ہم آپ کو جیوپولیٹیکل ٹیلز سیریز میں انیسویں صدی لیے چلتے ہیں- اور ایک ایسی کشمکش کی کہانی سناتے ہیں جس نے خطہ کا جغرافیہ ہی بدل کر رکھ دیا- اور اس پورے خطے میں رہنے والے لوگوں کی زندگی پر انتہائی گہرے، دوررس اور ناقابلِ یقین اثرات ڈالے- یہ کہانی ہے اس دور کی دو سپر پاورز برطانیہ اور روس کے درمیان کشمکش کی- یہ کہانی ہے ایک عظیم دفاعی، سیاسی اور سفارتی کھیل یعنی گریٹ گیم کی- یہ کہانی ہے پاکستان اور افغانستان کے بارڈر “ڈیورنڈ لائن” کی۔
دوستو بگ سوچو میں خوش آمدید
ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود ایک بین الاقوامی بارڈر ہے- یہ 2430 کلومیٹر لمبا بارڈر شمال میں واخان کی تنگ پٹی سے شروع ہو کر جنوب میں ٹرائی جنکشن پوائنٹ تک جاتا ہے- یہ کٹھن بارڈر ہندوکش کے برف پوش پہاڑوں، خیبرپختون خوا کے سنگلاخ پہاڑوں اور بلوچستان کے وسیع و غریض صحراوں سے گزرتا ہے- پاکستان اور بین الاقوامی کمیونیٹی ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے درمیان تسلیم شدہ بین الاقوامی بارڈر تسلیم کرتے ہیں- مگر افغانستان کے کچھ حلقے اس بارڈر کی حیثیت کو متنازعہ سمجھتے ہیں- ان کے اس بارڈر کے بارے میں کیا اعتراضات ہیں؟ اس سب پر بات ہو گی لیکن سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ اس لائن کے پیچھے تاریخی کہانی کیا تھی؟
پاکستان اور افغانستان کا موجودہ بارڈر تاریخی طور پر کسی انٹرنیشنل بارڈر کی طرح اپنی جگہ، حیت اور شکل بدلتا رہا ہے- کبھی اس بارڈر کے دونوں اطراف کے علاقے کسی ایک بادشاہت کا حصہ تھے تو کبھی یہ مخطلف ریاستوں کا حصہ- دونوں اطراف میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتی ہے- مگر ان کی زندگیوں پر عالمی طاقتوں کی سیاست نے کافی اثر ڈالا ہے- اب اس سرحد اور اس سے ملحقہ علاقے کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں-
تاریخی پس منظر
سترویں صدی میں برصغیر اور افغانستان کے کچھ حصوں پر مغلوں کی حکومت تھی- جبکہ باقی کا افغانستان ایرانی بادشاہ کے زیر اثر تھا- 1707 میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد مغلوں کی حکومت کمزور پڑ گئی- اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے پہلے افغانستان کے تمام حصے اپنے کنٹرول میں کرلیے- پھر برصغیر تک ایک کامیاب یلغار کرتے ہوئے پشاور، لاہور سے ہوتا ہوا دہلی تک پہنچ گیا- پنجاب اور دہلی میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کرنے کے بعد نادر شاہ واپس چلا گیا- مگر جاتے جاتے دریائے سندھ کے مغرب میں سارے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے- 1747 میں نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی کو قندھار میں افغانستان کا حکمران چنا گیا- اور اس کے ساتھ افغانستان ایران کے اثر سے آزاد ہو گیا- احمد شاہ ابدالی آزاد افغانستان کا پہلا حکمران تھا- اس کی شروع کی گئی سلطنت کو درانی سلطنت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- احمد شاہ ابدالی نے اپنی زندگی میں پورے موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، اور بھارت کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا- احمد شاہ ابدالی کی زندگی کے آخری ایام میں درانی سلطنت کمزور ہونا شروع ہو گئی- اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھوں نے پنجاب کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا- 1772 میں احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد اس کے جانشین اس قابل نہیں تھے کہ وہ اتنی بڑی سلطنت سنبھال سکیں- اس دوران پنجاب میں رنجیت سنگھ بہت زیادہ طاقت پکڑتا جا رہا تھا- رنجیت سنگھ کی فوج نے درانی حکمرانوں کو شکست دیتے ہوئے پہلے 1818 میں، پھر 1837 میں پشاور اور خیبر پاس تک کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا-
دی گریٹ گیم
ایک طرف تو خطے کی طاقتوں کے درمیان چوہے بلی کا یہ کھیل جاری تھا- دوسری طرف دنیا کی دو عظیم طاقتیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایک عظیم کھیل کھیل رہی تھیں- برطانیہ اس وقت تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے برصغیر میں اپنا وسیع اثرورسوخ بنا چکا تھا- برطانیہ روس کی سینٹَرل ایشیا میں بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے خوفزدہ رہنے لگا تھا- کیونکہ روس سینٹَرل ایشیا میں ایک ایک کر کے تمام ریاستوں کو اپنے کنٹرول میں لا رہا تھا- برطانیہ کو یہ خوف تھا کہ روس بالآخر برصغیر تک پہنچ کر اس کے سب کے قیمتی تاج یعنی برصغیر کو نہ چھین لے- دوسری طرف روس کو بھی یہ خطرہ تھا کہ برطانیہ اس کے زیر اثر سینٹَرل ایشیا کی ریاستوں کو نہ اچک لے- اسی باہمی خوف کے زیر اثر ہی اگلی ایک صدی دونوں طاقتوں کی دفاعی، سفارتی اور خارجہ پالیسیاں بنتی رہیں- اور دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور مختلف ملکوں میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے اپنی تمام تر قوت لگانے لگیں- تاریخ میں دونوں طاقتوں کے اس کھیل کو گریٹ گیم یعنی عظیم کھیل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- برطانیہ کے لیے اس شطرنج کے کھیل میں سب سے اہم پیادہ افغانستان تھا- اوربرطانیہ ہر قیمت افغانستان کو روس کے اثر سے آزاد رکھنا چاہتا تھا-
1837 میں ایران نے روس کی مدد سے افغان شہر ہرات کا محاصرہ کر لیا- برطانیہ افغانستان میں روس کے اس جارحانہ اقدام سے خوفزدہ ہو گیا- برصغیر میں بھارت کے گورنر جنرل لاڑڈ آکلیند نے افغان بادشاہ دوست محمد کو پیغام بھجوایا کہ وہ ہرات کوایران کے کنٹرول میں جانے سے روکنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرے- دوست محمد ایک نہایت زیرک لیڈر تھا، اگرچہ وہ خود بھی یہی چاہتا تھا- مگر اس نے برطانوی لیڈرشپ کے اندر روس متعلق پائے جانے والے اس خوف سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا- دوست محمد نے لارڈ آکلینڈ کو ایک ڈیل کی پیشکش کی- دوست محمد کی آفر یہ تھی کہ وہ ہرات کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں لائے گا- مگر برطانیہ بدلے میں پشاور اور فرنٹیر کے علاقوں کو سکھوں سے واپس لینے میں افغانوں کی مدد کرے- یاد رہے کہ پشاور اور فرنٹیر یعنی موجودہ خیبر پختون خواہ کے یہ علاقے رنجیت سنگھ نے افغانوں کو شکست دیکر چھینے تھے- اور افغان کوششوں کے باوجود سکھوں سے یہ علاقے واپس نہ لے سکے تھے- لارڈ آکلینڈ سکھوں کو اپنا مضبوط اتحادی سمجھتا تھا- چنانچہ لارڈ آکلینڈ نے دوست محمد کی یہ آفر تھکرا دی- اور معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا-
ہرات چونکہ افغانستان کے شمال مغرب میں واقع تھا اور وہاں تک پہنچنے کے لیے برطانوی فوج کو پورے افغانستان سے گزرنا پڑنا تھا- جو کہ عملی طور پر ایک مشکل کام تھا- اس لیے برطانیہ نے خلیج فارس میں بحری جہاز بھجوا کر فارس کے جزیرے کھرگ پر قبضہ کر لیا۔ برطانیہ نے ایران کو پیشکش کی کہ اگر وہ ہرات کا محاصرہ چھوڑ دے تو اس کو کھرگ جزیرہ واپس مل سکتا ہے- برطانوی دباؤ میں ایرانی بادشاہ نے یہ پیشکش قبول کر لی اور ہرات کا محاصرہ چھوڑ دیا- یوں فغانستان کا روس کے زیر اثر انے کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا- لارڈ آکلینڈ البتہ اس پورے واقعہ میں دوست محمد کے کردار سے بہت مایوس ہوا اور اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا- اسی وجہ سے پہلی اینگلو-افغان جنگ ہوئی- برطانیہ، رنجیت سنگھ اور سابقہ افغان بادشاہ شاہ شجاع نے ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اور افغان امیر دوست محمد کو ہٹا کر شاہ شجاع کو نیا افغان امیر مقرر کر دیا گیا- برطانیہ نے قبضہ کے بعد شاہ شجاع کی مدد کے لئے تھوڑی سی فوج کابل میں ہی رکھی- جبکہ باقی فوج واپس انڈیا بلا لی- برطانیہ کے ان انتظامات سے افغان عوام بہت ناخوش تھے اور ملک میں ایک عدم اطمینان کی سی کیفیت تھی- 1841 میں افغانوں نے موقع دیکھتے ہوئے بغاوت کر دی- اور افغانستان میں موجود برطانوی نمائندے اور فوج کا قتل عام شروع کر دیا۔ اور برطانیہ کو افغانستان سے نکال دیا- اس طرح افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی پہلی برطانوی کوشش کا خاتمہ ہوا۔ 1843 میں امیر دوست محمد ایک بار پھر کابل واپس آ گیا اور افغان امیر کے طور پرچارج سنبھال لیا۔
1848 میں انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر پنجاب پر براہ راست قبضہ کر لیا- اور پنجاب کو برٹش انڈیا کا ایک صوبہ بنا دیا۔جس سے موجودہ خیبر اور فرنٹئیر یعنی موجودہ خیبر پختون خوا کے علاقے بھی سکھوں سے انگریزوں کے قبضے میں آ گئے- اور افغانستان برٹش انڈیا کا باقائدہ ہمسایہ بن گیا- 1855 میں ایک دفعہ پھر ایران نے روس کی کھلی مدد سے ہرات اور قندھار پر قبضہ کر لیا۔ دوست محمد خان کو اپنے دو اہم شہروں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے برطانوی فوج کی مدد درکار تھی- انگریز تو اس موقع کی تلاش میں تھے- اس کے نتیجے میں انگریزوں نے 30 مارچ 1855 کو معاہدہ پشاور سائن کیا- معاہدہ سے افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ بحال ہو گئے- اس معاہدے میں پہلی دفعہ افغانوں نے پشاور اور موجودہ خیبر پختوں خواہ کے علاقوں کو برٹش انڈیا کا حصہ تسلیم کر لیا- 1857 میں افغانوں نے انگریزوں کی مدد سے بالآخر ہرات کا کنٹرول واپس لے لیا- 1863 میں دوست محمد کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شیرعلی کابل کے تخت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ شیرعلی انگریزوں کے کافی خلاف تھا- اور اس کی جھکاو روس کی طرف تھا-
روس کی پیش قدمی اور افغانوں کی بغاوت
اسی دوران روسی سلطنت کی پیش قدمی کے بارے میں خدشات بڑھتے جا رہے تھے۔ 1870 کی دہائی تک روسی وسطی ایشیاء کے عظیم شہروں بخارہ ، سمرقند اور خیوا پر قبضہ کرچکا تھا۔ اور اس کی آگے کی طرف پیش قدمی جاری تھی- 1878 میں انگریزوں کو جب اس بات کا پتا چلا کہ روس کا سفارتی مشن شیرعلی سے ملا ہے- تو انگریزوں نے یہ مطالبہ کیا کہ شیر علی ایک برطانوی مشن کو بھی قبول کرے۔ کابل حکومت نے انگریزی مشن سے ملاقات سے انکار کردیا۔ اور خیبر پاس پر افغان فوجیوں نے برطانوی مشن کو افغانستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔ انگریز گورنر جنرل لارڈ لیٹن (Lord Lytton)ٰنے اس گستاخی پر شیر علی خان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا- اور یوں دوسری اینگلو افغان جنگ کا آغاز ہو گیا- انگریز افواج نے تین جگہوں یعنی کہ خیبر پاس ، وادی کرم اور بولان پاس کے راستے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ شیر علی اپنی افواج کی شکست دیکھ کر فرار ہوگیا- بعد میں 21 فروری 1879 کو اس کا مزار شریف میں انتقال ہوگیا۔ شیر علی کے بیٹے اور جانشین ، محمد یعقوب خان نے ہتھیار ڈال کر مئی 1879 میں گندمک کے معاہدے پر دستخط کر دیے- اس معاہدے کے تحت یعقوب خان نے وادی کرم ، پشین اور سبی کے علاقوں کو انگریزوں کے حوالے کردیا۔ اور افغانستان کے خارجہ امور کو بھی برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا- افغانستان میں ابھی امن آیا ہی تھا اور معاہدے کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ایک بغاوت ہوگئی- برطانوی مشن کے چیف کو قتل کر دیا گیا- برطانوی افواج نے ایک دفعہ پھر ایکشن کر کے بغاوت کو کچلا- اور افغانستان پر دوبارہ قبضہ کر لیا- انگریزوں کو یہ شبہ تھا کہ یعقوب خان برطانوی مشن کے قتل میں ملوث ہے۔ اس لیے یعقوب خان کو عہدے سے معزول کر کے ہندوستان جلاوطن کردیا گیا۔ انگریزوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مستقبل میں کسی بغاوت سے بچنے کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جاَئے جو انگریزوں اور افغانوں دونوں کے لئے قابل قبول ہو۔ چنانچہ سابق امیر شیر علی کے بھتیجے عبد الرحمٰن کو نیا امیر بنا دیا گیا۔ عبد الرحمن نے نہ صرف افغانستان میں نظم و ضبط بحال کیا اور بڑی کامیابی سے اپنا اقتدار مضبوط کرلیا۔
اینگلو رشین باؤنڈری کمیشن اور ڈیورنڈ لائن معاہدہ
1884 میں روس نے شمالی افغانستان کے قریب موجودہ ترکمانستان کے شہر مرو (Merv) پر قبضہ کر لیا- اس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ روس کا اگلا ممکنہ شکار افغانستان کا شہر ہرات ہوگا۔ یہ امکان انگریزوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ برطانیہ نے روس کو یہ تجویز دی کہ کسی براہ راست تصادم سے بچنے کے لیے افغانستان کو دونوں طاقتوں کے مابین بفرزون بنایا جائے- افغانستان کو بفر زون بنانے سے برٹش انڈیا اور روس کی سرحدیں ایک دوسرے سے دور رہیں گی۔ اور مستقبل میں دونوں کے درمیان جنگ کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے- روس نے برطانیہ کی اس تجویز سے اتفاق کیا- مگر افغانستان کی واضح سرحدوں کے تعین کے بغیر افغانستان کو بفر سٹیٹ بنانا مشکل تھا- اسی مقصد کے لئے روس اور افغانستان کی سرحد کا تعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا- اس بارڈر کی حد بندی کرنے کے لیے 1884 میں اینگلو رشین باؤنڈری کمیشن بنایا گیا- اس کمیشن میں روس اور برطانیہ کے نمائندے تھے- اس سرحد کے تعین میں افغانوں کا کوئی حقیقی عمل دخل نہیں تھا۔ تین سال کے عرصے میں یہ کام مکمل ہو گیا-
روس-افغان باؤنڈری کے تعین کے بعد برٹش انڈیا اور افغانستان کے مابین سرحدوں کے تصفیہ کی راہ ہموار ہوگئی۔ امیر عبد الرحمٰن نے برٹش انڈین حکومت کو خط لکھا اور کچھ اہلکاروں کو کابل بھیجنے کی باضابطہ درخواست کی- تاکہ برٹش انڈیا اور افغانستان کی سرحد کا بھی تعین کیا جا سکے۔ انگریز بھی اس معاملے کو سیٹل کرنا چاہتے تھے- چنانچہ وائسرائے “لارڈ لانس ڈاؤن”(Lansdowne) نے اس مسئلے کے حل کے لئے “سر مورٹیمر ڈیورنڈ” (Mortimer Durand)کی سربراہی میں ایک مشن بھیجا۔ مذاکرات کے دوران پہلی بات جو زیربحث آئی وہ اسمار کا علاقہ تھا۔ امیر نے اسمار کو افغانستان کا حصہ رکھنے پر اصرار کیا۔ اسمار کی افغانستان کے لئے بہت اسٹریٹجک اہمیت تھی- کیونکہ اسمار سے ہی افغانستان کو نورستان اور افغانستان کے مختلف مشرقی علاقوں تک رسائی مل سکتی تھی۔ سر ڈیورنڈ نے امیر کا مطالبہ مان لیا- اس کے بدلے انگریزوں نے باجوڑ، سوات اور دیر کا علاقہ لے لیا- اسی طرح افغان امیر نے چاغی اور چمن پر بھی انگریزوں کا حق مان لیا- اس طرح تمام معاملات دوستانہ ماحول میں خوش اسلوبی سے طے پا گئے- آخر میں 12 نومبر 1893 کو دونوں فریقوں کے مابین معاہدہ پر دستخط کیے گئے- اس معاہدے کو تاریخ میں ڈیورنڈ لائن معاہدہ کہا جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی سرحد کو ڈیورنڈ لائن- معاہدے کے نتیجے میں انگریزوں نے امیر عبد الرحمٰن کو 18 لاکھ روپیہ سبسڈی دینے کا بھی اعلان کیا-
ڈیورنڈ لائن معاہدے کی ایک اہم بات یہ تھی کہ یہ معاہدہ گورنمنٹ آف انڈیا اور امیر عبد الرحمٰن کے درمیان طے پایا تھا- امیر عبد الرحمن خان کی موت کے بعد 1901 میں ان کے بیٹے حبیب اللہ خان جانشین بنے- برطانوی وائسرائے لارڈ کرزن (Lord Curzon)نے حبیب اللہ خان کو ہندوستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ تاکہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی تجدید کی جا سکے- یہ تجدید اس لیے ضروری تھی کیونکہ 1893 کا معاہدہ امیر عبد الرحمن کے ساتھ تھا- اور ان کی وفات کے بعد ڈیورنڈ لائن کی قانونی حیثیت ختم ہو گئی تھی- شاہ حبیب اللہ خان ایسا دورہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ان کا دورہ انڈیا کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے والد شاہ عبد الرحمن خان کے ساتھ طے پائے معاہدوں سے آگاہ ہیں اور ان معاہدوں کو نافذ کریں گے۔ وائسرائے لارڈ کرزن نے اس کے رد عمل کو غیر تسلی بخش سمجھا۔ لارڈ کرزن امیر عبد الرحمٰن سے کیے گئے معاہدے کی تجدید چاہتے تھے- اس لیے انہوں نے حبیب اللہ پر پریشر ڈالنے کے لیے افغانستان کو دی جانے والی 18 لاکھ روپیہ سبسڈی روک دی- اس پر بلآخر حبیب اللہ خان نے نئے معاہدے پر بات چیت کے لیے انگریزوں کو کابل دورے کی دعوت دی- برطانوی وزیر سر لوئس ڈین نے 1904 کے آخر میں کابل کا دورہ کیا اور حبیب اللہ خان کے ساتھ ایک نئے سرحدی معاہدے پر اتفاق کیا- آخر کار دونوں فریقوں نے 21 مارچ 1905 کو ایک نئے معاہدے پر دستختط کیے، جس میں امیر عبد الرحمٰن کے ساتھ کیے گئے پچھلے معاہدے کی توثیق کی۔ 1893 کا معاہدے کی طرح 1905 کا معاہدے بھی گورنمنٹ آف انڈیا اور امیر حبیب اللہ خان کے درمیان طے پایا تھا- اس لیے یہ معاہدے بھی 1919 میں امیر حبیب اللہ خان کی وفات تک نافذ العمل رہا-
برطانیہ اور افغان حکومتوں کے درمیان حتمی ڈیورنڈ لائن معاہدہ
1919 میں جب امان اللہ خان اپنے والد حبیب اللہ خان کی وفات کے بعد، افغانستان کا امیر بنا، تو انہوں نے افغانستان کو “داخلی اور خارجی طور پر مکمل آزاد اور خودمختار قرار دیا۔” یاد رہے کہ اس وقت تک افغانستان برطانیہ سے مکمل طور مکمل طور پر آزاد ملک نہ تھا- بلکہ افغانستان کی foreign policy یعنی خارجہ پالیسی برطانیہ کے پاس تھی- نئے امیر امان اللہ خان نے 6 مئی 1919 کو ڈیورنڈ لائن کراس کر کے British India پر حملہ کر دیا- اس حملے کے ساتھ ہی تیسری انگریز افغان جنگ کا آغاز ہو گیا- اس جنگ میں انگریزوں نے افغانوں کے حملے کو ناکام تو کر دیا مگر وہ افغانستان کو مکمل آزادی دینے کو تیار ہو گئے- ویسے بھی 1919 تک انگریزوں اور روس کی گریٹ گیم اختتام پزیر ہو چکی تھی اور افغانستان کو زیر اثر رکھنے کی انگریزوں کی پالیسی کی کوئی خاص ضرورت بھی نہ رہی تھی- اس لیے انگریزوں نے جنگ کے بعد افغانستان کو مکمل آزادی دے دی- جنگ کے بعد 8 اگست 1919 کو راولپنڈی میں افغانستان اور برطانیہ کے درمیان ٹریٹی پر دستخط کیے گئے- اس ٹریٹی کے article 5 میں افغانستان نے 1905 کے معاہدے کی طرح ڈیورنڈ لائن کو باقائدہ ہند افغان سرحد قبول کر لیا- یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہ معاہدے پہلی دفعہ برطانیہ اور افغانستان کے درمیان طے پایا، نا کہ پچھلے معاہدے کی طرح برطانیہ اور افغان امیر کے درمیان- اس لیے اس معاہدے کا اطلاق موجودہ امیر کی زندگی کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے رہنا تھا-
1921 میں کابل میں افغانستان اور برطانیہ کے درمیان دوستی اور تجارت کے متعلق ایک اور معاہدہ ہوا جس میں دونوں ملکوں نے ایک دفعہ پھر ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا- 1921 کے معاہدے کے بعد بھی 1930 اور 1934 میں دونوں ملکوں کو درمیان ہونے والے سفارتی تبادلوں میں ڈیورنڈ لائن کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا- اور اس سرحد کو لے کر کبھی کوئی تنازعہ یا افغانستان کی طرف سے کوئی مطالبہ سامنے نہ آیا- مگر برصغیر کی تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے جب آفغانستان کو یہ یقین ہو گیا کہ اب انگریز برصغیر چھوڑ کر چلے جائیں گے- افغانستان نے تقسیم کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے انگریزوں کے سامنے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ کھڑا کر دیا- اور یہ مطالبہ کر دیا کہ انگریز جاتے جاتے دریائے سندھ تک تمام پختون علاقے افغانستان کے حوالے کر جائیں- مگر انگریزوں نے افغانستان کا یہ غیر قانونی مطالبہ سختی سے رد کر دیا- برصغیر کی تقسیم کے بعد بین الاقوامی قوانین کے تحت ڈیورنڈلائن کے معاہدے انگریزوں سے پاکستان کو منتقل ہو گئے- مگر افغانستان نے پاکستان جیسی نوزائدہ ریاست کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ماننے سے انکار کر دیا- جس سے دونوں ملکوں کے درمیان شروع سے ہی تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے- ڈیورنڈ لائن کی ہی وجہ سے ہی آفغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا-
بین الاقوامی برادری یعنی برطانیہ، امریکہ وغیرہ نے ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر افغانستان کے موقف کو کوئی اہمیت نہ دی- اس لیے افغانستان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سورش کی کوشش بھی کی- اور پختونستان کا مسئلہ بھی کھڑا کیا- اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید بگڑ گئے- پچھتر سال کا عرصہ گزرنے کو باوجود افغانستان نے پاک افغان سرحد ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کیا-