دنیا آج دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں صنعتی ترقی عروج پر ہے، زیادہ تر لوگوں کو ہر جدید سہولت حاصل ہے اور ان کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف وہ ممالک ہیں جہاں غربت انتہا درجے پر ہے، لوگ کوڑے کے ڈھیروں میں کھانا تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں کوئی سہولت ملنا تو دور کی بات زندگی کی بنیادی سہولیات جیسا کہ روٹی، کپڑا، مکان بھی دستیاب نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ امیر ملکوں کے پاس ترقی کا کون سا نسخہ ہے جو انہیں امیر سے امیر تر بناتا جا رہا ہے اور غریب ممالک میں ایسی کون سی کمی ہے جو انہیں ترقی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھنے دیتی؟ کیا امیر ممالک اپنے جغرافیے کی وجہ سے امیر ہیں؟ کیا موسم کا انسانی ترقی میں کوئی دخل ہے؟ کیا غریب ممالک کے حکمران نکمے اور کرپٹ ہیں؟
ایک انتہائی دلچسپ اور مشہورکتاب وائے نیشنز فیل کے مصنفین نے انہی سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وڈیو میں زیادہ تر معلومات جیمز اے رابنسن اور ڈارون ایسی موگلو کی کتاب، وائے نیشنز فیل سے ہی اخذ کی گئیں ہیں.
قوموں کی ناکامی کے حوالے سے پہلا سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا قومیں اپنے جغرافیے کی وجہ سے ناکام ہوتی ہیں؟
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ تاثر عام ہے کہ غریب ممالک کا جغرافیہ ہی ایسا ہے کہ وہاں ترقی نہیں ہو سکتی۔ جنوبی ایشیا، افریقہ اور وسطی امریکہ جیسے ممالک میں چونکہ سخت گرمی پڑتی ہے اس لئے یہاں کے لوگ سست اور کام چور ہوتے ہیں، وہ اپنے معاشرے میں تبدیلی اور جدید آئیڈیاز کو بھی پسند نہیں کرتے۔ جبکہ امیر ممالک میں چونکہ ٹھنڈ ہوتی ہے اس لئے وہاں کے لوگ بھی محنتی ہوتے ہیں۔جغرافیے اور موسم کا یہ نظریہ اصل میں اٹھارہویں صدی کے فرانسیسی فلسفی مونٹے سکیو نے پیش کیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ گرم علاقوں کے سست لوگوں پر ڈکٹیٹر حکومت کرتے ہیں۔ تاہم وائے نیشنز فیل کے مصنفین نے مونٹے سکیو کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے ملائیشیا، سنگاپور اور بوٹسوانا کی ترقی کی مثال پیش کی ہے۔ یہ ممالک بھی گرم خطوں میں واقع ہیں مگر پھر بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان دونوں ملکوں کا جغرافیہ ایک ہی تھا مگر سرد جنگ کے دور میں مغربی جرمنی تو ترقی یافتہ ملک بن گیا جبکہ مشرقی جرمنی میں لوگ غربت کی چکی میں پستے رہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب مشرقی جرمنی کے لوگوں نے دیوار برلن گرا دی اور مغربی جرمنی کے ساتھ مل گئے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قوموں کی ناکامی میں ان کی ثقافت یعنی کلچر کا ہاتھ ہوتا ہے؟
قوموں کی ناکامی کی ایک اور اہم وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قومیں اپنے کلچر کی وجہ سے ناکام ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر افریقی ممالک اس لئے غریب ہیں کیونکہ وہ جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ مغربی ٹیکنالوجی کی مزاحمت کرتے ہیں یعنی اسے قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ لاطینی امریکہ کبھی امیر نہیں ہو سکتا کیونکہ وہاں کے لوگوں کا کلچر ایسا ہے کہ وہ توانائی ضائع کرتے ہیں اور ان کے پاس سرمایہ بھی کم ہے۔ پھر یہ کہ لاطینی امریکہ کے لوگ ٹال مٹول کے کلچر پر بھی عمل کرتے ہیں۔ قوموں کی ناکامی کے متعلق ثقافت کا نظریہ جرمن ماہر سماجیات میکس ویبر نے پیش کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یورپ میں پروٹسٹنٹ اخلاقیات نے جدید صنعتی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ یعنی جب یورپ نے کیتھولک عیسائیت کے سخت نظریات کو چھوڑ کر پروٹسٹنٹ نظریات کو اپنایا اور جدید آئیڈیاز کو قبول کرنا شروع کیا تو تب وہاں ترقی ہوئی۔ لیکن وائے نیشنز فیل کے مصنفین اس نظریے کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ثقافت قوموں کی ترقی میں کسی حد تک کردار ضرور ادا کرتی ہے مگر اسے ترقی کا پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ افریقی ملک کانگو کے لوگ صدیوں تک پہیے اور ہل جیسی ایجادات سے بھی ناواقف تھے۔ بعد میں انہوں نے پرتگالیوں سے ان دونوں چیزوں کا استعمال سیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے مغرب میں ایجاد ہونے والی بندوقوں کو فوری استعمال کرنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے ان کے یورپی باشندوں سے گہرے تعلقات ہوئےتو اہل کانگو نے دیگر مغربی روایات اپنا لیں۔ تعلیم، لباس کا سٹائل اور گھروں کی تعمیر کا انداز سب کچھ انہوں نے یورپ سے سیکھ لیا۔ وائے نیشنز فیل کے مصنفین کا یہ نظریہ کافی حد تک درست ہے کہ ثقافت یا کلچر ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اس کی ایک مثال شمالی کوریا اور جنوبی کوریا بھی ہیں جو کبھی ایک ہی ملک تھے۔ ان کا کلچر بھی ایک تھا۔ مگر آج ان کے درمیان جو لکیر کھنچی ہے اس کے ایک طرف انتہائی ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ملک جنوبی کوریا ہے تو دوسری طرف ایک انتہائی پسماندہ اور غریب ملک شمالی کوریا واقع ہے۔
یعنی اس تجزیے کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی قوم کی ثقافت جدید ترقی میں تھوڑی بہت رکاوٹ تو ڈال سکتی ہے مگر اسے روک نہیں سکتی۔ اس لئے یہ نظریہ غلط ہے کہ قومیں اپنی ثقافت کے فرق سے کامیاب یا ناکام ہوتی ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا قومیں اس لئے ناکام ہوتی ہیں کیونکہ ان کے حکمران جاہل ہوتے ہیں؟
یہ نظریہ پاکستان جیسے ملکوں میں بہت مقبول ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاسی لیڈرز جدید دور کے تقاضوں اور خاص طور پر مارکیٹ اکانومی کو سمجھ نہیں سکتے۔ اس لئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غریب ملک اس لئے غریب ہیں کہ انہیں کافی زیادہ تجارتی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان ملکوں کے پالیسی ساز اور ماہرین اقتصادیات یہ نہیں جانتے تھے کہ تجارت کو ترقی کیسے دینی ہے اور اس راہ میں رکاوٹوں کو کیسے دور کرنا ہے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں امیر ملک اس لئے امیر ہیں کیونکہ انہوں نے کامیاب پالیسیوں کی تشکیل کی اور کامیابی کے ساتھ ناکامیوں کا خاتمہ کیا۔
لیکن وائے نیشنز فیل کے مصنفین اس نظریے سے بھی اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں لیڈر جاہل نہیں ہوتے بلکہ مجبور ہوتے ہیں۔ اس بات کی وضاحت کیلئے انہوں نے افریقی ملک گھانا کی مثال پیش کی ہے۔ گھانا میں برطانیہ سے آزادی کے بعد ڈکٹیٹرشپ قائم ہو گئی تھی۔ اس حکومت نے ایسے علاقوں میں فیکٹریاں لگائیں جہاں خام مال پہنچانا اور پھر انہیں فروخت کرنا بہت طویل اور مہنگا عمل تھا۔ چنانچہ ترقی کا فائدہ کسی کو نہیں پہنچا۔ حالانکہ گھانا کی حکومت کے پاس بہترین ماہر معیشت موجود تھے۔ یعنی گھانا کے لیڈر جاہل نہیں تھے اور وہ اس بات کو جانتے تھے کہ ان کی معاشی پالیسی سے نقصان ہو گا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ فیکٹریاں لگانے کیلئے علاقوں کا انتخاب ان کی سیاسی اہمیت کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ گھانا کی حکومت ان علاقوں میں فیکٹریاں لگا کر وہاں کے لوگوں کی سیاسی حمایت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر غلط فیصلے کئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھانا کی معیشت تباہ ہو گئی۔ تو وائے نیشنز فیل کے مصنفین کا نظریہ یہ ہے کہ غلط معاشی فیصلے لا علمی کیوجہ سے نہی کیے جاتے بلکہ انکے پیچھے ادارہ جاتی رکاوٹیں اور سسٹم کی خرابیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ھکمران مجبورا غلط فیصلے کرتے ہیں یا انکو مفاددپرستانہ فیصلے کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور جیسے ہی کوئی ملک اس بوسیدہ اور ناکارہ سسٹم کی رکاوٹ پر قابو پا لیتا ہے فیصلے ٹھیک ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ملک بھی ترقی کرنے لگتا ہے۔اس سلسلے میں سب سے بہترین مثال چین کی ہے۔ چین نے ماؤ زے ڈونگ کی موت کے بعد اور خاص طور پر تیان من سکوائر کے واقعے کے بعد بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔ مگر وائے نیشنز فیل کے مصنفین کے مطابق چین میں یہ تبدیلی اس لئے نہیں آئی کہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کو یہ سمجھ آ گیا تھا کہ کمیونزم غلط نظریہ ہے یا اجتماعی ملکیت کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ وجہ یہ تھی کہ چائنیز لیڈر ڈینگ ژیاؤ پنگ اور ان کے اتحادیوں نے کمیونسٹ پارٹی میں اپنے طاقتور حریفوں کو شکست دی اور ایک سیاسی انقلاب لے کر آئے۔ وہ چین کو جدید مارکیٹ اکانومی کے اصولوں کے مطابق ترقی دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ جب سیاسی طاقت ان کے ہاتھ میں آ گئی اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی تو چین کے حکومتی نظام کی سمت بھی بدل گئی۔ اس لئے وائے نیشنز فیل میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ کسی قوم کی خوشحالی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ قوم اپنے بنیادی سیاسی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ یعنی خوشحالی کی راہ میں سسٹم جو رکاوٹیں ڈالتا ہے انہیں ختم کر دیا جائے تو پھر ترقی ہی ترقی ہے۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ ادارے اور قوانین کیسے ترقی پر اثرانداز ہوتے ہیں؟
وائے نیشنز فیل کے مصنفین کے مطابق کسی بھی ملک کی ترقی میں اس کے اداروں اور قوانین کا بہت زیادہ ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ترقی کی بنیاد یہ ہے کہ کسی ملک میں کاروبار کرنے کے کتنے مواقع ہیں اور لوگوں کو اپنی محنت کا پھل ملتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر کسی بزنس مین کو اپنی محنت چوری یا ضبط ہونے کا ڈر ہو گا یا اس پر بھاری ٹیکسوں کا خدشہ ہو گا تو وہ سرمایہ کاری کرے گا ہی نہیں۔ چنانچہ جب سرمایہ کار نہیں ہوں گے تو معیشت خودبخود بیٹھ جائے گی۔
کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ ایسا کوئی بھی ملک جہاں نجی ملکیت کا تحفظ ہو، لوگوں کو بغیر تعصب کے انصاف اور پبلک سروسز ملیں وہاں ترقی اور خوشحالی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن جن ملکوں میں ادارے امن و امان کے قیام، چوری اور فراڈ کی روک تھام اور فریقوں کے درمیان معاہدوں کی نگہبانی میں ناکام ہو جاتے ہیں وہاں ترقی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ ترقی کیلئے سڑکیں، ضروری انفراسٹرکچر، سرمائے کا تحفظ اور دھوکے بازی کی روک تھام کے لئے قوانین بھی بہت ضروری ہیں۔
لیکن جو ممالک عوام دوست قوانین اور ادارے نہیں بنا پاتے اور اپنے لوگوں کو ترقی کے مواقع دینے کے بجائے اپنے لوگوں دبانے اور پراپیگنڈے کی کوشش کرتے ہیں وہاں کے عوام غریب رہتے ہیں۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی مرضی کے بغیر تو کوئی اداہ یا قانون بن ہی نہیں سکتا۔ تو پھر قوموں کی خوشحالی کو سیاست سے کیسے جوڑا جائے؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ وائے نیشنز فیل کے مصنفین کے مطابق کسی بھی ملک میں اچھے یا برے قوانین اور اداروں کے بننے کا دراومدار سیاسی طاقت پر ہوتا ہے۔ جب کسی ملک میں اقتدار ایسے لوگوں کے پاس آتا ہے جو عوام کی خوشحالی میں دلچسی رکھتے ہیں تو وہ ایسے معاشی ادارے بناتے ہیں جو عام لوگوں کیلئے برابری کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ دوسری طرف اگر اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو ملکی دولت لوٹنے پر یقین رکھتے ہیں تو وہ ایسے معاشی ادارے بناتے ہیں جو صرف لوٹ مار کرتے ہیں۔ ایسے اداروں کو وائے نیشنز فیل کے مصنفین نے استحصالی ادارے قرار دیا ہے۔
استھصالی اداروں کیوجہ سےکسی ملک کی سیاسی اشرافیہ اور معاشی اداروں کا آپسمیں گٹھ جوڑ ہوجانا معمول کی بات ہے۔ جسکی وجہ سے عام آدمی جو کہ ملک کی آبادی کا ۹۸٪ تک ہوتے ہیں کاروباری مواقع تک یکساں رسائی نہی ملتی اور قوانیں اور اداروں کی مدد سے یہ گٹھ جوڑصرف اشرافیہ کو مفادات کو تھفظ دیتا ہے۔ یعنی صرف ۲فیصد لوگوں کو اور باقی ۹۸فیصد کو مٰاشی طور پر کچل دیا جاتا ہے۔
لیکن اس میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امیر ممالک کی اشرافیہ اپنے ملک کو ترقی کیوں دیتی ہے اور غریب ممالک کا سیاسی طبقہ لوٹ مار ہی کیوں کرتا ہے۔ اس حوالے سے وائے نیشنز فیل کے مصنفین نے ایک بڑی دلچسپ حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اصل میں ہر ملک یا قوم کی ترقی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی اشرافیہ یا ایلیٹ کلاس کا مفاد کس چیز میں ہے؟ یعنی اگر ایلیٹ کلاس کو ملک کو ترقی دینے میں فائدہ نظر آئے گا تو وہ ملک کو ترقی دے گی۔ اور اگر اسے صرف لوٹ مار کرنے اور لوگوں کو دبا کر رکھنے میں اپنا فائدہ نظر آئے گا تو وہ ایسا ہی کرے گی۔ مثال کے طور پر جب اٹھارہویں صدی میں صنعتی انقلاب آیا تو یورپ کے بیشتر ممالک کی حکومتیں جاگیردار خاندانوں اور روایتی اشرافیہ کے کنٹرول میں تھیں جن کا بڑا ذریعہ آمدن زمینی پیداوار تھی یا بادشاہوں سے ملنے والی اجارہ داریوں کے مرہون منت تجارتی مراعات تھیں۔ چنانچہ ان ملکوں کی اشرافیہ کو تاجروں اور کاروباری شخصیات سے خطرہ محسوس ہوا۔ یہ لوگ شہروں کی بڑھتی آبادی اور مڈل کلاس طبقے کو بھی اپنی سیاست کیلئے خطرہ سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ اپنی سیاسی طاقت کو خطرے میں دیکھ کر جاگیردار طبقے نے صنعتی عمل کی مخالفت شروع کر دی۔
االبتہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب اس لئے کامیاب رہا کیونکہ جاگیردار اشرافیہ کو صنعتی انقلاب سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ دوسری جانب آسٹریا، ہنگری اور روسی بادشاہتوں میں جہاں بادشاہوں اور اشرافیہ کے نقصان کی شدت زیادہ تھی وہاں صنعت کاری کا عمل روک دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں آسٹریا، ہنگری اور روس کی معیشتیں کمزور ہو گئیں جبکہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں صنعتی ترقی عروج پر پہنچ گئی۔ یعنی اگر یورپ کے باقی ممالک کی ایلیٹ کو بھی صنعتی انقلاب میں اپنا فائدہ نظر نہ آتا تو یہ ممالک بھی پسماندہ رہ جاتے آگے نہ بڑھ پاتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج ہم امریکہ اور یورپ میں جو ترقی دیکھتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی ایلیٹ کلاس کوس ترقی میں اپنا فائدہ نظر آتا ہے۔ جبکہ غریب ممالک اس لئے غریب ہیں کیونکہ وہاں کی ایلیٹ کلاس ترقی میں اپنا فائدہ نہیں دیکھتی بلکہ اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہے۔ یہ ایلیٹ کلاس اپنے معاشروں میں ایسے ادارے اور قوانین بنا دیتی ہے جو ترقی کے دشمن ہوتے ہیں۔ تو قوموں کی کامیابی یا ناکامی میں جو فرق ہے وہ صرف ایلیٹ کلاس یعنی حکمران طبقے یا اشرافیہ کی سوچ اور ان کے قائم کردہ اداروں کا ہے۔
تو وائے نیشنز فیل کے مصنفین کے خیال میں جن قوموں کی اشرافیہ استحصالی ادارے قائم کر دیتی ہے وہ قومیں ناکام ہونے لگتی ہیں۔ مصر، ازبکستان، شمالی کوریا اور ارجنٹائن ان استحصالی اداروں کی بڑی مثالیں ہیں۔ یہ سب ملک ایک دوسرے سے بہت دور ہیں، ان کی زبانیں اور ثقافتیں بھی الگ الگ ہیں۔ پھر بھی ان ممالک میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہاں غربت ہے، بیروزگاری ہے، ناانصافی ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کیونکہ ان ممالک کی ایلیٹ کلاس کو ترقی میں اپنا فائدہ دکھائی ہی نہیں دیتا۔