یہ مصر میں موجود ویلی آف کنگز ہے جیسے مقامی زبان میں وادی الملوک کہتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اپنے وقت کے بہت سے طاقتور فرعون دفن ہیں۔ چھبیس نومبر انیس سو بائیس کا دن تھا جب ایک برطانوی ماہر آثار قدیمہ ہاورڈ کارٹر Howard Carter اسی وادی میں موجود ایک مقبرہ کے باہر کھڑا تھا۔ اس مقبرے کی تاریک راہداری کا دورازہ مہر بند تھا سیل تھا۔ یعنی اس سے پہلے اس جگہ کبھی کوئی نہیں آیا تھا۔ ہاورڈ کارٹر کے بلکل پیچھے لارڈ کارناون Lord Carnarvon کھڑا تھا۔ جو ہاورڈ کے اس پروجکٹ کو فنانس کر رہا تھا۔ یہ دونوں افراد جانتے تھے کہ وہ کنگ توتنخمون Tutankhamun کی قبر کے باہر کھڑے ہیں۔ دوستو کنگ توتنخمون ، تقریبا تین ہزار تین سو سال پہلے قدیم مصر میں 18th Dynasty کا آخری فرعون تھا جو نو سال کی عمر میں تخت نشین ہوا اور انیس سال کی عمر میں مر گیا۔ یہ اس کا مقبرہ تھا اور کارٹر اپنی ٹیم کے ساتھ اس کے مقبرے کی چھان بین کرنے آیا تھا۔ یہ پوری ٹیم اس مقبرے میں داخل ہوئی تو وہاں اس نوجوان فرعون کی ممفائیڈ باڈی موجود تھی اس کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت کا سارا سامان وہاں موجود تھا اور دیواروں پر پینٹنگز بنائی گئی تھی۔ جو ممکن ہے اس کی زندگی کی عکاسی کرتی ہوں گی۔
ہاورڈ کارٹر کی اس دریافت نے پوری دنیا میں کھلبلی مچا دی۔۔ میڈیا یہ خبر سنسنی خیز طریقے سے پبلک کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے آرٹیکلز بھی پبلیش ہونے لگے جس کا ٹاپک ہوتا تھا “ممی از کرس”mumies curse یعنی ایسی کہانیاں سنائی جانے لگی جس میں یہ کہا جانے لگا کہ جس نے بھی فرعون کی ممی کو ڈسٹرپ کرنے کی کوشش کی اس پر لعنت ہوتی ہے فرعون کی بدعا اس کا پیچھا کرتی ہے اور اسے نقصان پہنچاتی ہے۔ ٹائمز ان لندن اور نیو یارک ورلڈ میگزین نے بھی ایسے آرٹیکل شائع کیے۔ مارچ 1923 میں اس وقت کی مشہور ناولسٹ میری کوریلی Marie Corelli نے نیو یارک ورلڈ میگزین کو ایک خط بھیجاجس میں اس نے کہا کہ جو کوئی بھی فرعون کے قدیم مقبرے میں داخل ہوتا ہے اسے پریشان کرتا ہے اس کو سخت سزا دی جاتی ہے۔ یہ ساری speculations یہ ساری قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ لیکن پھر اچانک ایک ایسا واقع ہوا جس نے جلتی پہ تیل کا کام کیا۔ ہوا یہ کہ لارڈ کارناون جو ہاورڈ کے اس پروجیکٹ کو فنانشل سپورٹ کر رہا تھا۔ اس کی مچھر کے کاٹنے سے اچانک موت ہو گئی۔۔۔۔۔ لیکن یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ اس پروجیکٹ سے لنک اپ اور بھی لوگوں کی پراسرار موت ہو گئی۔ ان میں مصر کا شہزادہ علی کامل فہمی بے بھی شامل تھا جیسے اس کی بیوی نے 1923 میں گولی مار کے قتل کیا۔ سر آرکیبلڈ ڈگلس ریڈ Sir Archibald Douglas Reid، جنہوں نے کنگ تتخمون کی ممی کا ایکسرے کیا تھا ان کی بھی 1924 میں پراسرار طور پرموت ہو گئی۔ کارٹر کے سیکرٹری کی بھی 1929 میں موت ہو گئی۔ اور اس کے باپ نے بھی 1930 میں خودکشی کر لی۔ لیکن ہاورڈ کارٹر جو اس سارے پورجیکٹ کو لیڈ کر رہا تھا اس نے اس ممی از کرس کی باتوں کو ‘ٹومی روٹ’ یعنی بکواس قرار دے دیا۔ اس نے کہا یہ سب قیاس آرئیاں ہیں جن کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں۔ لیکن پھر چند سالوں بعد ہی مارچ 1939 میں کنیسر کی بیماری کی وجہ سے موت واقع ہو گئی۔
مائے کیوریس فیلوز یہ ساری اموات وقعی ممی از کرس کی وجہ سے ہوئی یا اس کے پیچھے وجہ کچھ اور تھی اس پر بعد میں بہت سی تھیوریز پیش کی گئی ہیں۔ کے ایک ممی کیسے اپنا بدلہ لے سکتی ہے؟ یہ بدلہ تھا یا کچھ اورمگر یہاں آپ کے کیوریس مائنڈ میں یہ سوال تو ضرور آیا ہوگا کہ آخر یہ مصری لوگ ممیز بناتے ہی کیوں تھے اور یہ ممیز بنائی کیسے جاتی تھیں؟ تو دوستو آپ نے گبھرانا نہیں ہے ہم آپ کو سب سوالوں کا جواب اسی ویڈیو میں دئیں گئے۔
پہلے تو ممی کا لفظ سنتے ہی فوراً آپ نے امیجن کیا ہوگا وہ سب جو آپ موویز اور ڈرامہ میں دیکھتے آئیں ہیں۔۔ کہ ایک انسانی جسم سفید پیٹیوں میں لیپٹا بلکل سیدھا ایک تابوت میں لیٹا ہے جیسے ہی آپ اس تابوت کے پاس جاتے ہیں تو وہ آپ کو دیکھتے ہی سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور بازوؤں کو پھیلاتا ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ اور آپ اسے دیکھ کے ڈر سے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن رک جائیں دوستویہ توآپ صرف امیجن کر رہے تھے۔ حقیقت اس سے مختلف ہے اس میں آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ اس ویڈیو میں ہم آپ کو ریئل ممیز کے بارے میں ہی تو بتانے جا رہے ہیں۔ ممیز کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اور ان کی دلچسپ تاریخ بھی ہے۔
دوستو قدیم مصری مذہبی روایات میں انسانی جسم کو مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے مخفوظ کرنے کو بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔ ممی ایسے ہی جسم کو کہا جاتا ہے جو موت کے بعد بھی محفوظ رہے۔ آرٹیفیشل پریزرویشن یعنی مصنوعی طریقے سے جسم کو سٹور کرنے کا یہ طریقہ ممی فیکیشن Mummification کہلاتا ہے۔
قدیم مصری لوگ لائف افٹر ڈیتھ یعنی موت کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا یہ یقین تھا کہ جیسے روز سورج مغرب میں غروب ہونے کے بعد اگلے دن پھر مشرق سے طلوع ہو کر اپنی روشنی بکھرتا ہے۔ اور جیسے ایک بیج کو زمین میں بویا جائے تو اس سے پودے نکلتے ہیں درخت بنتے ہیں اور دن رات میں اور رات دن میں تبدیل ہوتی ہے اسی طرح جب کوئی انسان مر جاتا ہے تو موت کے بعد اس کی نئی زندگی کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ موت کے بعد جسم کو ممی میں کنورٹ کر دیا جاتا تھا۔ لیکن آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتاتے ہیں دوستو وہ یہ کہ ان ممیز کو اکیلے ہی ایک قبر میں دفن نہیں کیا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے ساتھ ان کی استعمال کی اشیائ یعنی فرنیچر، گیمز اور کھانے پینے کا سامان اور قیمتی ہیرہ جوہرات بھی رکھا جاتا تھا۔ تا کہ موت کے بعد نئی زندگی ان کی پرسکون گزرے۔ کیونکہ ان کا یہ بیلیو تھا کہ اس نئے سفر میں انہیں پرانی زندگی کی روزمرہ استعمال کی چیزوں کی بھی ضروت ہوتی ہے۔
مصر میں فرعونوں نے بڑے بڑے اہرام تعمیر کروائے ہوتے تھے یہ اہرام مصر دراصل فرعونوں کے مقبرے ہی ہیں۔ جہاں مرنے کے بعد ان کی ممی اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے ساتھ ساتھ ان کی زندہ کنیزوں اور پالتو جانوروں کو بھی ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ اگر فرعون کے جسم کو حنوط کر کے محفوظ کر دیا جائے گا تو فرعون ہمیشہ زندہ رہے گا۔اور یہ بڑے بڑے اہرام فرعون کے جسم اور اس کی چیزوں کی حفاظت کریں گے۔ ان اہرام کی دیواروں پر ان کی زندگی کے مناظر پینٹ کیے جاتے تھے۔تاکہ انہیں یاد رہے وہ کیسی زندگی گزار کے آیا ہے۔
دوستو چوبیس سو قبل ازمسیح میں مصر میں مردوں کو حنوط کرنے کا یا اگر انگلش میں کہیں تو ممفیکیشن کا عمل شروع ہوا۔ اور یہ گریکو رومن پیریڈ یعنی وہ دور جب Alexander the Great نے مصر پر قبضہ کیا اس دور تک جاری رہا۔ ایسے شواہد ملتے ہیں۔ مصریوں کے شروع کے دور میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ صرف فرعون ہی امر ہو سکتے ہیں۔ یعنی صرف فرعون ہی مرنے کے بعد نئی زندگی کے سفر میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے انھیں حنوط کرنا چاہیے۔ ان کے علاوہ کسی عام آدمی بعد از مرگ زندگی کی یہ سہولت میسر نہیں۔ لیکن پھر دوہزار قبل مسیح تک ان رویوں میں کچھ حد تک تبدیلی آئی اور اب یہ سمجھا جانے لگا کہ کوئی بھی مصری یا فراعین کے دیس میں رہنے والا انسان امر ہو سکتا ہے۔ یعنی اب یہ سہولت کسی کے لیے میسر تھی، کہ وہ موت کے بعد نئی زندگی ک سفر کو انجوائے کر سکے، کم از کم ان کی سوچ کی حد تک تو تھی۔ لیکن ظاہر ہے دوستو اس کے لیے تو لاش کو حنوط یا ممفائی کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ ایک مہنگا کام تھا اسے صرف بہت امیر لوگ ہی افورڈ کر سکتے تھے۔ اب آپ سوچئیے کہ اس میں ایسا بھلا کیا تھا کہ اسے امیر لوگ ہی افورڈ کر سکیں؟ تو اس کو سمجھنے کے لیے ذرا ممی فکیکشن کے عمل کو سمجھیں۔ تو مائے کیوریس فیلوز یہ کوئی چند گھنٹوں کا پراسس نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ یہ کل ملا کر ستر دنوں کا، سیونٹی ڈیز کا ایک لمبا اور پیچیدہ سائنٹیفک عمل ہوتا تھا۔
جس کے دوران ممفیکیش کرنے والے شخص نے موت کے دیوتا انوبس Anubis سے مشہابت والا جیکل ماسک پہنا ہوتا تھا۔ اس عمل میں سب سے پہلے مردے کے جسم کو دھو کر صاف کیا جاتا تھا پھر اس کے جسم کے اندرسے تمام اعضاء ہٹا دیے جاتے تھے نکال دیے جاتے تھے۔ صرف دل کو اسی جگہ رہنے دیا جاتا تھا۔ وہ دل کو اس لیے جسم میں چھوڑا کرتے تھے کیونکہ مصریوں کا خیال تھا کہ دل ذہانت اور جذبات کا مرکز ہوتا ہے۔ قدیم مصری لوگ دماغ کو بیکار چیز سمجھتے تھے۔
اس کے بعد جسم کو ایک خاص سٹفینگ سے بھر دیا جاتا تھا اور نائٹرن natron نامی مادہ پورے جسم پر لگایا جاتا تھا۔ یہ ممفیکشن کا سب سے اہم انگیڈینٹ تھا اجزاء تھا۔ دوستو نائٹرن ایک قدرتی نمک ہوتا ہے جس میں سوڈیم کاربونیٹ اور سوڈیم بائک کاربونیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں سوڈیم کلورائد اور سوڈیم سلفیٹ کی کچھ تعداد بھی موجود ہوتی ہے ۔ عام زبان میں آپ اسے نمک اور بیکنگ سوڈا کہہ سکتے ہیں۔
مصر کے قدیم لوگ اسے لاشوں کو خشک کرنے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے ۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ نمک جسم سے سارا پانی ساری نمی جذب کر لیتا تھا۔ اس کے بعد جسم کو چالیس پچاس دن کے لیے ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اور پھر فوٹی ففٹی دئیز کے بعد جسم میں موجود سٹفینگ کو نکال کر لیلن linen یا بھوسا یعنی sawdust بھر دیا جاتا تھا۔ اور پوری باڈی پر مختلف اقسام کے آئلز وغیرہ لگائے جاتے تھے۔ پھر اس کے بعد پوری باڈی کو سارے جسم کو لیلن سے کور کرکے کفن میں ڈھانپ دیا جاتا تھا۔ اور اس کے چہرہ پر ایک ماسک لگا دیا جاتا تھا۔ یہ ماسک زیادہ تر کارنٹیج cartonnage یعنی ایک قسم کا پلاسٹر اور لکڑی کا بنایا جاتا تھا۔ لیکن شاہی ممیز کے لیے یہ ماسک سونے اور چاندی سے تیار کیا جاتا تھا۔ تاریخ میں سب سے مشہور ماسک کنگ توتخمون کا ہے۔ جو ایک مصر کے ایک میوزم میں موجود ہے اور اس کی ورتھ اس کی قیمت دو میلن ڈالرز ہے۔
سو دوستو ماسک لگنے کے بعد آخر میں تیار کی گئی اس ممی کو پتھر کے بنے ایک تابوت میں رکھی جاتی تھے اور پھر اس ممی کو نئے سفر پر روانہ کر دیا جاتا تھا۔یعنی دفنا دیا جاتا تھا۔
دوستو ممفیکشن سے پہلے مصر میں لاشوں کو ایک گڑھے میں سلیپنگ فیٹل پوزیشن sleeping fetal position میں رکھا جاتا تھا اور اس کےسساتھ مٹی کے برتن اور جیولری بھی رکھی جاتی تھی۔ پھر اس گڑھے کو ریت سے ڈھانپ دیا جاتا تھا جوجسم کا سارا پانی جذب کر لیتی تھی اور یوں جسم کوحنوط کر دیا جاتا تھا، یعنی اس کی ممی فکیشکن ہو جاتی تھی اور اپنے تئیں وہ اسے اگلی زندگی کے لیے محفوظ کر لیتے تھے۔ اور آپ کی دلچسپی کے لیے یہ بتا دیں کہ آج بھی دنیا میں ایسا کیا جاتا ہے۔ لینن، روسی ڈکٹیٹر اسٹالن اور چینیز انقلابی رہنما ماؤ کی لاشیں بھی حنوط کر کے محفوظ کی گئی تھیں۔ اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ آج بھی لاشوں کو حنوط کرنے کا بنیادی طریقہ وہی ہے جو مصری ہزاروں سال پہلے استعمال کرتے تھے۔