Home Interesting Facts ایسٹر آئی لینڈ: پراسرار اور حیرت انگیز جزیرہ

ایسٹر آئی لینڈ: پراسرار اور حیرت انگیز جزیرہ

by bigsocho
0 comment

اگر آپ کو اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ایسے جزیرے پر بھیج دیا جائے جس کا رقبہ صرف چند کلومیٹر کا ہو،  اس کا قریب ترین ہمسایہ بھی دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ دور ہو اور آپ کو وہاں رہنا بھی ہمیشہ کے لیے ہو تو آپ کیا کریں گے؟ ہاں یاد آیا انٹرنیٹ، سمارٹ فون اور بجلی جیسی کوئی سہولت میسر نہیں ہو گی۔ اگر کچھ ہو گا تو کچھ سبزہ، مٹی، سمندر کا پانی اور آتش فشاں کی راکھ اور بس۔ 

آپ تو شاید ایسے میں وہاں ہمیشہ رہنے کا تصور بھی نہ کریں لیکن چلی سے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر دور بحرالکاہل کے درمیان میں جنوب کی طرف ایک چونسٹھ مربع میل کا چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس جزیرے کی خاص بات جو اسے دنیا کا سب سے دلچسپ جزیرہ بنا دیتی ہے وہ دیو ہیکل مجسمے ہیں جو کئی ناٹک مائلز  دور سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ پھر یہ کوئی ایک دو نہیں بلکہ آٹھ سو ستاسی، ایٹ ایٹی سیون ہیں۔ یہ مجسمے اس ننھے منے دور آفتادہ جزیرے کو اس لیے حیران کن بناتے ہیں کہ آج تک کوئی سمجھ نہیں سکا کہ یہ اتنے بڑے بڑے مجسمے وہاں کی مختصر آبادی نے کیسے بنائے، کیسے انھیں کھڑا کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آخر انھیں بنایا ہی کیوں تھا انھوں نے؟

یہ مجسمے بہت بڑے بڑے ہیں لیکن ان میں سب سے بڑا مکمل مجسمہ تیتیس فٹ، تھرٹی تھری فیٹ اونچا اور نوے ٹن وزنی ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں کے قدیم رہنے والے بھی نہیں بتا سکتے کہ ان کے آباؤ اجداد نے یہ مجسمے کیسے اور کیوں بنائے تھے۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ اس جزیرے کے چند بچے کھچے باشندے صرف وہ ہیں جو پچھلے تین سو سال سے اپنے بچاؤ کی جنگ ہی لڑ رہے ہیں۔ مجسمے بنانا تو بہت دور کی بات ہے حقیقت میں تو ۔۔۔ وہ زندہ ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے ۔۔۔

اب دیکھئے ہوا یہ تھا کہ سترہ سو بائیس میں ایک ڈچ ایکسپلورر جیکب روگیوین کسی اور جزیرے کی تلاش میں نکلا لیکن غلطی سے اس جزیرے پر جا اٹکا۔ یہ پانچ اپریل کا دن تھا اور مسیحی مقدس تہوار ایسٹر سنڈے تھا۔ اب چونکہ وہ ایسٹر سنڈے کو یہاں اترا تھا سو اس نے اسے ایسٹر آئی لینڈ کا نام دے دیا۔ جیکب روگیوین کو اس جزیرے کے کنارے پر سمندر کی طرف منہ کیے ہوئے بڑے بڑے مجسمے نظر آئے۔ ان کی آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں، چاند کی روشنی میں یوں لگتا تھا بہت سے دیوتا سمندر پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جب روگیوین محتاط انداز میں جزیرے پر اترا تو اس نے دیکھا کہ جزیرے کے کنارے کنارے سیکڑوں مجسمے اور بھی ہیں لیکن یہ سب سمندر کی طرف نہیں بلکہ جزیرے کے اندر کی طرف منہ کیے ہوئے تھے۔ باہر کی طرف منہ کیے ہوئے وہی چند مجمسے تھے جو اس نے شروع میں دیکھے تھے۔ 

جزیرے پر صرف دو سے تین ہزار لوگ ہی آباد تھے جو آلو کی فصل کاشت کرتے تھے اور سمندری حیات پر گزارا کرتے تھے۔ جزیرے کے مشرقی کنارے پر ایک آتش فشاں کا دہانا تھا جس کی وجہ سے ہی یہ جزیرہ شاید کبھی لاکھوں سال پہلے وجود میں آیا ہو گا۔ اس آتش فشاں نے اس جزیرے کے لوگوں کو دو فائدے دئیے۔ ایک یہ کہ اس کی راکھ وہ لوگ جزیرے کی مٹی میں ملا کر اسے زرخیز بنانے کا ہنر سیکھ گئے تھے۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ اسی راکھ کی مدد سے وہ لوگ بڑے بڑے مجسمے بناتے تھے۔ یہ مجسمے غالباً ان کے بڑے لوگوں کی نشانیاں تھیں یا ان کے دیوتاؤں کے خیالی عکس۔ یہ لوگ اپنے جزیرے کو راپا نیوئی کہتے تھے اور ان مجسموں کو موائی کا نام دیا جاتا ہے۔ 

مائی کیورئیس فیلوز یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر راپا نیوئی جزیرے کے لوگ دنیا کے اس سب سے الگ تھلک دور دراز جزیرے پر کیوں آئے اور رہنا شروع ہو گئے؟ یہ سوال اس لیے بھی ایک راز بنا ہوا ہے کہ آج یہاں کے اڑھائی ہزار کے لگ بھگ اصل باشندے نہ تو اپنی قدیم زبان سے واقف ہیں اور نہ ہی مذہب سے۔ لیکن یہاں کے کھدائی اور ملنے والے آثار قدیمہ اور یہاں کی زبان پر تحقیق سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے چار سو عیسوی کے قریب یہاں سب سے پہلے لوگ آباد ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں چندرگپت سیکنڈ کی حکومت تھی اور یورپ میں رومی شہنشاہ کونسٹنٹائن اول عیسائیت کو رومی سلطنت کے مذہب کے طور پر قبول کر رہے تھے۔ ایک اندازہ ہے کہ روپا نیوئی کے لوگ جنوبی امریکہ سے کسی وجہ سے نکلے اور بھٹک کر اس جزیرے تک آ گئے۔ شاید کسی دوسرے قبیلے سے جان بچاتے ہوئے یا مچھلیاں پکڑنے کے دوران کسی طوفان میں اپنی زندگی کی حفاظت کرتے ہوئے یہاں آ گئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ 

یہاں جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ آلو کی فصل اور مچھلیاں پکڑنے کے بعد کام ہی کوئی نہیں تھا۔ پھر آتش فشاں کی راکھ بھی وافر مقدار میں دستیاب تھی۔ سو یہ لوگ اتنے بڑے بڑے مجسمے بنانے اور انھیں ایستادہ کرنے، نصب کرنے ہی میں مصروفیت تلاش کرتے تھے۔ یہ ایک اندازہ ہے کیونکہ اگر ان کے پاس انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز ہوتے تو یہ عظیم الشان مجسمے کبھی تعمیر ہی نہ کرتے۔ 

مقامی روایات میں یہ کہا جاتا ہے کہ راپا نیوئی کا پہلا بادشاہ ہوٹو-مطوعہ Hoto-Matua تھا، جو پولینیشین سب گروپ کے جزائے مارکاسا کا حکمران تھا، پولینیشیا وسطی اور جنوبی بحر الکاہل میں پھیلے ہوئے ایک ہزار سے زیادہ جزیروں پر مشتمل ہے۔مقامی روایات میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بادشاہ ہوٹو مطوعہ ایک جہاز سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے راپانیوئی کے ریتلے ساحل انکینا Anakena پہنچا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہر بادشاہ یا اس کے اہم لوگ اپنے نام سے یہ مجسمے تیار کرواتے ہوں۔ راپانیوئی کے یہ  دیوہیکل مجسمے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آبائی لوگ اپنے کلچر اور ثقافت میں کتنے مہذب تھے۔ 

تو دوستو جیکب روگیوین کی اس دریافت نے یورپینز اور جنوبی امریکہ کے لوگوں کو ایک نئی کالونی کا پتا دے دیا۔ انھوں نے یہاں کے باشندوں کو غلام بنانا شروع کر دیا۔ یورپینز نے انھیں صرف غلام ہی نہیں بنایا بلکہ انھوں نے ایک اور ظلم بھی کیا۔ اگرچہ یہ ظلم نہ چاہتے ہوئے کیا گیا تھا لیکن تھا تو ظلم ہی ناں۔ 

وہ ظلم یہ تھا کہ ایسٹر آئی لینڈ یعنی راپا نیوئی کے لوگوں کے جسم ان بیماریوں کے عادی نہیں تھے جن سے باقی یورپی لوگ امیون ہو چکے تھے۔ یعنی یہاں کے لوگوں میں ان عام سی بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت نہیں تھی جن سے یورپ کے لوگ یا باقی دنیا کے لوگ لڑنے کی قوت مدافعت صدیوں کے سفر میں حاصل کر چکے تھے۔ کیونکہ یہ لوگ تو ہزاروں سال سے الگ تھلگ رہ رہے تھے۔ ایشیا اور یورپ سے تو ان کے سابقہ بڑوں کا بھی تعلق نہیں تھا۔ اس لیے جب یورپینز نے یہاں آنا شروع کیا تو ان کے ساتھ بیماریاں بھی آئیں۔ جن سے یہ لوگ مرنے لگے۔ ہوتے ہوتے یہاں کی آبادی چند سو افراد تک رہ گئی۔ لیکن اس وقت تک انیسویں صدی کا اختتام آ چکا تھا۔ ابراہم لنکن کے دور میں امریکہ میں بھی غلامی کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ اس لیے غلاموں کی ایکسپورٹ میں بھی کمی آ گئی۔ 

دوستو یہ دیوہیکل مجسمے یعنی موآئی کیسے تعمیر ہوئے ان کے بارے میں یہاں کے اصل باشندے اس لیے بھی یقین سے کچھ نہیں بتا سکتے کیونکہ ان کی تعمیر کا آغاز اور پھر اس سلسلے کا ختم کیا جانا ان کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے کا واقعہ تھا۔ یعنی تیرویں سے پندرہویں صدی تک یہ تعمیرات ہوئیں۔ اسے مڈل پیریڈ کہتےہیں

تو خیر دوستو سترہ سو بائیس کے بعد جب ڈچ مہم جو نے انھیں دریافت کر لیا تو اس کے بعد تو پھر یہ اپنی زندگیوں کے بچاؤ کے لیے ہی کوششیں کرتے رہے۔ اس کوشش میں ان کی ستر سے اسی فیصد آبادی ویسے ہی ختم ہو گئی اور جو باقی بچی وہ تین صدیوں میں اپنی اصل زبان اور تاریخ ہی گم کر بیٹھی تھی۔ اگرچہ زبان کے کچھ الفاظ موجودہ لوگوں کی بول چال میں موجود ہیں، لیکن تاریخی واقعات اس لیے محو ہو گئے کہ یہ لوگ تحریریں محفوظ نہیں رکھتے تھے۔ مجسموں پر جو نقوش باقی ہیں بس انھی سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مجسموں اور پتھروں پر تصویری زبان میں کچھ درج ہے بس وہیں سے محدود معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ 

ڈچ اور جنوبی امریکہ کے لوگوں نے شروع میں کچھ ایسے جھوٹ بھی بولے کہ یہ لوگ خوراک کی کمی کے باعث آپس میں لڑ جھگڑ کر ختم ہو گئے تھے۔ لیکن یہ جھوٹ زیادہ دیر تک چل نہ سکا۔ کیونکہ آثار قدیمہ کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ یورپینز کی آمد سے پہلے یہاں ہزاروں کی تعداد میں جو مختصر قبائل موجود تھے وہ بہت اچھے ماہر کاشت کار تھے۔ وہ جزیرے کے ایک چوتھائی سے کچھ کم حصے پر آلو پٹیٹو کاشت کرتے تھے اور مچھلیاں پکڑنے میں بھی بہت ماہر تھے۔ پھر یہ بھی پتا چلا کہ راپا نوئی میں مقامی لوگوں کی تعداد انھی سالوں میں کم ہونا شروع ہوئی جب یہاں یورپی اور جنوبی امریکہ سے لوگوں نے آنا شروع کیا۔ اس کے بعد انھیں غلام بنانے اور بیماریوں سے مار دینے کی وجہ سے ان کی تعداد بہت تیزی سے کم ہوئی۔ یہاں تک کہ نئے لوگ پرانے لوگوں سے علوم بھی نہ سیکھ سکے اور اس تہذیب کی بے شمار خوبصورت چیزیں ہمیشہ کے لیے گم ہو گئیں۔ 

یہ اثر اتنا خوفناک تھا کہ جیکب کے صرف چار سال بعد، جب برطانوی نیویگیٹر سر جیمز کوک ایسٹر جزیرے پہنچے تو وہاں مقامی آبادی بہت کم ہو گئی تھی۔ جسے خوراک کے مسائل کے ساتھ اب آپسی جھگڑوں کا بھی سامنا تھا۔ صرف چار سال میں ان کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر صرف چھ سات سو مرد اور تیس سے بھی کم خواتین تک محدود ہو گئی تھی۔ اپنی تاریخ سے کٹی ہوئی اس مختصر آبادی میں یورپینز نے مذہب کی تبلیغ بھی زوروشور سے کی۔ 

انیسویں صدی میں کیتھولک فرقے کے پادریوں نے ایسٹر جزیرے پر قدم رکھا اور یہاں چرچ قائم کرنا شروع کیے۔ انھوں نے مقامی آبادی میں مسیحیت کی تبلیغ کی اور جو چند سو لوگ رہ گئے تھے انھیں نئے دین کے طور طریقے سکھانا شروع کیے۔ یہ عمل اسی صدی میں مکمل ہوا اور یہاں کی آبادی نئی مذہب میں ڈھل گئی۔ اب یہاں کی آبادی میں آپ کو جابجا چرچ کے علامات نظر آتی ہیں۔ اسی دوران ہی اٹھارہ سو اٹھاسی میں چلی نے ایسٹر جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ چلی نے انیس سو پینسٹھ میں ایسٹر جزیرے کے لئے ایک سویلین گورنر بھی مقرر کیا۔ اب اس جزیرے کے رہائشی چلی کا پاسپورٹ رکھتے ہیں اور دنیا کی آبادی کا ایک حصہ ہیں۔ انیس سو پچانوے میں یونیسکو نے ایسٹر آئی لینڈ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے کر محفوظ کر لیا تھا۔ اگر آپ آج اس الگ تھلگ جزیرے کی سیر کرنا چاہیں تو آپ سینٹیاگو یعنی چلی کے درالحکومت سے پانچ گھنٹے کی فلائٹ لے کر راپا نیوئی تک پہنچ سکتے ہیں۔ 

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu