شہنشاہ اکبر مغل سلطنت کا تیسرا اور سب سے نامور حکمران تھا۔ اس نے اپنے دربار میں ماہر ترین لوگوں کو مستقل جگہ دی ہوئی تھی۔ آپ انھیں اکبر کے وزیر یا مشیر کہہ سکتے ہیں لیکن اس وقت انھیں رتن کہا جاتا تھا۔ ہندوستان کے شہنشاہ اکبر اعظم کے کل نو رتن تھے۔ لیکن ان میں بیربل کی کہانیاں بہت مشہور تھیں۔ یہ ایک ذہین فطین رتن تھا۔ وہ اکبر کا رتن کیسے بنا اور اس کی کون سی کہانیاں مشہور تھیں۔ یہی ہم اس وڈیو میں آپ کو دکھائیں گے۔
بیربل اکبر کے دربار میں کیسے پہنچا
بیربل اکبرکے نو رتنوں میں سے ایک تھا۔ دربار میں آنے سے پہلے وہ ایک پان والے کی دکان پر وقت ضائع کرتا رہتا۔ ایک روز اسی پان کی دکان پر بادشاہ اکبر کا ایک خدمت گار آیا۔ اس نے آدھا سیر چونا مانگا۔ بیربل نے پوچھا بھائی آدھاسیر چونے کا کیا کروگے۔ خدمت گار نے کہا یہ چونا ظل الہی نے منگوایا ہے۔ بیربل نے فوراً دوسرا سوال کر دیا۔ تم وہاں کام کیا کرتے ہو؟ خدمتگار نے کہا میں ظل الہیٰ کو پان کھلانے کی خدمت پر مامور ہوں۔ یہ سنتے ہی بیربل نے پوچھاجب تمہیں بادشاہ نے پان کھلانے کا حکم دیا تو وہ خوش نظر آ رہے تھے یا غصے میں۔چند لمحے سوچنے کے بعد ملازم نے جواب دیا کہ شاید غصے میں تھے۔ یہ سنتے ہی بیربل نے کہا بھائی اگر اپنی جان پیاری ہے تو چونے کی بجائے دہی لے جاؤ۔ ملازم سوچ میں پڑ گیا کہ آخر چونا لے جانے میں جان کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے؟ بیربل کے اسرار پروہ آدھا سیر دہی لے گیا۔
جب ملازم دربار میں پہنچا تو شہنشاہ اکبرنے پوچھا “لے آئے چونا۔”ملازم نے ڈرتے ہوئے کہا جی ہاں۔ بادشاہ نے گرج کر حکم دیا اب اسے کھا لو۔ یہ سن کر ملازم بچارہ سناٹے میں آگیا اور دل ہی دل میں شکر ادا کرنے لگا کہ اچھا ہوا جو اس نے بیربل کی بات مان لی۔ بادشاہ کا حکم سنتے ہی اس نے چونا کا برتن جس میں دہی تھا فوراً منہ کو لگا لیا اور دہی کھا گیا۔
دوسرے دن بادشاہ نے اس ملازم کے بارے میں پوچھا کہ کس حال میں ہے؟ تو معلوم ہوا کہ وہ حسب معمول اپنا کام سرانجام دے رہا ہے۔ اکبر یہ سن کر بہت حیران ہوا کہ آدھا سیر چونا کھا کر کوئی کیسے زندہ بچ سکتا ہے۔ اس نے ملازم سے پوچھا سچ سچ بتاؤ آخر یہ ماجرہ کیا ہے۔ ملازم نےگڑگڑتے ہوئے ساری روداد کہہ سنائی۔
سارا قصہ سن کر اکبر کو بہت حیرت ہوئی اس نےفوراً ملازم کو بھیجا کہ جاؤ اس آدمی کو لے کر آؤ۔ملازم بادشاہ کا حکم سن کر پان والے کی دکان پر پہنچا۔ بیربل نے اسے دیکھتے ہی کہا کیوں کیا بادشاہ نے مجھے بلایا ہے نا؟ ملازم نے کہا جی ہاں۔بیربل نےجواب دیا میں کوئی ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں جو ملازم کے کہنے پر آجاؤں۔جاؤ بادشاہ سلامت سے جا کر یہی کہنا۔ ملازم نے آکر یہ بات بادشاہ کو بتائی کہ وہ میرے ساتھ آنے کو تیار نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نے شاہی نقیب اور چوبدار کو ساتھ بھیجا۔ بیربل نے ان کے ساتھ بھی جانے سے انکار کر دیا۔ بادشاہ نے سمجھ لیا کہ یہ ٹیڑھے مزاج کا آدمی ہے سواری کے بغیر نہیں آئے گا۔چنانچہ بادشاہ نے سواری بھیجی تب کہیں جا کر بیربل دربار میں حاضر ہوا۔ جب وہ آ گیا تو شہنشاہ اکبر نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے اس سے پوچھا
’تم نے ایک ملازم کو ہمارے حکم کی تعمیل سے کیوں روکا؟‘
بیربل نے جواب دیا “جہاں پناہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ظل سبحانی کا دامن ایک بے گناہ کے خون سے داغدار ہو۔ اکبر کو اس بات پر بہت حیرت ہوئی۔ اس نے بیربل سے پوچھا ’آخر تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ ہمارا ادارہ اس کی جان لینے کا ہے؟‘
بیربل نے کہا “حضور ملازم کو آدھا سیر چونا مانگتے دیکھا تو میں نے پوچھا کہ وہ کام کیا کرتا ہے؟اس نے بتایا کہ شہنشاہ کو پان کی گلوریاں بنا کر پیش کرتا ہوں۔ یوں مجھے یقین ہو گیا کہ یقیناً اس نے بے احتیاطی سے چونا زیادہ لگا دیا ہوگا۔ جس کی وجہ سے زبان مبارک کٹ گئی ہو گی۔
اسی لیے ظل سبحانی نے اسے غصہ میں چونے سے ہی ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیا ہوگا۔ بس یہی سوچ کر میں نے اسے چونے کی بجائے دہی لے جانے کا مشورہ دیا۔ جو اس نے تھوڑی دیر بعد مشکل سے مان لیا۔ اور یوں ظل سبحانی ایک بے گناہ کے قتل سے بچ گئے۔ بیربل کی یہ بات سن کر شہنشاہ اکبر بے حدخوش ہوا اور بیربل کو اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔
اونٹ کی گردن ٹیرھی کیوں
ایک بار بیربل کی کسی بات پرخوش ہو کہ اکبر نے اسے جاگیر دینے کا وعدہ کر لیا۔ مگرکافی عرصہ انتظار میں گزارنے کے باوجود بیربل کو زمین نہیں ملی۔ ایک دن موقعہ دیکھ کر بیربل نے اکبر کوجاگیر دینے کے وعدہ کی یاد دہانی کرائی۔لیکن اکبر نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی اور گردن دوسری طرف موڑ لی۔اب ہوا کچھ یوں کہ کچھ ہی عرصہ بعد اکبر اور بیربل کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک اونٹ کو دیکھ کر اکبر نے بیربل سے پوچھا بتاؤاونٹ کی گردن ٹیڑھی کیوں ہے؟ بیربل کو اپنی ناملی ہوئی جاگیر آج بھی یاد تھی اس لیے موقع دیکھتے ہی فوراً بولا “حضوراس نے بھی کسی کو جاگیر دینے کا وعدہ کر لیا ہوگا۔” شہنشاہ اکبر، بیربل کے گہرے طنز کو سمجھ گیا اور برداشت بھی کر گیا۔ جلد ہی اس نے بیربل کو جاگیر عطا کر دی۔
خواجہ سرا کے بیربل سے تین سوال
اکبراعظم کےبعض درباری بیربل سے حسد بھی کرتے تھے۔ وہ بیربل کو شرمندہ کر کے خود اکبر کے نزدیک ہونا چاہتے تھے مگر ہمشہ ناکامی ان کا مقدر ٹھہری۔ ایک دن ایک خواجہ سرا نے موقع پا کر شہنشاہ سے کہا “بیربل بہت عقل مند اور ہوشیار بنتا ہے براہ کرم اس سے کہیے کہ میرے بھی تین سوالوں کاجواب دے۔ یوں بادشاہ کے حکم پر بیربل سے چند سوالات کیے گئے۔
دنیا کا مرکز کہاں ہے؟
خواجہ سرا نے پہلا سوال کیا کہ بیربل صاحب بتائیں اس دنیا کا مرکز کہاں ہے؟ بیربل نے بہت ہوشیار اور حاضر جواب تو تھا ہی۔ اس نے فوراً جہاں کھڑا تھا وہاں ایک لکڑی گاڑ دی اور کہا دنیا کا مرکز یہاں ہے نہ ایک انچ ادھر نہ ایک انچ ادھر۔ اگر یقین نہیں آتا توناپ کر دیکھ لیجیے۔
بیربل کے جواب نے خواجہ سرا کو لاجواب کر دیا۔ اگر وہ کہتا غلط ہے تو ناپ کے دیکھ لیتا جو ناممکن تھا۔ بہرحال وہ گھبرایا نہیں اس نے فوراً دوسرا سوال کیا۔
آسمان میں کتنے تارے ہیں؟
بیربل سے دوسرا سوال کیا گیا بتاو آسمان میں کتنے تارے ہیں۔ خواجہ سرا سمجھ رہاتھا اب جواب بتانا ناممکن ہے۔ لیکن بیربل بہت عقل مند تھا اس نے یہ جواب بھی دے دیا۔بیربل نے ایک بھیڑ منگوائی اور کہا جتنے اس بھیڑ پر بال ہیں اتنے ہی آسمان پر تارے ہیں۔ اگر آپ کو جواب غلط لگے تو گن لیجیے۔بیربل کا جواب سن کر خواجہ سرا کی اپنی عزت اب خطرے میں پڑ گئی تھی۔ چنانچہ اس نے تیسرا اور آخری سوال داغا۔
عورت طلاق سے کیسے بچ سکتی ہے؟
اب کی بارخواجہ سرا نے کہا جناب بیربل اگر آپ میرے اس سوال کا جواب دے دیں تو میں آپ کو مان جاؤں گا۔ سوال یہ کہ ایک آدمی کی بیوی دیوار کے سہارے لگی سیڑھی پر چڑھ رہی ہے۔ ابھی وہ آدھی سیڑھی ہی چڑھ پائی ہے کہ اس کا شوہر کسی بات سے ناراض ہو کرکہتا ہے کہ اگر اوپر چڑھو گی تو طلاق نیچے اترو گی تو طلاق اور سیڑھی سے کودو گی تو بھی طلاق۔ اب بتائیں وہ بچاری عورت کیسے طلاق سے محفوظ رہ سکتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں بیربل نے کہا ایسے جاہل مرد سے تو طلاق لے ہی لینی چاہیے۔ مگرآپ طلاق سے بچنے کے لیے ضد کر ہی رہے ہیں تو سنیے اس عورت کا کوئی بھائی وغیر سیڑھی کو دیوار سے ہٹا کر زمیں پہ رکھے اور عورت کو سیڑھی سے اٹھا کر زمین پر اتار دے تو ایسے وہ عورت طلاق سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
بیربل نے تینوں سوالوں کے جواب میں الٹا خواجہ سرا کو لاجواب کر دیا تھا۔ جو اسے شرمندہ کروانا چاہتا تھا اب خود شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔
کون زیادہ منحوس ہے؟
ایک دن دربار میں اکبر نے بیربل سے پوچھا “بیربل بتاؤ ہماری سلطنت میں سب سے منحوس کون ہے؟ بیربل نے کہا حضور ایک ایسے آدمی کے بارے میں سنا ہے کہ جو کوئی بھی صبح اٹھ کر اسے دیکھ لیے اسے پورا دن کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اور حکم دیا اسے ہمارے سامنے پیش کیا جائے۔
اگلے ہی روز بیربل نے ایسا انتظام کیا کہ جیسے ہی اکبر اعظم کی آنکھ کھولی سامنے وہ شخص موجود تھا۔ اس کے بعد پورا دن بادشاہ کچھ ایسے کاموں میں مشغول ہو گیا کہ اسے کھانے تک کا خیال نہیں رہا۔شام کو جب بھوک کا احساس ہوا تو اکبر کو بیربل کی بات یاد آئی۔ اب اسے یقین ہوگیا کہ یہ شخص واقعی منحوس ہے۔اکبر نے بیربل سے کہا تمہارا خیال ٹھیک ہے یہ شخص سچ میں منحوس ہے اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔
بیربل جو یہ سب مذاق سمجھ رہا تھا اب بہت پریشان ہوا کہ اس کی وجہ سے ایک بے گناہ کی زندگی خطرے میں ہے۔ بیربل کچھ سوچ کر بولا”جہاں پناہ یہ بات تو سچ ہے کہ اس کی صورت دیکھ کر آپ کو کھانا نصیب نہیں ہوا۔ لیکن ذرا آپ اس بات پر بھی غور فرمائیں کہ اس بدبخت نے تو سب سے پہلے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا تھا اور اسے پھانسی مل رہی ہے۔اب آپ ہی فرمائیں کون زیادہ منحوس ہوا؟ بیربل کی یہ بات سن کراکبر بہت ہنسا۔ اور یوں اکبر نے اس شخص کو سزا کی بجائے انعام دے کر رخصت کر دیا۔