سب سے پرانا کرنسی نوٹ کون سا؟
مختلف دھاتوں کے سکے اور سونے چاندی کی اشرفیوں کا ذکر تو ہم پرانے وقتوں کی کہانیوں میں سنتے ہی رہتے ہیں لیکن کیا آپکو معلوم ہے کرنسی نوٹ سب سے پہلے کب وجود میں آئے اور استعمال ہونا شروع ہوئے؟ اگر جانتے ہیں تو کامنٹس میں لکھیں اگر نہیں تو جناب ہم آپکو بتا دیتے ہیں۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق اس وقت تک ریکارڈ پر آنے والا سب سے پرانا کرنسی نوٹ چین کی منگ ڈائنسٹی یا منگ کا ہے اور یہ سن 1375 کے قریب چھاپا گیا تھا۔ یہ نوٹ ایک گوان
One Guan
کا ہے اور ایک گوان کتنا ہوتا تھا؟ بس یوں سمجھیں کہ ایک ہزار دھاتی سکوں کے برابر اس کی ویلیو ہوتی تھی۔ ایک گوان کا یہ کرنسی نوٹ تقریبا”14 انچ لمبا یعنی ایک فٹ سے بھی زیادہ لمبا تھا اور چوڑائی میں بھی 9 انچ کے قریب تھا۔ یہ نوٹ بیجنگ سے پہلی دفعہ سن 1900 میں بڑی تعداد دریافت ہوئے۔ ایک بار پھر یہ 1936 میں یہ تب ملے جب بیجنگ کی حفاظتی دیوار کے گر گئی۔ دیوار گرنے سے وہاں موجود مزدوروں کو یہ نوٹ دکھائی دئیے تو انھوں نے اکٹھے کیے۔ لیکن حیرت انگیزطور پر انھوں نے انھیں جمع کرنے کے بجائے معمولی قیمت پر بیچ ڈالا۔ ان نوٹوں کی ایک بڑی تعداد اپنی پرنٹنگ پلیٹس کے ساتھ چائنہ کے عجائب گھروں میں موجود ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نوٹ چھے سات سو سال تک کیسے Survive کر گئے؟ حالانکہ جس کاغذ پر یہ چھپتے ہیں اس کی اپنی عمر اتنی طویل نہیں ہوتی؟ تو جناب ہوا کچھ یوں تھا کہ یہ نوٹ شائع ہونے کے کچھ عرصہ بعد چائنہ میں Hyper Inflation کی وجہ سے اپنی وقت، اپنی ویلیو کھو بیٹھا تھا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ جب کرنسی نوٹ ویلیو کھو دیتے ہیں تو سستی چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ ایک معمولی سی چیز کے لیے بہت سے نوٹ چاہیے ہوتے ہیں۔ تو ایسا ہی چائنا میں اس وقت ہوا۔ لوگ خریداری کیلیے بوریاں بھر بھر کر یہ ڈی ویلیو نوٹس لے جاتے اور ذرا سا سودا سلف لے آتے تھے۔ اس بے قدری کی وجہ سے لوگوں نے ان نوٹوں کو اچھے وقت کی آس میں مختلف برتنوں اور شیشے کے مرتبانوں میں چھپا کر زمین میں دبا دیا۔ جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے نوٹ اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی بچ گئے اور ماہرین آثار قدیمہ کے ہاتھ لگ گئے۔ یہاں آپ کو یہ بات دھیان میں رکھنا ہو گی کہ ایسا نہیں کہ 1375 کے ان نوٹوں سے پہلے نوٹ ہوتے ہی نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے ہوتے ہوں۔ کچھ شواہد ایسے ہیں کہ اس سے پہلے بھی کرنسی نوٹس چھپ چکے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 1375 سے پہلے کا کوئی کرنسی نوٹ فی الحال دنیا کے ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔
آتش فشاں کے اندر بنا ہوا چرچ
جی ہاں یہ شمال مشرقی سپین میں بارسلونا سے تقریبا” 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک مردہ آتش فشاں Santa Margarida کے دہانے کے اندر واقع ایک چھوٹے سے چیپل کا ذکر ہو رہا ہے۔ لیکن زیادہ حیران اور پریشان ہونے سے پہلے یہ سن لیں کہ جس آتش فشاں کے اندر یہ چرچ بنا ہے یہ والکینو پچھلے ساڑھے گیارہ ہزار برس سے خاموش ہے۔ یعنی لاوا نہیں اگل رہا۔ اسکے اندر جو عباد گاہ یا چیپل واقعہ تھا وہ بھی بہت پرانا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس آتش فشاں سے زیادہ پرانا نہیں۔ اس جگہ یہ جو نیا چھوٹا سا چیپل آپ دیکھ رہے ہیں یہ 1865 میں بنا تھا لیکن اسی پرانے چیپل کے اوپر بنا تھا جو 1428 میں ایک تباہ کن زلزلے میں گر گیا تھا۔ یہ پہاڑ تقریبا” دو کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اور یہ رقبہ بھی بہت سرسبز ہے بالکل جنگل جیسا۔ اسکی اونچائی سطح سمندر سے تقریبا” 682 میٹر ہے۔ یہاں کوئی گاڑی نہیں جاتی بلکہ یہ راستہ اپنے قدموں پر طے کرنا پڑتا ہے۔ اس فاصلے میں 116 میٹر کی قدرے مشکل چڑھائی بھی شامل ہے۔ آتش فشاں کے اندر ایک عبادت گاہ کا ہونا ہے تو دلچسپ لیکن یہ چھوٹا سا چیپل عام طور پر خالی ہی رہتا ہے اور سال بھر میں یہاں صرف ایک بار رونق لگتی ہے۔ جب 20 جولائی کو ایک تہوار کے موقعے پر کچھ ہم مذہب یہاں جمع ہوتے ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے مردے بھی پریشان ہیں، ممیز بھی
جی ہاں یہ واقعہ چلی کا ہے۔ جہاں کے ایک میوزیم میں 7000 ہزار سال پرانی mummies محفوظ ہیں لیکن چند سال پہلے میوزیم کی مینیجمنٹ نے یہ چیز نوٹ کی کہ یہ ممیز جو کہ موجودہ چلی اور پیرو کے علاقے کی ہزارون سال پرانی تہذیب چن چورو سے تعلق رکھتی ہیں پگھل رہیں اور ان میں سے ایک کالے سے رنگ کا پانی بہنا شروع ہو گیا ہے۔ چلی کے آرکائیولوجسٹس نے فورا”اس کے کچھ نمونے ہارورڈ یونیورسٹی تحقیق کے لیے بھجوائے تو کہ معلوم کیا جا سکے کہ جو ممیز 7 ہزار برس سے صحیح سلامت ہیں اب اچانک کیوں خراب ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ہارورڈ کے ماہرین اثار قدیمہ نے اس راز کا کھوج نکال لیا۔ وجہ بہت دلچسپ نکلی۔ ہارورڈ کی تحقیق کے مطابق یہ ممیز اور علاقہ کبھی بھی اتنا گرم نہیں رہا اور نہ ہی اسکی آب و ہوا میں کبھی نمی (humidity) پائی گئی تھی۔ لیکن اب چونکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پوری دنیا کا ٹمپریچر بڑھ رہا ہے اور Climate changes تیزی سے اور شدت سے ہو رہی ہیں، اسلیے یہ ممیز بھی متاثر ہونے لگیں ہیں، کیونکہ وہ بھی اس گرم اور humidity والی آب و ہوا کی کبھی عادی نہیں رہیں۔ اس لیے اسکو برداشت نہیں کر پا رہیں اور پگھل رہی ہیں۔یعنی پچھلے 7 ہزار سال میں چلی اور پیرو کے علاقوں کا موسم اتنا گرم نہیں رہا جتنا اب ہوتا جا رہا ہے۔ بہرحال میوزیم کے ماہرین نے ممیز کو سلامت رکھنے کے لیے کلائمیٹ اور تمپریچر ان کے مطابق سیٹ کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ممیز جو کہ ابھی دریافت ہی نہیں ہوئیں اور کہیں نہ کہیں دفن ہیں کیا ہو گلوبل وارمنگ برداشت کر پائیں گی؟ کہیں وہ دریافت سے پہلے ہی تو ختم نہیں ہو رہیں؟
انسان Tatoos کب سے بنوا رہا ہے؟
دوہزار سال سے۔ جی ہاں یہ دعویٰ ہے امریکہ کے ایک ریسرچر کا۔ انکے مطابق 1972 مین امریکی ریاست Utah سے ایک آلہ دریافت ہوا ہے جو کہ دوہزار سال پہلے کا ہے۔ اس آلے پر تحقیق سے پتا چلا ہے کہ یہ اس دور میں انسانی جسم پر نقش و نگار بنانے کے کام آتا تھا۔ یہ آلہ خاردار پودے کے کانٹوں کو ایک پودے کے تنے میں ڈال کر ایک دوسرے پودے کے ریشوں سے اچھی طرح باندھ کر بنایا گیا تھا۔ اور اس آلے کا نوکدار سرا اب بھی کسی سیاہ رنگ کے مادے سے رنگا ہوا ہےجو کہ tatoos بنانے کیلیے استعمال کیا جاتا ہو گا۔ یہ تو سب جانتے تھے کہ Tatoos کا تعلق شمالی امریکہ کی تہذیب سے صدیوں پرانا ہے لیکن دو ہزار سال پرانا ہے ۔۔۔۔ یہ اب تک کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔ اور عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ آج سے چار یا پانچ صدیاں قبل جب یورپی اقوام نے امریکہ کا رخ کیا تو Tatoos کا رواج وہ ساتھ لے کر گئے تھے۔ یہ بات تو خیر پہلے بھی غلط ثابت ہو چکی ہے اور ایک ہزار سال پرانے Tatoos کے شواہد تو پہلے بھی مل چکے ہیں لیکن دو ہزار سال والی بات پہلی بار معلوم ہوئی ہے۔
چائینیز کب سے بئیر پی رہے ہیں؟
کم از کم پانچ ہزار سال سے۔ شاید آپ سمجھتے ہوں کہ بئیر ایک ماڈرن ڈرنک ہے۔ دور جدید کا ایک مشروب ہے۔ لیکن ایسا نہیں۔ 2016 میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق چین سے بئیر بنانے کا پورا سامان دریافت ہوا ہے جو ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق 5 ہزار سال پرانا ہے۔ اس میں چولہے funnels ابالنے کیلیے بڑے بڑے برتن اور کچھ گڑھے بھی دریافت ہوئے ہیں جن کی گہرائی 12 فٹ تک کی ہے۔ ان دریافت ہونے والے برتنوں کے لیبارٹری tests سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ان میں باجرا،جو اور کچھ اور اجزائے ترکیبی جو بئئر بنانے میں استعمال ہوتے ہیں پکائے جاتے تھے۔ اب دیکھیں کہ جو تو اس دور میں چین میں ہوتا ہی نہیں تھا۔ تو پھر یہاں کیسے پہنچا؟ وہ یوں کہ چینی ’جو‘ مغرب کے ملکوں سے لا کر بئیر بنانے میں استعمال کرتے تھے۔ یہاں آپکو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایک اور ریسرچ جو کہ امریکہ کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا میں ہوئی کے مطابق چائنہ سے ایسے شواہد پہلے ہی مل چکے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ چین میں 9 ہزار برس سے چاول،شہد اور مختلف پھلوں کی مدد سے الکوحلک مشروبات تیار کیے جا رہے ہیں۔