Home Geopolitics پشتونستان مسئلہ کیا ہے؟

پشتونستان مسئلہ کیا ہے؟

by bigsocho
0 comment

مسئلہ کیا تھا افغانستان کے پشتون کیوں اسکا مطالبہ کر رہے تھے؟ گریٹر افغانستان کیا چیز ہے؟ افغانستان نے کب کب اور کیوں پاکستان کی نوزائیدہ ریاست میں درآندازی کی اور کس طرح پاکستان کیخلاف سورش کو ہوا دی؟پاکستان کی اشرافیہ نے کب اور کیوں افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت شروع کی؟ آئیے سب جانتے ہیں

جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے کہ گریٹ گیم کے نتیجے میں قائم ہونے والی سرحد یعنی ڈیورنڈ لائن نے خطے میں موجود پشتون آبادیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا- چند مقامات پر تو یہ تقسیم اتنی مصنوئی تھی کہ اس سے ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب موجود کچھ گاوں تک کو تقسیم کر دیا- صدیوں سے اکٹھے رہنے والے لوگوں اور آپس میں رشتے داریاں رکھنے والے لوگوں کے درمیان یہ مصنوئی دیوار ڈیورنڈ لائن حائل ہو گئی تھی- اسلئے قبائلی علاقوں میں ایک حلقے نے اس لائن کی موجودگی کو کبھی دل سے تسلیم نہ کیا- اور ان کے لیے اس لائن کی محض ایک مصنوعی سی حیثیت ہی رہی- ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف موجود قبائل کے برعکس پاکستان کے دوسرے سیٹلڈ علاقوں کے پشتونوں کی اکثریت کے لیے ڈیورنڈ لائن کوئی مسئلہ نہ تھی- خاص طور پر NWFP یعنی شمال مغربی سرحدی صوبے کی پشتون اکثریت خطے کے دوسرے پشتونوں کے مقابلے میں اپنی بھی ایک جداگانہ حیثیت اور شناخت رکھتے تھے- کافی عرصے تک انگریزوں کے قائم کردہ نظام اور برصغیر کی دوسری مسلم آبادیوں سے جڑے رہنے کی وجہ سے ان کی زندگی اور معاشی مفادات افغانستان کے پشتونوں کی بجائے برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ مضبوط ہو گئے تھے- برصغیر کا حصہ رہنے کی وجہ سے NWFP یعنی شمال مغربی سرحدی صوبے کے پشتونوں کی سیاسی سوجھ بوجھ اورسوچ افغانستان کے پشتونوں سے قدرے مختلف ہو چکی تھی- اس لیے وہ اپنے آپ کو برصغیر کا ہی ایک اہم حصہ تسلیم کرتے تھے- NWFP کی عوام کی اکثریت کے برعکس کچھ پشتون قوم پسند اپنا مستقبل برصغیر کے دوسرے مسلمانوں کی بجائے افغانستان کے پشتونوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے تھے- وہ یہ چاہتے تھے کہ برصغیر کے پشتون بھی افغانستان کا حصہ بن جائیں- وہ لوئے افغانستان یعنی گریٹر افغانستان کی خواہش رکھتے تھے- ان کے بطابق اگر زمینی حقائق کی وجہ سے ایسا ممکن نہ بھی ہو تو NWFP اور برصغیر کے قبائلی علاقوں کو ملا کر برصغیر کے پشتونوں کے لیے ایک نیا ملک پشتونستان یا پختونستان تشکیل دے دیا جائے-

 پشتونستان یا گریٹر افغانستان کے مطالبے کے پیچھے کیا مفادات تھے؟

ڈیورنڈ لائن کے دوسری طرف افغانستان میں موجود پشتون اشرافیہ بھی کچھ ایسا ہی چاہتی تھے- افغانستان میں موجود پشتون اشرافیہ تو بلوچستان کو ساتھ ملا کر گریٹر افغانستان کی خواہشمند تھے- ان کی اس خواہش کے پیچھے دو بڑے مفادات تھے- پہلا یہ کہ افغانستان میں پشتونوں کے علاوہ دوسری کافی قومیتیں آباد ہیں- جیسا کہ تاجک، ہزارہ، ایمک، ازبک، ترکمن، بلوچ وغیرہ وغیرہ- اگرچہ افغانستان کی سب سے بڑی قومیت پشتون ہی تھی مگر وہ پوری افغان آبادی میں اقلیت یعنی محض 42٪ ہی تھی- اس طرح وہ افغان آبادی کی اکثریت نہ بنتی تھی- افغانستان میں پشتونوں کے بعد دوسری بڑی قومیت ازبک تھی، جن کی آبادی پشتونوں سے صرف 15٪ کم یعنی پوری آبادی کا 27٪ حصہ تھی- اس لیے افغانستان کی حکمرانی اور سیاست میں پشتونوں کو تاجک اور دوسری قومیتوں کی طرف سے کشمکش کا سامنا رہتا تھا- آبادی کی اسی demography کے پیش نظر افغانستان کی پشتون اشرافیہ یہ چاہتی تھی کہ اگر برصغیر کے پشتون بھی افغانستان میں شامل ہو جائیں تو افغانستان میں پشتونوں کے بھاری اکثریت قائم ہو سکتی ہے- جس سے افغانستان کی پشتون اشرافیہ کے لیے افغانستان کے اقتدار پر قائم رہنا آسان ہو جائے گی-

افغانستان کی پشتون اشرافیہ کی طرف سے گریٹر افغانستان کی خواہش کے پیچھے دوسرا فائدہ معاشی تھا- وہ یہ کہ بلوچستان کی گریٹر افغانستان میں شمولیت سے افغانستان جیسے landlocked ملک کو سمندر تک رسائی مل سکتی تھی- اس سے افغانستان جیسے خشکی میں گھرے ہوئے ملک کے لیے بیرونی دنیا سے سمندر کے راستے تجارت ممکن ہو جاتی تھی- 

قیام پاکستان سے پہلے انگریز سے مطالبہ اور ریفرنڈم میں عبرتناک شکست

برصغیر کی تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے جب افغانستان کو یہ یقین ہو گیا کہ اب انگریز برصغیر چھوڑ کر  چلے جائیں گے- افغانستان کی توسیع پسند حکومت نے تقسیم کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے انگریزوں کے سامنے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ کھڑا کر دیا- اور یہ مطالبہ کر دیا کہ انگریز جاتے جاتے دریائے سندھ تک تمام پختون علاقے افغانستان کے حوالے کر جائیں- افغانستان کی حکومت یہ چاہتی تھی کہ موجودہ دور کے خیبر پختون خوا، قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے علاقوں کو افغانستان میں ضم کر کے ایک گریٹر افغانستان بنایا جائے- مگر انگریزوں نے افغانستان کا یہ غیر قانونی مطالبہ سختی سے رد کر دیا- ایک طرف دیورنڈ لائن کے مغرب میں افغانستان کی حکومت اس علاقے کو لینا چاہ رہی تھی، تو دوسری طرف دیورنڈ لائن کے مشرق میں کچھ پشتون نیشنلسٹ بھی اپنے لیے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کر رہے تھے- اسی سلسلے میں  جون 1947 کو بنوں میں پشتون قوم پرستوں نے ایک قرارداد پاس کی- اس قرارداد کو تاریخ میں بنوں قرارداد یا پشتونستان کی قرارداد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- قرارداد میں انگریزوں سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ یعنی موجودہ دور کے خیبر پختونخوا کو ہندوستان یا پاکستان میں شامل نہ کیا جائے- ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کی آپشن دینے کی بجائے شمال مغربی سرحدی صوبے کو پشتونوں کے لیے آزاد ملک کی حیثیت دے دی جائے- بنوں قرارداد پیش کرنے والوں میں باچا خان، عبد الصمد خان اچکزئی،( Faqir of Ipi )   فقیر ایپی ، خدائی خدمتگزار اور کچھ قبائلی سردار بھی تھے-

 برطانوی راج نے بنوں قرارداد کے مطالبات پر غور کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ اس قرارداد سے پہلے ہی برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے ایکٹ کا مسودہ فائنل ہو چکا تھا- جس میں برطانوی ہندوستان کو دو نئے آزاد ملکوں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کردینے کا اعلان کیا جا چکا تھا- اور اس قانون میں کسی مزید آزاد ریاست کی کوئی آپشن نہ تھی- اس قانون میں یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کی قسمت رائے شماری کے نتیجہ سے مشروط ہوگی۔ یعنی کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کی عوام ریفرینڈم میں اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ان کا صوبہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتا ہے یا بھارت کا-

انگریزوں کی طرف سے پشتونستان کے مطالبے کو ریفرینڈم میں ایک آپشن کے طور پر شامل نہ کیے جانے کے بعد پشتون قوم پسندوں نے ریفرینڈم کے boycott کا اعلان کر دیا- اس بائیکاٹ کے حق میں سب سے تواناں آواز باچا خان کی تھی جن کے بھائی خان عبدالجبار خان ‎اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبے کے چیف منسٹر تھے- جب ریفرینڈم کے لیے ووٹ ڈالے گئے تو شمال مغربی سرحدی صوبے کی 99% عوام نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا- ریفرینڈم کے نتائج قوم پرستوں کی بہت بڑی شکست تھی- عوام کی بہت بڑی اکثریت نے قوم پسندوں کی طرف سے ریفرینڈم کے بائیکاٹ کے مطالبے کو رد کر دیا- NWFP کی پشتون عوام نے اپنا یہ فیصلہ سنا دیا کہ وہ اپنا مستقبل برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہی دیکھتی ہے- ریفرینڈم کا ٹرن آوٹ یعنی ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 51٪ رہی- یاد رہے کہ انہیں ووٹر لسٹوں پر پچھلے انتخابات میں ٹرن آوٹ 60٪ رہا تھا- جو کہ پچھلے انتخابات کے ٹرن آوٹ سے صرف 9٪ ہی کم تھا- انتہائی گرم موسم میں ہونے والے ریفرینڈم میں پشتون عوام کی بہت بڑی تعداد میں شمولیت سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ پشتون عوام کی اکثریت نے قوم پسندوں کے پشتونستان کے نظریے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے- اور پشتون عوام نے پشتونستان کی بجائے پاکستان کا حصہ بننے کو ترجیح دی-

پاکستان بنتے وقت قبائلی علاقوں میں بھی جرگے منعقد کیے گئے جن میں قبائلی لیڈروں نے اپنی عوام کی طرف سے پاکستان میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا- اس طرح خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کی عوام نے افغانستان کے گریٹر افغانستان اور پشتون قوم پسندوں کے پشتونستان کے مطالبے کو سختی سے مسترد کر دیا- ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سے پشتونستان کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو جاتا مگر کچھ اندرونی اور بیرونی حلقوں کی جانب سے یہ مسئلہ وقتا” فوقتا” اٹھایا جاتا رہا-

افغانستان کا پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار اور مسلح سورش کا آغاز

افغانستان نے چونکہ ڈیورنڈ لائن کو پاکستان افغانستان کا باقائدہ بارڈر تسلیم نہیں کیا تھا- اس لیے افغانستان نے پاکستان کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا- جب 1947 میں پاکستان کو اقوام متحدہ میں شامل کرنے کے لیے ووٹنگ کی گئی تو افغانستان ہی وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا- افغانستان کی حکومت کی طرف سے ایک نوزائدہ برادر ہمسایہ ملک کے خلاف ایسے سخت اقدام نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو شروع ہی سے کشیدہ کر دیا- افغانستان کی حکومت نے قبائلی علاقوں میں کچھ قبائلی لیڈروں کو سورش کے لیے تیار بھی کیا- 

افغانستان نے فقیر ایپی کی سربراہی میں پشتونستان تحریک کی مالی سرپرستی کرنا شروع کر دی۔ فقیر ایپی کا تعلق North Waziristan میں افغانستان کے بارڈر کے قریب واقع گاوں Gurwek سے تھا- فقیر ایپی نے قیام پاکستان کو برطانوی سامراج کا تسلسل قرار دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف قبائلی لشکر تشکیل دے دیا- انہیں کابل حکومت کی مستقل حوصلہ افزائی اور مالی مدد حاصل رہی- فقیر ایپی نے Gurwek میں پشتونستان کے حق میں propaganda کرنے کے لیے اپنا پرنٹنگ پریس اور ایک رائفل فیکٹری بھی قائم کی۔ فقیر ایپی کے قبائلی لشکر نے گوریلا کاروائیاں کرتے ہوئے datta khel کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا- فقیر ایپی نے پشتونستان کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور اپنے آپ کو پشتونستان کا پہلا صدر بھی مقرر کر دیا- فقیر ایپی نے 29 مئی 1949 کو Gurwek میں ایک قبائلی جرگہ بلایا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ آزاد ریاست پشتونستان کو تسلیم کرے۔ اس غیر قانونی مطالبے اور افغانستان کی طرف سے ان شر پسند کاروائیوں کی حمایت کے جواب میں، پاک فضائیہ نے فقیر ایپی کے کمپاونڈ اور سرحدی علاقوں میں افغان سپانسرڈ عسکریت پسندوں کے کیمپوں پر بمباری کی۔ اس کاروائی سے پاکستان میں موجود شر پسند عناصر تو کمزور ہوئے مگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور کشیدہ ہو گئے-

 محمد داؤد خان کے پاکستان پر وار اور پاکستانی سفارتخانوں پر حملے

اس عرصے میں افغان میڈیا نے بھی قبائلی علاقوں میں اپنے پراپیگینڈہ کو مزید تیز کر دیا- افغان میڈیا پاکستان کے شمال مشرقی سرحدی صوبے اور بلوچستان کو بالترتیب شمالی پشتونستان اور جنوبی پشتونستان کے نام سے پکارتا رہا- ویسے تو کابل میں بیٹھے تمام حکمران گریٹر افغانستان کا خواب دیکھتے رہے- مگر ڈیورنڈ لائن کے خلاف اور پشتونستان کے سب سے بڑے حامی محمد داؤد خان تھے- داؤد خان 1939 سے 1953 تک افغانستان کی فوج میں ایک اہم کماڈر اور بعد میں دفاع کے وزیر کے طور پر کام کرتے رہے- کابل حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیوں میں داؤد خان کا بہت بڑا ہاتھ تھا- پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سورش کی کوششوں میں بھی ان کا بہت بڑا عمل دخل تھا- وہ 1953 سے 1963 تک افغانستان کے وزیر اعظم بھی رہے- اس عرصۓ میں انہوں نے پاکستان میں دخل اندازی اور سورش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا-

 1955 میں جب پاکستانی حکومت نے مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ختم کر کے ون یونٹ میں ضم کیا- تو افغان حکومت نے پاکستان حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی- اور اسے پاکستان میں پشتونوں کے حقوق، شناحت اور کلچر پر ڈاکا قرار دیا- افغان حکومت کی ہی ایما پر ایک ہجوم نے کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا اور سفارت خانے میں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی- ان شر پسندوں نے سفارت خانے پر سے پاکستان کا جھنڈا اتار کر پشتونستان کا جھنڈا لہرا دیا- اگلے ہی دن شر پسندوں کے ایک اور ہجوم نے قندھار اور جلال آباد کے پاکستانی قونصل خانے پر بھی حملہ کیا- ان سب واقعات میں افغانستان حکومت خاموش تماشائی بنی رہی- ان واقعات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے تعلقات اور کشیدہ ہو گئے- اور جوابا” پاکستان نے کچھ عرصے کے لیے افغانستان سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے- پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بھی بند کر دی اس سے افغانستان کو پاکستان کے راستے ہونے والی تجارت بھی کچھ عرصے کے لیے رک گئی-

افغان اشرافیہ کے اندر ڈیورنڈ لائن کے خلاف پایا جانے والے جنون اس قدر شدید تھا کہ وہ اپنے ملک کے مفاد میں پاکستان کے ساتھ دوستانہ پالیسیاں بنانے کی بجائے بےجا طور پر اپنی توانئیاں ڈیورنڈ لائن اور پشتونستان کے لایعنی اور بے مقصد اشو پر لگاتے رہے- 1960 میں داؤد خان نے پشتونستان کے مسئلے کو ایک بار پھر زندہ کر دیا اور ڈیورنڈ لائن کے اس پار پاکستان کی باجوڑ ایجنسی میں اپنی فوج بھیج دی- افغان افواج کی طرف سے پاکستان پر کیے گئے اس حملے کو پاکستانی قبائلیوں نے بڑی بہادری سے روک دیا۔ اس عرصے کے دوران، افغانستان کی طرف سے ریڈیو کے ذریعہ جاری پروپیگنڈا میں مزید تیزی آ گئی- پچھلی دفعہ کے ناکام حملے کو بھلاتے ہوئے 1961 میں ایک بار پھر داؤد خان نے بڑی افغان فوج کے ساتھ باجوڑ پر حملہ کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ اس حملے میں افغان فوج کے ساتھ افغان صوبے کنڑ کے قبائلی بھی کافی بڑی تعداد میں شامل تھے- 

پاکستان کی جوابی کاروائی اور افغانستان کی شکست

پاکستانی حکومت افغان اشرافیہ کی طرف سے پشتونستان کی صورت میں روز روز کی پاکستان مخالف در اندازیوں سے تنگ آ چکی تھی- اس لیے پاکستان حکومت نے اب کی بار ایک توانا جواب کا فیصلہ کر لیا- پاکستان نے ایف 86 سابرس(F-86 Sabres)جیٹ طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے افغان فوج پر شدید جوابی حملہ کیا- پاکستان کے فضائی حملے سے افغان فوج اور کنڑ کے قبائلیوں کا بھاری جانی نقصان ہوا- پاکستان نے متعدد افغان فوجی بھی پکڑ لیے- جنہیں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا گیا جس کے نتیجے میں داؤد خان کو کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

افغان حکمرانوں کے رویوں اور مسلسل دخل اندازی سے تنگ آ کر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی تمام سرحد بند کردی- اور افغانستان پر پاکستانی راستے سے تجارت پر مکمل پابندی لگا دی- افغانستان انگور، انار اور دوسرے پھلوں کی تمام برآمد پاکستان کے راستے ہی کیا کرتا تھا- اس کے علاوہ افغانستان کو دنیا کی طرف سے ملنے والی ترقیاتی امداد بھی پاکستان کے راستے ہی ملتی تھی- پاکستان نے اپنی سرزمین سے ایسی تمام ترقیاتی امداد بھی بند کروا دی- پاکستان کے ان جوابی اقدامات کی وجہ سے افغانستان میں معاشی بحران میں مزید اضافہ ہو  گیا اور افغانستان کا سوویت روس پر انحصار بہت زیادہ ہو گیا۔

پاکستان کی طرف سے عائد تجارتی بابندیاں دو سال تک جاری رہیں- اس کی وجہ سے افغانستان میں معاشی بدحالی شدید صورتحال اختیار کر گئی- مارچ 1963 میں افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے اس بنیاد پر داؤد خان سے استعفیٰ طلب کیا کہ ان کی پشتونستان پالیسی کے نتیجے میں ملکی معیشت خراب ہورہی ہے۔ مارچ 1963 میں داؤد خان کے جبری مستعفی ہونے کے بعد مئی میں پاکستان نے افغانستان پر سے تجارتی پابندیاں ہٹا لیں اور بالآخر بارڈر کھول دیا۔ داؤد خان کے حکومت سے چلے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات قدرے بہتر ہو گئے-

داؤد خان چونکہ افغان فوج میں جنرل رہ چکے تھے، اسلیے فوج میں ان کا کافی اسرورسوخ تھا- وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ لیے جانے کے دس سال بعد، یعنی 1973 میں داؤد خان نے افغان فوج کے افسران کی پشت پناہی سے بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار میں قبضہ کر لیا- داؤد خان نے خود کو افغان جمہوریہ کا پہلا صدر مقرر کردیا۔ اقتدار میں آنے کے فورا بعد داؤد خان نے پشتونستان کا شوشہ ایک بار پھر چھوڑ دیا- افغانستان نے پاکستان کے خلاف سرگرم پشتون اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی مدد شروع کر دی- داؤد خان کی حکومت نے پختون زلمے نامی دہشت گرد تنظیم اور بلوچی گوریلا فورسز کو بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی تربیت دینا شروع کی۔ دہشت گردی کی اسی نئی لہر میں وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے ایک سینئر ساتھی اور خیبر پختونخوا کے سابقہ گورنر حیات خان شیر پاؤ بھی جاں بحق ہوگئےتھے-

پاکستان کی نئی حکمت عملی کا آغاز اور سوویت روس کی انٹری

ان تازہ کاروائیوں کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید بگڑ گئے۔ اس موقع پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے یہ نتیجہ اخز کر لیا کہ افغانستان اس بین القوامی سرحد کو کبھی نہی مانے گا اور پاکستان کے خلاف ہر ممکن سازش اور عدم استحکام کے حربوں کو باوجود اپنے مالی اور سیاسی نقصان کے جاری ہی رکھے گا۔اور اس کے توڑ کے طور پر پاکستان کو سورش زدہ اور معاشی طور پر بدحال افغانستان کے اندر اثرورسوخ بڑھانا ہو گا۔ اسی حکمت عملی کے تحت پاکستان کی افواج نے قوم پرست افغان پشتونوں مقابلے میں افغانستان میں اسلام پسند قوتوں کی حمایت شروع کر دی تا کہ وہ سیاسی طور پر افغانستان میں  مضبوط ہوں اور پاکستان بھی عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔افغان روس جنگ میں بھی پاکستان کی یہی پالیسی رہی تھی۔

روس آیا اور چلا گیا لیکن  چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزرنے اور لاکھوں لوگوں کی موت کے باوجود افغانستان میں آج بھی امن نہیں آ سکا- بعض افغان عناصر آج بھی  پاکستان کو اپنی اس خراب صورتحال کا زمہ دار سمجھتے ہیں- کے پشتون قوم پرست لیڈر 75 سال گزرنے کے باوجود پاکستان کی بین القوامی سرحدوں کا احترام کرنے کو تیار نہیں-افغانستان پوری دنیا میں وہ واحد ملک ہے جو اس سرحد کو متنازع قرار دیتا ہے اور ان کے دلوں میں آج بھی گریٹر افغانستان یا پشتونستان کی خواہش زندہ ہے۔  

دوستو آپکو کیا لگتا ہے افغانستان اور پاکستان کے بعض پشتون قوم پرست لیڈرزکے ڈیورنڈ لائن اور پشتونستان کے بارے میں موقف میں کوئی وزن ہے یا وہ خوامخواہ اس لا یعنی اشو پر افغان قوم کی پون صدی ضائع کر چکے ہیں اور افغان حکومت کیوں اپنی تباہ حال معیشت اور نا جانے کب سے بدامنی کے شکار ملک کے حالات پر توجہ نہی دیتی؟

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu