Home History عباس ابن فرناس

عباس ابن فرناس

by bigsocho
0 comment

شہر بھر میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ  سب لوگ  ‘ رسافہ’  نامی پہاڑی کے پاس جمع ہوجائیں جہاں ایک ایسا کرتب پیش کیا جانا تھا جس کے متعلق  لوگوں نے صرف خواب و خیال میں ہی سوچا تھا۔  بہت سے لوگ اس اعلان پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھے۔ لیکن یہ سن کر کہ بادشاہ اور اس کے بہت سے ساتھی بھی وہاں موجود ہوں گے ، یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارا نہ تھا۔ خبر یہ تھی کہ  ایک شخص  نے رسافہ پہاڑی سے چھلانگ لگا کر ہوا میں اڑنے کا کرتب پیش کرنا تھا۔  ایسا نظارا آج سے پہلے کبھی دیکھا یا سنا نہیں گیا تھا۔  مقررہ وقت پر بے شمار لوگ جمع ہو گئے۔ بادشاہ نے اشارہ کرکے کرتب شروع کرنے کی اجازت دی، تو 65 سال کی عمر کے ایک  بوڑھے شخص نے ، جو اسی اشارے کامنتظر تھا،   ہجوم کو ایک نظر دیکھا ، پھر آسمان کی طرف ایک گہری نگاہ دوڑائی، کچھ دیر کو رکا اور پھر اس نے ہوا میں چھلانگ لگا دی۔

یہ شخص کون تھا۔ رسافہ پہاڑی کہاں ہے۔ اور یہ کس شہر اور کس وقت کا واقعہ ہے۔ جاننے کے لیے دیکھتے رہیے۔

یورپ میں اسلام کی آمد کا آغاز 711 عیسوی میں ہوا جب طارق بن زیاد کی قیادت میں پہلا اسلامی لشکر سپین پر حملہ آور ہوا- اگرچہ  720 عیسوی تک مسلمان سپین اور پرتگال کا بیشتر حصہ فتح کر چکے تھے مگر 756 عیسوی میں اندلس میں مرکزی اموی خلافت کے قیام سے مسلم حکومت کو مکمل استحکام حاصل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس خطے میں  سائنس اور آرٹس کے مختلف علوم میں ترقی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جسے نہ صرف اسلام بلکہ یورپ کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔  اور  یورپ میں اس روشن علمی انقلاب کا مرکز سپین کا شہر قرطبہ تھا۔

مسلمانوں کے اس سنہری دور میں بغداد اور قرطبہ دو ایسے جڑواں شہر تھے جو  جدید علمی تحقیق، ثقافت اور تہذیب  کے لحاظ سے  پوری دنیا  کے لیے روشنی کے مینار تھے۔  اگر آج کے دور میں ان کا موازنہ نیو یارک اور لندن سے کیا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا۔

822 عیسوی میں جب خلیفہ عبدالرحمان  دوم نے تخت سنبھالا تو اس نے مشہور عراقی موسیقار اور فنکار ، زریاب کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ  مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو قرطبہ میں اکٹھا کرے- زریاب بہت ہوشیار آدمی تھا ۔ اس کی سرپرستی میں جہاں موسیقی، شاعری اور دیگر آرٹس کے مراکز قائم ہوئے  وہیں  اس نے سائنس کی پیش رفت کے لیے ایسٹرونومی، میڈیسن اور انجینرنگ  کے مراکز بھی  قائم کیے۔  ٹیلنٹ کی قدر کرنے والے اس زرخیز ماحول میں بے شمار جینیس پیدا ہوئے ۔ انہی میں سے ایک  ہماری آج  کی کہانی کے ہیرو ۔۔۔ عباس ابن فرناس تھے۔

عباس ابن فرناس کون تھے؟ ابن فرناس نویں صدی عیسوی میں سپین کے مشہور مسلمان پولی میتھ تھے۔ دوستو ۔۔ پولی میتھ سے مراد ایسا صاحب علم ہوتا ہے جو سائنسی علوم میں ایک سے زیادہ مضامین میں مہارت رکھتا ہو۔  ابن فرناس   سائنس، انجینیرنگ، میڈیسن، ایسٹرونومی یعنی فلکیات، ایسٹرالوجی یعنی علم نجوم، موسیقی ، شاعری اور ایوی ایشن یعنی ہوابازی  میں کمال مہارت  رکھتے تھے۔  

   ان کی پیدائش 810 عیسوی میں سپین کے شہر رونڈا  میں  ہوئی۔ ان کے خاندان کا تعلق شمالی افریقہ کے بربر قبیلے سے تھا جو طارق بن زیاد کے ساتھ سپین آئے تھے۔  حصول ۔ علم کے لیے آپ کچھ عرصہ  بغداد میں ‘دارالحکماء’ ۔۔۔ ‘ہاؤس آف وسڈم’ سے بھی منسلک رہے جو اس دور کے  سائنسدان، سکالر،  فلسفی ،  ادیب، شاعر اور دیگر ہنرمند لوگوں کا مرکز تھا۔ یہاں ابن فرناس نے سائنس اور آرٹس کے مختلف شعبوں میں بروڈ بیس ایجوکیشن حاصل کی۔ 

اگرچہ  اپنی علمی قابلیت کی وجہ سے ابن فرناس  کا نام مقبول ہونا شروع ہو چکا تھا تاہم مزید ترقی اور بہتر مواقع کے لیے آپ اپنے وطن سپین میں قرطبہ چلے آئے جہاں زریاب کی سرپرستی میں ابن فرناس کو بہتر انداز سے اپنا تحقیقی کام کرنے کا موقع ملا۔۔۔ اور بطور سائنسدان، فلسفی، موجد یعنی انوینٹر، ایسٹرانومر ، شاعر اور موسیقار ان کی شہرت ہر طرف پھیل گئی ۔۔۔ یہاں تک کہ ان کو ‘حکیم الاندلس’  کہا جانے لگا۔

ایسٹرانومی کی فیلڈ میں آپ نے یورپ کو ۔۔۔۔ ‘سندھ ہند ایسٹرانومیکل ٹیبلز ‘۔۔۔سے متعارف کروایا۔  انہیں ایسٹرانومی کے ماہرین سورج، چاند، زمین اور دیگر ستاروں کی پیمائش کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ ٹیبلز کئی صدیوں تک یورپ کے تعلیمی اداروں میں کورس کا حصہ رہے۔

ابن فرناس سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ انجینیر بھی تھے ۔ انہوں نے سائنسی اصولوں کو استعمال کر کے بہت سی انوکھی مشینیں  اور صنعتی اعتبار سے فائدہ مند  پراسیس ایجاد کیے۔  یورپ کی پہلی سفیریکل ایسٹرولیب ابن فرناس نے ایجاد کی۔

 ریت اور کوارٹز کرسٹل آپ کے بہت سے تجربات کا فوکس رہے جس سے آپ نے ٹرانسپیرنٹ شیشہ بنانے کا طریقہ ایجاد کیا۔ یہ آج بھی ‘اندلوسین گلاس’  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کرسٹلز ہی پر تحقیق کی وجہ سے آپ نے ایسے شیشے تیار کیے  جن کومطالعہ کے لیے بطور عینک استعمال کیا جاتا تھا۔ آپ نے یورپ  کو کرسٹل کو کاٹنے اور تراشنے کا عمل  بھی دیا۔ ۔۔ اس سے پہلے یہ ہنر صرف مصریوں کے پاس تھا اور سپین سے اس کام لیے چیزیں مصر بجھوائی جاتی تھیں۔

مکینکل انجینیرنگ کے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے ابن فرناس نے پانی سے چلنے والی گھڑی ایجاد کی جو دن رات کے اوقات کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرتی تھی۔

  ابن فرنا س کی ایک اور زبردست  ایجاد ان کا پلینیٹریم تھا  ۔ یہ ایک  ایسی مشین تھی جس میں مکینیکل اور ایسٹرونومی کے تصورارت کو استعمال کر کے  سورج ، چاند اور ستاروں کی حرکت   کو نقل کیا گیا تھا۔ اس  کے ساتھ ساتھ  آڈیو ویژیل ایفیکٹس کی مدد سے بجلی کڑکنے، بادلوں کے گرجنے کے عمل کو بھی دکھایا جاتا تھا۔ گویا یہ اپنی نوعیت کا تھری ڈی  سینیما تھا۔

ابن فرناس ۔۔۔۔ دنیا کا پہلا ہواباز

ان تمام ایجادات  سے قطع نظرابن فرناس کا ایک کارنامہ ایسا بھی ہے جواپنے آپ میں ان کا مکمل تعارف ہے۔ آپ سب نے  یقینا ” سنا ہو گا  کہ ہوائی جہاز   بیسویں صدی کے آغاز میں رائٹ برادرز نامی دو امریکی بھائیوں نے ایجاد کیا۔ اور یہ دونوں ہی ہوا میں اڑنے والے پہلے انسان بھی  تھے۔ لیکن  آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ  انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا میں اڑنے والے انسان  رائٹ برادرز  نہیں ۔۔۔بلکہ عباس ابن فرناس تھے جنہوں نے یہ کارنامہ ، رائٹ برادرز سے  ایک  ہزار سال پہلے انجام دیا۔

رائٹ برادرز کی پہلی  پرواز توچند سیکنڈز پر محیط تھی جبکہ ابن فرناس  کئی منٹ تک ہوا میں اڑتے رہے۔ رائٹ برادرز کو ایک  آسانی یہ بھی میسر تھی کہ اس وقت تک انجن ایجاد ہو چکا تھا –سو ان کے ڈیزائن کیے گئے جہاز کو اڑنے کے لیے جو قوت درکار تھی وہ باآسانی انجن  سے مل گئی۔ جبکہ ابن فرناس کے پاس یہ سہولت نہیں تھی۔ سو ان کا ڈیزائن  مکمل طور پر ہوا کے بہاؤ اور پرندوں کی پرواز کے مطالعے پر مبنی تھا۔ اس بنیاد پر آج سے 1200 سال پہلے کسی انسان کا ‘ہیوئر دین ایئر ‘ یعنی ہوا سے بھاری مشین ، کامیابی سے اڑا لینا قریب قریب ناقابل یقین کارنامہ ہے۔

 مگر ابن فرناس  کوآخر ہوا میں اڑنے کا خیال کیسے آیا ۔۔۔۔ انسانی  تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہوا میں اڑنےکاخواب کچھ نیا نہیں ہے۔  آج سے  کئی ہزار سال پہلے جب انسانی تہذیب ابھی  پہلی سانسیں لے رہی تھی، تب بھی ہمیں قدیم یونان ، مصر اور بابل کی باقیات میں ایسی علامات ملتی ہیں جن میں اڑنے والے انسانوں کا ذکر تھا۔

 اس سلسلے میں سب سے مشہور کہانی اکارس کی ہے۔ اکارس کا تعلق قدیم یونان کے ایک جزیرے سے تھا۔ اس کا باپ ایک بے مثال کاریگر تھا۔  ایک موقع پر جب وہاں کا حکمران ان سے ناراض ہو گیا تو اس نے ان باپ  بیٹے کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ ایسے میں اکارس کے باپ نے اس کو ایسے پر بنا کر دیے جن کی مدد سے وہ ہوا میں اڑ سکتا تھا۔  یہ پر اس نے لکڑی کے اوپر عقاب کے پروں کو موم سے جوڑ کر بنائے تھے۔ لیکن اس نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی کہ بہت اونچی پرواز نہ کرے۔ جب اس کا بیٹا وہ پر لگا کر ہوا میں اڑنے لگا تو پرواز کے نشے میں اس کو اپنے باپ کی یہ نصیحت بھول گئی اور وہ اوپر ہی اوپر اڑتا چلا گیا ۔۔ یہاں تک کہ سورج کی گرمی سے اس کے پروں کی موم پگھل گئی اور وہ سمندر میں گر کر ڈوب گیا۔ انگریزی زبان کا محاورہ۔۔۔’فلائنگ ٹو کلوز ٹو دی سن’ اسی کہانی سے نکلا ہے۔

لیکن اگر ہم حقیقی دنیا میں کسی ایسی شے کو اڑانے کی بات کریں جو قدرتی طور پر پرواز نہیں کرتی  تواس کی سب سے پہلی مثال چین میں ملتی ہے جب پانچویں صدی عیسوی میں  دو چینی سائنسدانوں موزی اور لوبان نے  اس پر موضوع پر تجربات شروع کیے اور بالآخر پتنگ ایجاد کی۔

 کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ  852 عیسوی میں  قرطبہ میں ‘آرمن فرمن’ نامی ایک بازی گر نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ہوا میں اڑ سکتا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے وہ مسجد قرطبہ کے ایک مینا ر پر چڑھ گیا۔ نیچے ایک ہجوم اس کو دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ آرمن فارن نے لکڑی کے دو پروں کوریشمی کپڑے اور پرندوں کے پروں سے لپیٹا ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پرندوں کی طرح پروں کو ہلا کر پرواز کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جب اس نے مینار سے چھلانگ لگائی تو وہ اڑنے کے بجائے سیدھا نیچے آ گرا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ گرنے کے عمل کے دوران اس کے پروں پہ لپٹا کپڑا کھل گیا اور اس میں ہوا کے بھرنے سے اس کے نیچے گرنے کی رفتار کم  ہو گئی ۔ جس سے اس کی جان بچ گئی اور صرف معمولی چوٹیں آئیں۔ آرمن فرمن کا ریشمی کپڑا دنیا کا پہلا پیراشوٹ ثابت ہوا۔

 اس  کرتب  کو دیکھنے والے ہجوم میں ابن فرناس بھی موجود تھے ۔ ان کی عمر اس وقت تقریبا 40 سال تھی اور وہ  اپنے علمی قد کاٹھ کی وجہ سے قرطبہ میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ آرمن فرمن کی اڑنے کی ناکام کوشش نے ابن فرناس کے اندر ہوا میں پرواز کرنے کی خواہش کو بیدار کر دیا۔ یوں Oiبھی وہ  ایک ماہر موجد اور انجینیر تھے اور مکینکل فورسز کے عوامل سے بخوبی واقف تھے سو انہوں نے خود ایک فلائنگ مشین بنانے کا ارادہ کر لیا۔

 اس خواب کی تکمیل کے لیے ابن فرنا س نے اپنی زندگی کے اگلے 23 سال اسی تحقیق کی نظر کر دیے ۔ جو بعد میں ہوا بازی کی جدید تحقیق کا پیش رو ثابت ہوئی۔  انہوں نے  نہ صرف ہوا کے بہاؤ کا بغور مطالعہ کیا بلکہ پرندوں کے پروں کی ساخت، پرواز کے دوران ان کے پروں کی پوزیشن اور ان کے اینگل  کا بھی مطالعہ کیا۔ اور آہستہ آہستہ اپنے نتائج کو اپنی فلائنگ مشین کے خاکے کو ڈیزائن کرنے میں لگے رہے۔ بالآخر جب ایک ٹھوس ڈیزائن تیار ہو گیا تو انہوں نے اس کو  عملی شکل دینے کے لیے بانس کے ٹکڑوں سے ایک فریم تیار کیا ۔ پھر اس کو ڈیزائن کے مطابق ریشمی کپڑے سے ڈھانپا۔ اور مختلف پرندوں کے پروںسے اس کی آرائش کی۔ یوں آخر کار ابن فرناس کی فلائنگ مشین تیار ہو گئی۔ یہ ماڈرن دور کے گلائڈر کی طرح تھا مگر اس کی خاص بات یہ تھی کہ پرندوں کے پروں کی طرح اس کو پوزیشن اور اینگل کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔  اس وقت ابن فرناس کی عمر تقریبا” 65 سال تھی۔

875 عیسوی میں اپنی فلائنگ مشین کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے انہوں نے رسافہ کی پہاڑی کا انتخاب کیا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس پہاڑی کے سامنے ہوائیں پہاڑی سے ٹکرا کر  ایک مخصوص اینگل سے اوپر اٹھتی تھیں جس سے کسی بھی نیچے آنے والی چیز کو اوپر کی طرف اچھال کی فورس  یا تھرسٹ ملتا تھا۔  مقرہ دن پورا شہر وہاں جمع تھا حتیٰ کہ بادشاہ اور اسے کے ساتھی بھی وہاں موجود تھے۔ ابن فرناس نے ان سب کے سامنے پہاڑی سے چھلانگ  لگا دی لیکن نیچے گرنے کے بجائے وہ ہوا میں اڑنے لگے۔ جس کو آج کی ٹیکنیکل زبان میں  ‘سسٹینڈ فلائٹ’ کہتےہیں۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا موقع تھا جس میں دنیا نے کسی انسان کو ہوا کی بلندیوں میں اڑتا ہوا دیکھا۔  تاریخی ریکارڈ کے مطابق ابن فرناس نے موجودہ دور کے دس منٹ کے لگ بھگ  پرواز کی۔ مگر جب وہ لینڈنگ کے لیے نیچے اترنے لگے تو آخری مرحلے میں ڈیزائن کی کسی خامی کی وجہ سے بالکل ٹھیک طریقے سے لینڈ نہ کر سکے جس سے ان کو کچھ چوٹیں بھی آئیں۔  مگر وہ کسی بھی نقصان سے محفوظ رہے۔  ہوا میں رہنے کے دورانیے اور فاصلے کے اعتبار سے یہ فلائٹ ، رائٹ برادرز کی فلائیٹ سے کہیں زیادہ کامیاب تھی۔

ابن فرناس اس واقعے کے بعد مزید 12 سال تک زندہ رہے اور اپنے ڈیزائن کو بہتر بناتے رہے۔ ان کے اپنے تجزیے کے مطابق ان کی فلائنگ مشین میں پرندوں کی دم والے حصے کی کمی تھی  جس سے ان کی لینڈنگ ناہموار رہی۔  اگر چہ ان کا ڈیزائن اب پہلے کی نسبت زیادہ بہتر ہو چکا تھا لیکن انہوں نے دوبارہ اس پر پرواز نہیں کی۔ شاید یہ ان کی بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے تھا یا پھر ہوا میں اڑ کر جو کارنامہ وہ کرنا چاہتے تھے وہ اس کو پہلے ہی کامیابی سے حاصل کرچکے تھے۔ اور اب ان کی تحقیق اور ان کے کام نے مستقبل کے ہوابازوں کے لیے راہ ہموار کرنا تھی۔ اس کے متعلق ہم زیادہ نہیں جانتے۔

ابن فرناس کی وفات کے بعد بھی کچھ عرصہ تک ان کی تحقیق پر کام ہوتا رہا لیکن پھر ایک لمبے عرصے تک کسی انسان کے ہوا میں  پرواز کرنے کا تاریخ میں کوئی حوالہ نہیں ملتا۔   اس کے بعد 1007عیسوی میں الجوہری نامی ایک ترک  استاد نے بھی فلائنگ مشین بنائی لیکن وہ اڑنے کی ناکام کوشش کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔  پھر 11ویں صدی ہی میں انگلینڈ کے ایک شخص آئلمر آف مالمسبری نے بھی ابن فرناس کی طرح کی مشین بنانے کی کوشش کی ۔ اگرچہ اس کی پرواز تو کامیاب رہی لیکن لینڈنگ کی خرابی کی وجہ سے اس کی دونوں ٹانگیں چلی گئیں۔  

اس کہانی کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ابن فرناس کی ہوابازی کی تحقیق کو سامنے رکھ کر اگر اس پر مزید کام جاری رہتا اور ان کی فلائنگ مشین کو اور بہتر کیا جاتا تو شاید انسان بہت پہلے ہی ہوا میں پرواز کے سفر کو عام ہوتے دیکھ لیتا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔۔۔

 بہت سے مورخین کا یہ خیال ہے کہ آرمن فرمن  جس نے مسجد قرطبہ سے چھلانگ لگائی تھی، وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ابن فرناس ہی تھے  اور آرمن فرمن ان کے نام کا ۔۔لاطینی ترجمہ تھا ۔۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے ابن سینا کو ایوی سینا بھی کہا جاتا ہے۔  لیکن حقیقت کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے۔ اس کے علاوہ موجودہ دور میں کچھ محققین نے ابن فرناس پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اگرچہ ابن فرناس ایک حقیقی کردار تھے اور بہت سی ایجادات ان سے منسوب ہیں لیکن ہوا میں اڑنے والے واقعے میں حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے۔  لیکن حالیہ دور میں امریکی یونیورسٹی آف ہوسٹن کے پروفیسر لائنہارڈ  نے ابن فرناس کی فلائنگ مشین کی تصدیق کی ہے۔

ابن فرناس کا انتقال 887 عیسوی میں تقریباٌ 80 سال کی عمر میں قرطبہ میں ہی ہوا اور ان کی آخری آرام گاہ بھی قرطبہ میں ہی ہے۔ ابن فرناس کی خدمات کے اعزاز میں دنیا میں کئی جگہیں ان کے نام سے منسوب ہیں۔ بغداد کے ائیرپورٹ کے باہر ابن فرناس کا ایک مجسمہ آج بھی نسب ہے۔ اس کے علاوہ سپین میں ہی  قرطبہ کے ‘گواڈل کیویر ‘ دریا پر  ایک پل ابن فرناس کے نام سے منسوب ہے جس کو ‘ابن فرناس برج’  کہا جاتا ہے۔ اوریہی نہیں بلکہ البیرونی کی طرح چاند کے ایک حصے کو بھی ابن فرنا س کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جسے ابن فرناس کریٹر کہتے ہیں۔۔ سن 2013 میں مشہور کمپنی رولز رائس نے ابن فرناس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے نام سے ایک گاڑی لانچ کی جس کا نام ‘رولز رائس گھوسٹ فرناس موٹف’ ہے۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu