کے زمین کو اپنی طرف کھنچتی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے زمین کا وزن اس پر موجود دوسری کسی بھی چیز سے زیادہ ہوتا ہے سو زمین جیت جاتی ہے لیکن ہراتا دوسرا اوبجیکٹ بھی نہیں سو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گریوٹی کی وجہ سے ہر چیز زمین پہ کھڑی رہتی ہے۔ ہوا میں ادھر ادھر نہیں گرتی۔ یہی وجہ ہے کہ پیسا ٹاور بھی آج تک گرا نہیں کیونکہ اس کا سنٹر آف گریٹوٹی اسے ابھی تک مضبوطی سے زمین سے جوڑے ہوے ہے۔ 

یہ سکرین پر آپ ایک تصویر دیکھ رہے ہیں اس سے آپ کو پیسا ٹاور کی سنٹر آف گریویٹی کا اندازہ ہو گا۔ یہ ٹاور یا دوسری کوئی چیز بھی اس وقت تک زمین پر کھڑی رہتی ہے جب تک کہ اس کی کشش ثقل کے مرکز سے یعنی سینٹر آف گریوٹی سے زمین کی طرف سیدھی کھینچی جانے والی ایک لکیر اس کی بنیاد میں اس کی بیس میں رہے۔ جیسے ہی یہ سید ھی لائن اس ٹاور کی بیس سے نکلے گی یعنی یہ ٹاور تھوڑا سا بھی اور جھکے گا تو بس وہی اس کا ڈی اینڈ ہوگا۔ 

لیکن جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب پیسا ٹاور 5 ڈگری سے زیادہ جھک گیا تھا یہ انیس سو نوے کی بات ہے جب پیسا ٹاور5.5 ڈگری تک جھک گیا تھا۔ تب اس بیل ٹاور نے انجینئرز کے مائنڈز میں خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ اب روک سکتے ہو تو روک لو ورنہ میں ہاتھ نہیں آؤں گا۔ کیونکہ اب اس ٹاور کی کشش ثقل کا مرکز یعنی سینٹر آف گریویٹی خطرناک حد تک اس کی بیس کے بیرونی کنارے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ آسان الفاظ میں اگر کہا جائے تو اب یہ ٹاور گرنے کے قریب تھا۔ سوبس اس بیل ٹاور کی خطرے کی گھنٹی بجھتے ہی بڑے پیمانے پر ایک ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا۔ تاکہ اس تاریخی ٹاور کو گرنے سے بچایا جا سکے۔ اس آپریشن کے لیے 14 ماہر آثار قدیمہ ، مشہور آرکیٹیکٹ اور سوئل soil ایکسپرٹ مقرر کیے گئے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اس جھکاؤ کو مزید کیسے روکا جائے۔ اب کی بار انجیئنرز نے soil extraction method کی مدد سے اس کا جھکاؤ کم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے انجینئرز نے ٹاور کے شمال کی طرف سرنگ کھود کر مٹی کی تھوڑی سی مقدار کو نکال دیا۔ کیونکہ ٹاور جنوب کی طرف جھکا ہواتھا اس لیے سرنگ شمال کی طرف کھودی گئی اور شمال سے مٹی کی کچھ مقدار نکال لی گئی۔ اس کے بعد اسٹیل کیبلز کی مدد سے اس ٹاور کو کھینچتے ہوئے واپس سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اپنے اس تجربے میں انجینئرز کچھ حد تک کامیاب رہے اوراس ٹاور کی بنیاد سے اس کی فانڈیشن سے زمین کو ہٹا کے سولہ سے سترہ انچز تک اس کا جھکاؤ کم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اسے  5.5 ڈگری سے واپس چار سے بھی کم ڈگری پہ لے آئے۔  اس ریسکیو آپریشن کو مکمل کرنے میں 30 ملین یورو اور ایک  دہائی سے  زیادہ کا عرصہ لگا۔ جب یہ ٹاور 15 دسمبر 2001 کو دوبارہ کھلا گیا تو انجینئرز نے یہ پیش گوئی کی کہ اب اس ٹاور کو انیس سو نوے والی پوزیشن میں  واپس آنے میں مزید تین سو سال لگیں گے۔ یعنی فی الحال یہ ٹاور سیو ہے۔ اگر آپ اٹلی جائیں تو اس کی ٹاور کا وزٹ کر سکتے ہیں اور اس پر چڑھ کے اٹلی کے شہر پیزہ کے دلکش مناظر سے لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے آپ کو آٹھارہ یورو کی ٹکٹ خریدنا ہو گی۔  اور ہاں آپ بھی اس ٹاور کے ساتھ ایک ایسی تصویر ضرور لیجیے گا جس میں یوں لگ رہا ہو جیسے آپ اس ٹاور کو گرنے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu