کمزور ریاستیں ہمیشہ خطرے میں رہتی تھیں اور انہیں اپنی بقاءکیلیے بہت جتن کرنے پڑتے تھے۔ ایک ریاست کا دوسرے پر قبضہ کرکے اسکو اپنے ملک میں شامل کر لینا معمول کی بات سمجھی جاتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انسان مہذب ہوتا گیا اور بیسویں صدی میں تو اقوام متھدہ جیسا ادارہ بھی قائم کر لیا گیا تا کہ ممالک کے آپسمیں جھگڑوں کو بجائے جنگ کے بات چیت سے حل کیا جائے۔
دنیا میں آخری بار وسیع پیمانے پر بہت سے ممالک کی سرحدوں کا تعین دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔ اور دنیا کے نقشے کی شکل آج بھی بعض تبدیلیوں کیساتھ وہی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد تھی۔
1945 میں جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد دنیا میں دوسرے ملک کو فتح کرنے کیلیے جنگیں ہونا کیا بند ہو گئی ہیں یا انکی نوعیت بدل گئی ہے۔ اور کیا آجکل کے زمانے میں کوئی ملک کسی اور ملک پر یا اسکے علاقے پرقبضہ کر سکتا ہے؟ اور اگر قبضہ کر بھی لے تو کیا وہ اسکو برقرار رکھ سکتا ہے؟
ایک نوجوان امریکی ریسرچرDan Altman جو کہ جارجیا سٹیٹ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ہیں نے اس بارے میں ایک مکمل تحقیق اور ڈیٹا کیساتھ ایک انتہائی دلچسپ اور سیرحاصل ریسرچ پیپر جاری کیا ہے۔ آئیے اسی ریسرچ کی روشنی میں ان سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ 1945 کے بعد کسی ملک کے کھل کر دوسرے ملک پر حملہ کرنے یعنی کھلی اور فل فلیج جنگ کے واقعات میں بہت کمی واقع ہوئی ہے بلکہ ایسے صرف چند واقعات ہی ملتے ہیں ۔ 1945 کے بعد صرف 4 واقعات ایسے ہیں جب ایک ملک نے دوسرے ملک پر مکمل طور قبضہ کرنے اور اسکو اپنے اندر ضم کرنے کی کوشش کی
1۔ 1950 کی دہائی میں جب شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کیا اور جنگ میں دونوں ممالک کے اتحادی بھی شامل ہوئے یہ حملہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں بالآخر ناکام ہوا کیونکہ شمالی اور جنوبی کوریا آج بھی الگ الگ ملک ہیں۔
2۔ 1975 میں انڈونیشیا نے پرتگال سے آزادی پانے والے مشرقی تیمور پر فورا” حملہ کردیا اوربالآخر یہ مہم بھی ناکام ہی ثابت ہوئی کیونکہ 2002 میں مشرقی تیمور انڈونیشیا سے بھی آزادی حاصل کر کے ایک آزاد ملک بن گیا۔
3۔ 1990 میں عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا لیکن وہ بھی برقرار نہی رہ سکا اور عراق کو فوجیں کویت سے واپس بلانا پڑیں۔
4۔ چوتھی اور آخری مثال شمالی ویتنام کی جنوبی ویتنام پر حملے اور پھر قبضے کی ہے جو کہ آج تک کامیابی سے جاری ہے۔ لیکن اس کامیابی کے پیچھے بھی شائد راز یہ ہے کہ 1954 تک ویتنام ایک ہی ملک تھا 1954 میں اسکو شمالی اور جنوبی دو حصوں میں قسیم کیا گیا تھا colonial پاورز نے 1954 میں فرنچ انڈو چائنہ کہلانے والے ملک کو ایک معاہدے کے تحت 3 حصوں مین تقسیم کر دیا تھا لائوس،کمبوڈیا اور ویتنام۔ اور ویتنام کو پھر مزید دو ھصوں شمالی اور جنوبی ویتنام میں تقسیم کیا گیا تھا۔ بہرھال ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ واحد مثال ہے جب 1945 کے بعد کسی ملک نے دوسرے پر قبضہ کیا اور وہ آج بھی کامیابی سے جاری ہے اور شمالی اور جنوبی ویتنام ملکر ایک ملک سوشلسٹ ریپبلک آف ویتنام بن چکے ہیں۔
یہ تو بات تھی پورے ملک پر قبضہ کرنے کی لیکن اگر ہم چھوٹے لیول کی سمال سکیل جنگوں کی بات کریں تو ان میں بھی 1945 کے بعد بہت کمی آ چکی ہے۔ دوسرے ملک کے علاقہ پر قبضہ کرنے کیلیے جنگوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جانے کی یہ 3 وجوہات ہیں۔
1۔ رائے عامہ کی مخالفت۔ ایک سروے کیمطابق 47فیصد امریکی اور 37 فیصد آسٹریلوی عوام کی رائے ہے کہ اگر کوئی ملک دوسرے ملک کی سرزمیں پر قبضہ کر لے تو غیرجانبدار ممالک کو اپنی متحدہ فوج استعمال کرتے ہوئے جارح ملک کو مقبوضہ ملک کے علاقے سے نکال باہر کرنا چاہئیے۔ اور اسی سروے کے 75فیصد لوگوں کی رائے میں قبضہ کرنے والے ملک پر سخت ترین معاشی پابندیاں لگنی چاہئییں۔
2۔ مہذب قوانین۔ دوسری وجہ ہے انسان کا مہذب ہو جانا اور مہذب قوانین کا اطلاق کرنا جنگوں اور تشدد کے خلاف۔ یعنی آجکل کے اقوام متھدہ کے قوانین انتہائی سخت ہو چکے ہیں بہت مشکل ہو چکا ہے کہ کوئی ملک دوسرے کے علاقے پر قبضہ کر پائے۔2014 میں رشیا نے کریمیا کے علاقے پر قبضہ کیا ہے جو کہ آج تک برقرار بھی ہے لیکن اسکے نتیجے مین روس کو سخت معاشی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
3۔ قبضہ برقرار رکھنے میں مشکلات۔ 1945 سے اگر کوئی ملک دوسرے ملک کے علاقے پرقبضہ کرتا تھا تو 80 فیصد واقعات میں جغرافیائی سرحدیں بدل جاتی تھیں یعنی 100 میں سے 80 واقعات کے نتیجے میں حملہ آور ملک جس علاقے پر قبضہ کیا ہوتا اسکا علاقہ اپنے اندر ضم کر لیتا تھا لیکن 1945 کے بعد یہ شرح 80 فیصد سے کم ہو کر صرف 30 فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی اب اگر کوئی ملک کسی علاقے پر قبضہ کر بھی لیتا ہے تو اسکو برقرار رکھنے کے امکانات بہت ہی کم ہو چکے ہیں۔ عراق کا کویت پر قبضہ اور پھر فوجیں نکال لینا اس کی بڑی مثال ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگیں تو آج بھی ہو رہی ہیں چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی تو ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ آج کے ممالک یا انسان نسبتا” محفوظ ہیں پرانے زمانے کے انسان سے۔ اس سوال کا جواب بھی اس تحقیق میں موجود ہے اور اسکے مطابق اب جنگوں کی نوعیت بدل گئی ہے اب عام طور پر حملہ آور ممالک 2 طرح کی سٹریٹیجیز کے تحت کسی دوسرے ملک پر حملہ یا قبضہ کرتے ہیں۔
1۔ کسی علاقے پر ایک سے زیادہ ممالک کا کلیم یا کسی علاقے کی ملکیت پر اختلاف ہونا۔
یہ سب سے بڑی وجہ ہے آجکل کی جنگوں کی۔ اسرائیل کا عربوں کی سرزمیں ہتھیانا،پاکستان اور بھارت کا کشمیر پر جھگڑا اور جنگیں،یورپ کی Baltic states کی جنگیں،بھارت اور چین کا لداخ کا معاملہ یہ سب مثالیں اسی پہلی وجہ یا سٹرتیجی کی ہیں۔
2۔ دوسرا طریقہ آجکل کے جدید دور میں یہ ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کے بجائے کسی بڑی آبادی والے شہر کے غیرآباد یا انتہائی کم آبادی والے چھوٹے چھوٹے علاقوں پر اپنی فوج اتار دیتے ہیں۔ چھوٹے علاقے پر قبضہ کرنے کا فائدہ ہہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں اتنا شور نہی مچتا جتنا کسی بڑے علاقے یا پورے ملک پر حملہ کرنے کیصورت میں ہوتا ہے۔ اور اس قسم کی صورتحال میں مظلوم ملک کے اتحادی اور دوست ممالک کے جنگ میں شامل ہونے کے چانسز بھی انتہائی کم ہو جاتے ہیں۔ریسرچ کے ڈیٹا کے مطابق 1945
کے بعد سے آج تک 63 اس طرح کے واقعات ہوئے جب کسی ملک نے دوسرے کے چھوٹے سے علاقے پر قبضہ کیا ہو اور ان 63 واقعات میں سے صرف 5 میں ایسا ہوا ہے کہ جس ملک پر حملہ ہوا ہو اسکے کسی دوست یا اتحادی ملک نے اس مظلوم ملک کےدفاع میں اپنی فوج کو گولی چلانے کا حکم دیا ہو۔ 1967 میں اسرائیل کے خلاف مصر،شام اور اردن کا فلسطین کے دفاع میں اپنی فوجیں اتارنا اور 1974 میں سائپرس کےجزیرے میں ترکی اوریونان کی لڑائی اسکی مثالیں ہیں۔چین کا بھارت کے کلیم والے لداخ کے علاقوں پر قبضہ اسکی بہترین اور تازہ ترین مثال ہے۔
چھوٹے علاقے کی نسبت اگر پورے ملک پر حملہ ہو جائے تو حملہ آور کیخلاف مظلوم ملک کے اتحادی اور دوست ممالک فورا” حرکت میں آ جاتے ہیں عراق کویت جنگ میں عراقی فوج کو کویت سے بےدخل کرنا اور شمالی کوریا کے جنوبی کوریا پر حملے کی مثالیں اسکا واضح ثبوت ہیں۔
جبکہ پہلی جنگ عظیم تو شروع ہی اسی وجہ سے ہوئی تھی جب جرمنی نے بیلجئیم پر حملہ کر دیا تھا تو برطانیہ کو انوالو ہونا پڑا تھا اور دوسری جنگ عظیم بھی جرمنی کے پولینڈ پر ھملے ہی سے شروع ہوئی تھی جسکے نتیجے میں اتحادی ممالک فرانس اور برطانیہ جنگ مین کود پڑے تھے۔
اگر ہم چھوٹے علاقے پر قبضہ کرنے والے واقعات کا جائزہ لیں تو اس سے یہ بات بھی واضح طورپر ثابت ہوتی ہے کہ نسبتا بڑے علاقے یا پورے ملک پر قبضہ کرنے کے بجائے چھوٹے علاقے پر قبضہ کر کے برقرار رکھنا اب بھی زیادہ کامیاب سٹرٹیجی ہے۔ ایسا قبضہ کر کے برقرار رکھنے کے چانسز پچاس فیصد تک ہیں۔ان شارٹ پورے ملک کی بجائے چھوٹے علاقے پر قبضہ کرنے کیصورت میں جنگ کے چانسز بھی کم ہوتے ہیں اورکامیابی سے قبضہ برقرار رکھنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے آجکل کے زمانے میں حملہ آور ملک کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوسرے ملک کےچھوٹے سے علاقے پر قبضہ کرکے پوری کوشش کی جائے کہ جنگ نہ ہونے پائے اور سفارتی اور سیاسی محاز پر اپنے قبضے کو برقرار رکھا جائے۔
کم آباد یا بالکل غیرآباد علاقے پر قبضے سے بھی جنگ کے چانسز کم ہو جاتے ہیں نسبتا” کسی بڑی آبادی والے علاقے پر قبضہ یا حملہ کرنے سے۔ 1918 سے 2018 کے ڈیٹا کے مطابق جب کسی ملک نے کسی دوسرے ملک کے ایک لاکھ یا زیادہ آبادی والے علاقے پر قبضہ کیا تو 78 فیصد واقعات میں جنگ چھڑ گئی اور اگر یہی حملہ کم ابادی والے دیہات وگیرہ مین ہوا تو صرف 36فیصد واقعات میں اور غیرآباد علاقے کی صورت میں صرف 9فیصد واقعات میں جنگ ہوئی۔
یعنی ہم کہ سکتے ہیں غیرآباد علاقے پر حملے کیصورت میں جس ملک پر ھملہ ہوتا ہے اسکے جوابی ھملہ کرنے کے چانسز بہت کم ہیں نسبتا” آبادی والے علاقے پر ھملہ کیصورت میں۔ یہی وجہ ہے پچھلی ایک صدی کے ریکارڈڈ واقعات کے مطابق انسانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ آبادی والے شہروں کی نسبت غیرآباد علاقوں پر زیافہ حملے ہوئے ہیں۔ یعنی جنگوں کی نوعیت میں یہ بھی ایک اہم تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔
دوستوتاریخ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ چھوٹے یا بغیرآبادی والے علاقے پر حملہ کرنا بھی جنگ سے بچائو کی گارنٹی نہی ہے یقینا” جب 1982 مین ارجنتائن کا Falk land Island پر ھملہ اور پاکستان اور بھارت کی کارگل کی لڑائی اسکی بڑی مثالیں ہے۔یعنی ہم کہ سکتے ہیں کہ چھوٹے علاقے پر قبضہ کرکے مکمل جنگ نہ چھڑنے کے حربے استعمال کرنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔اوراسکے نتیجے میں پوری جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔