سولہ سو پینسٹھ کا سال لندن کی تاریخ کا بد ترین سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ اس سال طاعون کی وبا نے پورے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بڑی تعداد میں لوگ بیمار ہونے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان گوا بیٹھے۔ لوگ اپنے خدا سے گرگڑا کر رحم کی بھیک مانگ رہے تھے کہ اے خدا ہمیں اس بیماری سے نجات دلوا۔ اور پھریوں ہوا کہ طاعون کی وباء لندن کی فضاؤں سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو گی لیکن لندن والوں کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ اور وہ قیمت لندن نے آگ میں جل کر ادا کی۔۔۔ مسلسل پانچ دن تک لندن آگ میں جلتا رہا۔۔۔ اسی آگ کی وجہ سے طاعون کی بیماری پھیلانے والے چوہے اور پیسو جل کر مر گئے۔۔۔ دوستو طاعون تو ختم ہو گیا لیکن لندن کو خاکستر کر گیا۔ آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو ڈی گریٹ فائیر آف لندن 1666 کی مکمل ہسٹری دکھائیں گئے۔
دو ستمبر 1666 اتوار دیر رات دو بجے لندن کی چھوٹی سی گلی پڈنگ لین میں واقع ایک بیکری میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ یہ بیکری تھامس فرینر Thomas Farriner کی تھی۔ جو اس وقت کے بادشاہ چارلس سیکنڈ کا خاص بیکر تھا یعنی رائل بیکر تھا۔ اور ان دنوں تھامس رائل نیوی کو بریڈ سپلائی کیا کرتا تھا۔دو ستمبر کو رات سونے سے پہلے تھامس فرینر اپنا اوون بند کرنا بھول گیا۔ ان دنوں ایلکٹریک اوون تو تھے نہیں سو عام زبان میں آپ اسے تندورکہہ لیں جو ایندھن کی مدد سے جلایا جاتا تھا اور اس کی آگ میں بریڈ بیک کی جاتی تھی۔ تھامس تندور بند کرنا بھول کر خود خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ اچانک جلتے تندور سے ایک چھوٹی سی چنگاری اٹھی اور پاس پڑے ایندھن کے دھیڑ پر جا گری۔۔۔۔ جس سے آگ بھڑک اٹھی۔ تھامس کو کچھ جلنے کی بو آئی اور جب اس نے آنکھ کھول کر دیکھا تو اس کا گھر جس میں یہ بیکری بنائی گئی تھی وہ آگ میں جل رہا تھا۔ تھامس اور اس کی فیملی گھر کے فسٹ فلور پر تھے نیچے آگ تھی سو سیڑھایوں سے نیچھےجانے کا راستہ نہیں تھا لیکن قسمت اچھی تھی ہوا یوں کہ کسی طرح وہ کھڑکی سے نکل کر ساتھ والے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کی ایک ملازمہ جو اس سارے واقع سے اتنا ڈر چکی تھی کہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی وہ اس آگ کا پہلا شکار ہو گئی۔ آگ بہت تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی۔۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر اس آگ کی خبر لندن کے لارڈ میئر سر تھامس بلڈ ورتھ Sir Thomas Bloodworth کو دی گئی۔ لیکن انہوں نے اس خبر کو سیریس نہیں لیا اور دوبارہ سو گئے۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں آگ لگنا بہت عام سی بات سمجھی جاتی تھی جس پر فوری قابو بھی پا لیا جاتا تھا۔۔ یہی وجہ تھی کہ جب لارڈ مئیر کو بتایا گیا کہ پڈنگ لین کی ایک بیکری میں آگ بھڑک اٹھی ہے تو وہ اسے اگنور کرکے سکون کی نیند سو گئے۔۔۔
دوستو ستم ظریفی تو دیکھیں کہ اس سال معمول سے ہٹ کر موسم بھی شدید گرم تھا اور کئی ہفتوں سے بارش بھی نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے لکڑی کے بنے مکان اور عمارتیں خشک ہوئی پڑئی تھیں۔ اس دور میں لندن میں زیادہ تر مکانات لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ تیز گرم ہوا چل رہی تھی جو آگ کے شعلوں کو مزید بھڑکا رہی تھی اور قطار میں کھڑی عمارتیں ان شعلوں کی نظر ہوتی جا رہی تھیں۔
سیموئیل پیپیس Samuel Pepys جو ان دنوں نیوز پیپر میں آرٹیکل اور ڈائریز لکھا کرتا تھا۔وہ ٹاور آف لندن کے قریب ہی رہتا تھا پڈنگ لین جہاں آگ لگی تھی وہ ٹاور آف لندن کے قریب ہی واقع تھی۔ جب سیموئیل نے آگ دیکھی تو وہ فوراً بادشاہ چارلس II کو اطلاع دینے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔
جب کنگ چارلس سیکنڈ کو آگ کا علم ہوا تو اس نے فوری حکم دیا کہ آگ کے راست میں آنے والے مکانوں کو جتنا جلدی ہو سکے مسمار کر دیا جائے گرا دیا جائے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا تا کہ آگ کو زیادہ پھیلنے سے روک سکیں۔ اور آگ جہاں ہے وہی تک رہے آگے نہ بڑھ سکے ۔ ظاہر ہے اگر آگے لکڑی کے گھر ہی نہیں ہو گئے گھروں کے درمیان گیپ آجائے گا فاصلہ آجائے گا تو آگ پھیل نہیں سکے گی۔ لیکن دوستو اس کا بھی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ گھروں کو گرانے کے لیے لمبی سٹیکس جن کےسرے پہ ہوک لگی تھی اس کا استعمال کیا جا رہا تھا لیکن آگ کی شدت اتنی تیز تھی کہ یہ hooked poles یہ لمبی سٹیکس خود آگ کی لپیٹ میں آ رہی تھی اورگھروں کو گرانا ناممکن ہو رہا تھا۔ آگ نے تین سو سے زیادہ گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ آگ بجانے کے لیے پانی کی بالٹیوں کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس دور میں فائر فائٹرز تو تھے نہیں سو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت جتنی کوشش کر سکتے تھے اس سے بڑھ کہ کر رہے تھے۔ خوف و ہراس پورے شہر میں پھیلنے لگا تھا۔ شہر کی گلیوں میں بھگڈر مچ چکی تھی لوگ اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیاں بچانے کے لیے لندن سے نکلنا چاہتے تھے۔
چارستمبر تک آدھا لندن آتش گیر ہو چکا تھا۔ خوفناک آگ بھڑک رہی تھی لندن جل رہا تھا۔ لوگ اب بھی آگ بجھانے کی کوششیش کر رہے تھے۔ دوستو تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ بادشاہ یعنی کنگ چارلس خود آگ بجھانے والے جنگجوؤں میں شامل تھا وہ لوگوں کو پانی کی بالٹیاں بھر بھر کے پہنچا رہا تھا۔
ایسے میں فائر بریک پیدا کرنے کی ایک آخری کوشش کی گئی۔ لیکن اس بار ہوکڈ پول کی مدد سے نہیں بلکہ گن پاوڈر کی مدد سے گھروں کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اب آگ کے ساتھ ساتھ گن پاوڈر سے ہونے والے دھماکوں کی آوازیں بھی لندن کی فضاؤں میں گونجیں لگی۔ اور یہ افواہیں پھیلنا شروع ہو گئیں کہ فرانس نے حملہ کر دیا ہے۔
دوستو آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ وہ دور تھا جب دوسری اینگلو ڈچ واڑ Second Anglo-Dutch War جاری تھی اور فرانس انگلینڈ کے خلاف اس جنگ میں لڑ رہا تھا۔ فرانس اور انگلینڈ میں کنفلیکٹ کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ کنگ چارلس پروٹسٹنٹ تھا انگلینڈ پر ایک پروٹسٹنٹ کی حکمرانی تھی جو کتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔
سو جب آگ کے دوران دھماکوں کی آوازیں سنائی دی جانے لگی تو لوگوں میں اور خوف و ہراس پھیلنا شروع ہو گیا کہ کہی فرانس نے حملہ نہ کر دیا ہو۔ لوگ شہر کو چھوڑ کر بھاگ رہے تھے افراتفری کا عالم تھا لیکن ایک اور حادثہ ہو گیا وہ یہ کہ اس آگ نےسینٹ پال کیتھیڈرل چرچ St. Paul’s Cathedral کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کیتھیڈرل کو باہر چاروں طرف لکڑی سے کور کیا گیا تھا اور چھت lead کی بنی تھی. سو جب آگ لگی تو کچھ ہی دیر میں چھت پر موجود سیسہ پگھل کر ندی کی طرح لندن کی گلیوں میں بہتا رہا اور عظیم الشان کیتھیڈرل گر گیا مکمل تباہ ہو گیا۔
خوش قسمتی سے ٹاور آف لندن اس آگ میں محفوظ رہا اور گن پاوڈر کی مدد سے جو گھر گرائے گئے تھے اس سے آگ کو قابو کرنے میں فائدہ ہوا۔ اور یوں دوستو جمعرات چھ ستمبر 1666 تک آگ پر مکمل قابو پا لیا گیا۔
پانچ دن تک جلنے والی آگ کے شعلوں نے لندن کی 373 ایکڑ زمین کوتباہ کر دیا۔ جس میں تیرہ ہزار دوسو مکانات اور87 چرچز، لندن کی سرکاری عمارتیں اور St. Paul’s Cathedral بھی شامل تھے۔ کچھ جگہوں پرتو اس آگ کے بجھ جانے کے بعد بھی مہینوں تک دھواں اتھٹا نظر آتا رہا۔ دوستو ایک اندازے کے مطابق لندن شہر کے اسی ہزار رہائشیوں میں سے ستر ہزار بے گھر ہو چکے تھے۔ لیکن حیران کن طور اتنی بھیانک آگ کے باوجود اموات کی شرح بہت کم رہی۔ اس آگ کے نتیجہ میں صرف چھ افراد جان کی بازی ہارے، یہ ریکاڈر پر موجود ہے۔ لیکن آف ڈی ریکارڈ ہو سکتا ہے چھ سے زیادہ اموات ہوئی ہوں لیکن ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
لندن کے جلے ہوئے علاقے کو دوبارہ بنانے میں تقریبا 50 سال یعنی نصف صدی لگ گی۔ آگ پر قابو پا لینے کے بعد کنگ چارلس سیکنڈ نے یہ اعلان کیا کہ یہ آگ ایکٹ آف گارڈ یعنی خدا کا عمل تھا جس کا کوئی زمہ دار نہیں۔ لیکن جن کے گھر تباہ ہوئے ہوں جو بے گھر ہو گئے ہوں وہ کہاں ان مصلحتوں کو سمجھتے ہیں اور خدا کی مرضی سمجھ کہ صبر کرتے ہیں وہ تو بے چین تھے بے گھر تھے، بے بس تھے۔۔۔۔ بس کسی نہ کسی کو قصوار ٹھہرانا تو ان کا حق تھا۔ لوگ فرانس اور ڈچ کو اس کا زمہ دار ٹھہرانے لگے کیونکہ آپ جانتے ہیں اس دور میں اینگلو ڈچ واڑ بھی جاری تھی۔۔۔ سو لوگ فرانس یا ڈچ کو زمہ دار ٹھہرانے لگے کہ اس آگ لگنے کے پیچھے ان دونوں ملکوں میں سے کسی کا ہاتھ ہے۔۔
لیکن پھر ایک اور دلچسپ واقع ہوا جس نے کہانی کا رخ ہی موڑ دیا۔ دوستو جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ آگ رائل بیکر تھامس فرنیر کی بیکری میں لگی تھی۔ لیکن آپ کو یہ جان کا خیرانگی ہو گی کہ اس کا ذمہ دار ایک فرانسیسی گھڑی ساز رابرٹ ہیوبرٹ کو ٹھہرایا گیا۔ ہوا یوں کہ ستمبر 1666 کے آخر میں ایک پارلیمنٹری کمیٹی بنائی گئی جو اس کیس کی انویسٹگیشن کر رہی تھی کہ یہ آگ کیسے لگی۔ انویسٹگیشن کے دوران رابرٹ ہیوبرٹ نے اعتراف جرم کیا۔ یعنی ہیوبرٹ نے کنفیس کیا کہ یہ آگ اس نے لگائی تھی۔ جس کے بعد اسے سزائے موت دے دی گئی۔ لیکن بعدازاں یہ حقیقت کھل گئی کہ جب آگ لگی تب تو ہیوبرٹ انگلینڈ میں تھا ہی نہیں۔ لیکن اس نے اس جرم کا اعتراف کیوں کیا جو کبھی اس نے کیا ہی نہیں تھا یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب آج تک نہیں مل سکا ملتا بھی بھلا کیسے جب جواب دینے والا ہی تختہ دار پرلٹک گیا ہو۔ لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ شاید وہ انسٹیبل تھا، ذہنی طور پر الجھا ہوا تھا جو جھوٹا اعتراف جرم کر کے موت کی گہری نیند سو گیا۔
سو دوستو کچھ ماہ کی انویسٹگیش کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے یہ رپورٹ پیش کی اس سارے کیس کا یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ یہ آگ کسی نے جان بوجھ کر لگائی ہو۔ یہ آگ لگنا صرف خدا کی مرضی ہی تھی اس کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں۔کیونکہ 2 دستمبر کو موسم سخت گرم تھا اور تیز ہوا چل رہی تھی بس یہی وجہ تھی کہ یہ آگ اتنی تیزی سے اور بڑے پیمانے پر پھیلی۔
لیکن دوستو کیونکہ رائل بیکر جس کی بیکری میں آگ لگی تھی وہ اب بھی ہر زور یہی دعویٰ کر رہا تھا کہ اس رات اس نے اپنے اوون کو اپنے تندور کو مکمل طور پر بند کیا تھا۔ سو پھراگلے کئی سالوں تک مختلف کنپریسی تھیوریز سامنے آتی رہی۔ ظاہر ہے جتنا منہ اتنی باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اور یہاں بات بھی کوئی چھوٹی موٹی تو تھی نہیں 5 دن کی خوفناک آگ کی داستان تھی سو قیاس آرائیاں ہونا الزامات لگانا ایک فطری عمل تھا۔
1678 میں papal conspiracy تھیوری سامنے آئی جس نے یہ دعویٰ کیا کہ 1666 کی یہ آگ کیتھولک فرقے کی سازش تھی۔ لندن کی یہ خوفناک آگ کیتھولک نے لگاوائی تھی۔ دوستو یہ تھیوری اتنی سٹرونگ تھی کہ اگلے ایک سو پچاس سال تک لندن کے لوگ اسی بات پر یقین کرتےرہے کہ یہ آگ کیتھولک کی سازش تھی۔
یوں ایک سو پچاس سال تک ایک بیکر کی چھوٹی سی لاپرواہی کا الزام ایک بڑے فرقے پر لگایا جاتا رہا۔ 1986 میں آخرکار لندن کے بیکرز نے یہ بات قبول کر لی کہ تین سو بیس سال پہلے لندن میں لگنے والی آگ رائل بیکر تھامس فیرنیر ہی کی غلطی کی وجہ سے لگی تھی۔ بیکرز کی ورشیفل کمپنی Worshipful Company of Bakers کے ممبران پڈنگ لین میں جمع ہوئے اور ایک تختی وہاں نصب کی جس میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ ان کا اپنا ایک بیکر تھامس فیرنیر ہی1666 میں لگنے والی خوفناک آگ کا قصوروار تھا۔
دوستو یہ آگ اسی فیصد لندن کو تباہ کر چکی تھی اس آگ کے بعد ایک نیا لندن تعمیر کیا گیا۔ اس آگ نے لندن کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ 1666 کے بعد نئے قواعد و ضوابط بنائے گئے۔ تاکہ فیوچر میں مستقبل میں ایسی تباہی سے بچا جا سکے۔ اس آگ کے بعد مکانات کولکڑی کے بجائے اینٹوں سے تیار کیا جانے لگا۔ لندن کی گلیوں کو مزید کشادہ کردیا گیا اور کئی نئی سڑکیں بچھائی گئیں۔ لندن کے راستوں کومزید بہتر بنایا گیا۔ کئی نئی انشورنس کمپینز اوپن ہو گئی۔ لندن فائر بریگیڈ
کا ایک ڈیپارٹمنٹ بنا دیا گیا۔ اور فائر فائٹرز کو تیزی سے ٹرینگ دی جانے لگی۔ تا کہ مستقبل میں ایسی تباہی سے بچا جا سکے۔ پڈنگ لین جہاں سے یہ آگ شروع ہوئی تھی وہاں ایک مونمنٹ ایک یادگار تعمیر کی گئی۔ جو آج بھی وہیں موجود ہے۔