Home Geopolitics نیٹو کتنا طاقتور ہے؟

نیٹو کتنا طاقتور ہے؟

by bigsocho
0 comment

 نیٹو کا نام تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا۔ یہ یورپی ممالک اور امریکہ کی ایک فوجی اتحادی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کو بنانے کا مقصد کیمونسٹ روس کے اثرورسوخ کو روکنا اور یورپی ممالک کو اسکے توسیع پسندانہ عزائم سے محفوظ رکھنا تھا۔ کیمونزم کے مقابلے میں جمہوری اقدار کو فروغ دئنے کیلیے یہ تنظیم 1949 میں بنائی گئی تھی۔یہی تنظیم ایک لحاظ سے سرد جنگ کا آغاز بھی تھی۔انتہائی طاقتور اور امیر ترین ممالک کی یہ تنظیم کیسے کام کرتی ہے اسکے ممبر ممالک کون ہیں اور یہ تنظیم کتنی طاقتور ہے اسکی فنڈنگ کیسے ہوتی اور کون کونسے ممالک ممالک اسکے ممبر ہیں  اور اپنے قیام سے آج تک یہ اپنے مقاصد کیلیے کیا کر چکی ہے۔

پس منظر

دوسری جنگ عظیم کے بعد اگرچہ روس برطانیہ فرانس اور امریکہ کا اتحادی تھا لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد ان ممالک کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ روس یورپی ممالک پر جبرا” کیمونسٹ نظریات کے اطلاق کی کوشش کر سکتا ہے اورایسا کرنے کے عزائم بھی رکھتا ہے۔ اسکے علاوہ سوویت روس اتحاد کی طرف سے یورپی ممالک کو یہ بھی خطرہ تھا کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ مقاصد کیلیے یورپی ممالک پر پر ھملہ آور بھی ہو سکتا ہے جس سے یورپ میں مستقبل میں ایک نئی جنگ چھڑ سکتی ہے. جرمنی کی جانب سے بھی ابھی فرانس اور برطانیہ پوری طرح مطمئین نہی تھے اور انکو خدشہ تھا کہ جرمنی ایک بار پھر انکے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ مشرقی یورپ کی بیشتر ریاستیں جو آج آزاد ممالک ہیں اس دور میں سوویت روس ہی کا ھصہ ہوا کرتی تھیں۔ مطلب یہ کہ سوویت روس یورپ کے اندر تک پہنچا ہوا تھا اور یورپ کی سب سے بڑی فوجی قوت تھا-

سب سے پہلے1947 میں برطانیہ اور فرانس نے ایک معاہدہ کیا کہ جرمنی یا روس کیطرف سے ھملہ کی صورت میں ایک دودرے کی مدد کرین گے اگلے ہی برس 1948 میں بیلجیم،نیدرلینڈ اور لکسمبرگ بھی اس اتحاد کا ھصہ بن گئے اس اتحاد کو برسلز ٹریٹی آرگنائزیشن کا نام دیا گیا کیونکہ میاہدہ بیلجیم کے شہر برسلز میں ہوا تھا۔ 1949 میں اس اتھاد کو مزید مستھکم اور مضبوط بنانے کیلیے اسمیں امریکہ،کینیڈا،ناروے اٹلی پرتگال ڈنمارک اور آئس لینڈ بھی شامل ہو گئے اور اسکو نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن نیٹو کا نام دے دیا گیا۔اور ہہ ابتدائی 12 ممالک نیٹو کے فائونڈنگ ممبرز کہلاتے ہیں۔ 

نیٹو کتنا طاقتور ہے؟

 یہ ملٹری الائنس دنیا کی تاریخ کا سب سے طاقتور ترین الائنس ہے۔ نیٹو کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ دنیا کی پندرہ سب سے زیادہ دفاعی بجٹ رکھنے والے ممالک میں سے 6 نیٹو کے ممبر ہیں اور ساری دنیا کے ممالک جتنا مل کر  اپنے دفاع پر پر کرتے ہیں اس مجموعے کا دو تہائی سے بھی زیادہ نیٹو ممالک کا دفاعی بجٹ ہے۔اور  اگرمعاشی لحاظ سے دیکھیں تو دنیا دس سب سے بڑی معیشتوں میں سے چھے  اور اگر دنیا کی ٹاپ 25 معیشتوں میں سے دیکھیں تو 11 ممالک نیٹو کے ممبر ہیں۔

نیٹو ممالک کے آپس کے معاہدے کی سب سے اہم شق اس معاہدے کے آرتیکل فائیو میں بیان کی گئی ہے 

اسکے مطابق اگر کسی نیتو اتھادی ملک پر ھملہ ہو گا تو یہ حملہ تمام ممبر ممالک پر حملہ تصور کیا جائیگا اور اتحادی ممالک اپنے اس ممبر ملک کی حفاظت کیلیے ضرورت پڑنے پر مسلح افواج بھیجنے سمیت  ہر آپشن اختیار کریں گے۔

 ایک تو امیر ترین اور طاقتور ترین ملکوں کا اتحاد اور اوپر سے نیٹو کے آرٹیکل 5 کے تھت سب کا حملہ کیصورت مہں ملکر حملہ آور سے مقابلہ کرنے کا معاہدہ تو آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ یہ کتنا طاقتور اتحاد ہے۔  

ممبر ممالک کون کون ہیں

12 فائونڈنگ ممبرز کا تو ہم زکر کر ہی چکے ہیں لیکن آجکل نیٹو اتحادی ممالک کی تعداد 30 ہے یعنی 18 مزید ممالک اسمیں شامل ہو چکے ہیں۔ نیٹو کے تیس باقاعدہ ممبرز کے علاوہ پارٹنر ممالک بھی ہیں جو ضرورت پڑنے پر نیٹو سے اور نیٹو ان پارٹنر ممالک سے تعاون کرتا ہے۔

1949 کے 12 ابتدائی بانی ممالک کے بعد 1952 میں ترکی اور یونان اس اتھاد کا ھصہ بنے۔ 1955 میں جنگ عظیم دوم کے فاتح ممالک برطانیہ اور فرانس اور امریکہ نے مغربی جرمنی جو کہ انکے زیر کنٹرول تھا کو بھی یکجا کر کے اس اتحاد میں شامل کر لیا گیا۔ مشرقی جرمنی اس وقت سوویت یونین کے کنٹرول میں تھا۔ 1982 میں سپین بھی اس اتھاد میں شامل ہو گیا۔ 

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد 1999میں ہنگری چیک ریپبلک اور پولینڈ نے بھی نیٹو کو جوائن کر لیا ھالانکہ یہ تینوں ممالک ماضی میں رشین کیمونسٹ بلاک کا ھصہ تھے اور نیٹو کو مقابلے میں بننے والے اتھاد وارسا پیکٹ کے ممبر تھے۔ مشرقی جرمنی بھی دیوار برلن کے گرنے کے بعد اب سوویت اتھاد سے نکل کر مغربی جرمنی کیساتھ ملکر ایک ملک بن گیا تھا اور ظاہر ہے اب نیٹو کا ممبر بن چکا تھا.

2004 میں مزید 7 سابق کیمونسٹ ریاستوں نے نیٹو کو جوائن کر لیا جن میں تینوں بالٹک سٹیٹس Baltic States یعنی

 Estonia

,Latviaاور

   Lithuania جو کہ باقاعدہ طور پر سوویت ریپبلک کی ریاستیں تھیں۔ یہ  سوویت یونین کے ٹوَنے کے بعد آزاد ہو گئی تھیں۔  ان تینوں کے علاوہ بلغاریہ،سلوینیا،رومانیہ اور سلواکیہ بھی اس اتحاد کا حصہ بن گئے جن میں سے سلوینیا کے علاوہ باقی تینوں وارسا پیکٹ کا حصہ تھے۔یعنی جن ممالک کیخلاف نیٹو کا قیام مین عمل میں لایا گیا تھا اس اتحاد کے ممالک کو بھی نیٹو میں شامل کر لیا گیا۔ 

مونٹی نیگرو نے 2004 میں نیٹو کو جوائن کیااور سب سےتازہ ترین ممبر شمالی مقدونیہ ہے جو 2020 مین ہی ممبر بنا ہے۔

سوویت روس کا پرانی اتھادی ملک یوکرائن جسکے تعلقات اب روس سے اچھے نہی رہے وہ بھی اس وقت نیٹو کو جوائن کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسکے علاوہ اسی خطے کے دو اور ممالک بوسنیا ہرزے گوینا اور جارجیا جو سوویت اتھادی ملک تھا بھی نیٹو کو جوائن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وارسا پیکٹ

وارسا پیکٹ روس اور اسکی اتحادی 7 دیگر کیمونسٹ ریاستوں نے 1955 میں نیتو ہی کے ردعمل میں قائم کیا تھا۔ روس نے پہلے پوری کوشس کی تھی کہ پورے یورپ  کو یکجا رکھا جائے اور سب یورپی ممالک کو اس تفریق سے بالاتر ہو کر کہ وہ کیمونسٹ ہیں یا سرمایہ دارانہ ایک ہی اتحاد میں اکٹھا کر دیا جائے لیکن روس کی اس تجویز کو فرانس برطانیہ اور امریکہ نے قبول نہی کیا تھا اور پھر روس اور دیگر کیمونسٹ مشرقی یورپ کی ریاستوں نے ملکر وارسا معاہدہ سائن کر لیا تھا۔ اس معاہدے میں روس کے علاوہ مشرقی جرمنی، البانیہ،ہنگری, یبلغاریہ، پولینڈ، رومانیہ اورچیکوسلواکیہ شامل تھے اس دور میں چیکو سلواکیہ ایک ہی ملک تھا جو آجکل چیک ریپبلک اور سلواکیہ کے نام سے دو الگ ممالک بن چکے ہیں۔ 

نیٹو کے اب تک کے نمایاں کام

1 ستمبر 2001 میں امریکہ میں ہونیوالے حملوں کے ردعمل میں آرٹیکل 5 کو پہلی دفعہ استعمال کیا گیا اور نیٹو ممبر اور پارٹنر ممالک نے جنکی تعداد 50 تھی افغانستان مین فوجی کاروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ نیٹو کی تاریخ کا سب سے  بڑا اور لمبا آپریشن تھا اسمین نیٹو افواج کی تعداد ایک وقت میں ایک لاکھ تیس ہزار تھی۔ 

2۔ 2004 میں عراق میں بھی نیٹو نے عراق کی فوج کی ٹریننگ اور امن کی بحالی کے نام پر اپنی خدمات بھی مہیا کیں اور یہ ٹریننگ مشن 2011 میں ختم ہوا۔ اس مشن میں نیٹو کے 12 اتحادی ممالک کے ٹروپس نے حصہ لیا۔یہاں پر بہت کم تعداد میں نیٹو کی افواج تعینات کی گئی تھیں اور یہ کاروائی صرف ٹریننگ مشن تھی اور نہ ہی افغانستان کی طرح نیٹو ممالک نے عراق میں فوجی کاروائی کا باقاعدہ منظوری دی تھی۔

3۔ اکتوبر 2005 کے پاکستان مین آنے والے زلزلے میں نیٹو نے ریلیف کے کاموں میں بھی پاکستان کی مدد کی تھی۔ 

4۔ نیٹو اتحادی ممالک نےبیلسٹک مزائل ڈیفنس سسٹم کے تحت یورپ میں ایک مکمل میزائل سسٹم بھی بنا رکھا جو کہ بظاہر تو دفاع کے نام پر ہے لیکن روس کو اس سے شدید تحفظات ہیں۔ 

4۔ نیٹو کا ایک مشترکہ گراونڈ سرویلنس سسٹم بھی ہے جسکے تحت اتھادی ممالک کے علاقوں کی زمینی فضائی اور بحری نگرانی ہروقت ہو رہی ہوتی ہے تا کہ کسی حملہ کیصورت میں بروقت کاروائی کی جا سکے۔ 

6۔ نیٹو اپنے اتحادی ممالک کی ایک مشترکہ انتیلی جنس بنانے پر بھی کام کر رہی ہے تا کہ مستقبل میں اس اتھاد کو مزید موثر بنایا جا سکے۔ 

7۔ 1999 میں نیٹو نے یوگوسلاویہ کیخلاف کسووو کی جنگ میں اپنا عسکری کردار ادا کیا جارح فوج پر بمباری کی اوریوگوسلاویہ کی افواج کو کسووو سے نکلنے پر مجبور کیا۔ 

8۔ 2011 میں اقوام متحدہ کی سویلین لوگوں کو بچانے کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے نیٹو نے لیبیا کی افواج کے خلاف بھی فضائی آپریشن کیا جسکا مقصد نیٹو کیمطابق نہتے شہریوں کو لیبیا کی فوج سے محفوظ رکھنا تھا۔   

نیٹو کس طرح کام کرتا ہے؟ 

نیٹو کی مستقل فوج بہت کم تعداد میں جس مین سب ممبرز کی افواج شامل ہیں۔ برسلز میں نیٹو کے ہیڈکوارٹر میں ہر ممبر ملک کا نمائندہ موجود ہوتا ہے نارتھ اٹلانٹک کونسل نیٹو کا سب سے اہم ادارہ ہے جسمیں اہم فیصلے کیے جاتے ہیں اس ادارے کی سربراہی نیٹو کا سیکرٹری جنرل کرتا ہے تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے جاتے ہیں اس لیے جو فیصلہ ایک بار اتفاق رائے ہو جاتا ہے وہ سب ممبرز کو ماننا پڑتا ہے۔ اگر کسی فوجی کاروائی کا فیصلہ ہو تو ممبر ممالک رضاکارانہ طور پر اپنی استظاعت کیمطابق اپنی افواج بھیجتے ہیں اور اور اس مشن کے خاتمے کے بعد وہ افواج اپنے اپنے ملک واپس چلی جاتی ہیں۔ 

روٹین کے دفتری اور سیاسی امور کے اخراجات ایک مشترکہ فنڈ سے کیے جاتے ہیں اس فنڈ میں سب ممبرز ایک طے شدہ فارمولا کے مطابق حصہ ڈالتے ہیں لیکن جب کوئی فوجی مشن ہو تو اسکے اخراجات کا حساب سب ممالک باہمی مشاورت سے طے کرتے ہیں عام طور پر زیادہ امیر ممالک زیادہ خرچ برداشت کرتے ہیں اور افواج بھی زیادہ بھیجتے ہیں۔لیکن اگر کوئی فوجی کاروائی آرٹیکل 5 کے نتیجے میں درپیش ہو تو پھر سب ممالک فنڈ مین حصہ ڈالنے کے پابند ہیں۔ 

2006 میں نیٹو کے ممبر ممالک نے یہ طے کیا تھا کہ ہر ممبر ملک اپنے GDP کا کم ازکم 2 فیصد دفاع پر ضرور خرچ کریگا تا کہ پورے اتحاد کو اسکا فائدہ ہو۔ عام طور پر امریکہ نیٹو کا سب سے بڑا فنانسر ہوتا ہے امریکہ کا دفاعی بجٹ باقی تمام نیٹو ممالک کے کل دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے حالانکہ باقی ممالک کا کل GDP امریکہ کے کل GDP سے زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ امریکہ اپنے GDP کی پرسنٹیج کے لحاظ سے تمام نیٹو ممالک سے زیادہ دفاع پر خرچ کرتا ہے۔   

کیا نیٹو اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا؟

اس دفاعی اور سیاسی اتھاد کا ّمغربی یورپ اور امریکہ کو معاشی اور دفاعی لھاظ سے کتنا فائدہ ہوا ہے یہ آپ اس اتحاد کے قائم ہونے کے وقت سے اسکے ممبر ممالک کے ھالات کا آجکل کے ھالات سے موازنہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ کم از کم جرمنی فرانس اور برطانیہ جو جنگ عظیم دوم کے بعد مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے اور معاشی طور بھی قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے آج انتہائی خوشحال اور طاقتور ترین ممالک ہیں اور تینوں ممالک دنیا کے ٹاپ ٹن معیشتوں میں شامل ہیں۔ سوویت روس کا اتحاد ناصرف ٹوٹ کر بکھر چکا ہے بلکہ کیمونسٹ ریاستیں یا تو سرمایہ دارانہ بن گئی ہیں یا پھر معاشی طور پر کمزور ہیں یہاں تک کہ روس بھی معاشی لھاظ ان ممالک جتنا مضبوط نہی ہے ہاں البتہ دفاعی لحاظ سے روس آج بھی بہت بڑی قوت ہے۔ دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ نیٹو ممالک آج بھی امریکہ کے بغیر دفاعی لحاظ سے روس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہی ہیں کیونکہ دفاعی لحاظ سے یہ ممالک اتنے مضبوط نہی جتنے معاشی لحاظ سے ہیں اور کافی حد تک امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔ 2018 میں ایک بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو اتحاد سے نکلنے کا عندہ بھی دے چکے ہیں لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہی آ رہا۔ فرانس نے ایک بار صدرچارلس ڈیگال کے دور میں 1966 میں دفاعی طور پر خود کو نیٹو اتحاد سے الگ کر لیا تھآ کیونکہ وہ سمجحتے تھے کہ فرانس کی دفاعی قوت کسی کے زیراثر نہی ہونی چاہئیے بلکہ آزاد رہ کر فرانس زیادہ مضبوط ہو گا اسی دور میں نیٹو کا ہیڈکوارٹر پیرس سے برسلز منتقل کر دیا گیا تھآ فرانس نے نیٹو کے وسکری معاملات میں 90 کی دہائی میں دوبارہ حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح آئس لینڈ جو کہ نیٹو کا ممبر تو ہے لیکن اسکی کوئی باقاعدہ فوج نہیں ہے صرف پولیس فورس اور کوسٹ گارڈز ہیں لیکن وہ بھی اس اتھاد سے فائدہ اتھا رہا ہے اور امریکہ معاہدے کے تھت اسکی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu