بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک، جی ڈی پی کے اعتبار سے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت، سائز کے اعتبار سے دنیا کی دوسری بڑی فوج۔ بھارت کا شمار ایٹمی صلاحیت رکھنے والے صرف 7 ممالک میں ہوتا ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر بھارت دنیا کا ایک اہم اور طاقتور ملک تصور کیا جاتا ہے۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت کی سب سے بڑی جغرافیائی کمزوری کیا ہے جو دفاعی اعتبار سے بھارت کو غیر محفوظ بناتی ہے؟
بھارت کے شمال مشرق میں بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور چین کے درمیان آپ کو ایک تنگ راہداری یا کوریڈور نظر آ رہا ہے۔ یہ تنگ راہداری مرکزی بھارت کو اپنی شمال مشرق کی آٹھ ریاستوں سے ملاتی ہے۔ اس راہداری کو قریب واقع شہرسلیگوری کی مناسبت سے سلیگوری کوریڈور کے نام سے جانا جاتا ہے.یہ راہداری اتنی زیادہ تنگ ہے کہ ایک مقام پر اس کی چوڑائی صرف 17 سے بیس کلومیٹر رہ جاتی ہے۔ اگر یہ راہداری کسی طرح بلاک ہو جائے یا کر دی جائے تو بھارت کا اس کی ان آٹھ اہم ریاستوں سے زمینی رابطہ کٹ جاتا ہے۔ اور سمندر سے تو ان ریاستوں کو راستہ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ سمندری راستے سے گزرنے کے لیے بھارت کو خلیج بنگال سے جانا پڑے گا اور یہ راستہ بنگلہ دیش یا برما سے ہو کر گزرتا ہے۔ ان آٹھ ریاستوں میں آسام، اروناچل پردیش، سِکم، منی پور، میگھالے، ناگالینڈ، تری پورہ اور مزورام شامل ہیں۔ ان ریاستوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان ریاستوں کا رقبہ بہت زیادہ ہے۔ سائز کے اعتبار سے ان اٹھ ریاستوں کا مجموعی رقبہ نیوزی لینڈ یا بریطانیہ جیسے بڑے ملکوں کے برابر ہے۔ جبکہ ان آٹھ ریاستوں کی کل آبادی ساڑھے چار کروڑ لوگوں پر مشتمل ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اس تنگ سلیگوری کوریڈور کو بھارت کی سب سے بڑی دفاعی کمزوری سمجھا جاتا ہے اس لیے بین الاقوامی ماہرین اس راہداری کو بھارت کی چکنز نیک کہتے ہیں۔
سلیگوری کوریڈور بھارت کی سب سے بڑی کمزوری کیوں ہے؟ بھارت اپنا سب سے بڑا دشمن چین کو سمجھتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان موجود بارڈر مکموہن لائن ہے جسے چین نے کبھی اپنا بارڈر تسلیم نہیں کیا۔ کیونکہ اسی بارڈر پر موجود بھارت کے زیر کنٹرول ریاست اروناچل پردیش کو چین اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اروناچل پردیش بھارت کی ان 8 شمال مشرقی ریاستوں میں سے ایک بہت بڑی ریاست ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقعہ اس ریاست کا کل رقبہ لگ بھگ آسٹریا یا اردن کے برابر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اروناچل پردیش کے کنٹرول کے لیے 1962میں جنگ بھی ہو چکی ہے۔ 1962 کی جنگ میں بھارت کے مقابلے میں چین کا پلڑا بھاری رہا۔ 1967 میں بھی انڈین ریاست سِکم اور چینی ریاست تِبت کے بارڈر پر نتھو لاء اور چولاء کے مقام پر بھی چائنا اور بھارت میں جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ انہیں تنازعات کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی خلیج انتہائی گہری ہے۔ دونوں ممالک کی افواج نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف دفاعی پوزیشن لیے ہوئے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف جنگی مشقیں بھی کرتی رہتی ہیں۔ بھارت کے دفاعی اداروں کو چین کی سلیگوری کوریڈور سے صرف سوکلو میٹر دور تبت میں موجودگی سے بہت خطرہ ہے۔ چین کی نیشنل آرمی یعنی پیپلز لیبریشن آرمی بھارت سے اروناچل پردیش حاصل کرنے کے لیے سلیگوری کوریڈور کے نزدیک قلعہ بندی کر رہی ہے اور اپنی حملے کی استعداد بڑھا رہی ہیں۔ اروناچل پردیش کا محاذ کھولنے سے پہلے چین کو اروناچل پردیش میں موجود بھارتی فوج کی پہلے سپلائی لائن منقطہ کرنی پڑے گی۔ بھارتی فوج کی تھرڈ کور، فورتھ کور اور تھرٹی تھرڈ کور ۔۔۔ اروناچل پردیش اور سِکم میں موجود ہے۔ ان کورز کو سپلائی سلیگوری – گوہاٹی روڈ (NH-27)، سلیگوری – گینگٹک روڈ (NH-10) اور سلیگوری – نیو ٹِنسکیا ٹرین کے راستے ہوتی ہے۔ یہ اہم روڈز اور ریل کا نیٹ ورک سلیگوری کوریڈور سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر چین اور بھارت میں جنگ ہوتی ہے تو سلیگوری کوریڈور جیسے تنگ علاقے کا دفاع بہت مشکل کام ہے اور اس کو بلاک کر کے سپلائی لائن منقطہ کرنا نسبتا آسان کام ہے اس لیے سلیگوری کوریڈور بھارت کی بہت بڑی کمزوری ہے جس پر قابو نہ پانے کی صورت میں بھارت کو اپنے زیر کنٹرول علاقے اروناچل پردیش سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے-
سلیگوری کوریڈور کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے بھارت نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ چین کی طرف سے کسی ممکنہ مہم جوئی کے پیش نظر بھارت نے بھی اپنی فوجی کمک کو اس خطے میں بڑھا دیا ہے۔ اسی ضمن میں بھارت نے دو بڑی ایئربیسز بگدورہ اور حسیمارہ بھی اسی راہداری میں بنائیں ہیں تاکہ چینی حملے کا موئثر جواب دیا جا سکے۔ ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی اس کوشش میں دفاعی میدان کے ساتھ ساتھ بین الممالک تعلقات بھی بہت اھم ہیں- اگر بھارت نیپال اور بھوٹان کو کسی ممکنہ جنگ کی صورت میں اپنا دفاعی پارٹنر بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ سلیگوری کوریڈور کو بچانے میں فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بھارت کےلیے نیپال اور بھوٹان کے ساتھ دفائی پارٹنرشپ کی صورت میں سلیگوری کوریڈور کو سٹریٹیجک ڈیپتھ مل جائے گی یعنی دفاع کے لیے یہ علاقہ ذرا وائڈ چوڑا ہو جائے گا۔ اور اس صورت میں چین کے لیے اسے بلاک کرنا مشکل ہو گا۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے تاریخی طور پر بھارت نے اپنے دونوں ہمسایوں بھوٹان اور نیپال کو اپنے زیر اثر رکھا ہوا ہے- دونوں ممالک حجم میں انتہائی چھوٹے اور لینڈ لاکڈ یعنی کہ زمین میں گرے ہوئے ہیں اور ان کی بیرونی دنیا کے ساتھ تمام تجارت بھارت کے راستے ہی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کی تجارت اور صنعت کا سارا دارومدار بھارت پر رہا ہے اس لئے بھارت ان ممالک کی کمزور جغرافیائی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں چین کے خلاف اپنے دفاع میں استعمال کرتارہا ہے۔ بھوٹان کا چین کے ساتھ بارڈر بھی متنازع ہے۔ کہتے ہیں کہ دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے۔ اس لئے بھوٹان کے لئے یہ قدرتی امر ہے کہ وہ اپنے دفاع کی ضمانت کے لیے بھارت کا اتحادی رہے۔ انہیں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت اور بھوٹان نے 1949 میں انتہائی اہم معاہدہ کیا جس کے تحت بھوٹان نےاپنی خارجہ پالیسی اور دفاع کا مکمل اختیار بھارت کو دے دیا۔ 2007 میں نئے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے بھوٹان نے بھارت کے ساتھ معاہدے کی تجدید کی اور خارجہ پولیسی کا اختیار بھارت سے واپس لے لیا۔ تاہم بھوٹان کے دفاع کی مکمل ذمہ داری اب بھی بھارت کے پاس ہے۔ سلیگوری کوریڈور سے ملحقہ بھوٹان میں بھارت کی موجودگی سلیگوری کوریڈور اور بھارت کے دفاع کو مظبوط کرتی ہے-
مگر حالیہ دنوں میں سلیگوری کوریڈور کے دفاع کی بھارتی حکمت عملی کو کائنٹر کرنے کے لیے چین نے دفاعی اور بین الاقوامی سطح پر کافی اقدامات کیے ہیں- بھارت کی نیپال کے اندرونی معاملات میں بڑھتی ہوئی مبینہ مداخلت سے نیپال کافی ناخوش ہے جس کا چین نے فائدہ اٹھایا ہے۔ نیپال کی اس دوری کی ایک بڑی وجہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انڈین ریاست بہار اور یُوپی کے بارڈر کے ساتھ جنوبی نیپال میں مدھیشی لوگوں میں سورش کی مبینہ کوششیں ہیں۔ نیپالی حتومت یہ سمجھتی ہے کہ 2015 میں نیپالی آئین میں ترمیم کے لیے بھارت کی جانب سے مدھیشی لوگوں کے ذریعے دباؤ ڈالا گیا۔ اس مقصد کے لیے مبینہ طور پرمدھیشی لوگوں کے ذریعے بھارت سے آنے والے تیل، ادویات اور دیگر سامان کی ناکا بندی کرکے نیپالی پالیسی سازوں اور حکومت کو آئین میں تبدیلی پر مجبور کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق بھارت کے اس اقدام سے دونوں ممالک میں دوریاں بڑھیں اور نیپال نے بھارت کی بجائے چین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ اسی موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے نیپال کے ساتھ موثر سفارتکاری شروع کر دی ہے اور نیپال کو اپنے کیمپ میں لانے کے لیے صدر شی جِن پِنگ نے 2019 میں اپنے سرکاری دورے کے دوران 3.5 بلین RMB مالیت کے ریل منصوبوں پر دستخط کردیے ہیں جس سے نیپال چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بن گیا۔ اس کے علاوہ چین نے نیپال میں بڑی انوسٹمنٹ کرتے ہوئے ٹرانسپورٹ اور انرجی کے شعبوں میں بیس مزید منصوبوں پر دستخط کردیئے جین کے ان اقدامات سے دونوں کے درمیان تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے۔ چین نے بھوٹان کے ساتھ بھی روابط اور دوستی بڑھانی شروع کر دی ہے جس سے بھارت کے منصوبہ ساز فکرمند ہیں۔ بھوٹان کے ساتھ سرحدی مسائل کے حل کے لیے چین نے کمال عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھوٹان کے ساتھ مؤثر سفارتکاری کی کوشش کی۔ اسے شمال میں پسارلنگر اور جکارلنگر کا 495 sq Km رقبہ دیتے ہوئے جنوب مغرب میں دوکھلم کاخطہ لینے پر آمادہ کر لیا۔ یاد رہے کہ اس تبادلے کے نتیجے میں بھوٹان کے پاس زیادہ یعنی کے 495 sq Km رقبے کا خطہ آنا تھا جبکہ چین کے پاس کم یعنی کے 269 sq Km رقبہ کا خطہ ہونا تھا جس کا بظاہر فائدہ بھوٹان کو ہونا تھا مگر اس پیشکش کے پیچھے چین کی گہری چال تھی ۔ بھارتی دباؤ کی وجہ سے بھوٹان اس ڈیل سے پیچھے ہٹ گیا۔ بھارت اور چین کے پالیسی ساز دوکھلم کی سٹریٹیجک اہمیت کا پورا ادراک رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس خطے کی فوجی حیثیت بہت زیادہ ہے۔ فوجی ماہرین کے مطابق دوکھلم اور اس سے ملحقہ چین کی چُمبی ویلی دفاعی اعتبارسے ہمالیہ میں موجود کسی بھی اور مقام سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ یہی وہ مقام ہے جسے مستقبل میں لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے صرف 100 Km دور بھارت کی مرغی کی گردن دبوچی جاسکتی ہے۔ 2017 میں چین نے Tibet تک اپنے روڈ کے نیٹ ورک کو وسعت دیتے ہوئے ایک روڈ ڈوکا لا تک بنانی شروع کر دی۔ ڈوکا لا کا متنازع علاقہ بھوٹان کے قبضہ میں ہے جو ٹرائی جنکشن پوائنٹ یعنی کہ وہ جگہ جہاں چین بھارت اور بھوٹان کی سرحدیں ملتی ہے کے قریب ہے۔ چین کے مطابق ڈوکالا اور گموچن کی پہاڑی پر اس کا حق ہے، جب کہ بھارت اور بھوٹان اس کو بھوٹان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ چین کا ڈوکا لا پر حق مان لیا جائے تو ٹرائی جنکشن پوائنٹ موجودہ ٹرائی جنکشن پوائنٹ بتنگ لا کے جنوب میں گموچن تک منتقل ہو جائے گا جہاں سے جمپھیری رِج کے راستے چین مغربی بھوٹان کے اندر موجود سڑکوں کا استعمال کرتے ہوئے سلیگوری کوریڈور تک بآسانی پہنچ سکتا ہے جہاں اس کو کم مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ بھارتی فوج اور انٹیلی جنس حکام کے مطابق چین اس خطے اور چُمبی ویلی میں اپنی فوجی طاقت بڑھاتا جا رہا ہے اور پچھلے کچھ عرصے میں چین نے یہاں نئی چھاؤنیاں قائم کی ہیں فوجی ماہرین کے مطابق چین کو ان حالیہ اقدامات کی وجہ سے مستقبل میں سلیگوری کوریڈور کی ناکا بندی کرنے اروناچل پردیش تک بھارتی فوج کی سپلائی روکنے میں مدد ملے گی۔ اس کے نتیجے میں چین اروناچل پردیش کو بھارتی کنٹرول سے حاصل کرسکتا ہے۔
خطے کی دو بڑی معاشی اور فوجی طاقتوں کے مابین اس لمبی، گھٹن اور اعصاب شکن جنگ میں فتح کس کو نصیب ہوتی ہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔