انسان کی عملی زندگی میں کامیابی میں اسکی اپنی محنت کی وجہ سے ہوتی ہے یا اسکا انھصار قسمت پر بھی ہوتا ہے؟کیا کوئی انسان صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیاب ہو سکتا ہے یا کامیاب ہونے کیلیے محنت کیساتھ ساتھ اسکی قسمت کا بھی کردار ہوتا ہے؟اور کیا کوئی انسان صرف اپنی اچھی قسمت کیوجہ سے زندگی کی دوڑ میں ایسے انسانوں سے آگے نکل سکتا ہے جنہوں نے اس سے کہیں زیادہ محنت کی ہو؟
کامیابی سے یہاں ہماری مرادکسی بھی انسان کی عملی،پیشہ ورانہ یا معاشی زندگی میں کامیابی ہے یہاں پر ہم مذہبی یا روحانی کامیابی کا زکرہرگز نہی کر رہے۔ اور قسمت سے ہماری مراد یہاں وہ تمام حالات واقعات ہیں جو کسی بھی انسان کے اپنے دائرہ اختیار میں نہی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ اور کثیرالجہت (Multi Dimensional) موضوع ہے لیکن آئیے ہم اسکو آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پیدائش اور بچپن کے حالات کا فرق
قبل از پیدائش غریب بچے کی ماں کو اچھی خوراک میسر نہ تھی۔ صحت کے مسائل سے آگاہی تھی نہ ان سے نمٹنے کے وسائل میسر تھے۔بعض غریب مائوں کو تو دوران حمل محنت مزدوری بھی کرنی پڑی ہو گی
اسکے مقابلے میں مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس بچوں کی ماؤں کونسبتا بہتر خوراک میسر تھی، صحت کے مسائل سے کچھ نہ کچھ آگاہی بھی تھی اور درمیانے درجے کی طبی سہولیات تک رسائی بھی تھی۔
اور امیر بچوں کی ماؤں کو بہترین خوراک میسر تھی۔ حمل کے آغاز سے ہی بہترین معالجین کی سہولیات بھی دستیاب تھیں۔ کھانے پینے سے لے کر چلنے پھرنے تک ہر چیز معالجین کے مشوروں کے مطابق سرانجام دینے کی استطاعت بھی موجود تھی۔
یعنی غریب مڈل کلاس اور امیر طبقے کا فرق پیدائش کے وقت سے بھی پہلے ہی سے فرق کا باعث بن رہا ہے۔
اب ہم ان تینوں کیٹییگریز کے بچوں کےبچپن کے حالات کا بھی موازنہ کر لیتے ہیں
غریب بچوں کو غیر معیاری اور ناکافی خوراک میسر تھی، بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشونما ظاہر ہے جسکی وجہ سےمتاثر ہوئی۔
جبکہ مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس بچوں کو انکے بچپن میں کسی حد تک معیاری خوراک میسر تھی۔ جسمانی اور ذہنی نشونما بھی مناسب ہوئی یعنی غریب بچوں کی نسبت یہ پھر بھی بہتر رہے۔
اب اگر امیر بچوں کے بچپن کا جائزہ لیں توانکو بہترین خوراک دستیاب رہی، عمدہ دیکھ بھال ہوئی اور جسمانی و ذہنی نشونما خوب رہی یونی انکا بچپن غریب اور مڈل دونوں کلاسز سے پھر بہتر رہا۔
تعلیم کا فرق
اب اگر سکول کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا موازنہ کریں تو غریب بچوں کواول تو یہ سہولیات میسر ہی نہی تھیں۔ اگر تھیں بھی تو اس میں اساتذہ اور دیگرسہولیات یا دونوں نہیں تھے۔ اگر اساتذہ تھے بھی تو صحیح پڑھاتے نہیں تھے یا پڑھانے کے قابل نہیں تھے۔ والدین بچوں کو تعلیم دلوانے کے قائل نہیں تھے یا اسکی استطاعت نہی رکھتے تھے۔ جوغریب بچے تعلیم ھاصل کر بھی رہے ہوتے ہیں ان کے بھی گھر میں پڑھائی کا ماحول نہیں ہوتا۔
اسکے مقابلے میں مڈل کلاس کے بچوں کے والدین انکی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتے ہیں اور انکو نہ پڑھنے یا پڑھائی میں ناکام ہو جانے کے نتائج سے بھی ڈراتے رہتے ہیں اور انکو پڑھائی کیلیے سازگار ماھول اور وسائل فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اسکے لیے ہر طرح کی قربانی بھی دینے کو تیاررہتے ہیں۔
امیر والدین کے بچوں کیلیے پڑھائی کی اعلی ترین سہولیات دستیاب ہوتی ہیں بلکہ وہ بیرون ملک جا کر یا اپنے ہی ملک میں رہ کر بھی ترقی یافتہ ممالک کے لیول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں.
این جی او فار غیر بچوں کی پڑھائی
عملی زندگی:
ان سب مہرومیوں کو لیکر غریب بچے جب عملی زندگیمیں آتے ہیں تع ظاہر ہے مڈل اور اپر کلاس کے بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور مزدوری کرتے ہیں۔ ان کی آمدنیاں تقریباً اتنی ہی رہ جاتی ہیں جتنی ان کے والدین کی تھیں۔
مڈل کلاس بچےعملی زندگی میں آکرچھوٹی یا بڑی ملازمتیں کرتے ہیں اور باسز سے ڈرتے رہتے ہیں اور انکو خوش رکھنے کی ہرممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی آمدنیاں عام طور پر اپنے والدین کی آمدنیوں سے زیادہ ہو جاتی ہیں چھوٹا موٹا گھر اور گاڑی بھی یہ کچھ عرصے بعد لے ہی لیتے ہیں اگر پہلے سے نہ ہو تو۔ یہ اس کو کامیابی سمجھتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ انکی محنت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔اپنی اس کامیابی میں قسمت کے کردار کو عام طور پر یہ لوگ تسلیم نہی کرتے ۔ یہ لوگ معاشرے میں موجود غریب اور نادار لوگوں کی ناکامی کا زمہ دار بھی خود انکو ہی سمجھتے ہیں اور انکی جہالت اور لاعلمی کو اسکا باعث قرار دیتے ہیں۔
امیر بچوں کیلیے نوکری اور کاروبار دونوں ہی مسئلہ نہیں ہے۔ کہیں تعلقات کام آتے ہیں تو کہیں پیسہ۔ یہ ‘ایکولیٹی’Equality کے متعلق بلاگز لکھتے، سیمینار اٹینڈ کرتے اور این جی اوز بناتے ہیں۔ گھومتے پھرتے، رپورٹیں لکھتے اور مزے سے زندگی گزارتے ہیں
ان سب حقائق کو مدنظر رکھیں تو اس بات کے بہت واضح امکانات ہیں کہ جو انسان جس کلاس میں پیدا ہو گیا وہ اپنی ساری زندگی اسی کلاس میں ہی گزارے گا۔ اس بات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کہ کوئی انسان جس کلاس میں پیدا ہو اس سے اوپر والی کلاس میں چلا جائے یعنی غریب بندے کے مڈل یا اپر کلاس میں جانے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور اسی طرح انتہائی امیر انسان کے بھی مڈل یا غریب کلاس میں آنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ یعنی جیسے غریب آدمی کے اپنے سی اوپر والی کلاس میں جانے کیلیے بہت سی معاشرتی رکاوٹیں ہیں وہیں امیر آدمی کو نیچے والی کلاس میں دھکیلنے سے بچانے کیلیے بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ان تنینوں امیر،مڈل اور غریب کلاسز کوہم زندگی کے مکان کی تین منزلوں سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں جسکی اوپر والی کلاس میں امیر،درمیان والی منزل پر مڈل کلاس اور نیچے والی منزل پر غریب لوگ رہتے ہیں۔
کوئی انسان اپنی زندگی کس منزل پریا کس کلاس میں گزارےگا اس کا قریب قریب مکمل انحصار اس پر ہے کہ وہ پیدا کس منزل پر ہوا اور ظاہر ہے پیدائش کے مقام پرانسان کا اپنا کوئی اختیار نہیں۔
آج اگر کوئی انسان اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس نے زندگی میں محنت کی تعلیم حاصل کی اور اب ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے اور وہ اسکو اپنی ذاتی کاوش اور جدوجہد کے مرہون منت سمجحتا ہے تو وہ اس بات کو بالکل نظر انداز کر رہا ہے کہ وہ پیدا ہی ایسے والدین کے ہاں ہوا تھا جو اسے اسکول بھیجنے کے قائل بھی تھے اور اسکی استطاعت بھی رکھتے تھے اور جو اسے کم عمری میں ہی ایک ہی دفعہ کسی سے بیس ہزار لے کر اس گھر سال بھر ملازمت کیلئے چھوڑ دینے پر مجبور نہیں تھے۔
اسکا مطلب یہ ہرگز نہی کہ محنت اور منصوبہ بندی سے انسان کو فائدہ نہی ہوتا یا یہ بیکار چیزیں ہیں۔ یقینا انکا فائدہ ہے لیکن یہ چیزیں آپکو ایک ہی کلاس یا منزل پر رہتے ہوئے فائدہ دے سکتی ہیں یعنی صرف منصوبہ بندی اور مھنت کیوجہ سے کسی انسان کے لوئر سے اپر کلاس میں آ جانے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔مثلا ایک مزدور کی مثال لیتے ہیں جو کہ باقی مزدوروں سے زیادہ محنت کرتا ہے،ایماندار بھی ہے اور پیسے بچا کر بھی رکھتا ہے فضول خرچہ بھی بالکل نہی کرتا تو کیا وہ اپنے اس نقصان کی تلافی کر سکتا ہے جو اسکو ایک مزدور گھرانے میں پیدائش کی صورت میں ہو چکا ہے؟ کیا وہ انجینئیر یا ڈاکٹر یا کنٹریکٹر بن سکتا ہے؟ نہی وہ صرف اپنی ہی کلاس میں باقی مزدوروں سے تھوڑی سی بہتر زندگی گزار لے گا لیکن مزدور سے اوپر والی کلاس میں چلے جانے کے اسکے امکانات تقریبا نا ہونے کے برابر ہیں
اس محنتی اور ایماندار مزدور کی زندگی جو تھوڑی سی بہتر ہے باقی مزدوروں سے، قسمت کی خرابی کیوجہ سے وہ اس کلاس میں بھی نچلے درجے پر جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر اسکی ٹانگ کسی حادثے میں ضائع ہوگئی، یا سکی دو یا تین جوان بہنیں ہیں جنکی اس نے شادی کرنی ہے یا اس کے بچے کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی جس کے علاج معالجے میں اس کی بچت اور دیہاڑی دونوں جائیں تو باوجود محنت اور منصوبی بندی کے زریں اصولوں پر عمل کرنے کے وہ پھربھی ہار جائے گا۔ اور اپنی ہی کلاس میں بھی بالکل نچلے لیول پر چلا جائیگا۔
تو اس مسئلے کا حل کیا ہے کہ معاشرے کے بہت سے افراد جو ایسے حالات میں پیدا ہوتے ہیں جہاں اچھی خوراک اورتعلیم جیسی بنیادی سہولتیں نہی انکو اس قابل کیسے بنایا جائے کہ وہ بھی سب سے نیچے والی کلاس میں سے اوپر کی کلاسز میں آ سکیں؟ کیا ہم انکو اپنے ھالات کا زمہ دار ٹہھرا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں کیونکہ ایک بچہ جسکوبچپن میں مناسب خوراک اور بنیادی تعلیم ہی نہی ملی وہ کیسے ایسے بچے کا مقابلہ کر سکتا ہے جو بہترین سکولوں میں پڑھا اور اسکو اچھی کوراک بھی دستیاب تھی اور ظاہر زہنی اور نفسیاتی لحاظ سے بھی دونوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہو گا جب دونوں بڑے ہونگے۔تو دوستو اسکا ھل یہ ہے کہ معاشرہ بھیثیت مجموعی اسکی زمہ داری اٹھائے اور مناسب خوراک اور تعلیم وغیرہ کی سہولتیں ہر کلاس کے بچوں کو پہنچائے اور اگر معاشرہ یہ نہی کر سکتا تو پھر معاشرہ ہرگز ان مفلس،مھروم اور نادار افراد کو انکی اس ھیثیت کا ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتا۔
اس طرح کے جملے آپ نے یقینا سنے اور پڑھے ہونگے
“اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن اگر آپ غریب مرتے ہیں تو اس میں آپ کا ہی قصور ہے”
اور
“انسان اپنی قسمت کا خود مالک ہے”
جیسے “اقوال زریں” صرف لوگوں کو محنت پر اکسانے والے نعرے نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت اور جن اصولوں پر وہ چلتی ہے کے متعلق ایک لغو دعویٰ بھی ہیں۔ اور وہ دعویٰ یہ ہے کہ فرد اور صرف فرد اپنی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار ہے۔ اور یہ دعوی بالکل بھی درست نہی جیسا کہ ہم نے آپکو مثال سے واضح کیا ہے۔
قسمت کی دوسری قسمیں یا جہتیں
بالکل الگ الگ حالات اور کلاس میں پیدا ہونے کی خوش قسمتی اور بدقسمتی کے معاملے کا ذکرتو ہم نے کرلیا اور یہ بھی تجویز کر دیا کہ اس فرق کو معاشرہ اجتماعی طور پر کیسے دور کر سکتا ہے لیکن قسمت کی اس علاوہ کچھ دوسری زیادہ پیچیدہ صورتیں بھی ہیں جن کو سمجھنا اور قابو پانا دونوں ہی بہت مشکل ہیں۔
قسمت کی یہ زیادہ پیچیدہ شکل ہے وہ جو ایک جیسے حالات یا کلاس میں پیدا ہونے والوں کے درمیان بھی فرق ڈال دیتی ہے۔ یہ وہ قسمت ہے جو ایک ہی کلاس کے اندر رہتے ہوئے افراد کواوپر اور نیچےلیجا سکتی ہے اور کبھی کبھی کسی فرد کو ایک منزل یا کلاس سے دوسری منزل یا کلاس پر بھی پہنچا دیتی ہے۔ آئیے اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرض کرلیں کہ ہمارے پاس دو طالب علم ہیں جن کے ایف ایس سی اور میٹرک میں ایک جتنے مارکس ہیں۔ دونوں میں ایک جتنی صلاحیت ہے اور دونوں نے بالکل ایک جتنی محنت کی ہے۔ دونوں نے انٹری ٹیسٹ میں بھی تمام سوالات کے بالکل ایک جیسے جوابات دیے ہیں (یعنی جتنے ایک کے صحیح ہیں اتنے ہی دوسرے کے اور جتنے دوسرے کے غلط ہیں اتنے ہی پہلے کے) سوائے ایک سوال کے۔ اس سوال کے جواب دونوں کو نہیں معلوم اور دونوں تکا لگاتے ہیں۔ پہلے کا صحیح لگتا ہے اور دوسرے کا غلط۔ جب رزلٹس آتے ہیں۔ تو س ایک سوال کے جواب صحیح ہونے کی وجہ سے چند پوائنٹس کے فرق سے پہلے کا MBBS میں ایڈمیشن ہوجاتا ہے اور دوسرے کا نہیں۔ یہ دوسرا زوالوجی یا باٹنی میں بی ایس کرتا ہے اور کالج میں لیکچرر لگ جاتا ہے جبکہ پہلا ڈاکٹربن جاتا ہے، پھر اپنا کلینک بناتا ہے، پھر اپنا ہسپتال اور ایک دن وہ دوسری منزل سے نکل کر تیسری منزل میں پہنچ جاتا ہے۔ دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق آجاتا ہے۔ محض ایک تکے کی وجہ سے!
نمبرز کا انحصار اس پر بھی ہوتا ہے کہ کسی طالب علم کا پیپر چیکنگ کیلئے کس ممتحن/پیپر چیکر کے پاس گیا ہے۔ کچھ ممتحن عادتاً زیادہ نمبر دیتے ہیں اور کچھ کم۔ پھر آپ کو کتنے نمبر ملیں گے اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ آپ سے پہلے جو پیپر ممتحن کے پاس آیا وہ کیسا تھا۔ اگر وہ برا پیپر تھا تو آپ کے چند نمبرز بڑھ جانے کا امکان ہے اور اچھا تھا تو کم نمبرز کم ہوجانے کا۔ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ کہ سکتے ہیں کہ کسی طالب علم کے ھاصل کردہ نمبر اسکی محنت یا ذہانت کی سو فیصد درست عکاسی نہی کرتے۔کیونکہ مختلف عوامل کیوجہ سے کسی بھی ظالب علم کے نمبرز میں 5 سے دس فیصد تک فرق آ سکتا ہے اور یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو کہ اکثر صورتوں میں فیصلہ کن بھی ثابت ہو سکتا ہے اور مستقبل میں کسی بھی طالب علم کی کلاس اور آمدنی دونوں میں بہت بڑے فرق کا باعث بن سکتا ہے۔
بعض اوقات غیر متوقع واقعات یا اتفاقات بھی کسی بہت بڑی کامیابی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کا ظہور ظاہر ہے قسمت ہی کیوجہ سے ہے انسان کا اپنا ان میں کوئی عمل دخل نہی ہوتا۔ یہ اتفاقی بظاہر معمولی نظر آنے والے واقعات مستقبل میں بہت بڑے فرق کا باعث بن جاتے ہیں۔
کامیابی پر قسمت غیر متوقع یا اتفاقی واقعات کے ظہور کے ذریعے بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال خود بل گیٹس بھی ہے۔ بل گیٹس کو غیر معمولی کامیابی آئی بی ایم کے بظاہر اس وقت اچھے نظر آنے والے فیصلے کی وجہ سے ملی۔ بل گیٹس سے جب آئی بی ایم نے معاہدہ کیا تو آئی بی ایم کے ایگزیکٹوز توقع کررہے تھے کہ پرسنل کمپیوٹرز زیادہ نہیں بکیں گے لہذا انہوں نے بل گیٹس کو سافٹ ویئر کیلئے کوئی بڑی رقم ایک ساتھ ایک ہی بار دیکر ونڈوز سافٹ وئیرکو مستقل طور پر خرید لینے کی بجائے رائلٹیز دینے کا فیصلہ کیا یعنی جتنے کمپیوٹر بکیں گے ہر ایک پر فی کس کے ھساب سے بل گیٹس کو ادائیگی کا معاہدہ کر لیا۔ بعد میں پرسنل کمپیوٹرز کی بکری میں جو ہوش ربا اضافہ ہوا اس نے بل گیٹس کو غیر معمولی طور پر امیر بنا دیا۔ بل گیٹس، سٹیوجابز یا دوسرے کامیاب لوگوں کی زندگی کا بغور مطالعہ کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے اس غیر معمولی کامیابی میں چھوٹے چھوٹے اتفاقات جو کہ خوش قسمتی سے انکے حق میں گئے کا انتہائی اہم کردار ہے۔
یہاں اب یہ بات بھی بہت وضاحت سے کہنی ضروری ہے کہ پچھلی تمام بحث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قسمت ہی سب کچھ ہے اور محنت اور منصوبہ بندی کچھ بھی نہیں۔ جوطالب علم ایم بی بی ایس تک پہنچا تو وہ اسی وجہ سے پہنچا کہ اس نے مھنت کی تھی اگر وہ میرٹ سے پانچ یا دس نمبر کم تک بھی نہ پہنچ پاتا تو ظاہر ہے جو پانچ دس نمبر اسکو خوش قسمتی سے مل گئے تھے اور وہ میرٹ پر آ گیا تھا تو انکا بھی کوئی فائدہ نہی ہونا تھا اور اسکا اڈمشن میڈیکل میں نہی ہو پانا تھا۔ مطلب زیادہ تر کام اسکی مھنت نے کیا باقی تھوڑا سا کردارقسمت نے ادا کر دیا۔ اسی طرح بل گیٹس سافٹ ویئر بنانا جانتا تھا تبھی آئی بی ایم نے اس سے رابطہ کیا۔ محنت اور قابلیت ضروری ہیں۔ بہت ضروری ہیں۔ یعنی محنت، منصوبہ بندی اور قابلیت وغیرہ ضروری ہیں لیکن ہر سیچوایشن میں کافی نہیں اکثر اوقات جو تھوڑا بہت کردار قسمت ادا کر دیتی ہے وہ بہت بڑے فرق کا باعث بن جاتا ہے۔
پہلی قسم کی خوش قسمتی اور بدقسمتی کے برعکس جس کی وجوہات واضح ہیں اس دوسری قسم کی قسمت پر قابو پانا خاصا مشکل ہے۔ تاہم یہ دوسری قسم کی قسمت پہلی قسم کی قسمت کی طرح نامنصفانہ نہیں ہے کیونکہ یہ منظم طور پر کچھ گروہوں کو نوازتی اور کچھ کو محروم نہیں کرتی بلکہ کسی کو بھی نواز سکتی ہے اور کسی کو بھی محروم کرسکتی ہے۔
یعنی محنت، منصوبہ بندی اور قابلیت وغیرہ ضروری ہیں لیکن ہر سیچوایشن میں کافی نہیں اکثر اوقات جو تھوڑا بہت کردار قسمت ادا کر دیتی ہے وہ بہت بڑے فرق کا باعث بن جاتا ہے۔
اس ساری بحث سے ہم یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ
(1) محنت اور منصوبہ بندی ہر ھالات میں اور ہمیشہ کامیابی کی ضمانت نہی ہے۔
(2)کچھ افراد کم محنت کر کے زیادہ کامیاب اور کچھ زیادہ محنت کر کر نسبتا کم کامیاب ہو سکتے ہیں۔
(3)معاشرتی اور معاشی ناہمواریوں کے باعث ہر کسی کیلئے کامیاب ہونا ممکن نہیں۔اس لیے ان لوگوں کو حقیر مت سمجھیں جو آپ سے نچلے لیول پر ہیں۔
(4)اگر آپ کامیاب ہیں تو اسمیں ضروری نہی کہ اس کامیابی میں سارا کردار آپکی محنت کا ہی ہو یقینا اسمیں کچھ نہ کردار آپکی قسمت کا بھی ہے۔
اور اب آخر میں کامیابی اور قسمت کے دور جدید کے سب سے بڑے سمبل فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کے خیالات کی ایک جھلک بھی ملاحظہ فرمائیے:
“دیکھیے میں بہت سےلوگوں کو جانتا ہوں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس وجہ سے کاروبار شروع نہ کیا ہو کہ اسے ڈر تھا کہ وہ مناسب پیسے نہیں کماسکے گا۔ لیکن میں ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جنہیں اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کی کوشش کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کیونکہ ان کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جو ناکام ہوجانے کی صورت میں انہیں سہارا دے سکے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کامیاب صرف اچھے آئیڈیاز اور محنت کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اس کیلئے خوش قسمتی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مجھے بھی لڑکپن میں کوڈنگ سیکھنے کے بجائے اپنے خاندان کی کفالت کرنی پڑرہی ہوتی، اگر مجھے یہ تسلی نہ ہوتی کہ فیس بک نہ بھی چلی تو میں کچھ اور کرلوں گا تو میں بھی آج یہاں کھڑا نہ ہوتا۔ اگر دیانت داری سے بات کریں تو ہم سب کو ہی معلوم ہے کہ زندگی میں یہاں تک پہنچنے تک خوش قسمتی نے ہماری کتنی مدد کی ہے”۔