Home Geopolitics سندھ طاس معاہدہ

سندھ طاس معاہدہ

by bigsocho
0 comment

دریائوں کی تقسیم پوری دنیا میں ہی ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اور دنیا بھر میں اس پر مختلف ممالک کے درمیان اختلافات عام بات ہیں۔ ایسا ہی کچھ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی ہوا جب قیام پاکستان کے چند ہی ماہ بعد بھارتی پنجاب سے پاکستان کے مغربی پنجاب آنے والے پانی کو بھارت نے روک لیا کیونکہ مغربی پنجاب آنیوالی نہروں کا کنٹرول بھارتی پنجاب میں واقع ہیڈورکس سے ہوتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک مستقل اور حساس مسئلہ تھا اسلیے اس پر عالمی طاقتیں بھی involve ہو گئیں اور پاکستان اور انڈیا کےدرمیان مزاکرات کا ایک ظویل سلسلہ شروع ہو گیا جو بالاخر اس معاہدے پر ختم ہواجوانیس ستمبر ۱۹٦۰ کو کراچی میں دونوں فریقین کے درمیان ورلڈبنک کی ثالثی میں سائن ہوا۔اس معاہدے کو سندھ طاس معاہدہ یا انڈس واٹر ٹریٹی کہا جاتا ہے۔ آس معاہدے میں پاکستان کو کیا ملا اور بھارت کت حصے میں کیا آیا یہ سب جاننے کیلیے اس معاہدے کے مختلف نقاظ کا جائزہ لیتے ہیں

1۔ مشرقی دریا راوی،ستلج اور بیاس بھارت کو مل گئے

راوی،ستلج اور بیاس پر مکمل طور پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ نا صرف دریائوں پر بلکہ اس میں آکر شامل ہونیوالی Tributaries یعنی ندی نالے،چشمے اور معاون چھوٹے دریائوں پر بھی۔ ہان جب ایک دفعہ راوی اور ستلج حتمی طور پر پامستان کی حدود میں داخل ہو جائیں تو اسکے بعد اگر کوئی ندی نالہ وغیرہ آ کر اسمیں شامل ہو تو اس کا پانی پاکستان استعمال کر سکتا ہے۔ یہاں حتمی طور پر سے مراد یہ ہے کہ دریائے ستلج سلیمانکی سے زرا پہلے ہستہ بند کے پاس پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور اسکے بعد دوبارہ انڈیا کی حدود میں نہی جاتا۔ اور اسی طرح دریائے راوی بھی BRB ڈی لنک سے تقریبا” ڈیڑھ میل پہلے جب پاکستان کی حدود میں آتا ہے تو پھر دوبارہ بھارت کی سرزمین پر دوبارہ نہی جاتا۔ اور دریائے بیاس جو تیسرا دریا اس معاہدے کے تحت بھارت کو ملا تھا وہ تو پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی دریائے ستلج میں مل جاتا ہے۔ 

ان مقامات پرجہاں دریائے ستلج یا راوی یا ان میں شامل ہونے والے کوئی ندی نالے یا چشمے پاکستان میں بہتے ہیں اور پھر دوبارہ بھارت میں داخل ہو جاتے ہیں تو ایسے مقامات پر پاکستان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ان دریائوں یا نالوں کے بہائو کو روکے یا ان کا پانی استعمال کرے۔ ہاں گھریلو ضروریات اور صرف اس محدود علاقے کی زرعی ضروریات اس پانی سے پوری کی جا سکتی ہیں جہاں یہ بہہ رہے ہوں۔ ایسے تمام علاقوں کی تفصیلات بھی معاہدے میں طے کر لی گئی ہیں۔ مطلب یہ کہ پاکستان اس پانی پر ڈیم یا بند وغیرہ نہی بنا سکتا اور نا ہی نہر نکال کر پانی دور دراز کے علاقوں تک پہنچا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ وہ کام جن سے پانی کے بہاؤ پر فرق نہیں پڑتا جیسے کہ دریا سے ریت یا پتھر نکالنا ماہی گیری وغیرہ جیسے کام پاکستان کر سکتا ہے۔

ان مشرقی دریائوں پر پاکستان کو اتنا حق ظرور حاصل ہے کہ جب یہ دونوں دریا حتمی طور پر پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں تو اسکے بعد اگر کوئی ندی نالہ وغیرہ آ کر ان دریائوں میں شامل ہو رہا ہے تو اسکا پانی پاکستان استعمال کر سکتا ہے چاہے وہ بھارت ہی سے کیوں نا بہہ کر آ رہا ہو لیکن پاکستان بھارت سے یہ مطالبہ نہی کر سکتا وہ کسی ایسے نالے یا ندی کا پانی استعمال نہ کرے کیونکہ اسکے بہائو پر مکمل طور پر بھارت کا حق ہے۔ مطلب یہ کہ اگر پانی ہو تو پاکستان استعمال کر سکتا اور اگر نہ ہو تو مطالبہ نہی کر سکتا۔ مین دریائوں راوی اور ستلج پر بھی یہی فارمولا لاگو ہے جب وہ حتمی طور پر پاکستان میں داخل ہو جائیں کہ اگر بھارت سے پانی آ جائے تو پاکستان استعمال کر سکتا ہے اپنی مرضی کے مطابق لیکن بھارت سے پانی چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔

پاکستان کو ان مشرقی دریائوں اور انکے ندی نالوں کو آبی گزرگاہ کے طور پر استعمال کرنے کا بھی پورا حق ہے

اگر کوئی ندی نالہ یا معاون دریا پاکستان کی سرزمین سے گزر رہا ہے لیکن وہ بھارت کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور اسکے بعد دوبارہ پاکستان کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے تو ایسے ندی یا نالے مین پاکستان خود کسی اور زریعے یعنی کسی مغربی دریا یا ڈیم سے پانی چھوڑ سکتا ہے اور یہ پانی اس ندی نالے کے اپنے پانی کے علاوہ ہوگا۔ اور اس ندی نالے میں پانی کی جتنی مقدار پاکستان داخل کریگا بھارت اسمیں کمی نہی کر سکتا یعنی اسکو استعمال نہی کر سکتا ہاں جو پانی کی مقدار اس ندی یا نالے کی اپنی تھی اسکو بھارت استعمال کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگرپاکستان نے ایسی کسی ندی یا نالے میں 50 کیوسک پانی ڈالا اور پھر یہ نالا بھارتی حدود میں داخل ہو گیا لیکن جب دوبارہ یہ ندی نالا پاکستان میں داخل ہو گا تو بھارت کم از کم 50 کیوسک پانی لازمی چھوڑے گا کیونکہ وہ پاکستان کا اپنا پانی تھا۔ہاں 50 کیوسک سے اوپر والا پانی بھارت استعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

اس معاہدے کے نافذ ہونے کی تاریخ یکم اپریل انیس سو ساٹھ تھی۔ تب سے لے کر اکتیس مارچ انیس سو ستر تک یعنی تقریباً دس سال تک بھارت پابند تھا کہ وہ مشرقی دریاؤں میں معاہدے کے مطابق پانی چھوڑتا رہے۔ یہ اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان اس دوران اپنے حصے میں آنے والے دریاؤں کی مدد سے متبادل نہری نظام تشکیل دے سکے۔ یاد رہے کہ کچھ شرائط کے ساتھ یہ دس سال کا وقت تیرہ سال تک بڑھایا بھی جا سکتا تھا۔ 

2 مغربی دریا پاکستان کو مل گئے

اسی معاہدے کی روح سے دریائے سندھ،جہلم اور چناب پاکستان کو مل گئے اور بھارت انکے بہائو کو بالکل بھی نہی روک سکتا ہاں البتہکچھ مقاصد کیلیے بھارت ان دریائوں کا پانی استعمال کر سکتا ہے جو کہ یہ ہیں 

(i)ان دریائوں اور ان سے متصل ندی نالوں وغیرہ کے پانی کا گھریلو استعمال،

(ii)صرف ان علاقوں میں زرعی استعمال جہاں سے یہ بہہ کر آ رہے ہیں

 (iii)اور اس معاہدے کے نافذ ہونے سے پہلے سے جو علاقے ان دریائوں سے سیراب ہوتے چلے آ رہےتھے انکو بھی سیراب کرنے کا حق بھارت کو ہے۔ان علاقوں کی تفصیل بھارت پاکستان کو دینے کا پابند تھا۔

(iv) اسکے علاوہ ان دریائوں پر بند باندھ کر بجلی بنانے کیلیے بھی انکا پانی بھارت استعمال کر سکتا ہے اس معاہدے کی روح سے لیکن پانی واپس انہی دریائوں میں ڈالنا کا پابند ہے یعنی نہر وغیرہ نکال کر پانی دور نہی لے کر جا سکتا۔ یہ پانی سے بجلی بناے والا نقطہ بہت اہم ہے اور اس پر بعد میں تنازعے بھی بنے انکا زکر ہم بعد میں کرتے ہیں۔ 

(v)بعض نہریں جو پہلے سے نکلی ہوئی تھیں اور جموں کے علاقوں کو سیراب کرتی تھیں ان کو بھی بھارت کو استعمال کا حق دے دیا گیا لیکن پانی کے بہائو کی حد مقرر کر دی گئی۔ اور اس بہائو اور زرعی استعمال کے علاقوں کی تفصیلات بھارت پاکستان کو دینے کا پابند تھا اور ان علاقوں میں پانی کے بہائو کی نگرانی کا حق بھی پاکستان کو دیا گیا تھا کہ کہیں بھارت طے شدہ مقدار سے زیادہ پانی تو نہی استعمال کر رہا۔

نکاسی آب کے نالے

 لاہور شہر کے بیچو بیچ سے گزرنے والے گندے نالے ہڈیارہ کا تو آپ کو پتہ ہی ہو گا یہ نالا اور 3 مزید نالے قصور نالہ،سلیم شاہ نالہ اور فضیلکا نالہ جو اس مہاہدے کے نافذ ہونے سے پہلے سے بھارت سے بہ کر پاکستان میں داخل ہو رہے تھے پاکستان سندھ طاس معاہدے کی روح سے انکی دیکھ بھال کا پابند ہے اور بھارت ان میں اس مقدار سے زیادہ پانی نہی شامل کر سکتا جتنا معاہدے کے نافذ ہوتے وقت ان میں بہہ کر آتا تھا۔ اور مزید یہ کہ ان نالوں میں اگر پاکستان مزیڈ نکاسی کا پانی ڈالنا چاہے یا زرعی یا ایمرجنسی مقاصد کیلیےاستعمال کرنا چاہے تو پاکستان خود اسمیں توسیع کا زمہ دار ہو گا۔ اور اگر انڈیا سمجھے کہ ان نالوں کو چوڑا کرنے یا گہرا کرنے کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان کو اسکی قیمت ادا کریگا یعنی پاکستان صرف اتنی مقدار کے پانی کے انتظام کا ہی ذمے دار ہے جو معاہدے کے وقت اسمیں بہ کر آ رہا تھا۔

4 ۔ فریقین دریائوں کے قدرتی رخ کو تبدیل کرنے کی کوشش نہی کریں گے 

معاہدے کے فریقین دریائوں کے قدرتی رخ کو تبدیل کرنے کی کوشش نہی کریں گے اور نہ ہی پانی گندا کیا جائیگا جس سے دوسری پارٹی کا نقصان ہو اور اگر دریا میں کوئی گندا نالہ یا صنعتی فضلہ وغیرہ شامل ہو گا تو اسکو دریا میں شامل کرنے سے پہلے اس حد تک ضرور صاف کر لیا جائیگا کہ اس سے دوسرے فریق کو نقصان نہ ہو اور پانی ناقابل استعمال نہ ہو جائے۔

5۔ رقم کی ادائیگی

 بھارت چھے کروڑ 20 لاکھ 60 ہزار پائونڈ کی رقم بھی اس معاہدے کے تحت پاکستان کو اقساط میں ادا کرنے کا پابند تھا لیکن بھارت کو یہ رقم ادا نہی کرنی پڑی اور دوسرے ورلڈ بنک کے ممبر ممالک نے رقم کی ادائیگی کر دی تھی۔

6۔ سیلابی پانی کا بہائو

معاہدے کیمطابق کوئی بھی پارٹی دریائوں کے قدرتی راستوں پر سیلاب کے دنوں میں جتنا مرضی پانی چھوڑ سکتا ہے اور اسکے نتیجے مین ہونیوالے کسی نقصان کا ذمے دار نہی ہاں البتہ وقت سے پہکے اطلاع اور پانی کے بہائو کی مقدار کی مسلسل معلومات فراہم کرنے کا ضرور پابند ہے۔

 اس شق کے تحت پاکستان سیلابی نقصان کا ذمہ دار بھارت کو کبھی بھی نہی ٹھرا سکتا اور سیلاب سے بچنے کا واحد حل مزید ڈیموں کی تعمیر ہے اس شق کے تحت پاکستان ہی خسارے میں ہے لیکن ظاہر ہے قدرتی طور پر ہی پاکستان دریائوں کے ڈائون سٹریم پر واقع ہے یعنی دریا بھارت سے بہہ کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اس لیے اس پر بھارت کو بھی بہت زیادہ قصور وار ٹھرایا نہی جا سکتا۔

7۔ پانی کے بہائو کی معلومات شئیر کرنا

دونوں فریقین آپسمیں دریائوں کے مختلف مقامات پر بہائو،ڈیمز میں داخل اور خارج ہونے والے پانی کی مقددار،نہروں کے ہیڈز سے پانی کے بہائو کی مقدار وغیرہ روزانہ کی بنیاد پر یا پھر جو بھی دونوں فریقین مدت طے کر لیں ایک دوسرے کو دینے کے پابند ہیں۔ ان مقاصد کیلیے فریقین مختلف مقامات پر یہ معلومات حاصل کرنے کیلیے آلات بھی نصب کروا سکتے ہیں۔ لیکن اسکی ادائیگی دوسرے فریق کو کرنا پڑیگی۔پانی کے بہائو کی معلومات کے علاوہ اگر کوئی پارٹی کسی دریا پر کوئی بھی تعمیراتی یا کوئی اور منصوبہ شروع کرنا چاہیگی تو دوسرے فریق کو اس منصوبے کی مکمل تفصیلات شروع کرنے سے پہلے دینے کی پابند ہو گی۔

8۔ مستقل انڈس کمیشن کا قیام

دریائوں کی تقسیم کے اس پیچیدہ معاہدے کے صحیح طرح سے نفاذ اور دونوں ممالک کے مفادات کے تحفظ کیلیے ایک مستقل انڈس کمیش کے قیام کا بھی فیصلہ بھی اسی معاہدے کے تحت کیا گیا تھا جسمیں دونوں ممالک نے ایک ایک کمشنر اپوائنٹ کرنا تھا اور انکے اسسٹنٹ بھی۔ اور اس کمیشن کی سال میں کم ازکم ایک میٹنگ لازمی قرار دی گئی تھی۔ ان کمشنرز کا کام اپنے اپنے ممالک کے ھقوق کا تحفظ اور معلومات کا حصول اور فراہمی تھا۔ نیز یہ کمشنرز دوسرے ممالک کے کسی منصوبے پر اعتراض بھی اٹھا سکتے تھے۔ اور دوسرے ملک کے کسی منصوبے کو جا کر انسپیکٹ کرنے کا حق بھی رکھتے تھے۔ اپنے اپنے ملک کی حکومت کو سالانہ رپورٹ بنا کر پیش کرنا ان کمشنرز کی زمہ داری تھی اور اس رپورٹ میں یہ نشاندہی کر سکتے تھے اگر کوئی ملک کسی قسم کا فائدہ اٹھا رہا ہو یا معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔اور کسی قسم کے اختلافات کو حل کرنے کا فورم بھی یہ انڈس واٹر کمیشن ہی ہے۔

9۔ نیوٹرل ماہر یا ثالث عدالت 

اگر دونوں فریقین کے مابین کسی بات پر اختلاف ہو جائے اور وہ انڈس کمشنرز سے حل نہ ہو پائے تو ایک نیوٹرل ماہر تعینات کیا جائیگا جو کہ دونوں فریقین کے اتفاق سے چنا جائیگا جو مسئلے کو ھل کریگا اور اپنی تجاویز دیگا۔ نیوٹرل ماہر کے علاوہ بین الاقوامی ثالثی کی عدالت کا آپشن بھی اس معاہدے مین دیا گیا ہے اور اس عدالت کے قیام سے متعلق تمام تفصیلات معاہدے میں طے کر دی گئی ہیں۔

10۔ کیا پاکستان نے گھاٹے کا سودا کیا؟؟

اگر ہم سندھ طاس معاہدے کی بات کریں تو اسمیں دونوں ممالک میں سے کسی کو بھی خسارے میں کہنا آسان نہی ہو گا۔ کیونکہ 6 کے 6 دریا بھارت سے یا بھارت کے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں اور قدرتی طور پر ظاہر ہے بھارت فائدے مین ہے لیکن اسکے باوجود تین نسبتا” بڑے مغربی دریا پاکستان کے حصے میں آئے اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی ان دریائوں پر انحصار کر رہی تھی جبکہ بھارت کے پاس اسکے حصے میں آنے والے 3 چھوٹے مشرقی دریائوں کے علاوہ اور بھی دریا ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ کہتے ہیں کہ ایوب خان نے دریا بھارت کو بیچ دیے یعنی گھاٹے کا سودا کیا اور بھارت مین لوگ کہتے ہین کہ نہرو نے گھاٹے کا سودا کیا اور بڑے دریا پاکستان کو دے کر کمزوری دکھائی۔

11۔ کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟

 اس معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کی جنگیں بھی ہوئیں لیکن یہ معاہدہ قائم رہا کیونکہ انٹرنیشنل معاہدے کی خلاف ورزی کرنا بھارت کیلیے آسان نہی سیاسی نعرے البتہ ضرور لگائے جا سکتے ہیں۔ہاں البتہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کیے بغیر بھارت پانی کے محاز پر پاکستان مزید نقصان اس طرح پہنچا سکتا ہے کہ راوی اور ستلج میں جو تھوڑا بہت پانی سال کے کچھ مہینوں میں آتا ہے اسکو بھی روک لے۔ کیونکہ معاہدے کے مطابق بھارت اسکا حق رکھتا ہے۔ لیکن اسکے لیے بھارت کو مزید  ڈیمز اور متبادل نہری نظام بھی بنانا پڑیگا۔

12-پاکستان میں پانی کی کمی کیوں ہو رہی ہے؟؟

یہ سوال بہت اہم ہے ہاں بھارت نے بھی دریائے چناب اور جہلم پر پانی سے بجلی بنانے والے کچھ منصوبے بنائے ہیں جن سے پانی کا بہائو پاکستان مین تھوڑا سا متاثر تو ہوا ہے جیسا کہ دریائے چناب پر بننے والا بگلہیار دیم اور دریائے نیلم پر مقبوضی کشمیر میں بننے والا کشن گنگا ہائیڈرو پراجیکٹ لیکن میاہدے کی روح سے بھارت اسکا حق رکھتا تھا کیونکہ وہ پانی صرف بجلی بنانے کیلیے استعمال کر رہا تھا۔ بگلہیار دیم پر پاکستان کے اعتراض پر ورلڈ بنک کے نیوٹرل ماہر نے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ بھارت کا موقف تسلیم کر لیا تھا جسکو پاکستان کو قبول کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح کشن گنگا ہائیڈل پراجیکٹ پر پاکستان نے بین الاقوامی ثالثی کی عدالت میں بھی اپنا مقدمہ لڑا لیکن بھارت کا موقف درست تسلیم کر لیا گیا۔ بھارت کے اس پراجیکٹ کیوجہ سے پاکستان کے نیلم جہلم پراجیکٹ کی بجلی بنانے کی صلاھیت مین دس فیصد تک کمی ہوئی ہے کیونکہ نیلم جہلم مین اب پانی کم رفتار سے آتا ہے اور کشن گنگا اپ سٹریم پر مقبوضہ کشمیر میں دریائے نیلم ہی پر واقع ہے جو دریائے جہلم کا ہی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اسمیں بھی ہماری سستی اس طرح ہے کہ بھارت نے اپنا پراجیکٹ ہم سے بعد میں شروع کیا اور ہم سے پہلے مکمل کر لیا.

 پاکستان میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ ہماری اپنی نا اہلی اور لاپرواپی بھی ہے۔ پاکستان نے منگلا اور تربیلا کے بعد کوئی بڑے بڑے ڈیم نہی بنائے تا کہ پانی کو زخیرہ کیا جا سکے لیکن آبادی اس دوران 4 گنا بڑھ چکی ہے اور وہ دو ڈیم بھی شائد اس لیے بنا لیے کہ مجبوری تھی انڈس بیسن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے تحت وہ بننا ہی تھے ورنہ مشرقی دریائوں سے سیراب ہونیوالے علاقے بنجر ہو جانا تھے جو کہ کچھ ہو بھی چکے ہیں بہاولپور ڈویزن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ڈیم نا بنا کر پاکستان دہرا نقصان برداشت کر رہا ایک طرف تو پانی کی کمی کا شکار ہونے کے باوجود انتہائی قیمتی صاف پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے اور دوسری طرف  سیلاب سے معاشی اور زرعی نقصان بھی ہوتا ہے۔

 بھارت نے اج تک 5ہزار چھوٹے بڑے دیم بنا ئے ہیں اور پاکستان میں بننے والے ڈیمز کی تعداد صرف 3 سو کے لگ بھگ ہے۔ ایسے میں اپنی تباہی کا زمے دار کسی اور کو تھرانا یقینا” عقلمندی نہی۔ حد تو یہ ہے کہ 2002 سے 2009 کے دوران بھارت نے دریائے سندھ پر دو آبی منصوبے 

 Nimoo-Bazgo اور

 Chutak hydroelectric power project 

بجلی کی پیداوار کے بنا لیے۔ 

یہ دونوں منصوبے جو دریائے سندھ پر کارگل اور ڈسٹرکٹ لہ میں بنائے گئے پاکستان کی لائف لائن دریائے سندھ کا 12 کروڑ کیوبک میٹر پانی سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ظاہر ہے اس پانی سے صرف بجلی ہی بن رہی ہے لیکن دریائے سندھ کے پانی کے بہائو میں تھوڑی بہت کمی تو ہوئی ہے۔

 اور ہمارے انڈس واٹر کمشنرجماعت علی شاہ نے نہ تو یہ معاملہ بھارت کے سامنے اٹھایا اور نہ ہی اپنی حکومت کو آگاہ کیا۔ ہماری حکومت اور ریاستی اداروں کو جب ہوش آیا تو پانی سر سے گزر چکا تھا اور بھارت تعمیراتی کام تقریبا” مکمل کر چکا تھا اور اس معاملے کو اب عالمی عدالت میں لے جانا بھی بے سود تھا کیونکہ ہمارے اپنے کمشنر نے اس پراجیکٹ اعتراض نہی کیا تھا جب جماعت علی شاہ کے خلاف 2012 میں کاروائی شروع ہوئی تو والدہ کی عیادت کا بہانہ کرکے کینیڈا بھاگ گئے۔جہاں کی وہ مبینہ طور پر نیشنلٹی پہلے ہی رکھتے تھے۔

 پاکستان کو ڈیم بنانا ہونگے ورنہ آنیوالے چند سالوں میں پانی کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جسکے آثار ابھی سے نمودار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu