لیبیا ایک ایسا ملک ہے جس کی 97 % آبادی عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے- لیبیا کی سٹریٹیجک اہمیت بہت ہی زیادہ ہے- اس کی ایک وجہ تو لیبیا کا جغرافیہ ہے- لیبیا سے صرف 400 کلومیٹر دور بحیرہ روم کی دوسری طرف یورپ کے دو اہم ممالک اٹلی اور یونان واقع ہیں- لیبیا کی اہمیت کی دوسری وجہ اس کے تیل اور گیس کی وسیع ذخائر ہیں- لیبیا افریقہ میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے والا ملک ہے- جبکہ دنیا میں اس کا شمار تیل کی دولت سے مال و مال دس امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے- وسائل کے اعتبار سے اتنا امیر ملک ہونے کے باوجود لیبیا کی عوام انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گزار رہے ہیں- اس کی وجہ لیبیا میں پچھلے دس سالوں سے مختلف گروہوں کے درمیان جاری خانہ جنگی ہے- اسی خانہ جنگی کی وجہ سے اس وقت لیبیا میں دو متضاد حکومتیں، دو متصادم فوجیں، متعدد مسلح گروہ، اور آٹھ بیرونی ممالک سرگرم ہیں- تو دوستو اب ہم آپکو بتاتے ہیں کہ لیبیا اس لاقانونیت اور خانہ جنگی کا شکار کیسے ہوا؟ لیبیا میں جاری اس سول وار میں کون کون سے مقامی گروہ شریک ہیں- اور ان مقامی گروہوں کے پیچھے کون سے ممالک ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے لیے لیبیا میں بارود اور خون کا کھیل جاری رکھا ہوا ہے؟
مونٹاج
1969 میں لیبیا کے نوجوان فوجی آفیسرز کے ایک گروپ نے بادشاہ ادریس کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا- اس گروپ میں مصر کا نیا حکمران معمر قذافی اور مستقل کا بہت اہم کردار خلیفہ حفتر بھی تھا- خلیفہ حفتر لیبیا کی فوج میں قذافی کے بہت قریبی ساتھیوں میں سے تھا- 1987 میں قذافی نے خلیفہ حفتر کو چاڈ میں ایک اہم فوجی آپریشن کی زمہ داری سونپی- خلیفہ حفتر اس آپریشن میں بری طرح ناکام رہا اور اپنے 700 ساتھیوں سمیت چاڈ کی فوج کی قید میں چلا گیا- قذافی نے بین الاقوامی شرمندگی سے بچنے کے لیے اس آپریشن سے اپنی حکومت کے کسی تعلق کی تردید کر دی- اور خلیفہ حفتر کو چاڈ کی فوج کی قید میں ہی چھوڑ دیا- اس بات پر خلیفہ حفتر قدافی کا بہت بڑا دشمن بن گیا- بعد میں امریکی ایجنسی CIA خلیفہ حفتر کو بچا کر امریکہ لے گئی- خلیفہ حفتر کو امریکی شہریت دے دی گئی تاکہ مستقبل میں اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے-
آہنی ہاتھ سے حکومت کرنے کی وجہ سے قذافی کا لیبیا میں اقتدار 42 سال تک قائم رہا- قذافی کے اقتدار میں تیل کی دولت کی وجہ سے لیبیا کی عوام کی معاشی حالت کافی بہتر رہی- مگر ظالمانہ طریقہ حکمرانی، کڑی ڈکٹیٹرشپ، اور بے جا سختیوں کی وجہ سے لیبیا کی عوام کا ایک بہت بڑا حصہ قذافی کے سخت خلاف ہو گیا- مگر قذافی کی حکومت کے خوف کی وجہ سے یہ لاوا پھٹ نہ سکا- سال 2011 کا سورج طلوع ہوتے ہی عرب دنیا میں حکمرانوں کے خلاف تیونس سے اختجاج کی ایک لہر اٹھی- اختجاج کی اس لہر نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری عرب دنیا کو اپنے کنٹرول میں لے لیا- عوام کے اس احتجاج کو عرب سپرنگ کا نام دیا گیا- عرب سپرنگ کے نتیجے میں تیونس کے ڈکٹیٹڑ بن علی اور مصر کے ڈکٹیٹڑ حسنی مبارک سمیت خطے کی چھ حکومتوں کو گھر جانا پڑا- ایسے میں قذافی کا اقتدار کیسے محفوظ رہ سکتا تھا- چنانچہ عوام کی بھاری اکثریت کی طرف سے پرزور احتجاج شروع ہو گیا- بعد میں یہ اختجاج پرتشدد ہو گیا اور مظاہرین کے گروہوں، قبائلیوں، اور تنظیموں نے اسلحہ اٹھا لیا- امریکہ چونکہ قذافی کے خلاف تھا اس لیے خلیفہ حفتر کو قذافی حکومت کو ختم کرنے کے لیے لیبیا واپس بھیجا گیا-
خلیفہ حفتر نے قذافی کی فورسز کے خلاف باغیوں کو منظم کیا- باغیوں کی کمانڈ کرتے ہوئے حکومتی فورسز کے خلاف جھڑپیں شروع کر دیں- یہاں آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ لیبیا کا دارالحکومت ٹریپولی ملک کے مغرب میں واقع ہے- قذافی کے 42 سالہ اقتدار کے دوران ملک کے مشرقی حصہ کو یہ گلہ رہا کہ ٹریپولی یعنی مغرب میں بیٹھے حکمران ملک کے مشرقی علاقوں کو ترقی اور وسائل کی فراہمی میں نظر انداز کرتے رہے ہیں- جبکہ تیل کے زیادہ تر کنویں مشرقی علاقوں میں واقع ہیں- جہاں سے دولت کما کر حکمران مغربی علاقوں کو زیادہ حصہ دیتے ہیں- جو مشرق کے ساتھ ناانصافی ہے- اسی وجہ سے قذافی کے خلاف احتجاج کی شدت مشرق میں زیادہ تھی- باغیوں نے مشرق میں واقع لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی پر قبضہ کر لیا- اتنا اہم شہر چلے جانے پر قذافی نے بغاوت کچلنے کے لیے فوج کا بہت ایک بڑا حصہ بن غازی بھجوا دیا- باغیوں نے قذافی کی فورسز کے ہاتھوں کچلے جانے کے خوف سے بیرونی دنیا کو مدد کی اپیل کر دی- مغربی ممالک اور عرب ممالک پہلے ہی قذافی سے تنگ تھے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے- انہوں نے مظاہرین کو بچانے کے بہانے نیٹو کے ذریعے قذافی کی فورسز پر فضائی حملے کر دیے- باغیوں نے نیٹو کی فوجی سپورٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ پورے لیبیا پر کنٹرول حاصل کر لیا- اس انقلاب کے نتیجے میں قذافی کے 42 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہو گیا- اور قذافی باغیوں کے ہاتھوں مارا گیا-
قذافی کی حکومت کے بعد یہ امید جاگی کہ لیبیا میں اب سنہری دور آئے گا- اور لوگوں کو ان کے حقوق اور ترقی کے مواقع ملیں گے مگر یہ سب خواب ہی رہا- قذافی کے جانے کے بعد ملک کا نیا آئین بنانے کے لیے الیکشن کروائے گئے- ایک نئی عبوری پارلیمنٹ اور حکومت چنی گئی جس کا نام جنرل نیشنل کانگرس (GNC) رکھا گیا- GNC کو 18 ماہ میں نیا آئین بنا کر الیکشن کروانے کا کام سونپا گیا-
ڈکٹیٹرشپ کا ایک نقصآن یہ ہوتا ہے کہ ملک ایک شحصیت کے گرد گھومتا رہتا ہے- اور ادارے مظبوط نہیں ہو پاتے- ایسے میں جب وہ ایک شحص چلا جاتا ہے تو حکومت کا ڈھانچہ دھرام سے نیچے گر جاتا ہے- لیبیا میں بھی ایسا ہی ہوا اور حکومتی ادارے عملی طور پر ختم ہو کر رہ گئے- وہ تمام مسلح گروہ جنہوں نے قذافی کی حکومت گرانے کے لیے ہتھیار اٹھائے تھے وہ اس نئی ہاتھ آئی طاقت کے نشے سے سرشار تھے- نئی عبوری حکومت بننے کے بعد بھی یہ گروہ ہتھیار چھوڑنے کو تیار نہ تھے-
یہاں GNC کی حکومت سے یہ سنگین غلطی ہوئی کہ اس نے لیبیا کی فوج کو مظبوط اور منطم کرنے کی کوشش نہ کی- بلکہ قذافی فورسز کے خلاف لڑنے والے مسلح ملیشیاز کو ان کی انقلاب میں خدمات پر نوازنا شروع کر دیا- ان مسلح ملیشیاز سے اسلح لینے کی بجائے انہیں سرکاری طور پر سکیورٹی کے لیے بھرتی کرلیا- اس عمل سے فوج کا ادارہ کمزور ہو گیا اور ملک میں بے لگام مسلح ملیشیاز کا راج ہو گیا- ان مسلح ملیشیا میں ہر نظریے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ عناصر بھی شامل تھے- GNC حکومت کے اس قدم سے ملک کی سکیورٹی مسلح ملیشیا کے ہاتھوں یرغمال بن گئی-
2014 میں GNC کی اسمبلی کی مدت پوری ہو گئی- نئے الیکشن کروائے گئے جس کے نتائج متنازعہ ہو گئے اور ملک آئنی بحران میں چلا گیا- ملک میں پہلے ہی مشرقی اور مغربی علاقوں کی آپس میں چپکلش تھی- اب باقاعدہ طور پر ملک میں دو حکومتیں بن گئیں- ایک حکومت مغرب میں ٹریپولی سے چل رہی تھی جسی GNA کا نام دیا گیا- GNA کی حکومت کو اقوام متحدہ بھی لیبیا کی تسلیم شدہ حکومت سمجھتی ہے- اس حکومت کی سربراہی فايز السراج کر رہا تھا- فايز السراج کی حکومت میں مصر کی اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون کی زیلی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا کافی اثر تھا-
دوسری حکومت مشرق میں تبرق سے چل رہی تھی- اسی HOR کا نام دیا گیا- HOR کی حکومت میں سیکولر سیاستدانوں کا زیادہ اثر تھا- دونوں طرف کے سیاست دان لیبیا کی تیل کی وسیع دولت کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے- اس لیے دونوں جانب کے سیاست دان اس بحران کے حل کی کوئی درمیانی راہ نہ نکال سکے- ملک میں اس غیر یقینی صورتحال اور باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خلیفہ حفتر نے اپنی خدمات مشرق میں HOR کی حکومت کو دے دیں- خلیفہ حفتر اسلام پسندوں کے بہت خلاف تھا اس لیے اس نے فايز السراج کی حکومت کے خلاف ایک نئی فوج کی تنظیم شروع کر دی- خلیفہ حفتر دراصل اپنی نئی فوج کے ذریعے پورے لیبیا پر قبضہ کرنا چاہتا تھا- تاکہ جب وہ پورے لیبیا پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو دونوں حکومتوں کو ختم کر کے خود اقتدار پر بیٹھ جائے-
آج بھی پورے ملک پر قبضے کی یہ جنگ جاری ہے- خلیفہ حفتر کی فوج نے آج لیبیا کے زیادہ حصے پر قبضہ کر لیا ہے- اب خلیفہ حفتر کی فوج کا آخری ٹارگٹ مغرب میں فايز السراج کا دارالحکومت ٹڑیپولی ہے- جس پر قبضے کی جنگ آج کل جاری ہے- مغرب میں فايز السراج کی حکومت کی سپورٹ ترکی، قطر اور اٹلی کر رہا ہے- جبکہ خلیفہ حفتر کی مدد سعودی عرب، مصر، عرب امارات، روس اور فرانس کر رہا ہے- یہ ممالک اپنے مفادات کے لیے لیبیا میں پراکسی جنگ کر رہے ہیں- اب ہم آپ کو بتائیں گے کہ ان ممالک کے مفادات دراصل ہیں کیا-
مصر چونکہ لیبیا کا ہمسایہ ہے، اس لیے اس پوری گیم میں اس کا کردار سب سے زیادہ ہے- مصر خلیفہ حفتر کو مالی سپورٹ اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے- فايز السراج کی حکومت میں چونکہ اخوان المسلمون کی زیلی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا کافی اثر ہے- اور مصری ڈکٹیٹر جنرل سیسی نے اخوان المسلمون سے ہی مصر میں اقتدار چھینا ہے اس لیے مصر نہیں چاہتا کہ اخوان المسلمون سے منسلک کسی جماعت کی لیبیا میں حکومت ہو- خلیفہ حفتر چونکہ اسلام پسندوں کے بہت خلاف ہے اس لیے مصر لیبیا میں خلیفہ حفتر کو اپنی پوری سپورٹ فراہم کر رہا ہے-
مصر کی طرح سعودی عرب اور عرب عمارات بھی اخوان المسلمون کے بہت خلاف ہے- اس لیے وہ بھی خلیفہ حفتر کو مالی مدد اور ہتھیار فراہم کر رہے ہیں- سعودی عرب اور عرب عمارات لیبیا میں جمہوریت نہیں آنے دینا چاہتے کیونکہ دونوں ملکوں کی بادشاہتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر عرب دنیا میں جمہوریت کی لہر آ گئی تو اس سے ان کا اپنا اقتدار بھی خطرہ میں پڑ جائے گا- کچھ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور عرب عمارات چونکہ یورپ میں تیل ایکسپورٹ کرنے والے بڑے ممالک ہیں، اس لیے وہ لیبیا میں امن نہیں آنے دینا چاہتے کیونکہ اگر لیبیا میں امن آ گیا تو وہ یورپ کے قریب ہونے کی وجہ سے یورپ کو سستا تیل دے سکتا ہے، اس سے سعودی عرب اور عرب عمارات کا یورپ کی مارکیٹ میں حصہ کم ہو جائے گا-
روس بھی اس جنگ میں خلیفہ حفتر کی سپورٹ کر رہا ہے- رپورٹس کے مطابق روس نے 800 کے قریب مرسنریز یعنی کرائے کے فوجی اور بہت سارا اسلحہ بھی خلیفہ حفتر کی سپورٹ کو بھیجا ہے- اس سے خلیفہ حفتر کو لیبیا کے کافی بڑے حصے پر قبضہ کرنے میں مدد ملی ہے- روس خلیفہ حفتر کی مدد اس لیے کر رہا ہے کیونکہ وہ مستقبل میں لیبیا میں اپنی فوجی بیس بنا سکے- اس سے روس کو اپنے دشمن یورپ کے خلاف یورپ کے قریب سٹریٹیجک جگہ مل جائے گی-
فرانس بھی خلیفہ حفتر کی سپورٹ کر رہا ہے- ایسا وہ بظاہر لیبیا میں موجود دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے کر رہا ہے- کیونکہ خلیفہ حفتر کا دعوی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ بھی لڑ رہا ہے- مگر فرانس کی خلیفہ حفتر کو سپورٹ کی بڑی وجہ فرینچ تیل کمپنی ٹوٹل ہے- یہ کمپنی آج بھی لیبیا میں خلیفہ حفتر کے زیر کنٹرول علاقوں میں تیل نکال رہی ہے- اور مستقبل میں لیبیا کے تیل کے وسیع ذخائر ہونے کی وجہ سے فرانس تیل کے ٹھیکے اپنی کمپنی ٹوٹل کو دلوانا چاہتا ہے- جس کا وعدہ خلیفہ حفتر نے فرانس سے کیا ہے-
خلیفہ حفتر کا سب سے بڑا حریف ترک صدر طیب اردووان ہے- ترکی اس لیے مغرب میں فايز السراج کی حکومت کو سپورٹ کر رہا ہے- رپورٹس کے مطابق ترکی نے حالیہ دنوں میں فايز السراج کی حکومت کی حمایت میں 2000 کے قریب مرسنریز یعنی کرائے کے فوجی، بکتر بند گاڑیاں اور ڈرون بھیجے ہیں- اس سے خلیفہ حفتر کی فوج کی ٹریپولی کی طرف پیش قدمی رک گئی ہے- ترکی فايز السراج کی حکومت کی حمایت اس لیے کر رہا ہے کیونکہ اردووان نے کچھ عرصہ پہلے ہی فايز السراج کی حکومت کے ساتھ بحیرہ روم میں لیبیا کی سمندری حدود میں تیل کی تلاش کی ڈیل کی ہے-
ترکی کی طرح قطر بھی فايز السراج کی حکومت کی مالی سپورٹ کر رہا ہے- قطر اخوان المسلمون کا حمایتی سمجھا جاتا ہے- اس لیے قطر فايز السراج کی حمایت کر رہا ہے- اس بات پر قطر کا سعودی عرب اور عرب عمارات کے ساتھ کافی جھگڑا بھی ہے اور ان دونوں ملکوں نے قطر کا بائیکاٹ بھی کر رکھا ہے- اس بارے میں ہم آپ کے جیوپولیٹیکل ٹیلز سیریز کی تیسری قسط میں بتا بھی چکے ہیں- اگر آپ نے وہ قسط نہیں دیکھی تو آپ سکرین کے ٹاپ رایٹ کارنر میں موجود لنک کو کلک کر کے یہ قسط دیکھ سکتے ہیں-
اٹلی پہلے فايز السراج کی حکومت کو سپورٹ کر رہا تھا- کیونکہ لیبیا سے کافی بڑی تعداد میں جنگ سے متاثر لوگ کشتیوں میں بحیرہ روم پار کر کے اٹلی آتے ہیں- اور اس سے اٹلی کے لیے سکیورٹی اور معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں- اٹلی اس جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے تاکہ جنگ سے متاثرہ لوگوں اٹلی آنے سے رک سکیں- اس کے علاوہ اٹلی کی کمپنی ENI لیبیا سے بڑی مقدار میں تیل نکال رہی ہے- اٹلی یہ چاہتا ہے کہ لیبیا کے حالات ٹھیک ہوں کے تاکہ اس کی کمپنی ENI حاصل شدہ لائسنسوں کو استعمال کر کے تیل کے نئے کنویں دریافت کر سکیں- مگر اب خلیفہ حفتر کو جنگ میں بہتر پوزیشن پاتا دیکھ کر اٹلی خلیفہ حفتر کے ساتھ بھی تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہے- تاکہ مستقبل میں خلیفہ حفتر کی حکومت آجانے کی صورت میں اپنی تیل کمپنی کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے-