Home Geopolitics بھارت نیپال بارڈر تنازعہ

بھارت نیپال بارڈر تنازعہ

by bigsocho
0 comment

 ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ایک اونچے پہاڑی درے یا ماونٹین پاس ہے- اس پاس کا نام لیپولیکھ پاس (Lipulekh Pass) ہے- یہ پاس آج کل بھارت اور نیپال کے درمیان بہت بڑی وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے- دوستو ماونٹین پاس پہاڑوں کی چوٹی پر ایک نسبتا نیچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے گزر کر پہاڑ کی دوسری طرف جانا ممکن ہو- لیپولیکھ پاس ہمالیہ کی کالاپانی ٹیریٹری میں واقع ہے- بھارت کالاپانی ٹیریٹری کو اپنی اترکھنڈ سٹٰیٹ کا حصہ سمجھتا ہے- جبکہ نیپال بھی اس علاقے کو اپنے ملک کا ایک اہم حصہ مانتا ہے- یوں تو یہ علاقہ بھارت کی آزادی سے بھی پہلے سے متنازعہ چلا آ رہا ہے، مگر حالیہ دنوں میں اس تنازعے نے ایک بار پھردنیا کی توجہ حاصل کی ہے- آٹھ مئی کو ٓبھارت نے اس متنازعہ پاس پر بنائی گئی ایک نئی روڈ کا افتتاح کیا- جس پر نیپال کی حکومت نے شدید احتجاج کیا- اور ایک نہایت سخت پریس ریلیز بھی جاری کیا، جس میں بھارت کے اس اقدام پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا- اس واقع کے ساتھ نیپال اور بھارت کے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں-

 یہ سرحدی تنازعہ آخر ہے کیا؟ اس سرحدی تنازعہ کی تاریخ کیا ہے؟  لیپولیکھ پاس کی سٹریٹیجک اہمیت کیا ہے؟ اور یہ بھی کہ بھارت اور نیپال کی تعلقات کی ۔کشیدگی سے مستقبل میں خطے کی جیوپولیٹیکس پر کیا اثر پڑ سکتا ہے-

  نقشے میں دیکھیں توکالا پانی کا   متنازعہ علاقہ کے شمال میں چین کی ریاست تبت ہے- اس علاقہ کے جنوب میں بھارت کی ریاست اترکھنڈ واقع ہے- جبکہ اس علاقہ کے مشرق میں نیپال کا صوبہ سودرپشکم واقع ہے- ویسے تو کالا پانی کا یہ علاقہ ہمالیہ کے اونچے اونچے پہاڑوں اور سرسبز وادیوں پر مشتمل ہے- مگر اس متنازعہ علاقے میں ایک جگہ ایسی ہے جو پورے ہمالیہ کی سب سے اہم جگہوں میں سے سمجھی جاتی ہے- یہ جگہ لیپولیکھ پاس ہے- اس پاس کی سٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے ہی دونوں ممالک کالا پانی  کےعلاقہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں-ٓ لیپولیکھ پاس کی سٹریٹیجک اہمیت تجارتی، مذہبی اور دفاعی تینوں لحاظ سے ہے۔- تجارتی لحاظ سے اس طرح کہ یہ پاس بھارت کو چین سے ملاتا ہے- اس پاس کے راستے گزرنے والا تجارتی روٹ بھارت اور چین کی تجارت کے لیے سب سے چھوٹا اور آسان راستہ سمجھا جاتا ہے-

 مذہبی لحاظ سے یہ پاس اس لیے اہم ہے کہ اسی راستے سے گزر کر ہندو، بدھ اور جین مذاہب کے پیروکار کیلاش مینسروور یاترا (Kailash Mansarovar Yatra) کرنے تبت مین کیلاش کے پہاڑ اور مینسروور جھیل تک جاتے ہیں- کیلاش کا پہاڑ اور مینسروور جھیل ہندو، بدھ اور جین مزاہب کی چند اہم ترین اور مقدس جگہوں میں شامل ہیں- تجارتی اور مذہبی اہمیت کے علاوہ اس پاس کی دفاعی اہمیت بھی ہے- یہ پاس چونکہ بہت بلندی پر واقع ہے- اس لیے یہاں سے چین کے علاقے تبت پر دور تک نظر رکھی جا سکتی ہے- اور تبت سے آنے والی چینی فوج پر سٹریٹیجک برتری رکھی جا سکتی ہے- 1962 کی بھارت چین جنگ میں بھارتی فوج لیپولیکھ پاس پر تعینات تھی- اور اسی سٹریٹیجک ایڈوانٹیج کی وجہ سے چینی فوج اترکھنڈ پرحملہ نہیں کر سکی تھی-

 اس تنازعہ کی تاریخی بنیاد کیا ہے؟- 1743ء میں جب گورکھا کنگڈم کے نئے بادشاہ پرتھوی نریان شاہ کی تاج پوشی کی گئی اس وقت گورکھا کنگ ڈم موجودہ نیپال کے ڈھائی ہزار سکوائر کلومیٹر کے ایک چھوٹے سے رقبہ پر مشتمل تھی- نیا بادشاہ پرتھوی نریان شاہ بہت بہادر اور توسیع پسند تھا- پرتھوی نریان شاہ نے اپنی زندگی کا یہ مشن بنا لیا کہ وہ آس پاس کی بادشاہتوں کو فتح کر کے اپنے ساتھ ملائے گا- تا کہ اپنی کنگڈم کو بہت زیادہ وسعت دے سکے- اپنی بہادری اور جنگی ھکمت عملی کی وجہ سے وہ اپنے اس مشن میں کامیاب بھی رہا- پرتھوی نریان شاہ کے دور میں ہی گورکھا کنگ ڈم کا نام نیپال رکھا گیا اور اس کنگ ڈم کا دار الحکومت کٹھمنڈو منتقل کیا گیا-

 پرتھوی نریان شاہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں پرتاب سنگھ شاہ اور بہادر شاہ نے اہنے باپ کی لیگیسی کو قائم رکھتے ہوئے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا- ان کے دور میں نیپال کی ریاست اپنے عروج تک پہنچی- اور اس کے زیر کنٹرول علاقہ اس قدر وسیع تھا کہ وہ مغرب میں دریائے ستلج اور مشرق مین دریائے تیستا تک پھیلا ہوا تھا- یعنی کہ ان علاقوں میں موجودہ دور کی بھارتی ریاست اترکھنڈ، سکم اور بنگال تک کے کچھ علاقے شامل تھے- اس وسیع نیپالی ریاست کا کل رقبہ 252,000 سکوائر کلومیٹر تھا- جبکہ موجودہ دور کی نیپالی ریاست کا کل رقبہ صرف 147,000 سکوائر کلومیٹر ہے- اس لیے اس دور کو ہم نیپال کا عروج بھی کہہ سکتے ہیں-

 اسی 25 سالہ تاریخی دور کی بنیاد پر نیپال میں آج بھی کچھ نیشنلست حلقے گریٹر نیپال کی بات کرتے ہیں- وہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ بھارت سے یہ علاقے واپس لیے جائیں اور گریٹر نیپال بنایا جائے- مگر ان  کی اس خواہش کے پیچھے کوئی مضبوط تاریخی بنیاد نہیں- اب ہم واپس اپنے موظوع پر آتے ہیں 1814 میں جب بھارت کے کافی علاقے انگریزوں یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں آ چکے تھے- ایسٹ انڈیا کمپنی کے کچھ علاقے نیپال کے ساتھ بھی لگتے تھے- ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو تبت تک بڑھانا چائتی تھی تاکہ وہ تبت سے تجارت کر سکے- مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر کنٹرول علاقوں اور تبت کے درمیان نیپال حائل تھا- جبکہ دوسری طرف نیپال کے حکمران بھی اپنے علاقوں کو وسعت دینا چاہتے تھے- اس لیے دونوں کی جنگ ہو گئی جو 1816 تک جاری رہی- 1816ء میں بالآخر انگریز جنگ جیتنے میں کامیاب ہو گئے- جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی اور نیپال میں ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جسے 1816 کی ٹریٹٰ آف سوگالی (treaty of sugauli) کہتے ہیں- اس  معاہدے میں نیپال کے بارڈرز کا تعین کیا گئا- نیپال سے اترکھنڈ اور سکم کے علاقے واپس لے لیے گئے- جس کے نتیجے میں نیپال چھوٹا ہو کر تقریبا آج کی موجودہ شکل میں آ گیا- سوگالی  معاہدے کے مطابق نیپال کا مغربی بارڈر مہاکالی دریا کو قرار دیا گیا- مہاکالی دریا کو کالی دریا یا شاردہ دریا بھی کہتے ہیں-   1816  کا سوگالی  معاہدہ ہی آگے چل کر موجودہ دور کے نیپال بھارت تنازعہ کی بنیاد بنا –

تنازعہ دراصل یہ تھا کہ ٹریٹی آف سوگالی سائن کرتے وقت کالی دریا کو نقشے پر واضح نہی کیا گیا  کہ کالی دریا سے مراد دراصل پانی کی کون سی ندیاں ہیں- جنوب میں تو یہ دریا بہت بڑا اور واضح تھا اس لیے جنوب مغرب میں کوئی تنازعہ نہ تھا- مسئلہ البتہ شمال میں پیدا ہوا جہاں پہاڑوں سے بہت سی چھوٹی چھوٹی ندیوں کی صورت پانی اکٹھا ہوتا ہے اور ایک بڑے کالی دریا کی صورت اختیار کرتا ہے-

 یہاں دو بڑی ندیاں بہت اہم ہیں- ایک ندی جو لمپی یدھورا (Limpiyadhura) سے شروع ہوتی ہے اور دوسری ندی جو لیپو لیکھ پاس (Lipulekh Pass) سے- نیپال کا موقف یہ ہہے کہ لمپی یدھورا سے شروع ہونے والی ندی ہی دراصل کالی دریا ہے اور اس سے مشرق میں تمام علاقے نیپال کا حصہ ہیں- البتہ بھارت کا موقف یہ ہہے کہ لیپو لیکھ سے شروع ہونے والی ندی ہی دراصل کالی دریا ہے اور اس سے مغرب میں تمام علاقے بھارت کا حصہ ہیں- نیپالی اپنے موقف کی دلیل میں کچھ نقشے پیش کرتے ہیں- یہ نقشے 1827, 1835, 1846, 1851, 1856, 1857 مین برطانیہ کی طرف سے شائع کیے گئے اس میں لمپی یدھورا سے شروع ہونے والی ندی کو ہی کالی دریا لکھا گیا تھا- ان ابتدائی نقشوں سے بظاہر نیپال کا موقف صحیح معلوم ہوتا ہے- یعنی کہ ان پرانے نقشوں کے مطابق یہ تمام علاقے نیپال کا حصہ تھے- نیپالی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ برطانیہ کی طرف سے 1879 میں جو نقشہ پیش کیا گیا اس میں پہلی دفعہ کالی دریا کو لمپی یدھورا کی بجائے لیپو لیکھ سے شروع ہوتا دکھایا گیا تھا- نیپال کا موقف ہے کہ انگریزوں نے یہ تبدیلی لیپو لیکھ پاس کے راستے تبت تک پہنچنے کے لیے کی تھی- 1879 کے بعد شائع ہونے والے تمام نقشوں میں کالی دریا لیپو لیکھ سے شروع ہوتا دکھایا گیا ہے- یعنی کہ ان نئے نقشوں کے مطابق یہ تمام علاقے بھارت کا حصہ تھے- انگریزوں کے جانے کے بعد یہ تنازعہ انگریزوں سے بھارت کو منتقل ہو گیا- اس لیے بھارت لیپو لیکھ پاس سمیت کالاپانی کے تمام علاقوں کو اپنا حصہ سمجھتا آیا ہے- 1962 تک اس متنازعہ علاقہ میں کسی ملک کی فوج موجود نہیں تھی- مگر 1962 میں انڈیا چین جنگ میں انڈیا نے پہلی دفعہ اس متنازعہ علاقہ میں اپنی فوج تعینات کی- نیپال کو بھارت کی فوج کی اس متنازعہ علاقہ میں موجودگی پر اعتراض تب ہی سے تھا او اب بھی ہے-

بھارت کی آزادی کے بعد کے ابتدائی دنوں میں بھارت کی لیڈرشپ نے یہ بات محسوس کی کہ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے ہوتے ہوئے نیپال کے ساتھ بھی ایک اور تنازعہ ملک کے دفاع کے لیے خطرنات ثابت ہو سکتا ہے- کیونکہ بھارت کے جغرافیے میں سلیگوری کریڈور کی صورت میں ایک بہت بڑی دفاعی کمزوری موجود ہے- اس لیے نیپال کے ساتھ تعلقات بہتر ہونا بہت ضروری ہیں- ہم بھارت کی اس جغرافیائی کمزوری کے بارے میں جیوپولیٹیکل ٹیلز سیریز کی پہلی قسط میں بتا چکے ہیں- اگر آپ نے وہ قسط نہیں دیکھی تو ٹاپ رائٹ کارنر میں موجود لنک پر کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں- اسی جغرافیائی کمزوری کے پیش نظر بھارت کی لیڈرشپ نے 1950 میں نیپال کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا- اور نیپال کے بھارت کے تعلقات بہت اچھے ہو گئے- نیپال چونکہ لینڈلاکڈ تھا اس لیے بھارت کے زیر اثر ہی رہا- اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان کالاپانی کا تنازعہ بھی دب گیا- مگر 2014 سے بھارت کی نئی لیڈرشپ پچھلی لیڈرشپ والی فہم و پراست کا مظاہرہ نہیں کر رہی- 2015 میں تو بھارت کی نئی لیڈرشپ نے نیپال کے نئے آئین سازی کےعمل میں کھلم کھلا مداخلت شروع کر دی- نیپالی آئین میں اپنی مرضی کی شقیں نا ڈالے جانے کی وجہ سے نیپال کی ناکہ بندی بھی کروا دی- نیپال کی عوام میں بھارت کے اس عمل سے اس کے خلاف نفرت بڑھی- اور نیپال نے بھارت کی بجائے چین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا- نیپال کی موجودہ گورنمنٹ چونکہ کیمونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتی ہے- اس لیے اس کے دورحکومت میں نیپال کے چین کے ساتھ تعلقات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں-

نومبر 2019 میں بھارت نے اپنے آئین مین کشمیر کا سٹیٹس بدلنے کے بعد بھارت کا نیا نقشہ شائع کیا- اس نقشے میں کالاپانی کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا- اس بات پر نیپال نے انڈیا سے احتجاج کیا- اور مسئلے کو فوری بنیادوں پر بات چیت سے حل کرنے کی درخواست کی- مگر بھارت کی موجودہ لیڈرشپ ایسی کوئی بات چیت کے لیے تیار نہ تھی- بلکہ الٹا چھ ماہ بعد اس متنازعہ علاقے میں نئی سڑک کا افتتاح کر کے اس علاقے میں اپنے کنٹرول کو مزید پختہ کر لیا- بھارت کے اس رویے پر نیپال کی عوام میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے- جس کا اظہار لوگوں نے وسیع پیمانے پر بھارت مخالف احتجاج کر کے کیا- بھا رت کی لیڈرشپ اپنے اس رویے سے نیپال کو مزید چین کی طرف دھکیل رہی ہے- یہ سمجھے بغیر کہ اس رویے سے بھارت کے لیے مستقبل میں دفاعی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں- بھارتی لیڈرشپ کی ایسی پالیسیز کی وجہ سے اس کے زیادہ ہمسایوں سے تعلقات مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ 

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu