آج ہم آپ کو یہ بتائیں گے کہ افغان اشرافیہ اور قوم پرستوں کے اس سرحد پر کیا اعتراضات ہیں اور ان کے اعتراضات کی قانونی حیثیت کیا ہے بین الاقوامی قوانین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہم آپ کو جیوپولیٹیکل ٹیلز کی اس قسط میں بتائیں گے!
کیا ڈیورنڈ لائن معاہدہ 100 سال کے لیے تھا؟
افغان اشرافیہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے اکثر یہ بات سننے میں آتی ہے کہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ سو سال کے لیے تھا- اور اس معاہدے کی روح سے خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقے انگریزوں نے سو سالہ لیز پر افغانستان سے حاصل کیے تھے- چونکہ یہ معاہدہ 1893 میں کیا گیا تھا- اس لیے 1993 میں اس معاہدے کے سو سال مکمل ہو جانے کے بعد یہ علاقے اب افغانستان کو واپس مل جانے چاہییں- کچھ افغان یہ بات بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ کسی بھی معاہدے یا ٹریٹی کی زیادہ سے زیادہ مدت صرف سو سال ہوتی ہے- اس لیے ڈیورنڈ لائن معاہدہ بھی سو سال مکمل کر لینے کے بعد 1993 میں ایکسپائر ہو گیا ہے- اس لیے 1993 کے بعد بھی پاکستان کا ان علاقوں پر کنٹرول سراسر ناجائز ہے- کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ افغانستان کا انگریزوں کے ساتھ تھا اور انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہ معاہدے بھی خود ہی ختم ہو گئے-اس رائے کی وجہ سے ہی پاکستان کو اپنے ان علاقوں پر ناجائز طور پر قابض سمجھتے ہیں- کیا بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں افغٖانوں کا یہ موقف درست ہے؟ یہ سب ہم آپ کو اس وڈیو میں بتائیں گے!
افغان عوام کا بڑا حصہ اس خالصتا” قانونی مسئلے کے بارے میں اس قدر شدت پسندی کا شکار ہے کہ وہ کسی دوسرے موقف کو سننے کو ہی تیار نہیں- کسی بھی قانونی مسئلے کے بارے میں حقیقت کوجاننے کے لیے سنی سنائی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے بغیر کسی تعصب کے یہ دیکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی قوانین اور اصل معاہدے کی شقیں اس بارے میں کیا کہتی ہیں-
بین الاقوامی قانون میں معاہدے کب ختم ہوتے ہیں؟
بین الاقوامی قانون میں کسی بھی بین الاقوامی معاہدے اور ٹریٹی کے اطلاق کے متعلق جو قوانین لاگو ہوتے ہیں ان کو Vienna Convention on the Law of Treaties میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے- – دنیا کے اکثریت ممالک ویانا کنونشن کے اس قانون کو پوری طرح مانتے ہیں- Vienna Convention on the Law of Treaties میں کسی بھی معاہدے یا ٹریٹی کے خاتمے کے بارے میں Article 54 میں واضح کر دیا گیا ہے- بین الاقوامی قانون کے اس Article کے تحت دو ملکوں کے درمیان کسی ٹریٹی کے خاتمے کی صرف دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں- پہلی صورت یہ کہ اس ٹریٹی کے اندر ہی اس کے خاتمے کی شرائط، طریقہ کار یا خاتمے کا وقت بیان کر دیا گیا ہو- ان شرائط یا طریقہ کار پر عمل کر کے یا اس بیان کردہ وقت کے گزر جانے کے بعد ٹریٹی ختم کی جاسکتی ہے- کسی ٹریٹی کے خاتمے کی دوسری صورت یہ ہے کہ معاہدہ کرنے والی تمام parties باہمی رضامندی سے اس ٹریٹی کو ختم کرنے کا اعلان کردیں- بین الاقوامی قوانین میں 100 سال بعد ٹریٹی کے expire ہونے والی بات سرے سے موجود ہی نہیں- اس لیے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں کسی بھی معاہدے بشمول ڈیورنڈ لائن معاہدے کے 100 سال بعد خود سے ختم ہو جانے والی بات سراسر غلط ہے- بلکہ یہ ایک بہت بڑی myth ہے جو ناجانے کیسے افغان عوام میں اس قدر مقبول ہو گئی-
اگر افغانستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ 1919 تک افغانستان کی خارجہ پالیسی انگریزوں کے پاس تھی- 1919 میں تیسری اینگلو افغان وار کے بعد افغانستان نے انگریزوں سے باقائدہ آزادی حاصل کی- اس آزادی کا باقائدہ اعلان 1919 کی ٹریٹی آف راولپنڈی میں کیا گیا تھا- 1919 کی ٹریٹی آف راولپنڈی میں افغانستان کو باقائدہ طور پر اندرونی اور بیرونی معاملات میں مکمل آزاد حیثیت دے دی گئی تھی- اس تاریخی حقیقت کو افغانستان سرکاری طور پر تسلیم بھی کرتا ہے- اس کا اظہار افغانستان کی سرکاری دستاویزات میں بھی ملتا ہے- جیسا کہ آپ اسی تاریخی حقیقت کے بارے میں افغانستان کی فارن منسٹری کی ویب سائٹ پر بھی پڑھ سکتے ہیں- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر افغانوں کی اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ کسی ٹریٹی کی مدت سو سال ہوتی ہے- تو پھر 1919 کی ٹریٹی آف راولپنڈی 2019 میں اکسپائر ہو جانی چاہیے- اور 1919 کی ٹریٹی آف راولپنڈی کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کی افغانستان کی آزاد حیثیت پر ہی سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا!
100 سال میں ٹریٹی ختم ہو جانے والے موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے اکثر لوگ ہانگ کانگ کی مثال پیش کرتے ہیں- وہ یہ کہتے ہیں کہ انگریزوں کا ھانگ کانگ کی ملکیت کا معاہدہ 100 سال بعد خود ہی ختم ہو گیا تھا- اور انگریز 100 سال بعد معاہدہ ایکسپائر ہو جانے کے بعد ھانگ کانگ کا کنٹرول چین کے حوالے کر چلے تھے- ھانگ کانگ والی مثال کے جواب میں بین الاقوامی قوانین کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ ھانگ کانگ کے علاقے انگریزوں نے 99 سال کی لیز پر حاصل کیے تھے- اور لیز حتم ہونے کے بعد 1997 میں یہ علاقے انگریزوں نے چین کو واپس کر دیے تھے- مگر ایسا اس لیے ہے کہ انگریزوں نے چین کے ساتھ جو لیز کا جو معاہدہ کیا تھا اس کے اندر باقائدہ طور پر یہ بات لکھی گئی تھی کہ لیز کی مدت 99 سال ہو گی- ماہرین مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ ھانگ کانگ کی مثال کا اطلاق ڈیورنڈ لائن پر اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کے مطابق خیبر ُپختونخوا اور قبائلی علاقے لیز پر انگریزوں کے حوالے نہیں کیے گئے تھے- اور یہ بات بھی بلکل واضح ھے کہ 1893 والے ڈیورنڈ لائن معاہدے میں معاہدے کی ایکسپائری یا خاتمے کی 100 سال یا پھر کوئی اور مدت بیان نہیں کی گئی- اور نا ہی معاہدے میں اس کے خاتمے کی کوئی صورت بیان کی گئی تھی- جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ علاقے 100 سال یا کسی اور مدت کے لیے نہیں بلکے ہمیشہ کے لیے انگریزوں کے حوالے کیے گئے تھے- 1893 کا ڈیورنڈ لائن معاہدے کی کل سات شقیں تھیں- آپ یہ دیکھ سکتیں ہیں کہ دیورنڈ لائن معاہدے کی کسی شق میں بھی اس معاہدے کے خاتمے کی 100 سال یا پھر کوئی اور مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا-
1893 اور 1905 والے معاہدے کب ختم ہوئے؟
جیسا کہ ہم پہلی قسط میں آپ کو بتا چکے کہ 1893 کے بعد 1905، 1919 اور 1921 میں کل چار ایسے معاہدے کیے گئے جن میں افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو بارڈر کے طور پر تسلیم کیا تھا- یہ معاہدے ہی ڈیورنڈ لائن کو قانونی حیثیت دیتے ہیں- کچھ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ 1893 کا معاہدہ برٹش انڈیا کا افغان بادشاہ کے ساتھ تھا، نہ کے افغانستان کے ساتھ اس لیے یہ معاہدہ 1901 میں امیر عبدالرحمان کی موت کے ساتھ ہی حتم ہو گیا- یہی معاملہ 1905 والے معاہدے کے ساتھ بھی تھا- 1905 والا معاہدہ گورنمنٹ آف انڈیا اور امیر حبیب اللہ خان کے درمیان طے پایا تھا- اس لیے یہ معاہدے بھی 1919 میں امیر حبیب اللہ خان کی وفات تک نافذ العمل رہا- مگر کچھ ماہرین بادشاہ کی وفات کے ساتھ معاہدے کی اکسپائری والی رائے سے اختلاف کرتے ہیں- لیکن دونوں صورتوں میں 1919 کے معاہدے پر دستخط کے ساتھ 1893 اور 1905 والے معاہدے ختم ہو گئے- کیونکہ 1919 والے معاہدے میں باضابطہ طور پر پچھلے تمام معاہدے ختم ہو جانے والی بات لکھی گئی تھی- اس لیے عملی طور پر 1893 اور 1905 والے معاہدے 100 سال تو کیا، اس سے بہت پہلی ہی ختم ہو گئے- 1919 والا معاہدہ اس لیے بھی سب سے اہم ہے کہ یہ معاہدہ پہلی دفعہ آزاد افغانستان اور برٹش انڈیا کے درمیان تھا- یعنی کہ یہ معاہدہ دو ریاستوں کے درمیان طے پایا تھا نہ کے بادشاہ اور ریاست کے درمیان- 1919 والے معاہدے میں اس معاہدے کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہ بتایا گیا تھا- اس لیے یہ معاہدہ ہمیشہ کے لیے تھا- 1919 والے معاہدے میں بھی ڈیورنڈ لائن کو باقائدہ بارڈر مانا گیا ہے- 1921 میں افغانستان اور برٹش انڈیا کے درمیان ایک اور معاہدہ کیا گیا- 1921 والے معاہدے میں بھی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو بارڈر کے طور پر تسلیم کیا تھا- اس معاہدے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے طریقہ کار کو طے کرنا تھا- تو بنیادی طور پر یہ ایک تجارتی اگریمینٹ تھا- 1921 والے معاہدے میں پہلی دفعہ پچھلے کسی معاہدے کے برعکس اس معاہدے کو ختم کرنا کا طریقہ بھی لکھ دیا گیا تھا- معاہدے کے آرٹیکل 14 میں یہ لکھا گیا تھا کہ کوئی بھی فریق 1921 والے معاہدے کو پہلے تین سال گزر جانے کے بعد کسی بھی وقت ایک سال کا نوٹس دے کر ختم کر سکتا ہے- 1949 میں افغان لویا جرگا نے اسی آرٹیکل کو بنیاد بنا کر 1921 والا معاہدہ ختم کر دیا- اسی وجہ سے اکثر افغان یہ کہتے ہیں کہ 1921 کا معاہدہ ختم ہو جانے سے ڈیورنڈ لائن بھی ختم ہو گئی- لیکن بین الاقوامی ماہرین اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں- وہ یہ کہتے ہیں کہ 1921 والا معاہدہ ختم ہو جانے سے 1919 والا معاہدہ ختم نہیں ہو جاتا- اور 1919 والا معاہدہ بدستور اپنی جگہ موجود ہے جس میں ڈیورنڈ لائن کو باقائدہ سرحد مانا گیا ہے- یہ بات 1930 میں افغان کنگ نادر خان نے برژس انڈیا کو بھیجے گئے ڈپلومیٹک خط میں بھی مانی تھی کہ ان کا ملک 1919 اور 1921 والے دونوں معاہدوں کو بیک وقت مانتا ہے- اس لیے اب اگر 1921 والا معاہدہ ختم ہو بھی جائے تو 1919 والا تو بدستور اپنی جگہ موجود رہے گا-
کیا انگریزوں کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد یہ معاہدے خود ہی ختم ہو گئے تھے؟
انگریزوں کے برصغیر سے چلے جانے اور پاکستان کے وجود میں آ جانے کے بعد افغانوں نے ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت ماننے سے انکار کرنا شروع کر دیا- کچھ افغانوں کا یہ موقف تھا کہ چونکہ یہ تمام معاہدے ان کے اور انگریزوں کے درمیان طے پائے تھے- اس لیے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہ معاہدے خود ہی ختم ہو گئے ہیں- اور چونکہ افغانستان کا پاکستان سے ڈیورنڈ لائن پر کوئی معاہدہ نہیں- اس لیے ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے- یہ بین الاقوامی قوانین کے سراسر خلاف ہے- آج دنیا کے ملکوں کے درمیان جتنے بھی بارڈر واقع ہیں، ان میں سے اکثریت بارڈرز کولونیل طاقتوں کے درمیان ہی طے پائے تھے- کولونیل طاقتوں کے چلے جانے کے بعد، نئی وجود میں آنے والی آزاد ریاستوں نے وہ بارڈر کولونیل طاقتوں سے ھی inherit کیے یعنی ورثے میں لیے- آج اگر تمام ملک اس بنیاد پر وہ بارڈر ماننے سے انکار کر دیں کہ انہوں نے تو ان بارڈرز کو طے ہی نہیں کیا اور نہ ہی ان بارڈرز کو ماننے کا کوئی معاہدہ کیا ہے- ایسی صورت میں دنیا نا ختم ہونے والی جنگوں کی طرف دھکیلی جائے گا- اور انتہائی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو جائے گی- اسی لیے بین الاقوامی قانون میں اس چیز کو پہلے ہی طے کر دیا گیا ہے- بین اقوامی قانون میں نئی پیدا ہونے والی ریاست یعنی successor state کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سے پہلی ریاست یعنی predesossor state کے طے کیے ہوئے بارڈرز کو مانے گی- بین الاقوامی قوانین میں یہ بات Vienna Convention on Succession of States in respect of Treaties کے Article 11 میں طے کی گئی ہے- اس آرٹیکل میں یہ لکھا ہوا ہے کہ succession of state یعنی ایک ریاست سے نئی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد ایسے معاہدوں کی قانونی حیثیت برقرار رہے گی- جو معاہدے کسی باونڈری یعنی بارڈر کو تشکیل دیتا ہو گا، وہ پرانی ریاست سے خود ہی نئی ریاست کو منتقل ہو جائے گا-ٓ آپ اس بین اقوامی قانون کو سکرین پر پڑھ سکتے ہیں- اسی لیے بین الاقوامی قوانین ڈیورنڈ لائن کے بارے میں بالکل واضح ہیں- کہ یہ معاہدے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ان کی successor state یعنی پاکستان کو منتقل ہو گئے تھے- اسی قانون کے تحت خود افغانستان کے دوسرے بارڈڑ روس کے چلے جانے کے بعد اس کی successor states یعنی تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کو ازخود منتقل ہو گئے تھے- اور افغانستان کو اس قانون کو وہاں لاگو کرنے میں کوئے اعتراض بھی نہیں-
افغانستان کی حکومت اس معاملے کو آج تک اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کورت آف جسٹس یا کسی اور بین الاقوامی فورم پر بھی اسی لیے نہی لیکر گئی کیونکہ انکو پتہ ہے قانونی لحاظ سے انکے دعوے میں کوئی دم خم نہیں اور نہ ہی انکے طرف سے ڈیورنڈ لائن کے بارے میں کیے گئے دعووں کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔