کوریا کی تقسیم کو یعنی شمالی اور جنوبی کوریا کو قائم ہوئے ستر برس سے زائد کا عرصےگزر چکا ہے۔ اس تقسیم سے پہلے صدیوں تک ، شمالی اور جنوبی کوریا ایک متحد ملک تھا۔ جس کا ایک جیسا کلچر تھا، ایک ہی زبان بولی جاتی تھی، اور پورے ملک پر حکمرانی بھی ایک ہی جماعت یا یوں کہہ لیں ایک ہی خاندان کی ہوا کرتی تھی۔ مگر کوریا کی آزادی پر ہمشہ سے سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔ کبھی چین اسے اپنی ملکیت کہتا تھا، اسے اپنا علاقہ سمجھتا اور کبھی کوریا جاپان کے قبضے میں چلا جاتا تھا۔ یہ سر زمین بے شمار پروکسی وارز کا گڑھ بھی بن چکی ہے۔ آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو کوریا کی ڈوژن یعنی نارتھ اینڈ ساؤتھ کوریا کےوجود میں آنے کی وجہ بتائے گئے۔ اور یہ بھی بتائیں گئے کے تقسیم کے بعد دونوں ممالک کے اندرونی حالات کیسے ہیں وہاں کی عوام ایک دوسرے سے یکسر مختلف کیوں ہے۔
کوریا دراصل بحرالکاہل کے انتہائی مشرق میں واقع ایک جزیرہ نما ہے۔ یعنی تین طرف پانی اور ایک طرف خشکی ہے۔ اس جزیرے کی سرحدیں ایک طرف جاپان اور دوسری جانب چین سے ملتی ہیں۔ انیس سو پانچ میں روس اور جاپان کی جنگ کے بعد کوریا جاپان کے قبضہ میں چلا گیا۔ کوریا 35 سال تک جاپان کے کنٹرول میں رہا۔ لیکن پھر دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر کوریا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ کوریا کی یہ تقسیم دراصل دو مدمقابل سپر پاورز، سوویت یونین اور امریکہ کے مابین جاری سرد جنگ کا نتیجہ تھی۔
جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ کوریا دوسری جنگ عظیم سے پہلے جاپان کے قبضے میں تھا، اب کیونکہ سیکنڈ ولڈ وار میں جاپان کو شکست ہو چکی تھی سو اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کوریا پر کس کا قبضہ ہوگا، امریکہ جنگ جیت چکا تھا اس لیے وہ کوریا پر اپنا حق جتا سکتا تھا۔ لیکن تاریخی طور پر واقعہ یہ تھا کہ جاپان نے کوریا کو سوویت روس سے جنگ میں جیتا تھا، اس لیے سوویت روس اسے اپنی ٹیرٹی ڈیکلئیر کرنا چاہتا تھا۔ سو دونوں سپر پاورز میں کوریا کی تقسیم بھی ان کی جاری سرد جنگ کا حصہ تھی۔ دونوں میں سے کوئی بھی کوریا سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا تھا۔ سو اس ٹگ آف وار، رسہ کشی کا نتیجہ کوریا کی تقسیم کی صورت میں نکلا۔
ایک ہسٹورین پروفیسر مائیکل رابنسن کا کہنا ہے کہ “کوریا کی تقسیم، سوویت یونین اور امریکہ کے باہمی سمجھوتے پر کی گئی، جبکہ کوریا کی طرف سے کوئی لیڈر یا کوئی نمائندہ اس فیصلے میں شامل نہیں تھا۔” یعنی سپر پاور کی دعوےدار دو طاقتوں نے ایک ملک کے دو حصے کر دیےاور وہاں کی عوام تو دور کسی لیڈر اور نمائندے کو بھی اس فیصلے میں شامل نہیں کیا گیا۔ بہرحال ہوا کچھ یوں کہ امریکہ اور سوویت یونین کے اس معاہدے کے تخت اگست انیس سو پنتالیس میں کوریا کی ڈیوژن کر دی گئی اس تقسیم کے بعد ایک حصہ سوویت یونین جبکہ دوسرا امریکہ کے زیر اثرہو گیا۔
اب اس تقسیم کے بعد ان دو ملکوں میں حکومت بنانے کی باری تھی۔ جیوگرافیکلی اگر میپ دیکھیں تو نارتھ کوریا کا باڈر چین کے ساتھ لگتا ہے اس لیے یہاں کمیونسٹ کے حامی زیادہ تعداد میں موجود تھے، اس لیے اگلے تین برس میں سوویت فوج اور اس کے حامیوں نے نارتھ کوریا یعنی شمالی کوریا میں کمیونسٹ حکومت تشکلیل دے دی۔ جبکہ جنوبی کوریا کا علاقہ جو امریکہ کے زیر اثر تھا وہاں ایک ملٹری گورنمنٹ یعنی فوجی حکومت تشکیل دے دی گئی۔ اس حکومت کو براہ راست امریکہ کی سپورٹ حاصل تھی۔ بظاہر تو شمالی کوریا میں سوویت یونین کے خامیوں کی کافی تعداد موجود تھی، اوران کی کمیونسٹ پالیسیز بھی بڑے پیمانے پر لوگوں میں مقبول تھیں۔ مگر پھر بھی بڑی تعداد میں مڈل کلاس مزدور طبقے اور کسانوں نے شمالی کوریا میں رہنے کے بجائے جنوبی کوریا جانا پسند کیا۔ اسی وجہ سے آج بھی جنوبی کوریا کی آبادی شمالی کوریا سے زیادہ ہے۔
دوہزار انیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی کوریا کی آبادی شمالی کوریا سے ڈبل ہے، شمالی کوریا کی آبادی اڑھائی کروڑ جبکہ جنوبی کوریا کی آباد پانچ کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ پچاس کی دہائی میں کوریا کے جزیرے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ یعنی نارتھ کوریا اور ساؤتھ کوریا نے ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ اس لڑائی کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ کونسا حصہ اصل کوریا کی نمائندگی کرتا ہے۔ سوؤتھ والے کہتے تھے ہم کورین ہیں۔ جبکہ نارتھ کوریا خود کو اصل کوریا ڈکلئیر کرنا چاہتا تھا۔
یہ خانہ جنگی تین سال جاری رہی اور اس میں کم از کم 25 لاکھ کورینز مارے گئے۔ اس جنگ کے دوران امریکہ نے شمالی حصےمیں موجود قصبوں دیہاتوں اور شہروں پر خوب بمباری کی۔
اس جنگ کے نتیجہ میں تقریباً ہر شہر تباہ ہو گیا تھا،بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا۔ لیکن اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہوا، کیونکہ جب 1953 میں جنگ کا خاتمہ ہوا تو دونوں حصوں کی تقسیم وہی تھی جو جنگ سے پہلے تھی۔ مگر ایک کام ہوا جو اس جنگ کا نتیجہ تھا وہ یہ کہ اب دونوں حصوں کے درمیان ایک ڈی ملٹیرائزڈ زون بنا دیا گیا۔ یہ زوون کوریا کے دونوں حصوں کو الگ کرتا تھا۔ دونوں حصوں کے درمیان اڑتیس ڈگری کی ایک متوازی لکیر کینچ دی گئی۔
ساؤتھ کوریا کیونکہ امریکہ کے انڈر تھا اور امریکی فوج بھی یہاں موجود تھی۔ اس لیے ساؤتھ کوریا کے مغرب سے بہترین تعلقات رہے۔ جنوبی کوریا نے ایک مستحکم معیشت تیار کی۔ اور حالیہ دہائیوں میں ساؤتھ کوریا ایک مکمل جمہوری ملک بننے کی طرف جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب نارتھ کوریا بالکل اس کے اپوزیٹ ہے، شمالی کوریا میں ایک الگ تھلگ خاندانی بادشاہت کا نظام قائم ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک یہاں ایک ہی خاندان کی ڈکٹیٹرشپ ہے۔ ساؤتھ کوریا کے پہلے سپریم لیڈر کم ال سنگ تھے۔ جو 1948 میں سپریم لیڈر بنے اور اپنی وفات تک یعنی 1994 تک وہی اس منصب پر براجمان رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کم جونگ ال سپریم لیڈر بنے اور پھر ان کے موت کے بعد اب کم جونگ اُن جنوبی کوریا کے سپریم لیڈر ہیں۔ یوں شمالی کوریا پرآزادی کے بعد ایک ہی خاندان کی یہ تیسری نسل حکومت کر رہی ہے۔
تو مائے کیوریس فلوز اب آپ کو بتاتے ہیں نارتھ کوریا اور ساؤتھ کوریا کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں دونوں کے سپریم لیڈرز نے اپنی عوام کو کس طرح سے لیڈ کیا اور دونوں ملکوں کی موجودہ صورت حال کیا ہے۔تو موجودہ شمالی اور جنوبی کوریا کے اگر بات کی جائے تو یہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، شمالی کوریا آج کی ماڈرن ورلڈ میں سب سے الگ تھلگ اجنبی سا ملک ہے، گلوبل ولڈ میں سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں بھی نارتھ کوریا انٹرنیشل میڈیا کی پہنچ سے بہت دور ہے، وہاں کے سخت قوانین ملک کی ایک خبر بھی باہر نہیں آنے دیتے۔ اور نہ باہر کی خبریں اپنی عوام تک جانے دیتے ہیں، شمالی کوریا کو یوں سمجھ لیں یہ ایک بہت بڑی جیل ہے جس میں اڑھائی کروڑ لوگوں کو قید کر دیا گیا ہے۔ تمام فیصلے سپریم لیڈر شیپ بغیر کسی عوامی شمولیت کے کرتی ہے۔ یہاں تک کہ نارتھ کوریا میں لوگ اپنی مرضی کا ہئیر کٹ بھی نہیں کروا سکتے۔ کیونکہ لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہی نہیں اس لیے وہاں بیرونی آئیڈیاز جیسے جمہوریت اور آزاد خیالی کا تصور تک نہیں ہے۔ شمالی کوریا کے لوگ ڈکٹیٹر کی اجازت کے بغیر کسی باہر کے ملک کا سفر بھی نہیں کر سکتے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی نہیں۔ اس کے لیے انھیں حکومت سے خاص طور پر اجازت لینا ہوتی ہے جو کسی کو نہیں ملتی سوائے ان لوگوں کے جنھیں حکومت خود باہر بھیجنا چاہے۔ یہاں تک کہ کوئی بیرون ملک سے کوریا میں آزادانہ آ بھی نہیں سکتا۔ صرف وہی لوگ آسکتے ہیں جنھیں شمالی کوریا کی ڈکٹیٹر حکومت اپنی شرائط کے تحت آنے کی اجازت دیتی ہے۔ شمالی کوریا میں یوں تو بے شمار حیرن کن قوانین لاگو ہیں لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں آپ اپنی مرضی سے کوئی تصویر بھی نہیں بنا سکتے۔
جی ہاں ٹھیک سنا آپ نے شمالی کوریا میں آپ صرف وہی تصویر کلک کر سکتے ہیں بنا سکتے ہیں جس کی وہاں موجود گارڈز اجازت دیتے ہیں۔ اور ایک اور دلچسپ بات یہ کہ وہاں کے سپریم لیڈرز کے جو مجسمے نصب ہیں اگر آپ ان کی تصویر لینا چاہیں تو آپ کو اس پورے مجسمے کی تصویر لینا ہوگی، یعنی فرام ہیڈ ٹو ٹوو،،، آپ اس تصویر کو کراپ نہیں کر سکتے ، اور اگر آپ یہ رولز فلو نہیں کرتے تو آپ کو قید کرنے کا قانون موجود ہے۔ ایسا حقیقت میں ہوتا بھی ہے۔ ایک امریکن اسی طرح کے رولز بریک کرنے کے جرم میں کئی سال شمالی کوریا کی جیل میں قید گزار چکا ہے۔ دوستو شمالی کوریا میں تو انٹرنیٹ تک نہیں ہے، کتابیں باہر سے نہیں آسکتی، کوئی شخص ملک سے باہر فون پہ بات نہیں کر سکتا، کسی کے پاس سے اگر ٹیلی فون پکڑا جائے تو اسے قانون کے مطابق غداری کے جرم میں سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔
نارتھ کوریا میں ملٹری سروس ہر چیز سے پہلے آتی ہے، شمالی کوریا کا فخر اس کا پرائیڈ بس یہی اس کی فوج ہی ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اور فوج بھی ایسی کہ جو صرف بم مارنا جانتی ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔ نارتھ کوریا کی کل آبادی محض اڑھائی کروڑ ہے، مگر ان کی فوج دنیا کی چوتھی بڑی فوج ہے ،جس میں تیرہ لاکھ ایکٹیو سپاہی ہوتے ہیں۔ یہ مجموعی آبادی کا 5 فیصد ہیں۔ جبکہ چھ لاکھ سے زیادہ افراد ریزرو فوجی کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ دوہزار سولہ تک شمالی کوریا کی پراملٹری فورس کی تعداد ساٹھ لاکھ سے کچھ کم تھی جو شمالی کوریا کی آبادی کا پچیس فیصد بنتی ہے۔ اس ساری فوجی طاقت کو ملایا جائے تو شمالی کوریا کے پاس لڑنے کے لیے ستتر لاکھ کے قریب سپاہی موجود ہیں۔ یہ تعداد اس کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔ اتنے افراد کو ملازمت دینے والی کورین پیپلز آرمی کو دنیا کی سب سے بڑی افرادی فوجی قوت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اب دیکھئے کہ دنیا کی سب سے طاقتور ملٹری مشین امریکہ کی ہے، لیکن شمالی کوریا کی اس ساری ملٹری فورس کی تعداد امریکہ کی فورس سے بھی ٹو پوائنٹ فائیو پرسنٹ زیادہ ہے۔ لیکن ظاہر ہے آج کی جدید دنیا میں سائز میٹر نہیں کرتا۔ سکل اور ٹکنالوجی زیادہ میٹر کرتی ہے۔
اگر شمالی کوریا کے نیوکلیر پروگرام کی بات کی جائے تو دوہزار سترہ میں فیڈریشن آف امریکن کے ساسئندانوں کے مطابق شمالی کوریا کے پاس دس نیوکلر وار ہیڈز موجود ہیں۔ یہ امریکہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن جہاں تک بات جنوبی کوریا کی ہے تو یہاں شمالی کوریا کو اپنے اس ہمسائے پر ایج حاصل ہے۔ کیونکہ جنوبی کوریا کے پاس کوئی نیو کلیر وارہیڈ موجود نہیں ہیں۔ ہاں مگر اس کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے نیوکلر ویپنز بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اب تک اس نے اس فیلڈ میں کام کرنا شروع نہیں کیا۔ مگر یہ صرف ایک ہی پوائنٹ ہے جس میں شمالی کوریا کو برتری حاصل ہے اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ بھی نہیں۔ شمالی کوریا دنیا کو کچھ نہیں بیچتا اور نہ اس کی مارکیٹ فری اکانومی ہے کہ وہاں بیرونی دنیا سے امپورٹس آ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا شمالی کوریا کی اس ملٹری فورس کے اور نیوکلر پروگرام کے علاوہ اور کسی چیز کسی پروڈکٹ سے واقف نہیں۔
جبکہ دوسری طرف جنوبی کوریا کو دیکھا جائے تو ریپبلک آف کوریا کی مسلح افواج بھی دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک ہیں۔ 2018 میں جنوبی کوریا کی فوج سینتیس لاکھ سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ جس میں چھ لاکھ کے قریب ایکٹیو فورسز اور اکتیس لاکھ ریزرو اہلکار شامل تھے۔ جنوبی کوریا اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع کے لیے خرچ کرتا ہے۔ دو ہزار انیس میں جنوبی کوریا کا دفاعی بجٹ عالمی سطح پر دسویں نمبر پر تھا۔ یہ تقریبا 44 بلین، چوالیس ارب امریکی ڈالرز بنتا تھا۔ اس کے علاوہ ساؤتھ کوریا میں آزادی شمالی کوریا سے بہت زیاد ہے۔ یہاں لوگ ماڈرن معاشروں کی طرح آزاد اکانومی اور شہری حقوق کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور بیرونی آئیڈیاز کی کھلی آمد کی وجہ سے یہاں لوگ کھلے ذہن سے سوچنے کے عادی ہیں۔ شمالی کوریا کی طرح جنوبی کوریا بند ذہنوں کا ملک نہیں ہے۔ یہاں لوگوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے، بیرون ملک سفر کرنے اور کسی کو بھی یہاں آنے کی آزادی حاصل ہے۔ جنوبی کوریا کے بے شمار برائینڈز دنیا بھر میں مشہور ہیں جن میں سر فہرست ایل جی ہے، ہنڈا گاڑی بھی ساؤتھ کوریین برینڈ ہے۔ اس کے علاوہ سیم سنگ موبائل فونز بھی کورین پراڈکٹ ہے جس سے اب دنیا کا ہر موبائل فون یوزر اچھی طرح واقف ہے۔
دوستو آپ ان دونوں ملکوں کے ماضی اور آج کے حالات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں