Home Geopolitics بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان انکلیوز کا مسئلہ

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان انکلیوز کا مسئلہ

by bigsocho
0 comment

 بنگلہ دیش اور بھارت کا بارڈر جو کافی ٹیڑھا میڑھا اور پیچیدہ ہے۔  یہ پیچیدگی صرف یہیں تک محدود نہیں تھی-بھلا وہ کیسے؟آپ کے پُر تجسس مائنڈ میں یہ سوال تو ضرور آیا ہو گا-یقینا” آپ یہ بھی سوچ رہے ہونگے کہ ایک بین الاقومی بارڈر کے اطراف میں دو ہی تو ملک ہوتے ہیں اور کیا ہو سکتا؟

بنگلہ دیش کے اندر 102 ایسے علاقے تھے جو بھارت کی ملکیت تھے اور 71 ایسے ہی علاقے بھارت کے اندر تھے جن کا کنٹرول بنگلہ دیش کے پاس تھا-لیکن کیا یہ پیچیدگی یہیں ختم ہو جاتی ہے؟ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ “نہیں”، تو شاباش آپ سو فیصد ٹھیک سوچ رہے ہیں بات اس سے بھی بڑھ کے ہے، چلئے جان لیتے ہیں وہ کیسے؟

 کسی بھی ملک کا وہ ٹکڑا یا حصہ  جو مکمل طور پر کسی ایک دوسرے ملک سے گھرا ہو یعنی پورے کا پورا دوسرے ملک کے اندر واقع ہو اسے انکلیوEnclave کہتے ہیں-فرض کریں ہمارے پاس دو ممالک A اور B ہیں-اب کانٹری A کے اندر کانٹری B کا کوئی ٹکڑا ہو جو مکمل طور پر A سے گھرا ہو یہ انکلیو اور فرسٹ آرڈر انکلیو کہلائے گا-لیکن اس فرسٹ آرڈر انکلیو میں پھر سے کانٹری A کا ٹکڑا بھی ہو سکتا ہے جو پوری طرح B کے اندر موجود ہو یہ سیکنڈ آرڈر انکلیو کہلائے گا، بات یہیں ختم نہیں ہوتی دوستو اس سیکنڈ آرڈر انکلیو میں بھی کانٹری B کا ٹکڑا ہو سکتا ہے جو A سے گھرا ہو اسے تھرڈ آرڈر انکلیو کہا جائے گا-

 بس ایسا ہی کچھ تھا بنگلہ دیش اور بھارت کے بارڈر میں بھی، بنگلہ دیش میں جو 102 بھارتی فرسٹ آرڈر انکلیوز تھے ان کے اندر 21 بنگلہ دیشی سیکنڈ آرڈر انکلیوز موجود تھے جبکہ اس پیچیدگی کو مزید پیچیدہ بنانے والا اور دنیا کا واحد تھرڈ آرڈر  انکلیو بھی انھی سیکنڈ آرڈر انکلیوز میں سے ایک کے اندر موجود تھا-

ایسے ہی بھارتی سرزمین پر موجود 51 بنگلہ دیشی فرسٹ آرڈر انکلیوز میں مزید سات بھارتی سیکنڈ آرڈز انکلیوز موجود تھے جبکہ یہاں کوئی تھرڈ آرڈر انکلیو موجود نہیں تھا-

انکلیوز کیسے وجود میں آئے؟

دوستو انکلیوز کی تاریخ کے بارے میں بھی کئی روایات ہیں ان میں سے ایک دلچسپ روایت یہ ہے کہ آج سے صدیوں پہلے یہ انکلیوز کوُچ بہار(Cooch Bihar) کے مہاراجہ اور رانگپور کے فوجدار کے درمیان شطرنج کے کھیل کے نتیجے میں وجود میں آئے-کہا جاتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے علاقے داؤ پر لگا کر شطرنج کھیلتے تھے، اور شکست کی صورت میں وہ یہ علاقے اپنے مخالف کے حوالے کر دیتے تھے-عام طور پر ان علاقوں کا رقبہ کم از کم 1 مربع کلو میٹر سے لیکر زیادہ سے زیادہ 25 مربع کلو میٹر تک تھا- لیکن اس روایت کے مستند ہونے پر بھی کئی سوال کئے جاتے ہیں-

ایک نسبتا جدید روایت کے مطابق اٹھارویں صدی کے آغاز میں مغلوں نے جب ان علاقوں کو فتح کیا تو وہ کئی علاقوں کا کنڑول حاصل ہی نہ کر سکے یا بعد  میں ہونے والے امن معاہدوں کے تحت یہ علاقے اپنے پرانے حکمرانوں کے پاس ہی رہے-مغلوں کے بعد جب یہ علاقے جب تاج برطانیہ کے کنٹرول میں آئے تب بھی ان انکلیوز کی یہی حثیت برقرار رہی- 

اس کے بعد جب بر صغیر کی تقسیم ہوئی تو  رانگ پور  انکلیوز کے ساتھ مشرقی  پاکستان کے حصہ بن گیا جبکہ کوُچ بہار کا علاقہ بھارت کا حصہ بن گیا-سائرل ریڈ کلف کی سربراہی میں جو حد بندی کمیشن بنایا گیا اس نے تقسیم کی ایک لکیر تو کھینچ دی لیکن انکلیوز کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا-اس طرح یہ یہ زمین کے چھوٹے بڑے ٹکڑے دو الگ ملکوں کے حصے میں آگئے اور تقسیم کے بعد پیدا ہونے والے کئی اور مسائل میں ایک یہ مسئلہ بھی شامل ہو گیا-اور ویسے بھی اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو دوستو وہ تمام ممالک جو برطانیہ کی کالونیز رہے ہیں وہاں برطانوی جاتے وقت ایسے کئ حل طلب ایشوز چھوڑ کر گئے ہیں جن میں سے کچھ ابھی تک حل نہیں ہوسکے، یہ بھی کوئی نئی بات نہیں تھی-

انکلیوز کے باسیوں کو درپیش مسائل

چلئے اب یہ جان لیتے ہیں کہ ان انکلیوز میں رہنے والوں کو کیا مسائل درپیش تھے؟  سب سے پہلا مسئلہ جو انھیں درپیش تھا وہ یہ کہ اگر ان لوگوں کو کسی کام کے سلسلے میں اپنے انکلیو کی حدود سے باہر جانا ہوتا تو اس کے لئے باقاعدہ ویزا درکار ہوتا تھا جو کہ انھیں اپنے ملک کی ایمبیسی سے ملتا تھا- اب ایمبیسی اتنے چھوٹے سے انکلیو میں تو بنائی نہیں جا سکتی تھی-کسی امن و امان کے مسئلے کی صورت میں میزبان ملک کی پولیس بھی ان مدد نہیں کرتی تھی-یہاں  رہنے والوں کو کسی بیماری کی صورت میں میڈیکل کی سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں-انکلیوز کے باسیوں کے بچے تعلیم سے محروم تھے-اسطرح کے مسائل کی وجہ سے یہ علاقے بنیادی تعمیر و ترقی سے بھی محروم رہے- یہاں رہنے والے تقریبا مکمل طور پر اپنے ملک کی بجائے اپنے میزبان ملک کے رحم و کرم پرہی ہوا کرتے تھے-

انکلیوز کا کیا حل نکالا گیا؟

تقسیم کے فورا بعد ابتدائی سالوں میں انکلیوز کا مسئلہ سیاسی طور پر کافی حساس تو رہا لیکن اسے نظر انداز بھی کیا جاتا رہا-اس کی ایک وجہ تو پاکستان اور بھارت کے خراب تعلقات اور بعد از تقسیم پیدا ہونے والے دوسرے گممبھیر مسائل تھے-

انکلیوز کے ایشو کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی باقاعدہ کوشش 1958 میں ہوئی جب پاکستان کے وزیر اعظم فیروز خان نون اور بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے درمیان ایک معاہدہ ہوا-اس معاہدے کو نہرو-نون ایگریمنٹ(Nehru-Noon Agreement)  کہا جاتا ہے- اس کے مطابق دونوں ممالک اس بات کو نظر انداز کر تے ہوئے، کہ انھیں اپنے زیادہ رقبے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اپنے اپنے انکلیوز کو ایکسچینج کر دیں گے-لیکن یہ معاملہ بعد میں بھارتی سپریم کورٹ میں چلا گیا-اور پھر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ اس ٹرانسفر کے لئے آئین میں ترمیم درکار ہوگی-معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھارتی اسمبلی میں آئینی ترمیم لائی گئی لیکن یہ ترمیم کچھ اعتراضات اور پاک بھارت کے خراب تعلقات کی وجہ سے پاس نا ہو سکی-اسطرح اس مسئلے کے حل کی خاطر ہونے والی کوششوں میں سے پہلی ناکام ہوگئی-اور یہ مسئلہ جوں کا توں رہا-

اس کے بعد 1971 مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا اور اس مسئلے کے حل کے لئے  نئے سرے سے کوششوں اور بات چیت کا آغاز ہوا-بالاخر 1974 میں نومولود بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان اور اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایک

 Land Boundry Agreemet سائن کیا-اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک نے انکلیوز کے ٹرانسفر سمیت اپنے تمام باقی بارڈر ایشوز کو بھی حل کرنا تھا-بنگلہ دیش نے جلد 1974 میں ہی اس معاہدے کی توثیق کر دی-لیکن بھارت ایسا کرنے میں ناکام رہا اور یہ ایشو پھر سے سیاست کا نشانہ بن گیا-

چونکہ بنگلہ دیش میں بھارتی انکلیوز کی تعداد اور رقبہ، بھارت میں بنگلہ دیش کے انکلیوز کی تعداد اور رقبے سے زیادہ تھا-یعنی اس تبادلے کیصورت میں بھارت کا زیادہ رقبہ بنگلہ دیش کے پاس جا رہا تھا اور بدلے میں بنگلہ دیش سے کم رقبہ مل رہا تھا لہذا بھارت میں اس معاہدے کو Loss of territory کے طور پر دیکھا جارہا تھا-یوں مسئلے کے حل کی طرف ہونے والی یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی-

چار دہائیوں پر محیط ڈیڈ لاک 2011 میں ایک بار پھر ٹوٹا-اب دونوں ممالک نے اپنے تمام بارڈر تنازعات کے حل کی ایک آخری کوشش کرتے ہوئے ایک پروٹوکول سائن کیا تاکہ 1974 کے لینڈ باؤنڈری اگریمنٹ(Land Boundary Agreement) پر عملدرامد کو یقینی بنایا جاسکے-بالاخر 2015 میں تمام تر غیر یقینی صورتحال کے باوجود آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا-اور جون 2015 کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی 41 سال کے عرصے کے بعد 1974 کے لینڈبارڈر اگریمنٹ کی توثیق کر دی-اب بنگلہ دیش اور بھارت لینڈ ٹرانسفر پر راضی ہو گئے-یعنی بنگلہ دیشی انکلیوز بھارت جبکہ بھارتی انکلیوز بنگلہ دیش کی سرزمین کا حصہ بنا لئے گئے-

انکلیوز باسیوں کی آبادی اور ان کا مستقبل؟

 2015 میں جب بھارت بھی اس بات پر رضامند ہوا کہ انکلیوز کو ایکسچینج کر دیا جائے اس وقت بنگلہ دیش میں واقع بھارتی انکلیوز میں 38000 انڈین  باشندے جبکہ بھارت کی حدود کے اندر واقع بنگلہ دیشی انکلیوز میں تقریبا 14000 بنگالی لوگ آباد تھے-یعنی دونوں طرف کے انکلیوز میں آباد لوگوں کی کل تعداد لگ بھک 52000 تھی-

 معاہدے کی رو سے انکلیوز کے باسیوں کو اپنے ملک اور ہوسٹ ملک دونوں میں سے کسی بھی ملک کی شہریت اختیار کرنے کا آپشن دیا گیا-لیکن یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ کل 52000 میں سے صرف ایک ہزار کے قریب لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے اصل ملک جانے کو ترجیح دی-باقی تمام لوگوں نے اپنے ہوسٹ ملک کی شہریت کا ہی انتخاب کیا یعنی اسی ملک کی جس کی جغرافیائی حدود کے اندر وہ رہ رہے تھے-اس کی وجہ بھی ظاہر ہے دوستو یہی تھی کہ وہ لوگ کئی دہائیوں سے وہاں آباد تھے تو ان کے لئے اس جگہ کو چھوڑ کر ایک نئے ماحول میں جانا یقینا” زیادہ مشکل ہوتا-انکلیوز میں رہنے والوں کو اس معاہدے کے بعد ۔بنیادی سہولیات تو حاصل ہو گئیں لیکن یہ علاقے اب ترقی کے لحاظ سے باقہ علاقوں کی نسبت کافی پسماندہ ہو چکے تھے-

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu