Home History ایسٹ انڈیا کمپنی

ایسٹ انڈیا کمپنی

by bigsocho
0 comment

ہندوستان جسے سونے کی چڑیا بھی کہا جاتا ہے اس پر حکومت کی غرض سے مختلف حملہ آور آتے رہے ہیں۔ کبھی اس پر سکندر اعظم فوجیں لے کر چڑھ دوڑا تو کبھی اس پر محمود غزنوی نے حملہ کر دیا۔ کبھی خاندان غلاماں نے حکومت کی تو کبھی اس پر خلجی خاندان نے جھنڈے گاڑے، کبھی اس پر تغلق خاندان برسر اقتدار رہا تو کبھی اس خطے پر لودھیوں نے دھاوا بول دیا، کبھی اس پر مغلوں نے بادشاہت قائم کی تو کبھی انگریز اس خطے میں لوٹ مار کرنے چلا آیا۔ دوستو ہماری آج کی یہ ویڈیو اسی انگریز یعنی المعروف ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں ہے۔ 

ایسٹ انڈیا کمنپی

دوستو آج سے کوئی 420 سال قبل برطانیہ پر ملکہ الزبتھ اول برسراقتدار تھیں۔ برطانیہ اس وقت خانہ جنگی سے سنبھلتا ہوا ایک زرعی ملک تھا اور وہاں اس وقت دنیا کی صرف 3 فیصد مصنوعات تیار ہوتی تھیں۔ جبکہ ہندوستان کی بات کی جائے تو اُس وقت ہندوستان کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا تھا اور ہندوستان دنیا کی ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد مصنوعات پیدا کرنے والا ایک دولت مند ملک تھا جس پر شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر حکمران تھا۔ اکبر کو اس وقت کا امیر ترین حکمران کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہنشاہ اکبر کی کل دولت آج کے دور کے تقریباً ساڑھے تیرہ ارب ڈالر یعنی 22 کھرب (10 ارب برٹش پاؤنڈز) روپے تھی۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی کا آغاز 

دوستو اس زمانے میں ہندوستان کی تجارت پر ولندیزیوں یعنی ڈچ ایمپائرز اور پرتگالیوں کا قبضہ تھا۔ اس دور میں مشرق کی تجارت میں ایک دوسرے کے تجارتی قافلے لوٹ لینا ایک عام سی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس لئے ہندوستان سے تجارت کے لئے کئی تاجر مل کر ایک کمپنی بناتے تھے اور حکومت سے اس کا باقاعدہ اجازت نامہ لیا جاتا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جو کہ لندن کی ایک عام سی کمپنی تھی اس نے بھی ملکہ الزبتھ سے 31 دسمبر 1600 میں ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت مانگی جو انہیں مل گئی۔ چارٹر کی رُو سے اس کمپنی کو پندرہ سال ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے مصالحہ جات کی تجارت کی غرض سے برطانیہ کی ایک کمپنی دو کوششیں کر چکی تھی مگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے کئی بار کی کوششوں کے بعد آخرکار 1608 میں کیپٹن ولیم ہاکنز اپنے جہاز ہیکٹر کے ساتھ ہندوستان کی سرزمین پر اترا اور وہاں گجرات میں سورت کے مقام پر باقاعدہ اپنا پڑاو ڈالا۔ اس دوران یعنی 1605 میں بادشاہ اکبر وفات پا چکا تھا اور اس کی جگہ اس کا جانشین جہانگیر ہندوستان پر حکمرانی کر رہا تھا۔ 

طریقہ تجارت

دوستو ایسٹ انڈیا کمپنی نے شروع میں ہندوستان کی ساحلی پٹیوں کو ہی تجارت کی غرض سے چنا۔ شروع میں کمپنی کو کچھ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ہالینڈ (ڈچ ایمپائر) کے قذاق ان کے جہاز لوٹ لیتے تھے۔ اس بات کی شکایت انہوں نے اس وقت کے برطانیہ کے حکمران جیمز اول سے کی۔ جیمزل اول نے کمپنی کی مدد کرنے کا وعدہ کیا اور 1615 میں اپنا ایک سفیر سر تھامس رُو، جہانگیر کے دربار بھیجا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ کیا جا سکے۔ تھامس رو کی کئی سال کی کوششوں کے بعد آخرکار جہانگیز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سورت میں تجارتی فیکٹری اور اس کے ارگرد چار دیواری بنانے کی اجازت دے دی۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد ایک دوسرے فرمان کے تحت کمپنی کو ہندوستان کے چند مزید علاقوں میں بھی تجارتی اڈے قائم کرنے کا اجازت نامہ مل گیا۔ ابتدا میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کئی دھائیاں صرف تجارت پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ 1625 میں کمپنی نے مدراس یعنی موجودہ چنئی سے تقریبا چالیس میل دور اپنی تجارتی کوٹھی قائم کی۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے کوٹھی کے اردگرد ایک قلعہ قائم کر لیا جسے فورٹ سینٹ جارج کہا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ انگریز نے اپنے قدم مزید جمانے شروع کردئیے۔ کمپنی ہندوستان میں سُوت (کاٹن)، نیل، پوٹاشیم نائٹریٹ اور چائے وغیرہ کی تجارت کرتی تھی۔ کمپنی کو اس سے کافی منافع ملنے لگا۔ کمپنی جو چیز یہاں سے خریدتی اس کا معاوضہ چاندی کی صورت میں ادا کرتی۔ 

طاقت میں اضافہ اور جنگیں

دوستو 1626 تک کمپنی انڈیا میں کافی حد تک اپنے قدم جما چکی تھی۔ مدراس میں پوری ایک تجارتی کالونی آباد کر لی گئی تھی جو کہ اٹھارہویں صدی کے درمیان تک پورا ایک شہر بن گیا۔ 1647 تک ان کی 23 فیکٹریاں مختلف شہروں میں مکمل ہو چکی تھیں جن میں مقامی افراد کو بھی کام کرنے کی اجازت تھی۔ 

دوستو اس وقت ہندوستان میں صرف انگریز تاجر ہی نہیں تھے بلکہ فرانسیسی، پرتگالی اور ولندیزی بھی اپنے اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ مدراس سے 86 میل دور فرانسیسیوں نے اپنا ایک پورا شہر آباد کر رکھا تھا۔ دوسری جانب جب برطانیہ اور فرانس میں کچھ ملکی اختلافات پیدا ہوئے تو ان کا اثر ہندوستان میں بھی پڑا اور یہاں بھی انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان تجارتی مسابقت پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے ان کے درمیان لڑائیاں چھڑ گئیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس اس وقت افرادی قوت کی کمی تھی چنانچہ کمپنی نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور برطانیہ سے مزید اسلحہ اور فوج بلوا لی۔ کمپنی کی فوج نے سب سے پہلے ہندوستان میں پرتگالی، ولندیزی اور فرانسیسی حریفوں سے مقابلہ کیا اوربیشتر جنگوں میں فتح یاب رہی۔ اور پھر رفتہ رفتہ ہندوستان کے ساحلی علاقوں پر قبضہ جمانا شروع کردیا۔ ان علاقوں میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر واقع سورت اور بمبئے، اور مشرق میں مدراس اور کلکتہ شہر سے 20 میل دور دریائے گنگا پر واقع بندرگاہیں شامل تھیں۔

جنگ چائلڈ (مغلوں سے شرمناک شکست)

ان کامیابیوں کی بدولت ایسٹ انڈیا کمپنی طاقت کے نشے میں اتنا آگے بڑھ گئی کہ انہوں نے مغلیہ سلطنت سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا۔ دوستو یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی مغلوں کے ساتھ پہلی جنگ تھی جس میں انہیں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ کو جنگ چائلڈ کہا جاتا ہے۔ جنگ چائلڈ کمپنی کے ڈایریکٹر جوزایا چائلڈ نے شروع کی تھی۔ چائلڈ نے 1686 میں مغلوں سے جنگ کرنے کے لئے 19 جنگی جہاز، دو سو توپیں اور چھ سو فوجی ہندوستان بھجوا دئیے۔ دوستو اس وقت ہندوستان پر اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی اورنگ زیب کی طاقتور فوجیں اس وقت دنیا کی کسی بھی فوج سے ٹکرا سکتی تھیں۔ اس لئے چائلڈ کی یہ بچگانہ حرکت کمپنی کو بہت مہنگی پڑی اور مغلوں نے انہیں شرمناک شکست سے دوچار کردیا۔ اس حوالے سے مورخ ولیم ڈیل رمپل نے لکھا کہ برطانوی فوجیوں کو مغل فوج نے مکھیوں کی طرح مارا اور کمپنی کی بنگال میں پانچ فیکٹریوں کو مکمل ختم کردیا۔

مغلوں سے معافی

جنگ ہارنے کے بعد کمپنی نے اپنے ماتھے سے یہ داغ دھونے کی سرتوڑ کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ دو انگریز سفیر اورنگزیب کے سامنے اس حال میں پیش ہوئے کہ دونوں کے ہاتھ مجرموں کی طرح بندھے ہوئے، سر سینے پر جھکے ہوئے، اور حلیہ ایسا ہے کہ کسی ملک کے سفارتی نمائندوں کی بجائے بھکاری لگ رہے تھے۔ چنانچہ اورنگزیب عالمگیر نے 1690 میں کمپنی کو ڈیڑھ لاکھ پاونڈ کا جرمانہ اور جوزایا چائلڈ کی ملک بدری کے عوض کمپنی کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ کمپنی کو دوبارہ تجارت کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ 

چائنہ سے تجارت

ان واقعات کے بعد کمپنی مزید محتاط ہوگئی اوراپنی توجہ صرف تجارت پر مرکوز کردی۔ کمپنی نے اس دوران چائنہ سے بھی تجارت شروع کردی اور وہاں سے چینی کے برتن اور کپڑا وغیرہ منگوانے لگی۔ کچھ عرصہ بعد کمپنی نے بنگال میں پوست کاشت کرکے صوبہ بہار میں افیم کی فیکٹریاں لگا دیں اور یہ افیم چین میں سمگل کرنا شروع کردی۔ چین نے انگریز کو روکنا چاہا تو ان کے درمیان جنگیں چھڑ گئیں۔ انہی جنگوں میں کمپنی نے 1839 کے ایک معرکے میں چین کو شکست دینے بعد نہ صرف افیم کی درآمد دوبارہ شروع کردی بلکہ ایک معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کی بندرگارہ پر بھی قبضہ جما لیا جو چین کو 1997 میں جا کر واپس ملی۔

مغلیہ سلطنت میں توڑ پھوڑ

دوستو دوسری جانب 1707 میں بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد سب کچھ بکھر کر رہ گیا۔ ہندوستان کی مختلف ریاستیں آپس میں صف آرا ہوگئیں۔ کمپنی نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی افراد پر مشتمل لاکھوں کی فوج تیار کر لی۔ اب  کمپنی نے فوج کے بل بوتے پر باقاعدہ ہندوستان کو لوٹنا شروع کردیا۔ دوستو یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پہلا اردو یا ہندی کا لفظ جو انگلش میں شامل ہوا وہ لوٹ (Loot) تھا اور یہ لفظ اسی دور میں انگلش میں شامل ہوا جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے پنجے ہندوستان کی زمین میں گاڑ چکی تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انگریزوں نے 1765 سے لے کر 1938 تک ہندوستان سے تقریباً 45 ٹرلین ڈالر کی لوٹ مار کی۔

نواب سراج الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی

دوستو اس لوٹ مار کو تھوڑی سی بریک اس وقت لگی جب 1756 میں نواب سراج الدولہ ریاست بنگال کے حکمران بن گئے۔ سراج الدولہ نے کمپنی کو اپنی حدود میں واپس لانے کے لئے کلکتہ پہ حملہ کر کے انگریزوں کے قلعے اپنے قبضے میں لے لیے اور کئی انگریزوں کو قید کر لیا۔ جنگ کی فضا پیدا ہوئی تو چالباز انگریز نے نواب سراج الدولہ کی فوج کے ایک کمان دار میر جعفر کو حکمران بننے کا لالچ دے کر ساتھ ملا لیا اور پھر 1757 کو پلاسی کے مقام پر سراج الدولہ اور انگریزوں کے درمیان شاندار مقابلہ ہوا جسے جنگ پلاسی کہا جاتا ہے۔ دوستو سراج الدولہ کی فوجیں میر جعفر کی غداری اور انگریز کے جدید جنگی ہتھیاروں کا مقابلہ نہ کر سکیں اور سراج الدولہ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ کمپنی نے وعدے کے مطابق میر جعفر کوبنگال کا حکمران بنا دیا اس دوران نواب سراج الدولہ کو میر جعفر کے بیٹے نے شہید کردیا۔ دوستو حکمرانی حاصل کر لینے کے بعد جلد ہی میر جعفر کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ اصل حکمران انگریز ہی ہیں اور انہیں صرف نام کا حکمران بنایا گیا ہے۔ اس بات کا ادراک ہونے کے بعد میر جعفر نے انگریزوں سے جان چھڑانے کے لئے ولندیزی یعنی ڈچ ایمپائرز کی فوج سے مدد طلب کی لیکن انگریز نے ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی اور پھر 1764 میں بنگال کا نظم و نسق کپمنی نے خود سنبھال لیا۔

ہندوستان پر کمپنی کا قبضہ 

فتح بنگال کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے مزید آگے بڑھتے ہوئے اگست 1765 میں آخری بآ اثر مغل بادشاہ شاہ عالم کو شکست دی اور انہیں صرف دہلی تک محدود کرکے پورے ہندوستان کی مالک بن گئی۔ شاہ عالم کے بعد اقتدار اکبر شاہ ثانی کے ہاتھ میں آیا اور اس کے بعد مغلیہ سلطنت کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر نے اقتدار سنبھالا جو 1857 تک حکمران رہے۔ بظاہر ان دنوں اقتدار اس وقت کے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا لیکن دراصل تمام فوائد اور ٹیکس کمپنی کو مل رہے تھے۔ ہند کے بیشتر حکمران عیاشیوں میں مصروف تھے اور35 ورکرز سے شروع کی گئی ایک چھوٹی سی کمپنی تقریباً پورے ہندوستان پر حکومت کر رہی تھی۔ 

ولیم ڈیل رمپل اپنی کتاب ‘دی انارکی،(The Anarchy) میں لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کی ایک منفرد مثال ہے جس میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک پرائیویٹ کمپنی نے اپنی زمینی فوج اور بحریہ کی مدد سے 20 کروڑ لوگوں پر مشتمل ایک پوری قوم کو غلام بنا دیا تھا۔

کمپنی کے خلاف مزاحمتیں

دوستو اسی دوران 1769 میں بنگال اور بہار کے علاقوں میں شدید قحط پیدا ہوا جس میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یہ قحط چار سال رہا اور اس قحط میں کمپنی نے محصولات کی قیمت بڑھا کر اور بھاری ٹیکس لگا کرہندوستان کو کنگال کر دیا۔ دوستو اس دوران انگریز کے خلاف مختلف مزاحمتیں بھی ہوتی رہیں، سراج الدولہ کے بعد سب سے بھرپور مزاحمت میسور کے حیدر علی اور ان کے بیٹے ٹیپو سلطان نے کی۔ ٹیپو سلطان نے فرانس کی مدد سے کمپنی کو دو جنگوں میں شکست بھی دی مگر کمپنی نے ہندوستان کے دیگر حکمرانوں کو ساتھ ملا کر ٹیپو سلطان پر بھی قابو پا لیا گیا۔ مرہٹوں کے انگریزوں کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے ٹیپو کو میسور کی تیسری جنگ میں شکست ہوئی اور 1799 میں ٹیپو سلطان مردانہ وار لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں کو یقین ہوگیا کہ اب پورے ہندوستان پر حکومت سے انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

کمپنی کا زوال 
دوستو اسی دوران  1813 میں ایک چارٹر ایکٹ کے تحت  برطانوی پارلیمان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کردیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد 1834 میں برطانوی پارلیمان نے اسیٹ انڈیا کمپنی سے تجارت کے اختیارات بھی واپس لے لئے اور کمپنی کو ایک کارپوریشن کا نام دے دیا۔

جنگ آزادی اور تاج برطانیہ

 دوستو اس کے بعد کمپنی کو صرف ایک آخری معرکہ پیش آیا جسے جنگ آزادی کہا جاتا ہے۔ جنگ آزادی جسے انگریز نے بغاوت اورغدر کا نام دیا دراصل مقامی لوگوں کے دلوں میں ابلتا ہوا وہ لاوا تھا جو وہ سالوں سے اپنے اندر بھر کے بیٹھے تھے۔ جنگ آزادی کا باقاعدہ آغاز 1857 میں بنگال میں ہوا۔ بنگال سے ہوتی ہوئی یہ تحریک ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی اور پھر یہی تحریک آخر کار جنگ آزادی کا سبب بنی۔ 1857 کے معرکے میں ہندوستان مکمل طور پر انگریز کے تصرف میں چلا گیا۔ اس بغاوت کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہزاروں افراد کو بازاروں میں لٹکا کر مار دیا اور سینکڑوں لوگوں کو سڑکوں پر کچل دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ برطانوی راج  کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔ نتائج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ صحیح ہے کہ یہ تحریک انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس ناکامی نے لوگوں کے اندر مزاحمت کا ایک جذبہ پیدا کردیا۔ آزادی کی متواتر کوششیں مختلف سمتوں میں جاری رہیں جس کا پھل بالآخر مکمل آزادی کی صورت میں ملا۔ 
جنگ آزادی کے بعد اگلے برس ملکہ وکٹوریہ نے کمپنی کے اختیارات مکمل ختم کردئیے اور کمپنی کی فوج کو برطانوی فوج میں شامل کر لیا گیا۔ اس کے بعد ہندوستان کا انتظام براہ راست برطانیہ کی حکومت کے ہاتھ میں چلا گیا۔ دوستو اقتدار برطانیہ کی حکومت کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کی آخری سانسیں 1874 تک چلتی رہیں اور اس کے بعد کمپنی تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے گم ہوگئی۔ 

آج لندن کے ایک بازار میں ایک چھوٹی سی دکان ہے، جس کے ماتھے پر ایسٹ اینڈا کمپنی لکھا ہوتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu