کہتے ہیں کہ دو سپر طاقتیں آپس میں Directly یعنی براہ راست جنگ نہیں کرتیں- کیونکہ ایسا کرنے سے دونوں طاقتوں کو شدید نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے- اس کے برعکس ایک دوسرے کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے سپر طاقتیں یہ کام عموما proxies کے ذریعے کرتی ہیں- یہی صورت حال اکیسویں صدی کی سپر طاقتوں امریکہ اور چین کے درمیان ہے- دونوں ملکوں کی یہ rivalry یعنی رقابت ایک نئی سرد جنگ کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے- جہاں یہ براہ راست لڑنے کی بجائے مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کو زیر کرنے میں مصروف ہیں- آج کی سپر طاقت امریکہ ٹیکنالوجی، معیشت اور سفارتکاری کے میدانوں میں ابھرتی ہوئی طاقت چین کا راستہ روکنے کے لیے سرگرم عمل ہے- ایک دوسرے سے تقریبا دس ہزار کلومیٹر دور ہونے کی وجہ سے دونوں کی آپس میں براہ راست جنگ کا تو کوئی امکان نہیں- مگر ماہرین کے مطابق دنیا میں ایک جگہ ایسی ہے جہاں دونوں ممالک کے نیویز کے درمیان محدود پیمانے پر جھڑپیں ہو سکتی ہے- یہ جگہ ہے ساوتھ چائنہ سی-
اسی وجہ سے ساوتھ چائنہ سی کا تنازعہ دنیا کے خطرناک ترین تنازعے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے- اس تنازعے میں امریکہ چین کے ساتھ ساتھ پانچ دوسرے ممالک بھی براہ راست فریق ہیں- ان ممالک میں ملیشیا، برونائی، تائیوان، ویتنام اور فلیپین شامل ہیں- یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اس میں سے کسی ایک ملک کا بھی دوسرے ملک سے موقف نہیں ملتا- سب ممالک مختلف جزیروں اور سمندری حدود کا دعوی کیے ھوئے ہیں- آج ہم آپ کو اسی پیچیدہ تنازعے کی باریکیوں کے بارے میں بتائیں گے- ہم آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ اس تنازعہ کی تاریخ کیا ہے؟ اور یہ بھی کہ ساوتھ چائنہ سی کی ایسی کیا اہمیت ہے کہ کوئی ملک یہاں اپنے دعوے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں؟
۔۔۔۔ مونٹاج ۔۔۔
پہلے ہم ساوتھ چائنہ سی کے جغرافیے کو سمجھتے ہیں- ساوتھ چائنہ سی 35 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہ Pacific ocean یعنی بحر الکاہل کا حصہ سمجھا جاتا ہے- جیسا کہ نام سے واضع ہے کہ ساوتھ چائنہ سی چین کے جنوب میں واقع ہے- اس کے آس پاس موجود ممالک میں تائیوان، ویتنام، ملیشیا، سنگاپور، برونائی اور فلیپین شامل ہیں- ساوتھ چائنہ سی دنیا کے اہم ترین سمندروں میں سے ایک ہے- اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے دنیا بھر کی تجارت کا 30 فیصد یعنی تقریبا ایک تہائی حصہ گزرتا ہے- اس لیے یہ سمندر تمام ممالک کے لیے سٹریٹیجک اہمیت رکھتا ہے- چین کے لیے تو اس سمندر کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے- کیونکہ چین کی پانچ بڑی بندرگاہوں میں سے تین تو صرف ساوتھ چائنہ سی پر ہی واقع ہیں- چین کو تیل کی درآمد کا 80 فیصد ساوتھ حصہ چائنہ سی سے ہی گزرتا ہے- اس لیے چین اس سمندر پر اپنا مضبوط کنٹرول رکھنا چاہتا ہے- تجارتی روٹ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ سمندر قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے- جس سے اس سمندر کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے- دنیا بھر کی fisheries یعنی مچھلیوں کا 10٪ یعنی دسواں حصہ یہاں پایا جاتا ہے- جو ان ممالک کی fishing انڈسٹری یعنی ماہی گیری کے لیے بہت اہم ہے- اسی لیے چین، ویتنام اور فلیپین دنیا کے fishing یعنی ماہی گیری کرنے والے دس بڑے ملکوں میں شامل ہیں- حالیہ کچھ عرصے میں ساوتھ چائنہ سی میں تیل اور گیس کے ذخائر بھی بڑے پیمانے پر دریافت ہوئے ہیں- جو کہ ان ممالک کی صنعتوں کو دہائیوں تک ایندھن فراہم کر سکتے ہیں-
کسی جگہ کی اتنی اہمیت ہو، وہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہو لیکن وہاں تنازعہ یا جھگڑا نہ ہو، یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ ایسی ہی کچھ صورت حال ساوتھ چائنہ سی کی ہے- ساوتھ چائنہ سی میں موجود سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزیروں، Reefs اور shoals پر ان چھ ممالک کے دعوے ہیں- کچھ جزیروں پر تو ان ممالک نے ملٹری بیسز، رن ویز اور پورٹس بھی بنا لی ہیں- جس کی وجہ سے اس خطہ میں صورتحال اکثر کافی کشیدہ بھی رہتی ہے-
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے پہلے ہم ساوتھ چائنہ سی تنازعہ کی مختصر سی تاریخ دیکھتے ہیں- ویسے تو ساوتھ چائنہ سی میں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کی تاریخ کافی پرانی ہے- چینی تاریخ دانوں کا مطابق آج سے تقریبا انیس سو سال پہلے Eastern Han Dynasty کے دور میں چینی ماہی گیروں نے ساوتھ چائنہ سی میں ان جزیروں کو دریافت کیا- چینی ماہی گیر یہاں مچھلیوں کے شکار کے لیے آیا کرتے تھے- چینی ماہی گیروں کی نسلیں ان جزیروں سے واقف تھیں اور یہاں شکار کے لیے آتی رہتی تھیں- ویتنام اور فلیپین کے تاریخ دان بھی اس قسم کے دعوے کرتے ہیں- اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان جزیروں پر ان کے ماہی گیر آتے تھے اس لیے یہ جزیرے ان کے ملک کا حصہ تھے- انیسویں صدی کے آخر تک البتہ ان جزیروں پر کسی نے بھی باقائدہ آبادی اختیار نہ کی-
1905 میں جاپان نے جنگ میں روس کو شکست دی- اور اپنی سلطنت کو پھیلانا شروع کر دیا- جاپان چونکہ جزیروں پر مشتمل ملک تھا اور اس کا بہت زیادہ دارومدار باہر سے درآمد کیے ہوئے وسائل پر تھا اس لیے اپنے تجارتی روٹ کے تحفظ کے لیے جاپان نے ساوتھ چائنہ سی میں بہت سے جزیروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا- ان جزیروں پر جاپان کا کنٹرول دوسری جنگ عظیم کے آخر تک قائم رہا- دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد ایک معاہدے کے تحت اسے ان جزیروں سے نکال دیا گیا- اور یہ جزیرے چین کے کنٹرول میں آ گئے- یاد رہے کے چین میں اس وقت نیشنلسٹوں یعنی موجودہ تائیوان کی حکومت تھی- چین کی اس حکومت نے جاپان کے خالی کیے ہوئے ان جزیروں میں سے صرف چند اہم پر اپنا کنٹرول رکھا اور باقی جزیرے خالی چھوڑ دیے- چین کی اس حکومت نے البتہ 1946 میں الیون ڈیش لائن نامی ایک نقشہ جاری کیا جس میں چین کی سمندری حدود واضح کی گئی تھی- اس نقشے میں ساوتھ چائنہ سی کا تقریبا اسی فیصد حصہ چین کی حدود میں دکھایا گیا تھا- اور ساوتھ چائنہ سی میں چین کی سمندری حدود چین کے ساحل سے تقریبا 1800 کلومیٹر دور تک دکھائی گئی تھی- اس نقشے کے مطابق ساوتھ چائنہ سی کے تمام جزیروں کو بھی چین کا حصہ دکھایا گیا تھا- 1949 میں کیمونسٹوں نے ماو زے تنگ کی قیادت میں پورے چین پر کنٹرول سنبھال لیا- اور نیشنلسٹوں کو ایک چھوٹے سے جزیرے تائیوان میں دھکیل دیا- مین لینڈ چائنہ میں کیمونسٹوں کی حکومت آ جانے کے بعد ساوتھ چائنہ سی کے یہ جزیرے بھی چین کی کیمونسٹ حکومت کے پاس آ گئے- چین کی کیمونسٹ حکومت نے پچھلی نیشنلسٹ حکومت کے الیون ڈیش لائن نقشہ کی طرز پر نائن ڈیش لائن نقشہ جاری کیا- اس نقشے میں بھی چین کی سمندری حدود واضح کی گئی تھی- اور تمام جزیروں کو چین کا حصہ دکھایا گیا تھا-
اس دور میں چین یا ساوتھ چائنہ سی کا کوئی اور ملک ان چھوٹے چھوٹے جزیروں کو غیر اہم سمجھتا تھا- اس لیے یہ جزیرے کسی بھی ملک نے اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش نہ کی- 1969 میں اقوام متحدہ کی ایک ریسرچ ٹیم نے اس علاقے میں جیولاجیکل سروے کے نتیجے میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت کر لیے- ایسے میں ان جزیروں کی اہمیت ایک دفعہ پھر بڑھ گئی- اس دریافت کے بعد تمام ممالک میں جزیروں پر قبضے کی ایک ڈور لگ گئی- خطے کے بیشتر ممالک جیسا کہ چین، ویتنام، فلپین، تائیوان اور ملیشیا نے ایک ایک کر کے تمام جزیروں پر قبضہ کر لیا- یعنی اب جزیروں پر ملکیت کی ایک کھچڑی سی پک گئی اور ہر ملک دوسرے کے کلیم کو غلط اور اپنے کو درست ماننے لگا۔ تمام جزیروں پر قبضہ برقرار رکھنے کی یہ جنگ آج بھی جاری ہے-
ساوتھ چائنہ سی میں موجود جزیروں اتنے چھوٹے ہیں کہ آپ ان کو نقشے میں آسانی سے دیکھ بھی نہیں سکتے- ان جزیروں کو ہم تین اہم گروپس میں تقسیم کر سکتے ہیں-
paracel islands,
Spratly Islands,
Scarborough Shoal.
paracel islands کے جزیرے 1974 میں چین نے ویتنام کو وہاں سے نکال کے حاصل کیے تھے- آج بھی وہاں چین کا کنٹرول ہے- Scarborough Shoal کے جزیرے فلیپین کے بہت قریب ہونے کے باوجود چین کے کنٹرول میں ہیں- یہاں 2012 میں چین اور فلیپین کے درمیان کافی کشیدگی بھی رہی- جبکہ Spartly Islands میں سب سے زیادہ جزیرے ویتنام کے پاس ہیں- ویتنام کے علاوہ یہاں کچھ جزیرے چین، تائیوان، فلپین، اور ملیشیا کے کنٹرول میں بھی ہیں- Spartly Islands پر paracel islands اور Scarborough Shoal کی نسبت زیادہ کشیدگی رہتی ہے- چین یہیں پر اپنا کنٹرول پختہ کرنے کے لیے مصنوعی جزیرے بھی بنا رہا ہے-
اب ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ممالک کی طرف سے ساوتھ چائنہ سی کے جزیروں اور سمندری حدود پر دعوے کی بنیاد کیا ہے- چین ان جزیروں اور ساوتھ چائنہ سی پر اپنا دعوی تاریخی وجوحات کی بنیاد پر کرتا ہے- جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ 1949 میں چین نے نائن ڈیش لائن کے ساتھ نقشہ جاری کیا تھا اور وہ اس کے اندر موجود تمام جزیرے اور سمندر کو اپنا حصہ سمجھتا ہے- جیسا کہ آپ اس نقشے میں دیکھ سکتے ہیں- چونکہ کیمونسٹوں نے چین کا کنٹرول تائیوان یعنی نیشنلسٹوں سے لیا تھا- اور تائیوان اپنے آپ کو چین کا اصل نمائندہ سمجھتا ہے- اس لیے تائیوان بھی نائن ڈیش لائن کے اندر موجود تمام جزیروں اور سمندر کو اپنا حصہ سمجھتا ہے- اس طرح چین اور تائیوان کا دعوی اس مسئلے پر ایک ہی ہے-
جبکہ باقی ممالک کا دعوی مختلف ہے- جیسا کہ آپ اس نقشے میں دیکھ سکتے ہیں- blue ایریا کو ویتنام اپنی سمندری حدود سمجھتا ہے- orange کو فیلپین، green کو ملیشیا اور purple کو برونائی اپنی سمندری حدود سمجھتا ہے- آپ نقشے میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح تمام ممالک کی طرف سے دعوی کی گئی سمندری حدود ایک دوسرے کی سمندری حدود کے اوپر آتی ہیں- جیسا کہ یہ parcel island والا علاقہ دیکھیں- کہ یہ کس طرح چین، تائیوان اور ویتنام کے درمیان متنازعہ ہے- اس پورے نقشے میں ان دو جزیروں کی صورتحال تو سب سے دلچسپ ہے- ان دونوں جزیروں پر پانچ ملکوں یعنی چین، تائیوان، ملیشیا، ویتنام اور فلپین کا دعوی ہے-
چین اور تائیوان کے برعکس دوسرے ممالک کے دعوی کی بنیاد مختلف ہے- دوسرے ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جزیرے پہلے آباد نہ تھے- اور نہ ہی یہ جزیرے کسی بھی ملک کے کنٹرول میں تھے- اس لیے اقوام متحدہ کے سمندروں کے متعلق قانون United Nations Convention for the Law of the Sea ۔ UNCLOS کے تحت یہ ان کی سمندری حدود میں آتے ہیں اس لیے یہ ان کا حصہ ہیں- اقوام متحدہ کے اس قانون کے تحت کسی ملک کی سمندری حدود اس ملک کے ساحل سے 200 ناٹیکل میل تک ہوتی ہے- اس 200 ناٹیکل میل کی حدود کو Exclusive اکنامک زون کہا جاتا ہے- کسی بھی ملک کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے Exclusive اکنامک زون کے اندر رہتے ہوئے fishing کر سکتا ہے، تیل اور گیس بھی نکال سکتا ہے- اس قانون میں بہت سی پیچیدگیاں بھی ہں- جیسے کہ کون سے جزیرے کو جزیرہ کہا جائے گا اور کونسے جزیرے صرف سمندر میں موجود پتھریا پہاڑ ہی تصور ہوں گے- کچھ ماحرین کے مطابق وہ جزیرے جہاں لوگ تاریخی طور پر آباد نہیں اور وہاں انسانی زندگی باھر سے خوراک اور بنیادی زروریات زندگی کے بغیر ممکن نہ ہو، وہ جزیرہ تصور نہ ہوں گے بلکہ صرف پتھر سمجھے جائیں گے- جزیرہ نہ تصور ہونے سے ان کے گرد کا سمندر ایکسکلوسو اکنامک زون نہیں ہوتا- اسی طرح کی اور بہت سی باریکیاں ہیں جو اس قانون کی interpretation یعنی تشریح کو پیچیدہ بناتی ہیں- اور مختلف ملکوں میں اختلاف پیدا کرتی ہیں- UNCLOS کی تشریح میں اس اختلاف کی وجہ سے ہی دنیا بھر میں مختلف ممالک میں کافی زیادہ سمندری تنازعات موجود ہیں- اور انہی اختلافات کی وجہ سے ہی ساوتھ چائنہ سی کے ان ممالک کی سمندری حدود ایک دوسرے کی حدود سے overlap کرتی ہے-
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی ملک کا دعوی جو مرضی ہو- اصل چیز یہ ہے کہ کس ملک کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی متنازعہ جگہ کا posession یعنی قبضہ لے سکے- چین نے پچھلی دو دہائیوں میں معاشی میدان میں غیر معمولی ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بحری طاقت بڑھانے پربھی بہت توجہ دی ہے- بحری جہازوں کے تعداد کے لحاظ سے چین کی نیوی امریکی نیوی سے بھی بڑی بحری فوج بن چکی ہے- طاقت حاصل کرنے کے بعد چین کی ساوتھ چائنہ سی میں پالیسی بھی اگریسیو ھو گئی ہے- چین اپنے پرانے نائن ڈیش لائن والے نقشے کی بنیاد پر تمام جزیروں کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتا ہے- اس کے لیے وہ بہت جارحانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے- اور وہ باقی تمام ممالک سے یہ جزیرے واپس اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتا ہے- اور کچھ تو وہ پہلے ہی کر چکا ہے- اس لیے چین اس خطے میں اپنی فوجی طاقت بڑھا رہا ہے- چین نے ایک متنازعہ reclamation پروگرام بھی شروع کیا ہے- جس کے تحت چین نے 3000 ایکڑ رقبے پر پھیلے سات چھوٹے چھوٹے جزیروں اور زیر سمندر reefs کو مٹی ڈال کل چند ہی سالوں میں بڑے جزیروں میں تبدیل کر دیا ہے- چین نے ان جزیروں پر اپنے ہوائی جہازوں کے لیے رن وے، بحری جہازوں کے لیے ڈیپ پورٹس اور میزائل ڈیفنس سسٹم، ریڈار اور دوسری ملٹری تنصیبات بھی تعمیر کی ہیں- چین کے ان اگریسو اقدامات پر دوسرے ممالک نے کافی احتجاج بھی کیا-
ساوتھ چائنہ سی میں کچھ جزیرے تو دفائی اعتبار سے بہت ہی اہم ہیں- جیسا کہ یہ paracel islands والے جزیروں کو دیکھ لیں- یہ جزیروں کا ایک مجموعہ ہے جس پر چین کا کنٹرول ہے مگر ویتنام اور تائیوان بھی ان کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں- چین کے لیے یہ جزیرے بہت ہی اہم ہیں کیونکہ یہاں پر موجود دفائی انفراسٹرکچر اور فوج کی وجہ سے یہ چین کے ھینان جزیرے (hainan island ) اور مین لینڈ چین کو ایک Extra Defence Layer یعنی اضافی دفاعی لائن فراہم کرتے ہیں- ھینان کے جزیرے میں ھی چینی نیوی کی یولن نیول بیس موجود ہے- جہاں چین کی نیوکلیئر سب میرین رکھی جاتی ہیں- اس لیے اس نیول بیس کے دفاع کے لیے paracel islands کا بہت اہم کردار ہے- تاریخی طور پر چونکہ چین اور ویتنام ایک دوسرے کے حریف بھی رہے ہیں اس لیے ویتنام پر حملے کے لیے بھی paracel islands کی بہت اہمیت ہے- ویتنام چونکہ ایک لمبا اور پتلا ملک ہے اور اس کی سٹریٹیجک ڈیپتھ بلکل کم ہے- ویتنام کے درمیان میں ایک جگہ پر تو اس کی چوڑائی صرف 60 کلومیٹر رہ جاتی ہے- اس لیے paracel islands اور hainan island سے چین ویتنام پر حملہ کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے- اس لیے ویتنام چین کے paracel islands میں موجودگی سے بہت نالاں ہے-
دفاعی اعتبار سے دوسرے اہم جزیرے Scarborough Shoal ہیں- یہ جزیرے چونکہ فلیپین کے دار الحکومت منیلا سے صرف 350 کلومیٹر دور ہیں اور یہان بھی چین کا کنٹرول ہے- اس لیے یہ بھی فلیپین کے دفاع کے لیے بہت اہم ہیں- فلیپین چونکہ امریکہ کا ایک اتحادی ہے اور دونوں ملکوں میں دفائی معاہدے بھی موجود ہیں اس لیے- اس لیے امریکہ فلیپین کی نیوی کے ساتھ اکثر ساوتھ چائنہ سی میں نیول مشقیں بھی کرتا رہتا ہے- امریکہ کو اس پورے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے بہت تشویش رہتی ہے۔ اور وہ چین کے اس خطے پر دعوے کا مخالف بھی ہے- امریکہ کے لیے بھی ساوتھ چائنہ سی کی اہمیت بہت زیادہ ہے- کیونکہ اس کی سالانہ 83 بلین ڈالر کی تجارت ساوتھ چائنہ سی کے راستے ہوتی ہے- اس لیے وہ ساوتھ چائنہ سی کو چین کے کنٹرول میں جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا- اس لیے وہ چین کو اس کے اپنے بیک یارڈ میں چیلنج کرتا رہتا ہے- اور اپنا ایک بہری بیڑے آس پاس موجود رکھتا ہے- اس کے علاوہ امریکہ اپنی نیوی کے ذریعے چین کے زیر کنٹرول جزیروں کے قریب freedom of navigation آپریشن بھی کرتا رہتا ہے- اس آپریشن سے وہ چین کو یہ باور کراتا ہے کہ وہ ان جزیروں پر چین کے قبضے کو غیر قانونی سمجھتا ہے- اس لیے اکثر امریکہ اور چین کی نیویز یہاں آمنے سامنے بھی آتی رہتی ہیں- امریکہ ساوتھ چائنہ سی میں چین کا اثر کم کرنے کے لیے اپنے تین اتحادیوں کے ساتھ ایک گروپ بھی بنانا چاہ رہا ہے- اس اتحاد کا نام QUAD گروپ رکھا گیا ہے- QUAD گروپ میں امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت، جاپان اور اسٹریلیا شامل ہوں گے- امریکہ QUAD گروپ سے ذریعے ان ممالک کو اپنے مفادات کے لیے چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے- امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت، جاپان اور اسٹریلیا اپنے نیول جہاز ساوتھ چائنہ سی میں موجود رکھیں اور امریکہ کی طرح چین کے زیر کنٹرول جزیروں کے قریب freedom of navigation آپریشن بھی کریں- تاکہ چین پر پریشر بڑھایا جا سکے- ساوتھ چائنہ سی میں دونوں سپر پاورز کی یہ کشیدگی مستقبل میں عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بھی ثابت ہو سکتی ہے- کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کو ساوتھ چائنہ سی میں اپنی نیوی رکھنی چاہیے- یا پھر بھارت کو ساوتھ چائنہ سی میں interference یعنی دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے- اس بارے میں اپنی رائے کا اطہار کیجیے- ہم آپ کے کمینٹس پڑھتے ہیں-