انیس سو باسٹھ کے بعد 1967 میں سکم کے علاقے نتھو لا Nathu La اور چو لا (cho La) کے مقام پر دونوں ممالک کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس میں درجنوں اموات بھی ہوئیں- 1975 میں بھارت نے سکم کو اپنی 22ویں ریاست قرار دے دیا جس پر چین نے اعتراض تو کیا لیکن چونکہ چین کا سکم پر کوئی دعوی نہیں تھا بلکہ سکم کی حیثیت ایک آزاد ریاست کی تھی۔ اس لیے سکم کے معاملے پر چین اور بھارت میں کشیدگی زیادہ نہ بڑھی-
1981 سے 83 کے درمیان نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم تھیں- ان کے دور میں ایک بار پھر بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے مختلف ادوار چلے- لیکن بھارت اپنی پرانی پوزیشن پر ہی قائم رہا کہ اکسائی چن، لداخ اور مشرقی سیکٹر کے کسی علاقے پر بھارت اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہو گا- جبکہ چین اب بھی status quo یعنی جو پوزیشن گراونڈ پر تھی اسکے مطابق مسئلہ حل کرنے کو تیار تھا- یعنی چین یہ چاہتا تھا کہ اسکائی چین اور لداخ میں بھارت اس کی بات مان لے اور مشرق میں NEFA پر وہ اپنےکلیم سے دستبردار ہو جائے گا۔ لیکن بھارت کی پارلیمنٹ میں 62 کی جنگ کے بعد ایک ریزولیشن پاس کر چکی تھی کہ بھات اکسائی چن کا علاقہ بھی چین سے واپس لے گا- اب ظاہر ہے اس پوزیشن سے جو بھی پیچھے ہٹتا اسکو سیاسی طور پر بہت نقصان ہو سکتا تھا اسی وجہ سے اندرا گاندھی نے چین سے مزاکرات میں بلکل بھی لچک نہ دکھائی۔
مگر 1981 میں اندرا گاندھی نے تاریخ میں پہلی بار پوری بھارت چین سرحد پر سڑکیں اور انفراسٹرکچر بنانے کی بھی منظوری دی تا کہ بھارتی فوج کو نقل وحمل میں آسانی ہو اور اسے دفاعی طور پر بھی فائدہ ہو۔ اندرا گاندھی کا بھارت کے دفاع کیلیے یہ اقدام انتہائی اہم تھا.
اندرا گاندھی کی وفات کے بعد جب انکے بیٹے راجیو گاندھی وزیراعظم تھے ان کے دور حکومت میں اس سرھدی تنازعے پر ۳ پیش رفتیں ہوئیں
نمبر ۱ 1986 میں چین نے ایک بار پھر آفر کی تھی کہ بھارت اروناچل پردیش کا علاقہ Tawang جس پر بھارتی فوج نے1951 میں لوکل تبتی انتظامیہ کو نکال کر قبصہ کر لیا تھا ہمین واپس کر دے تو ہم مغربی سرحد پر لداخ مین اسکے بدلے کچھ علاقے دے سکتے ہیں۔ لیکن بھارت نے انکار کر دیا۔
نمبر ۲ 1987 میں اروناچل پردیش کو مکمل ریاست کا درجہ دے دیا گیا یہ وہی علاقہ تھا جس کو چین تبت کا جنوبی حصہ مانتا ہے اور NEFA کہا جاتا تھا۔ اور اس پر چین کا دعوی تھا۔
نمبر ۳ راجیو گاندھی 1988 میں چین کا دورہ کیا اپنے نانا نہرو کے 1954 کے چین کا دورہ بعد وہ چین کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی سربراہ مملکت تھے۔ اس دورے پر سرحد کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہی ہو سکی الٹا بھارت نے چین کو خوش کرنے اور تعلقات بہتر کرنے کیلیے بارڈر پر اندرا گاندھی کے دور میں شروع کیا گیا انفراسکٹرکچر کی تعمیر کا کام بھی روک دیا جو کہ ظاہر ہے انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا اس فیصلے کے نتائج بھارت آج تک بھگت رہا ہے۔
1993 میں بھارت نے ایک اور ڈپلومیتک غلطی کی جب بھارتی وزیر اعظم نرسیما رائو نے چین کے دورے پر چین سے ایک معاہدہ کیا جسکو
The Border Peace and Tranquility Agreement
کہا جاتا ہے۔ اسکے تحت سارے چین انڈیا بارڈر کو LAC قرار دے دیا گیا یعنی
Line of Actual Control . یہ اپنی نوعیت کا انوکھا معاہدہ تھا جسمیں سرحد پر اتفاق نہی ہو سکا تھا شائد ہی دنیا میں آپکو ایسی کوئی اور مثال ملے کہ دو ملکوں نے سرحد کے بارے میں معاہدہ کر لیا ہے لیکن جس لائن کو سرھد کے طور پر مانا گیا ہے اس پر اتفاق ہی نہی ہے بلکہ اسکو مستقبل پر چھوڑ دیا گیا ہے۔اور صرف اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہی کریں گے، اور باہمی مفادات کے خلاف کوئی قدم نہی اٹھائیں گے سرھد پر فوجی طاقت نہی بڑھائیں گے اور سرحدی اختلاف کو صرف بات چیت سے حل کیا جائیگا اور اگر دونوں ممالک کی فورسز میں کسی معاملے پر اختلاف ہو گا تو اسکو میٹنگز میں مزاکرات کے زریعے حل کیا جائیگا۔
مطلب یہ کہ وہ علاقے جو متنازعہ تھے صرف ان پر بات چیت کر کے مسئلہ ھل کیا جاتا بھارت نے سارا بارڈر ہی متنازعہ کر لیا۔ کونکہ LAC انترنیشنل بارڈر نہی ہوتا۔ اور اس معاہدہ کی روح سے اگر ایک فریق اس لائن سے اندر آ جائیگا تو اسکو جارھیت نہی سمجھا جائیگا اور نہ ہی گولی چلائی جائیگی۔ اب کیونکہ چین طاقتور ملک تھا انکی فوج کے پاس وسائل بھی زیادہ تھے تو ظاہر ہے وہ بھارتی فوج پر ھاوی ہونا شروع ہو گئے اور آئے روز بھارت کے کلیم والے علاقے سے کئی کئی کلومیٹر اندر آ جاتے۔ بھارت کی فوج ویسے بھی کنفیوز تھی کیونکہ ایک لائن بھارت کے کلیم والی تھی ایک چین کے کلیم والی تھی ۔
2006 میں دہلی میں چین کے سفیر نے چین کا دیرینہ موقف ایک بار پھردہرایا جب انہوں نے بیان دیا کہ اروناچل پردیش چین کا حصہ ہے۔ 2010 میں بھارت کے دورے پر آئے ہوئے چینی وزیراعظم Wen Jiabao نے بھی یہ یہ زکر کیا کہ بھارت کی چین کیساتھ سرحد دوہزار کلومیٹر ہے یعنی لداخ کے تقریبا پندرہ سوکلومیٹرلمبائی کے علاقے میں کوئی سرحد طے شدہ نہی ہے۔بات تو تھیک تھی کیونکہ بھارتاور چین 60 سے بھی زیادہ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک آپسمیں اپنے سرحدی معاملات طے نہی کر پائے تھے یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ چین باقی سارے ممالک سے اپنے سرھدی معاملات طے کر چکا ہے جن میں روس،پاکستان،کرغزستان،تاجکستان اور قازقستان شامل تھے- اور اب ظاہر ہے چین پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقتور ملک تھا اور اس سے معاملات اپنی مرضی کے مطابق طے کرنبھارت کیلیے اور بھی مشکل ہو چکا تھا۔
اپریل 2013 میں چین کی فوج نے LAC سے بیس کلومیٹر اندر آ کر دولت بیگ اولڈی جو کہ بھارت کی ائئر بیس ہے اسکے جنوب میں تین ہفتے تک کیمپ لگ کر قیام کیا اور اپنی مرضی سے واپس گئے اور انکا دعوی تھا کہ یہ چین کا علاقہ ہے بھارت کا نہی۔اس واپسی کے بدلے چین نے بھارت سے چمار کے علاقے کی ایک چوکی بھی خالی کروا لی جس کے زریعے بھارتی فوج اکسائی چن کی ایک انتہائی اہم سڑک پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ بھارتی حکومت نے اس پر ردعمل تو دیا لیکن صرف سفارتی سطح پر۔ اور اکتوبر 2013 میں منموہن سنگھ کے چین کے دورے پر ایک اور معاہدہ سائن ہوا جس کو border defense cooperation agreement
کہا جاتا ہے اسکے تحت بارڈر پٹرولنگ کے دوران ایک فریق دوسرے کے foot steps کو فالو نہیں کریگا اور نہ ہی ایک فریق دوسرے کے قریب آ کر کیمپ وغیرہ لگائے گا۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ اب بھارت کو پورے 3500 کلومیٹر کے چپے چپے کی حفاظت کرنا تھی وہ بھی بغیر گولی چلائے اور جہاں بھی گیپ ملتا چین کی فوج گھس سکتی تھی اور کیونکہ کوئی انٹرنیشنل بارڈر تو تھا نہیں اس لیے اگر چینی فوج ایک دفعہ ایک مقام پر آ جاتی تو وہ اسکو کلیم کر سکتی تھی کہ یہ اسکا علاقہ ہے۔ کیونکہ چین کی فوج تعداد اور وسائل میں بہتر ہے اور انکا سڑکوں اور کمیونیکیشن کا نطام بھی بہتر ہے اسلیے وہ فائدے میں تھے۔
کوئی طے شدہ سرحد نہ ہونے اوربھارت کی فوجی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے منموہن سنگھ اور پھر مودی کی حکومت سے بھی لداخ میں depsang وادی اور chumar میں سینکڑوں مربع کلومیٹر کے علاقے اپنے حق مین منوا لیے اور بھارتی حکومتوں نے اپنے سیاسی نقصان سے بچنے کیلیے اپنی عوام کو یہ کبھی بھی نہی بتایا۔ بھارتی ذرائع کے مطابق LAC کی خلاف ورزی چین کے لیے معمول کی بات بن چکی ہے اور وہ اکثر ایسا کرتے رہتے ہیں اور بھارتی حکومتیں اس پر خاموش ہی رہتی ہین کیونکہ شور شرابے سے ڈومیسٹک سیاست میں نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بھارتی فوج بھی چین کی ان دراندازیوں پر کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اپنی حکومت کے معاہدوں کے تحت پابند ہیں کہ جن علاقوں میں چین کو فوج آئے اور بھارت کی نظر میں وہ متنازعہ ہو تو نہ تو وہ اس علاقے میں جا کر روک سکتے ہیں اور نہ ہی لڑائی کر سکتے ہیں معاہدے کی روح سے وہ یہ معاملہ صرف میٹگز میں اٹھا سکتے ہیں-اورویسے بھی بھارت کی فوج اگر پٹرولنگ پر نکلتی تھی تو انکے گروپ کی تعداد پندرہ یا بیس ہوتی تھی جبکہ چینی فورسز اس سے کئی گنا زیادہ کی تعداد میں پٹرولنگ پر نکلتے تھے۔
بھارت کی تاریخ میں نریندر مودی وہ پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اپنی الیکشن کمپین میں چین کا معاملا اٹھایا اور دعوے کیے کہ وہ اقتدار میں آ کر چین کو ہینڈل کریں گے۔
ستمبر 2014 مین جب چینی صدر شی جن پنگ بھارت کے دورے پر تھے تو عین اس وقت چینی کی فوج لداخ میں چمار کے علاقے میں بھارتی علاقے میں گھسی ہوئی تھی اور بھارت کی فوج انکے بالکل سامنے کھڑی تھی۔ یہ شائد مودی کیلیے میسج تھا اس دورے کے دوران tv cameras پر مودی کے چہرے پر گبھراہٹ اور پریشانی واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ چمار کے جس علاقے میں چینی فوج نے دراندازی کی تھی اسکو بعد میں بھارت نے سرکاری طور پر مان لیا یعنی LACاسکے مطابق اڈجسٹ کر لی گئی یعنی بھارت نے اپنا علاقہ کھو دیا لیکن نریندر مودی اتنے سمجھدار ضرور تھے کہ وہ سب کچھ ڈپلومیٹک لیول پر تسلیم کر لیتے تھے لیکن بظاہر عوام کے سامنے چین کے سامنے ڈٹ جانے کا موقف ہی رکھتے تھے۔
فروری 2015 میں مودی بھارت کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا جو کہ چین کے مطابق تبت کا جنوبی علاقہ ہے یقینا” مودی چین کو سخت میسج دینا چاہتے تھے یا کم ازکم اپنے لوگوں کو یہی دکھا رہے تھے لیکن چین نے اسکا جواب نریندر مودی کو اس طرح دیا کہ مئی 2015 میں اس دورے کے دوران چینی ٹیلی وزن بھارت کا نقشہ بغیر کشمیر،لداخ اور اروناچل پردیش کے دکھاتا رہا۔
جون 2017 میں ڈوکلام کے علاقہ میں جو کہ بھوٹان اور چین کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے چین اور بھارتی فوج کا ایک بار پھر آمنا سامنا ہوا۔ اصل مین چین اس علاقے میں ایک سڑک بنانا چاہتا تھا لیکن بھارت کیلیے یہ سڑک دفاعی لحاظ سے خطرناک ہو سکتی تھی۔ اور کیونکہ بھوٹان سے بھارت کا دفاعی معاہدہ تھا اس لیے بھارت اسکی آڑ میں ڈوکلام کے علاقے میں چین کے مقابلے پر اپنی فوج لے آیا۔ 72 دن کے اس سٹینڈ آف میں چین کو سڑک تعمیر نہی کرنے دی گئی اس واقعے کو بھارت نے اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھا کہ اس نے چین کو ہار ماننے پر مجبور کیا ہے لیکن ھقیقت یہ ہے کہ چین ان چھوٹی چھوٹی شارٹ ٹرم باتوں کی بجائے بڑے مقاصد اور لانگ ٹرم سٹریٹیجی پر یقین رکھتا ہے۔
اس واقعے کے بعد چین نے پورے سرحدی علاقے پر اپنا کمیونیکیشن نیٹورک اور فوجی انفراسٹرکچر مزید بہتر کیا اور تبت کے علاقے میں یعنی بھارت کی سرحد پراس وقت 2 لاکھ کے قریب چینی فوجی مکمل توپخانے اور ہتھیاروں کیساتھ مستقل طور پر مقیم ہیں۔ بلکہ بعض دفاعی ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈوکلام میں چین نے جان بوجھ کر بھارت کو اشتعال دلایا تھا تا کہ اسکو جواز بنا کر تبت مین اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کر سکے۔ ڈوکلام کے بعد اپریل 2018 میں ںریندر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان ملاقات میں بھارت اور چین نے ایک دوسرے کیساتھ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کیخلاف کسی اتحاد کا حصہ نہ بننے کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کو Wuhan سمٹ کہا جاتا ہے۔
5 اگست 2019 کو اس معاملے میں ایک انتہائی اہم اور تاریخی پیش رفت ہوئی جب بھرتی پارلیمنٹ نے لداخ اور کشمیر کے متنازع علاقے کو یکطرفہ طور پریونین ٹیریٹریز قرار دے دیا اور اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جو سپیشل Status ریاست کشمیر کو حاصل تھا اسکو ختم کر دیا لداخ کے علاقے اکسائی چن جو کہ چین کا زیرانتظام علاقہ ہے اور کشمیر کا جو علاقہ پاکستان کے پاس ہے بھارت نے اسکو بھی واپس لینے کا بھی دعوع کر دیا۔ چین اور پاکستان دونوں نے اس پر انتہائی سخت سفارتی ردعمل کا اظہار کیا۔
ان تمام واقعات کے تناظر میں ہی گلوان وادی میں جون 2020 کا تازہ ترین واقعہ پیش آیا جسمیں 45 سال بعد LAC پر دونوں فوجوں کی باہمی جھڑپوں اموات ہوئیں۔ بھارت نے اس واقعے میں اپنے 20 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہےجبکہ چین نے اپنے ہلاک ہونیوالے فوجیوں کی تعداد نہی بتائی۔ اس جھڑپ کے باوجود چین نے LAC کے دوسری طرف یعنی بھارت کے علاقے مین اپنی مستقل چوکیاں قائم کر لی ہیں۔ چین ان تمام علاقوں کو اپنا علاقہ قرار دے رہا ہے جبکہ بھارت ان علاقوں کو اپنا کہتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت اپنے سیاسی فائدے کیلیے کھل کر یہ نہیں بتا رہی کہ چین نے بھارت کے کلیم والے کتنے علاقےپر اپنی چوکیاں قائم کر لی ہیں۔ بلکہ وزیر اعظم مودی نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ بھارت کے علاقے مین چینی فوج آئی ہی نہیں۔ موجودہ کشیدہ صورتحال میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن ہمیشہ کی طرح چین کی شرائط پر اورانڈیا کا اپنے کلیم والے ایک بہت بڑے علاقے سے ہاتھ دھونے کے بعد۔ لیکن اس بار بھی سوائے چند بھارتی مبصرین کے بھارت کا سارا میڈیا حکومت اور فوج عوام کو یہ نہی بتا رہے کہ انہوں نے گلوان وادی، پین گانگ جھیل، Depsang،اور ہاٹ سپرنگز کے سیکٹرز میں کتنا علاقہ کھو دیا ہے۔ باقی سب لوگ مزے میں ہیں کہ ہم نے چین کو مزاکرات کے زریعے واپس بھیج دیا ہے اور انہیں بالکل بھی اس بات کا ادراک نہی کہ دراصل بھارت نے باسٹھ کی جنگ کے بعد کبھی اتنا علاقہ نہی گنوایا جتنا ان حالیہ واقعات کے نتیجے میں کھو دیا ہے ہاں البتہ چند چند بھارتی دفاعی مبصر ضرور اس پر بات کر رہے ہیں۔ اورابھی یہ صورتھال مزید کتنا چلے گی اور بھارت کو کتنا مزید علاقہ چین کے قبضے میں جائیگا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
چین کے حالیہ اقدامات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ چین اب اپنے 1959 کےکلیم کے مطابق یعنی جو سرحد چو این لائی نے نہرو کو آفر کی تھی سارا علاقہ دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 62 کی جنگ میں چین نے تقریبا اس کلیم لائن تک کا سارا علاقہ اپنے کنٹرول میں کر لیا تھا لیکن سیزفائر کے بعد چینی فوج یکطرفہ طور پر ہی اسی کلیم لائن سے 20 کلومیٹر پیچھے چلی گئی تھی اوربھارت کو بھی 20 کلومیٹر پیچھے جانے کا کہا تھا اور تجویز کیا تھا کہ اس بیس کلومیٹر کے علاقے کو ڈی ملٹرائیزڈ (De Militarized Zone) زون قرار دے دیتے ہیں لیکن جنگ بندی کے بعد نہرو نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا تھا یعنی اس ۲۰ کلومیٹر کے علاقے میں کچھ جگہوں پر بھارت کی فوج موجود رہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کی چین آج 1959 کی کلیم لائن کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول مانتا ہے لیکن بھارت کی نظر میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول مختلف ہے کیونکہ اس بیس کلومیٹر کے کچھ علاقے پر بھارت کی فوج اور پوسٹیں موجود تھیں۔اس 1959 کی چائینیز کلیم لائن اور بیس کلومیٹر کے ڈی ملٹراَزڈ زون کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔
بعض ماہرین یہ بھی دعوی کر رہے ہیں کہ چین صرف بھارت پر اپنا رعب رکھنا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بھارت سرحدی علاقے میں سڑکیں اور پل وغیرہ بنائے کیونکہ اس سے چین کی dominant پوزیشن خطرے مین پر سکتی ہے اور چین بھارت ہر اس لیے بھی دبائو ڈالنا چاہ رہا کہ وہ چین کے خلاف کسی عالمی اتحاد کا حصہ نہ بنے کیونکہ بھارت اب واضح طور پرچین کے خلاف امریکہ کے بلاک کوجوائن کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سائوتھ چائنہ سی میں آسٹریلیا،جاپان امریکہ اور انڈیا کے معاہدے کو بھی چین بھارت کی چین دشمنی سمجھتا ہے۔ دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بھارت چین کیخلاف کسی اتحاد کو جوائن نہ کرنے اور چین کے مفادات کو نقصان نہ پہنچانے کی گارنٹی دیگا تو چین اس حالیہ کشیدگی کو بھی کم کر دیگا اور بھارت کے کلیم والے لداخ کے جس علاقے پر اپنی پوسٹیں بنا لی ہیں شائد انکو بھی واپس کر دے.لیکن جو تیاری اور تعداد اس بار لداخ میں چین کی نظر آ رہی ہے اسکو دیکھ کر لگتا تو نہیں کہ چین واپس آسانی سے جائیگا۔