سن تھا 1961۔۔ تاریخ تھی 12 اپریل۔۔وقت تھا صبح کے 6 بجکر 7 منٹ۔۔
مقام تھا سوویت یونین کی ذیلی ریاست قازقستان کا بیکو نور سپیس لانچ سٹیشن۔۔
کاونٹ ڈاون کی آواز گونجتی ہے۔۔تھری،ٹو،ون۔۔۔زیرو۔۔۔ ساتھ ہی انجنز کے غرانے سے زمین کانپنے لگتی ہے،،کان پڑی آواز سنایی نہیں دیتی،، شعلوں اور سفید بخارات کا طوفان اٹھتا ہے،،
(NAT SOUND)
اور دیکھتے ہی دیکھتے Vostak نامی Space craft زمین کی حدوں کو چیرتا ہوا،،خلا کی وسعتوں میں جا داخل ہوتا ہے۔۔۔
اس کے ساتھ ہی ،، ستاروں پر کمند ڈالنے کا صدیوں پرانا انسانی خواب تکمیل کے قریب پہنچ گیا کیونکہ Vostak کے ذریعے دنیا کا پہلا انسان خلا میں داخل ہوا!
یہ انسان سوویت خلا باز یوری گاگرین تھا۔ تاہم، اس سفر سے چار سال قبل 1957 میں سوویت یونین Sputnik نامی پہلا خلایی سیارچہ کامیابی سے خلا میں بھیج چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یوری گاگرین خلا میں جانے والا پہلا جاندار نہیں تھا، کیونکہ جب روس نے 1957 میں Sputnik 2 نامی دوسرا خلایی جہاز لانچ کیا تواس میں لائیکا نامی کتا پہلا خلایی مسافربنا تھا۔ تاہم وہ لانچ کے کچھ دیر بعد ہی Sputnik 2 میں ہونے والی حد درجہ گرمی سے ہلاک ہوگیا۔
بہرحال اب زمینی حقیقت یہ تھی کہ کمیونسٹ روس، سرد جنگ کے زمانے میں اپنے حریف امریکہ پر ٹیکنالوجی اور عسکری برتری کی دھاک بیٹھا چکا تھا۔
خلایی تسخیر کی اسی دوڑ نے بلآخر پہلے انسان کو خلا میں پہنچا دیا، اور یوں Sky is the Limit کا محاورہ Sky is NOT the Limit میں تبدیل ہوگیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کا آسمانوں سے بھی آگے جانے کا شوق بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا آسمان میں اڑنے کا۔۔!! راکٹ ساینس کا پہلا نمونہ ہمیں دس عیسویں (10 AD) میں پیدا ہونے والے یونانی mathematican
اور انجینیر۔۔۔۔۔۔ ہیرو آف الیگزینڈرا۔۔۔۔ کے تجربات سے ملتا ہے،،جس نے سٹیم کی مدد سے ایسا انجن تیار کرنے پر کام کیا جو انسان کو پرندوں کی طرح اڑا سکے۔ پھر اس سے چند صدیوں بعد چینیوں نے قبایلی جنگوں اور مذہبی رسومات کے لیے بانس میں گن پاوڈر بھر کر پروٹو ٹایپ میزایل بنا کر چلانے کا رواج شروع کیا۔لیکن جدید راکٹ ٹیکنالوجی کا سہرا بیسویں صدی کے عظیم امریکی سایسندان اور موجد ڈاکٹر رابرٹ ایچ گورڈاڈ (Robert H Goddard) کو جاتا ہے، جنہیں “فادر آف ماڈرن راکٹری” کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آج اگر انسان چاند اور مریخ کے ساتھ نظام شمسی کے دوسرے سیاروں پر کمند ڈالنے کی کوششوں میں ہے تو ان کاوشوں کا کریڈٹ بھی ڈاکٹر رابرٹ گورڑاڈ کو جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے راکٹ کے ذریعے چاند پر جانے کا تصور پیش کیا .
انسان کو خلا میں بھیجنے کا آیییڈیا انہیں نو عمری میں ہی ایچ جے ویلز کا مشہور ساینس فکشن ناول ” وار آف دی ورلڈز” پڑھنے سے آیا، جس میں خلایی سفر کے قصے اور ایلینز کے مافوق الفطرت کرداروں نے ان کو سوچنے پرمجبور کیا کبھی انسان واقعی خلا میں سفر کر سکے گا؟؟
انسان کے ذہن پرہزاروں سال سے مسلط یہ سوال کہ کیا اس کاینات میں ہمارے علاوہ کویی اور بھی ہے? ڈاکٹر رابرٹ گورڈاڈ کے لیے مزید تجسس کا باعث بنا۔
گلیلیو کی سترہویں صدر میں بنایی دوربین نے آسمانوں میں دیکھنے کی جو سہولت انسان کو دی اس سے مرتب کردہ لٹریچر بھی رابرٹ گورڈاڈ کے زیر مطالعہ رہا اور وہ بھی چاند پر موجود گڑھوں کو سمندر سمجھ کر ان میں جاندار تلاش کرنے کی کوششوں میں رہا۔ اس نے فزکس میں پی ایچ ڈی کرکے اپنی زندگی خلایی راکٹ بنانے کے لیے وقف کردی اور جنگوں میں استعمال ہونے والے راکٹس کا ڈیزاین بہتر بنا کر اور ان کو مایع ایندھن کے ذریعے خلا میں بھیجنے پر تحقیق شروع کی۔ لیکن اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو عموماً عظیم انسانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر رابرٹ گورڈاڈ کی تحقیق جب شایع ہویی تو اسے ہر طرف سے مخالفت،تضحیک اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ 1921 میں نیویارک ٹایمز کے ایڈیٹوریل میں اس کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ جو بات ایک ہایی اسکول کا بچہ جانتا ہے کہ خلا کا سفر ممکن نہیں، وہ بات ایک پی ایچ ڈی اسکالر نہیں جانتا۔
لیکن جب تقریباً پچاس سال بعد، اپالو الیون چاند پر اترنے میں کامیاب ہوا اور نیل آرم اسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو نیویارک ٹایمز کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے باقاعدہ معذرت شایع کی لیکن تب تک “مون مین” گوررڈ کو مرے ہویے کیی سال ہوچکے تھے۔ بعدازاں، امریکی حکومت بھی یہ ماننے پر مجبور ہویی کہ جس ساءنسدان کو انہوں نے ساینسی تجربات کے لیے فنڈنگ دینے سے انکار کردیا تھا،اُسی کی ریسرچ اور ڈیزاین نے بلآخر پہلے انسان کو چاند تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
گورڈاڈ کی موت کے بعد ناسا اور روس کے خلایی تحقیقاتی ادارے جلد اس نتیجے پر پہنچ گیے کہ گورڈاد اپنی تحقیق اور ملٹی اسٹیج راکٹ کے ڈایزاین اور مایع ایندھن استعمال کرنے کے آییڈیا میں سو فیصد درست تھے اور ان کے ڈیزاین کے بغیر خلایی سفر ممکن نہیں۔
جنوری 1961 میں ناسا نے ڈاکٹر گورڈاڈ کے نام پر رکھے اپنے پہلے اسپیس اسٹیشن سے Mercury نامی تجرباتی کیپسول لانچ کیا جس میں Ham نامی ایک Champanzee سوار تھا۔ یہ فلاءیٹ Ham کو زمین سے 156 میل اوپر تک لیجانے میں کامیاب رہی،امریکی خلایی ایجنسی نے اس تجربے کو کامیاب قرار دیکرپورے جوش و خروش سے انسان کو خلا میں بھیجنے کی تیاری شروع کردی۔
لیکن یہ سوویت یونین تھا جس کے حصے میں تاریخ رقم کرنا لکھا تھا،12 اپریل 1961 کو کمیونسٹ روس پہلا انسان خلا میں پہنچانے میں کامیاب ہوگیا۔ دنیا میں کہرام مچ گیا۔ یہ واقعہ تاریخ کے ان نادر واقعات میں سے ایک تھا،، جب سرد جنگ کے باوجود، سیاسی تعصبات سے اٹھ کر اسے انسانیت کی کامیابی قرار دیکر دنیا بھر میں منایا گیا۔ گاگرین، مشرق و مغرب میں سب کا ڈارلنگ بن چکا تھا،،لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دیوانہ وار اکٹھے ہوتے تھے اور ہوتے بھی کیوں نا۔۔
آخرغاروں میں رہنے والا وہ ننگ دھرنگ انسان جو چمکتے ستارو٘ں اور چاند کو خدا سمجھتا تھا،، جو سورج اور چاند گرہن کو دیوتا کا قہر مان کو چھپ جایا کرتا تھا۔۔۔۔آج اپنی ہمت،حوصلے اور سمجھ بوجھ کے باعث آسمانوں کی ہمسری کررہا تھا!
بہرحال، یہ خلایی جنگ اب امریکہ کے لیے عزت کا سوال بن چکی تھی۔ اسی اثنا میں نوجوان امریکی صدر جان ایف کینیڈی بھی اقتدار میں آچکے تھے، جو خود ساینس اور ٹیکنالوجی کے دلداہ تھے ۔1961 میں امریکی بیس
Cape Canaveral کے پیڈ نمبر5 سے سپیس کیپسول Freedom 7 لانچ کیا گیا، جس کے ذریعے پہلے امریکی خلاباز Alan Shephard خلا میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔یہ فلاییٹ انہیں 116 میل کی بلندی تک لے جانے میں کامیاب رہی، جہاں وہ صرف 15 منٹ رک سکے اور بحفاظت واپس اتر آیے۔ اہم بات یہ کہ ایلن اپنے ساتھ ایک پورٹیبل اے سی بھی لے کر گیے تھے تاکہ ان کا ایلومینیم پریشر سوٹ ٹھنڈا رہ سکے۔
فروری1962 میں میرین کور سے تعلق رکھنے والے پایلٹ جان گلن جونیر، پہلے امریکی خلا باز بنے جنہوں نے زمین کے مدار کے گرد تین چکر لگاے۔ گلن کی فلایٹ والے دن شیو کرنے کی تصویر بہت وایرل ہویی،جب ان سے پوچھا گیا وہ شیو کرتے وقت کیا سوچ رہے تھے تو جواب دیا کہ ڈر رہا تھا شیو کے دوران کویی کٹ نہ لگ جایے،،ورنہ یہ ایک بہترین دن کا برا آغاز ہوتا۔
1963 میں خلایی سفر میں ایک نیی تاریخ لکھی گیی، جب ویلنتینا ترشخوف خلا میں جانے والی دنیا کی پہلی خاتون بنیں، انہوں نے 70 گھنٹوں کے دوران زمین کے گرد 48 چکر لگایے، اس کارنامے پر ویلنتینا کو سوویت یونین کا ہیرو قرار دیا گیا۔
اب خلا میں انواع و اقسام کے تجربات کی پہل ہوچکی تھی،،کیونکہ خلایی اداروں اور خلابازوں میں انجانی دنیا سے برسرپیکار ہونے کے بعد اعتماد آنے لگا تھا،،اس کی ایک مثال مارچ 18، 1965 کو دیکھی گیی جب روس کے ایلگزی لینوو خلا میں چہل قدمی کرنے والے پہلے انسان بنے۔ زمین سے سو میل اوپر تیرتے ہویے، انہوں نے یہ واک 12 منٹ 9 سیکنڈ میں مکمل کی۔ اسی سال جون میں امریکی خلاباز ایڈورڈ وایٹ نے گیس گن کی مدد سے سپیس واک مکمل کی جو Huawei سے برمودا تک 6 ہزار میل پر مشتمل تھی، یہ واک انہوں نے صرف 21 منٹ میں مکمل کی۔
1967میں ، پہلا Space Accident رونما ہوا جب روس کے ولادیمیر کیماروو کا خلایی کیپسول زمین پر واپسی کے وقت پیراشوٹ نہ کھلنےکے باعث کریش کر گیا۔
یا د رہے کہ اب تک سوویت یونین ، خلایی دوڑ میں امریکہ سے ایک قدم آگے تھا۔ سب سے پہلا سپیس کرافٹ کو خلا میں بھیجنے سے لیکر، پہلے انسان کو کامیابی سے خلا میں پہنچانا اور پھر سپیس واک کے ذریعے دنیا کو انگشت بداں کردینا! لیکن آخر کار امریکہ کا وقت بھی آہی گیا، جس نےانسانی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک سنہری باب اپنے نام کرلیا۔
یہ کارنامہ تھا پہلے انسان کو چاند پر اتارنا۔۔۔۔وہی چاند جس پر بڑھیا کے چرخہ کاٹنے کی کہانیاں سنتے سنتے کیی نسلیں جوان ہوییں، وہی چاند جس کے حسن کو دیکھ کر شاعر اپنے محبوب کو تشبیح دیتے تھے اور وہی ماہتاب جس کو دیکھ کر ماہ و سال کا حساب لگایا جاتا رہا،، بلآخر انسان کے قدموں تلے مسخر ہوگیا،،
سن تھا 1969، تاریخ تھی سولہ جولایی ،،وقت تھا صبح کے ساڑھے نو بجے اور مقام تھافلوریڈا میں قایم ناسا کا کینیڈی سپیس اسٹیشن۔ Saturn 5 نامی سب سے بڑا اوراب تک کا سب سے طاقتور راکٹ پوری شان و شوکت سے اپالو 11 نامی خلایی کیپسول کو لیے Pad A سے لانچ ہوا اور اپنے پانچ F1 انجز کے ساتھ آسمان کو چیرتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ (NAT)
عملے میں کمانڈر نیل آرمسٹرانگ، پایلٹ مایکل کولنز اور بز ایلڈن شامل تھے۔ خلا بازوں کو الوداع کرنے والوں میں امریکہ صدر لنڈن بی جوہنسن اور ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں۔
پرواز کے ٹھیک گیارہ منٹ کے بعد اپالو 11 چاند کے مدار میں پہنچ چکا تھا۔ وہاں سے چار دن بعد نیل آرمسٹرانگ اوربز ایلڈن ، ایگل نامی چاند گاڑی میں بیٹھ کرچاند کی جانب روانہ ہویے۔ 20 جولایی کو زمین چھوڑنے کے 110 گھنٹے بعد نیل آر مسٹرانگ چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بن گیے،، اورآرمسٹرانگ کے تاریخ ساز الفاظ دنیا بھر میں جاری ٹی وی نشریات پر گونجے کہ ایک شخص کا چھوٹا سا قدم، انسانیت کی عظیم چھلانگ ہے۔
(NAT)
آرمسٹرانگ کے بیس منٹ بعد بز آلڈن نے چاند پر قدم رکھا، اور دونوں نے خلا میں دو گھنٹے سے زاید کاوقت گزارا اور اس دوران نمونے جمع کیے، تصاویر لیں اور کیی ساینسی تجربات کو انجام دیا۔
یوں 1962 میں سرد جنگ کے عروج پر صدر جان کینڈی کا امریکی قوم کے سامنے کیا گیا دعویٰ کہ ہم چاند پر اترنے کو تیار ہیں بلآخر کامیابی سے ہمکنار ہوا اور امریکہ نے فیصلہ کن معرکے میں سوویت یونین کو ٹیکنالوجی کی جنگ میں بلآخر مارت دیدی!
چاند پر جانے والا اپالو مشن 1972 کے دسمبر تک جاری رہا ، جس کے ذریعے چھ دفعہ چاند پر لینڈنگ کی گیی۔ اس کا آخری مشن اپالو 17 کی لینڈنگ تھا اور یوجین کرنان چاند پر واک کرنے والے آخری انسان تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی تین دن تک چاند کی سطح پر رہے۔ یاد رہے کہ نیل آرمسٹرانگ کے پہلا قدم رکھنے کے بعد گیارہ مزید افراد چاند کی سطح پر اترے۔ ناسا کے تقریباً چار لاکھ افراد نے اپالو کے 17 مشنر پر کام کیا جس پر 25 ارب ڈالر کا خرچ آیا۔
ستر کی دہایی میں سپیس ٹیکنالوجی کے دوسرے دور کا آغاز ہوا جب سپیس کرافٹ کو سپیس شٹل میں ڈھالنے پر کام شروع ہوا۔ اپنے ناظرین کو سپیس کرافٹ اور سپیس شٹل میں فرق بتاتے چلیں کہ ابتدا سے استعمال ہونے والی سپیس کرافٹ کو خلا میں جانے کے لیے صرف ایک ہی دفعہ استعمال کیا جاسکتا تھا، اور یہ ظاہر ہے ایک مہنگا نسخہ تھا، جبکہ زمینی فضا میں واپس داخل ہونے کے بعد اس کا کیپسول پیراشوٹ کے ذریعے لینڈ ہوتا تھا۔ لیکن سپیس شٹل ایک ہوایی جہاز کی طرح تھا جو فضا میں پہنچنے کے اپنے انجنز کی مدد سے Orbit میں پہنچتا، اور پھر واپسی پر کسی ہوایی جہاز کی طرح رن وے پر لینڈ کرجاتا ۔
ناسا کی پہلی سپیس شٹل Columbia ، اپریل 1981 میں مشن مکمل میں کامیاب ہویی، جس کے بعد امریکی حکومت نے سپیس شٹلز کو محفوظ جان کرچیلنجز ،ڈسکوری، ایٹلانٹس اور Endeavour نامی شٹلز کا ایک پورا فلیٹ تیار کروایا۔ لیکن شٹلز کا سفر اتنا بھی محفوظ نہیں تھا جتنا سمجھا جارہا تھا۔ 1986 میں شٹل چیلنجز جب فضا میں بلند ہویی تو صرف 73 سیکنڈ بعد ہی ایک دھماکے سے پھٹ گیی۔ ساتوں خلا باز جان کی بازی ہار گیے، یہ حادثہ ایک زنگ آلود میٹل رنگ کے باعث پیش آیا، جس کے ذریعے بوسٹر کی گرم گیسز باہر نکلیں اور مین فیول ٹینک کو آگ لگادی۔
بدقسمتی سے 2003 میں پہلی سپیس شٹل کولمبیا کا بھی یہی حشرہوا جب 27 کامیاب مشنز اور تین سو دن خلا میں گزارنے کے بعد 28 ویں مشن کے دوران زمین کی حدود میں داخل ہوتے ہویے پاش پاش ہوگیی، اور یوں مزید سات قیمتی جانیں ضایع ہوگیں۔ لیکن یہاں پر ان خلا بازوں کو خراج تحسین نہ پیش کرنا زیادتی ہوگی، جو خلا میں داخل ہوتے ہی اپنی سپیس شٹل کی سنگین خرابی کے بارے میں جان چکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے خلا میں اپنا مشن اطمینان سے پورا کیا اورپھر زمین پر واپس پہنچنے کے پورے جتن کیے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔
بلآخر 2011 میں صدر اوبامہ کے حکم پر سپیس شٹل پروگرام مہنگا اور غیر محفوظ قرار دیکر بند کردیا گیا،کیونکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی تھی کہ اندازوں کے برخلاف خلایی سفر کبھی معمول کی بات نہیں بن سکے گا،اور چیلنجر اور کولمبیا کے حادثوں نے ثابت کردیا کہ سینکڑوں سفر کامیابی سے کرنے والی خلایی شٹل کی بھی ہر پرواز آزمایشی پرواز ہوگی!!
چاند پر اترنے کے بعد انسان کی اگلی نگاہیں مریخ پر ٹک گیں، جسے “اسپیس ایکس” نامی ایک نجی امریکی کمپنی۔۔۔۔۔۔۔۔ Colonialise کرنے کی کوششوں میں ہے،جبکہ ناسا اس کمپنی کو اپنے خلا بازوں کو سپیس میں ٹرانسپورٹ کرنے کا کام 2016 سے آوٹ سورس کرچکا ہے۔ رواں سال May میں “اسپیس ایکس” نے پہلی دفعہ دو امریکی خلا بازوں کو عالمی خلایی اسٹیشن پہنچایا، یاد رہے کہ 2011 میں شٹل پروگرام بند ہونے کے بعد سے ناسا روس کو کیی ملین ڈالرز دے کر اپنے خلا باز بین الاقوامی سپیس اسٹیشن میں بھیجتا رہا ہے، اب ایک نجی کمپنی نے کم از کم سپر پاور امریکہ کو اس ہزیمت سے تو بچایا!
نجی سرمایے سے قایم اسپیس ایکس کا قیام خلایی سفر کے ایک نیے دور کا آغاز ہے۔ اس کی پہلی کوششش خلا یی ٹرانسپورٹ اخراجات میں کمی لانا ہے تاکہ مریخ پر آباد کاری کی جاسکے۔ اس کے لیے کمپنی نے دوبارہ استعمال کیے جانے والے راکٹس تیار کیے جس سے اس کا بجٹ نیچے آگیا ہے،،ورنہ ناسا کے قیمتی راکٹس، خلایی شٹل کو زمین کی مدار سے نکال کر خود سمندر برد ہوکر ناقابل استعمال ہوجاتے تھے۔
دوسری جانب اس کمپنی نے سپیس شٹل کے متبادل ڈریگن نامی خلایی گاڑی تیار کی ہے، جسے مکمل طورپر زمین سے ہی کنٹرول کیا جاتا ہے جبکہ لانچ کے وقت ایمرجنسی کی صورت میں خلابازوں کی زندگیاں بھی محفوظ رہتی ہیں! اب یہ کمپنی ان مسافروں کے لیے ایک بڑا خلایی جہاز تیار کررہی ہے، جن کی مریخ پر آباد کاری کی جاسکے گی یہاں اپنے ناظرین کو دلچسپ حقیقت بتاتے جاییں کہ سپیس ایکس کے مالک الون مسک ایک رنگین طبعیت کے مالک ہیں،اور فلم آیرن مین میں ٹونی سٹارک کاکردار انہی سے متاثر ہوکر تخلیق کیا گیا ہے،،
چاند کے بعد مریخ کا ذکر کریں تو ابھی تک انسان مریخ کی سطح پر اتر نہیں پایا، لیکن وہاں پر روس اور امریکہ کل دس بار اپنے اپنے سپیس کرافٹ اتارنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ 2018 میں آخری دفعہ Insight نامی سپیس کیپسول مریخ پر اترا۔ اب ہم Space age کے تیسرے دور میں داخل ہوچکے ہیں،مریخ پر جانے کی کوششوں میں امریکہ، روس، چین اور اب متحدہ عرب امارات بھی شامل ہوچکے ہیں ۔ لیکن کیا انسان کا خواب کہ زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر انسانی بستیاں آباد کرے یا پھر ان سیاروں کو اپنی کالونی بنا لے۔ شرمندہ تعبیر ہو پایے گا۔۔۔؟