ایک ایسا بادشاہ جس نے ایک عورت کی محبت میں اپنے تخت کو چھوڑ یا تھا۔ اور یہ بادشاہ بھی کوئی معمولی سلطنت کا بادشاہ نہی تھا یہ بادشاہ برٹش ایمپائر کا شہنشاہ ایڈورڈ 8 تھا اور اسکی ایمپائر کینیڈا سے لیکر آسٹریلیا تک پھیلی ہوئی تھی سورج غروب نہی ہوتا تھا اس وقت کی برطانوی سلطنت میں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ کوئی سینکڑوں سال پرانا قصہ نہی صرف 85 سال پرانی بات ہے بیسوی صدی عیسوی کی۔
Edward VIII جو کہ بعد میں پرنس ایڈورڈ،ڈیوک آف ونڈسر duke of windsor کہلائے 23جون 1894 کو پیدا ہوئے۔ وہ انگلینڈ کے شہنشاہ جارج 5 کے بیٹے اور ملکہ وکٹوریہ کے پڑپوتے تھے۔ انکی پیدائش 1837 سے 1901 تک تخت برطانیہ پر براجمان رہنے والی ملکہ وکٹوریہ کے عہد میں ہی ہوئی تھی۔
ایڈورڈز لڑکپن سے ہی عاشق مزاج تھا اور کئی دفعہ شاہی پروٹوکول کی خلاف ورزی کرچکا تھا۔ وہ رائل نیوی کالج میں ہی تھا کہ انگلینڈ کے شہنشاہ ایڈورڈ 7 کی وفات ہوگئی اور اسکا باپ جارج پنجم بادشاہ بن گیا یہ مئی 1910 کی بات ہے۔
اب کیونکہ اسکو اگلا بادشاہ بننا تھا اس لیے اسکو کالج سے اٹھا لیا گیا بغیر تعلیم مکمل کیے ہی۔ اسکو آکسفورڈ یونیورسٹی کے magdalen college میں داخل کروایا گیا لیکن وہاں بھی گریجوایشن مکمل کیے بغیر ہی چھوڑ گیا۔
1914 میں جنگ عظیم اول شروع ہوئی تو ایڈورڈ محاز پر جانا چاہتا لیکن اس لیے اجازت نہی دی گئی کہ اگر ولی عہد دشمن کے ہتھے چڑھ گیا تو اس نقصان کی تلافی ناممکن ہو گی۔ بہرھال ایڈورڈ اگلے مھازوں پر وقتا”فوقتا” جاتا رہتا تھا اور اس نے 1916 میں ملٹری کراس کا ایوارڈ بھی حاصل کیا ان ہی وجوہات کی بنا پر وہ برطانوی افواج مین کافی مقبول تھا۔
ایڈورڈ کے معاشقوں کی وجہ سے اسکے والد جارج پنجم اوربرطانوی وزیراعظم فکرمند رہتے تھے بلکہ جارج پنجم نے تو یہاں تک کہ دیا تھا کہ میرے بعد یہ لڑکا 12 مہینے میں سب کچھ برباد کر دیگا۔ جارج پنجم ایڈورڈ پر اپنے دوسرے بیٹے البرٹ جو بعد میں بادشاہ جارج 6 بنا یا اسکی بیٹی الزبتھ دوئم جو کہ موجودہ کوئین ہے کو بادشاہت کیلیے زیادہ بہتر امیدوار سمجھتے تھے۔
اسی دوران جارج پنجم کی اچانک وفات ہونے پر ایڈورڈ 20 جنوری 1936 کوانگلیند کا شہنشاہ بن گیا۔
بادشاہ بننے کے بعد بھی ایدورڈ نے کئی غیرذمہ دارانہ اقدامات کیے جن کو گورمنٹ کے کاموں میں مداخلت سمجھا جاتا تھا اور وزراء سرکاری کاغزات محل میں بھجوانے سے کتراتے تھے کہ کہیں یہ شہنشاہ کی ہونے والی بیوی wallis simpson
کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ یہ خاتون کون تھی؟ یہ اس کی محبوبہ تھی اور پچھلے کئی برس سے ایدورڈ کیساتھ تھی۔ یہ ایک ایسی امریکی عورت تھی جو پہلے بھی ایک شادی سے طلاق لے چکی تھی اور اب دوسرے خاوند سے اسکا طلاق کا معاملہ چل رہا تھا۔ برطانوی ایجنسیاں ایدورڈ کے بادشاہ بننے سے پہلے سے اس معاشقے سے آگاہ تھیں بلکہ خبردار بھی کر چکی تھیں کہ ولی عہد مکمل طور پر اس عورت کے کنٹرول میں ہے۔
سمپسن ایک چالیس سالہ خاتون تھی اور شکل و صورت کی بھی کوئی خاص نہی تھی لیکن نا جانے ایڈورڈ کو اس میں کیا نظر آیا تھا کہ اس کے لیے مرا چلا جا رہا تھا۔ شائد اسی کا نام محبت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سمپسن اسکی بالکل بھی اس طرح عزت نہی کرتی تھی جس طرح کہ ایک ولی عہد کی کرنی چاہئیے سمپسن اس سے ایسا برتائو کرتی تھی جیسا کسی عام انسان سے کیا جاتا ہے شائد اسکی یہی بات ایڈورڈ کو اچھی لگ گئی ہو کیونکہ کوئی بھی اور عورت سلطنت برطانیہ کے ولی عہد سے اس طرح کے برتائو کا تصور بھی نہی کر سکتی تھی۔ ابھی بادشاہ بنے ایڈورد کو چند ہی ماہ ہوئے تھے کہ اس نے wallis simpson سے شادی کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ برطانوی وزیراعظم stanley baldwin نے اسکو سمجھایا کہ چرچ آف انگلینڈ کے مطابق وہ ایسی طلاق یافتہ عورت سے شادی نہی کر سکتا جس کا خاوند ابھی زندہ ہو اور سماجی طور پر بھی ایک غیر برطانوی عورت سے شادی عوام کبھی قبول نہی کریں گے۔
ایڈورڈ نے اس پر تجویز پیش کی کہ وہ wallis simpson سے شادی کر لیتا ہے لیکن اسکو ملکہ کے القابات سرکاری طور پر نہ دیے جائیں اور نہ ہی اس شادی کے نتیخے مین ہونیوالی کسی اولاد کو بادشاہت کے لیے امیدوار مانا جائے۔ ایڈورڈ کی اس تجویز ناصرف برطانوی پارلیمنٹ نے ریجیکٹ کر دیا بلکہ تاج برطانیہ کے اندر آنے والی نیم خودمختار ریاستوں آسٹریلیا،سائوتھ افریقہ،کینیڈا اور نیوزی لینڈ نے بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ایڈورڈ کی اس تجویز کو برطانوی سیاستدان چرچل جو بعد میں وزیراعظم بنے کی حمایت حاصل تھی۔
اب کنگ ایڈورڈ کے پاس 3 ہی آپشن تھے پہلا یہ کہ وہ سمپسن کو چھوڑ دے جسکے لیے وہ کسی طور بھی تیار نہی تھا،
دوسرا آپشن یہ تھا کہ وہ اپنی کابینہ کے مشورے کے خلاف سمپسن سے شادی کر لے لیکن اس صورت میں کابینہ کو استعفی دینا پڑتا اور پوری سلطنت میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا تھا، تیسرا اور آخری آپشن یہ تھا کہ ایدورڈ بادشاہت سے دستبردار ہو جائے اور تخت چھوڑ کر سمپسن سے شادی کر لے۔
ایڈورڈ نے تیسرا آپشن چنا اور اپنے بھائی پرنس البرٹ جو کہ بعد میں بادشاہ جارج 6 بنا کے حق میں دستبردار ہو گیا۔ یاد رہے یہ وہی پرنس البرٹ ہے جسکی زبان مین لکنت تھی اور وہ اسکے لیے سپیچ تھراپی کروایا کرتا تھا اور اسکے بارے میں ہالی وڈ کی مشہور فلم The King’s Speech بھی بن چکی ہے۔ ایڈورڈز نے تحریری طور پر دستبرداری ایک کاغذ پر لکھ کر برطانوی وزیر اعظم کو دے دی اور ریڈیو پر خود بھی آ کر اعلان کر دیا۔
(میرے لیے یہ ممکن نہی کہ میں بادشاہت کی بھاری بھرکم ذمےداریوں سے مکمل طور انصاف کر سکوں اس عورت کے بغیر جس سے میں محبت کرتا ہوں)
جارج 6 نے بادشاہت سے دستبردار ہونے والے اپنے بھائی کو duke of windsor بنا دیا۔ ونڈسر برطانوی شاہی خاندان کی برطانیہ میں ہی ایک رہائش گاہ تھی جو کہ اب دستبردار ہونیوالے بادشاہ کی رہائش گاہ بننے جا رہی تھی۔ بادشاہ نے ایڈورڈ سے اسکے شاہی القابات اور پروٹوکول بھی واپس نہی لیے اور اسکو سمپسن کو بھی اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی اور آبائی جائیداد بھی کافی تھی جو کہ ایڈورڈ کو ترکے میں ملی تھی۔ شاہی اندان کا ممبر ہونے کی وجہ سے ایڈورڈ اب نہ تو ہائوس آف کامنز کا الیکشن لڑ سکتا تھا جو کہ برطانوی پارلیمنٹ کا لوئر ہائوس ہے اور وہ ہائوس آف لارڈز جو کہ اپر ہائوس ہے میں کسی سیاسی موضوع پر بات بھی نہی کر سکتا تھا۔
بادشاہت سے دستبرداری کے چند ہی ماہ بعد جون 1937 میں فرانس میںwallis sympson سے شادی کر لی۔ اس شادی میں شاہی خاندان کا ایک بھی فرد شریک نہی ہوا۔ ایڈورڈ کو امید تھی کہ اسکا بھائی تو کم از کم ضرور آئیگا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن جو کہ اسکا کزن تھا اس سے بھی امید تھی لیکن کوئی بھی نہ آیا۔ یہ صورتحال ایڈورڈ کیلیے بہت اداسی کا باعث بنی کیونکہ شادی کی یہ تقریب بے رونق سی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ایڈورڈ کو جنگ میں حصہ لینے کیلیے کہا گیا لیکن وہ بظاہر رضامند نہی لگ رہا تھا اور ٹال متول سے کام لے رہا تھا۔ اسکو برطانیہ واپس طلب کیا گیا۔ وہ اعزازی طور پر فیلد مارشل تھا اسکو میجر جرنل بنا کر فرانس کے مھاز پر بھیج دیا گیا۔ فرانس مین اس پر اتحادی کی معلومات جرمنز کو لیک کرنے کے الزامات بھی لگے ۔ اسکی جرمن سے ہمدرددی کی وجہ سے چرچل نے اسکو بہاماس بھیج دیا گورنر بنا کر جو کہ ایک برٹش کالونی تھا۔ ایڈورڈ اس فیصلے پر بالکل بھی خوش نہی تھا بلکہ کہا جاتا ہے کہ چرچل نے اسکو کورٹ مارشل کی دھمکی دیکر زبردستی بھیجا تھا۔
ستمبر 1945 میں کئی سال بعد وہ انگلینڈ آیا تو صحافیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اسکا مستقل فرانس میں رہنے کا پروگرام نہی ہے۔ وہ خوشی سے کوئی جاب کرنا چاہے گا اور اگر انگلینڈ میں اسکو کوئی جاب آفر کی جائگی تو وہ خوشی سے قبول کریگا۔ وہ اب اپنے بھائی بادشاہ کے رحم و کرم پر تھا اور بادشاہ کی مرضی کے بغیر انگلینڈ نہی آسکتا تھا۔ جنگ ختم ہو چکی تھی اور ایڈورد واپس فرانس آگیا تھا۔ اسکے برطانیہ واپسی کی خبریں آتی رہیں خصوصا” جب 1953 میں اسکی چرچل سے ملاقات ہوئی تو خبریں آئیں کہ اسکو گورنر بنایا جائیگا اور ایک بار پھر اس نے صحافیوں کو کہا کہ میں انگلینڈ کیلیے ہمیشہ دستیاب ہوں لیکن یہ ہو نہ سکا۔
فرانس مین اسکو پرائئویٹ سیکٹر میں نوکریاں آفر ہوئیں لیکن شاہی خاندان کی روایات کی وجہ سے وہ قبول نہی کر سکتا تھا۔ فرانس میں ایڈورڈ کتابیں لکھا کرتا اور باغبانی سے شغل کیا کرتا اسکی بیوی سمپسن بھی آرٹیکلز وغیرہ لکھا کرتی۔ ایک دفعہ اس نے ایک کالم مین لکھا کہ
“میرے خاوند کیساتھ بہت زیادتی کی جا رہی ہے اور گزشتہ 24 سالوں سے سزا دی جا رہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بچے کو معمولی سرکشی پر 24 سال تک کوڑے مارے جائیں”
بہرحال ایڈورڈ مرتے دم تک سمپسن کے ساتھ شادی کے عہد پر قائم رہا جو کہ شائد اسکی محبت کی سچائی کی گواہی کیلیے کافی ہے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد بھی فرانس میں اسکے معاشقے رکے نہی تھے۔ جو بھی ہو ایک عورت کی خاطر شہنشاہت سے دستبردار ہو جاناکوئی عام بات نہی۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پری ہے کہ تخت کی خاطر بھائی نے بھائی اور باپ نے بیٹے تک کی گردنیں اڑا دیں اور ایسے میں ایڈورڈ کا برطانوی تخت کو ٹھکرا دینا جسکی حدود ہندوستان سے لے کر کینیڈا تک پھیلی ہوئیں تھیں بلا شبہ اسکو کم ازکم بیسویں صدی کا تو سب سے بڑا عاشق کہلوانے کا حقدار تو ٹھہرا ہی دیتی ہے۔
1972 میں ایڈورڈ کی وفات فرانس مین ہہ ہوئی اسک گلے کا کینسر ہو گیا تھا اور وفات سے چند دن پہلے ہی ملکہ الزبتھ2 نے فرانس مین اس سے ملاقات کی تھی جو کہ فرانس کے دورہ پر تھی۔ یاد رہے یہ وہی ملکہ ہے جو آج بھی برطانیہ کی ملکہ ہے ایڈورڈ کے بھائی جارج6 کی وفات کے بعد 1952 میں تخت نشین ہوئی تھی۔ یہ ملکہ ایڈورڈ کی بھتیجی ہے اور جارج 6 کی بیٹی ہے۔ ایڈورڈ کی اپنی کوئی اولاد نہی تھی وہ بانجھ تھا۔ ایڈورڈ کی لاش کو برطانیہ واپس لایا گیا اور پورے اعزاز کیساتھ Royal burrial ground مین دفن کیا گیا اسکی بیوی کو اس دوران بکنگھم پیلس میں ٹھرایا گیا۔آخری رسومات مین ملکہ اور شاہی خاندان کے دوسرے افراد نے شرکت کی۔
شاہی قبرستان مین دفن ہونے کی اجازت ملکہ الزبتھ نے ایک معاہدے کے تحت 1965 میں ایڈورڈ اور سمپسن دونوں کو دی تھی۔ 14 سال بعد سمپسن کی وفات پر اسکو بھی اسی قبرستان میں ایڈورڈ کے پہلو میں پورے شاہی اعزاز کیساتھ دفن کیا گیا۔
حال ہی میں منظرعام پر آنے والے سمپسن کے خطوط جو کہ اس نے اپنے سابقہ خاوند earnest کو لکھے سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ یہ بیسویں صدی کی عاشقی کی سب سے بری اور مشہور داستان اتنی بھی قابل رشک نہی تھی جتنی بظاہر نظر آتی تھی۔ ان خطوط سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ سمپسن اپنے سابقہ خاوند کو خوش دلی سے نہی چھوڑ رہی تھی اور وہ ایڈورڈ سے اس طرح محبت میں مبتلا نہی تھی جس طرح ایڈورڈ اس سے تھا بلکہ سمپسن کا خیال تھا کہ ولی عہد کا کچھ عرصے بعد اس سے دل بگر جائیگا اور اسکی جگہ کوئی اور نوعمر خاتون لے لے گی لیکن شائد اسکو اندازہ نہی تھا کہ ایڈورڈ کس بری طرح اسکی محبت مین گرفتار ہو چکا تھا۔ مئورخین پر یہ چیز بھی بعد میں کھلی کہ جب ایڈورڈ بادشاہ بن چکا تھا اور Wallis simpson فرانس میں تھی تو وہ سمجھ رہی تھی کہ اب ایڈورڈ اسکو بھول جائیگا لیکن ایسا ہوا نہی۔ سمپسن سے ایڈورڈ کے بادشاہت سے دستبردار ہونے سے چند ہی دن پہلے فرانس سے اسے ایک خط لکھا جس میں کہا کہ وہ اسے بھول جائے اور وہ اپنے سابقہ Earnest شوہر کیساتھ زیادہ خوش رہیگی اور اگر اس نے بادشاہت چھوڑ بھی دی تو شائد انکی زندگی ایک ساتھ زیادہ خوشگوار نہ گزر پائے۔ لیکن اس خط کے جواب میں ایڈورڈ نے سمپسن کو کہا کہ وہ اپنا گلا کاٹ لے گا اگر اگر اسکی شادی سمپسن سے نہ ہوئی۔ شائد یہی وہ وقت تھا جب سمپسن سے مجبورا” یا پھر نیم دلی سے ایڈورڈ کو قبول کر لیا۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ایڈورڈ نے اپنی یہ محبت مرتے دم تک نبھائی۔