دنیا کے مختلف ملکوں میں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں۔۔ جنہوں نے حکومتوں کو شدید پریشان کررکھا ہے۔۔ ان تحریکوں اوراس کے نتیجہ میں ہونے والی خانہ جنگی میں لاکھوں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوچکی ہیں۔ یہ تحریکیں زیادہ تر معاشی طورپر غیرمستحکم ملکوں میں چل رہی ہیں۔ لیکن کیاآپ جانتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا جیسی سپرپاور کو بھی علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا ہے، یہ تحریکیں کن کن ریاستوں میں چل رہی ہیں۔۔ کب سے چل رہی ہیں۔ کیا یہ کامیاب ہوں گی یا نہیں۔۔اگر یہ کامیاب ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا۔اور کیا ان کے اثرات امریکا کے علاوہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے، ان تمام سوالوں کا ج واب دیں گے، ہم آپ کو اس رپورٹ میں۔۔۔۔
علیحدگی پسندریاستیں
توناظرین!۔۔ امریکا پچاس ریاستوں پر مشتمل فیڈریشن ہے۔ جس کا رقبہ اٹھانوے لاکھ تینتیس ہزار پانچ سو بیس مربع کلومیٹر ہے، دوسری جانب اس کی آبادی تینتیس کروڑ انیس لاکھ سے زائد ہے۔۔ یوں امریکا دنیا میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ٹاپ فائیو ممالک میں شامل ہے۔۔۔ امریکا جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کا امیرترین ملک ہے اوراس وقت دنیا کی واحد ڈیکلیئرڈ سپرپاور ہے۔۔۔ اب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ملک جس سے دو بدو لڑنا کسی بھی ملک کیلئے محال ہے، اس کے اندر بھی علیحدگی پسندوں کی تحریکیں چل رہی ہیں، اس کی ریاستوں میں کچھ میں تو عوام کی بڑی تعداد اکیلے ہی ملک بنانے کی خواہش رکھتی ہے، جبکہ بعض مقامات پر شہری دو یا اس سے زائد ریاستوں کو ملا کر اپنا ملک بنانے کے خواہشمند ہیں۔ جن ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان میں کیلی فورنیا California۔۔الاسکا Alaska۔۔ فلوریڈا Florida، ہوائی Hawaii، مینی سوٹا Minnesota، مونٹانا Montana، ساؤتھ کیرولینا South Carolina۔۔ اوریگون Oregon، ٹیکساس Texas اور ورمونٹ Vermont شامل ہیں۔ ان میں سے کیلی فورنیا، فلوریڈا اورٹیکساس ایسی ریاستیں ہیں جو الگ ہوئیں تو امریکا سپرپاور بھی نہیں رہے گا۔۔ امریکی ڈالرچینی یوآن سے بھی کمزور ہوسکتا ہے جبکہ ناصرف امریکا میں انتہاپسندی بڑھے گی بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بھی شدید خراب ہوجائیں گے۔۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگا۔۔ یہ ہم آپ کو بعد میں بتائیں گے پہلے ذرا علیحدگی کی تحریکوں اور ان کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈال لیتے ہیں۔۔
کنفیڈریشن اور فیڈریشن میں فرق
توجناب! امریکا نے چار جولائی 1776 کو برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔۔ آزادی کے وقت امریکا تیرہ ریاستوں پر مشتمل تھا، جس نے ایک کنفیڈریشن کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا۔ جس میں نیویارک، نیو جرسی، ورجینیا، ساؤتھ کیرولینا، نارتھ کیرولینا، پنسلوانیا، میری لینڈ اور نیوہمپشائر شامل تھیں۔۔میساچوسٹس Massachusetts، کنیکٹی کٹ Connecticut، روڈ آئی لینڈ Rhode Island، ڈیلاویئر Delaware اور جارجیا بھی بنیادی ریاستوں میں شامل ہیں۔۔ان ریاستوں نے بنیادی آئینی ڈھانچہ 1781 میں تیار کرلیا، جسے آرٹیکلس آف کنفیڈریشن اینڈ پرپیچوئل یونین Articles of Confederation and Perpetual Union کہا جاتا ہے۔اس کے آٹھ سال بعد 1789 میں امریکی آئین نافذ کردیا گیا، جس میں امریکا کو فیڈریشن کا درجہ دیدیا گیا۔۔
امریکا آزادی کے وقت ایک فیڈریشن نہیں بلکہ کنفیڈریشن تھا۔۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہوتا ہے تو جناب! کنفیڈریشن میں طاقت کا منبع ریاستیں ہوتی ہیں اور وفاقی حکومت ریاستوں کو جواب دہ ہوتی ہے جبکہ فیڈریشن میں وفاقی حکومت تمام اختیارات رکھی ہے اور ریاستیں اس حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں۔۔ کنفیڈریشن میں دفاع، خارجہ، خزانہ اور تجارت کے شعبوں کے علاوہ باقی تمام امور ریاستوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں تاہم فیڈریشن داخلہ، مواصلات، تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کا نظام بھی سنبھالتی ہے۔۔ کنفیڈریشن میں ریاستیں علیحدہ ہوکر اپنی الگ حکومت بھی بنا سکتی ہیں تاہم فیڈریشن میں ایسا ہونا انتہائی مشکل ہے بلکہ ناممکن ہی سمجھیں۔۔ جدید دنیا میں کنفیڈریشن کی ایک مثال یورپی یونین کی دی جاسکتی ہے، جس میں اٹھائیس ممالک شامل ہیں، دوسری جانب امریکا، پاکستان، جرمنی، میکسیکو، وینزویلا، روس، یواے ای، بھارت اور آسٹریلیا فیڈریشن کی مثالیں ہیں۔۔
تحریکیں چلی کیوں؟
امریکا میں علحیدگی کی آوازیں تو انیس ویں صدی کے اوائل میں ہی بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں لیکن سب سے سنجیدہ اور پہلی بڑی کوشش 1860 اور1861 میں ہوئی، جب گیارہ جنوبی ریاستوں نے امریکا سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور کنفیڈریٹ سٹیٹس آف امریکا Confederate States of America بنالی۔ تاہم 1865 میں امریکن سول وار میں اس تحریک کو فوجی طاقت سے کچل دیا گیا۔ ۔ان ریاستوں میں علیحدگی کی پہل ساؤتھ کیرولینا نے کی، جس کے بعد میسیسپی Mississippi، فلوریڈا، الاباما، جارجیا، لوزیانا Louisiana، ٹیکساس اور ورجینیا نے اس تحریک کو جوائن کیا، بعد میں ٹیکساس، ورجینیا، آرکنساس Arkansas، نارتھ کیرولینا اور ٹینیسی Tennessee بھی اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔۔ میسوری Missouri اور کینٹکی Kentucky نے بھی تحریک میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن وہاں کی ریاستی حکومتوں نے عوامی امنگوں کا ساتھ نہ دیا ۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق معاملات آئین میں ریاستوں کی علیحدگی سے متعلق ابہام کی وجہ سے زیادہ خراب ہوئے۔ جن کی سپریم کورٹ کے مختلف ججوں نے الگ الگ تشریح بھی کی ہے۔ اس تحریک کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ملک کی شمالی ریاستیں انڈسٹریلائزیشن کی وجہ سے زیادہ مالدار ہو رہی تھیں۔ جبکہ نسل پرستی بھی اس علیحدگی کی کوشش کی ایک بڑی وجہ بنی۔ بیس ویں اوراکسویں صدی میں بھی متعدد بار ریاستوں کی جانب سے علیحدگی کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔انیس سو اکہتر میں علیحدگی کی تحریکوں کو سیاسی عمل سے کامیاب بنانے کیلئے ایک جماعت لبریشن پارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔
کب کہاں کیا ہوا؟
اب ذرا مختلف ریاستوں میں علیحدگی کی کوششوں کی اب تک کی پیشرفت کا مختصرجائزہ بھی لے لیں تو ناظرین! امریکا کی سب سے بڑی ریاست کیلی فورنیا میں کیل ایگزٹ Calexit کے نام سے 2010 میں علیحدگی کی تحریک چلائی گئی، 2015 میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی، جس کا نام یس کیلی فورنیا Yes California رکھا گیا۔ اس مقصد کیلئے کیلی فورنیا نیشنل پارٹی بھی بنائی جاچکی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی ریاست کے رہائشی ہیں، اور ان کی کامیابی کے بعد کیل ایگزٹ ٹاپ ٹرینڈ بھی بن گیا تھا۔۔2018 میں ریاستی سطح پر ایک دستخطی مہم بھی شروع ہوچکی ہے، جس کا مقصد ریاست میں علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کرانا ہے۔ اب بات امریکا کی دوسری بڑی ریاست ٹیکساس کی۔۔ ریاست ٹیکساس نے 1836 میں میکسیکو سے آزادی حاصل کی اور 1845 میں امریکا کا حصہ بنی۔جس کے بعد 1846 میں امریکا میکسیکو جنگ بھی ہوئی تھی۔۔ 2009 میں ٹیکساس کے گورنر رک پیری Rick Perry نے کہا تھا کہ علیحدگی ہمارا آئینی حق ہے اور ہم یہ لے کر رہیں گے۔ اس ریاست میں ٹیکساس نیشنلسٹ موومنٹ نامی تنظیم علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کرانے کی مہم بھی چلارہی ہے۔۔امریکا کی تیسری بڑی ریاست فلوریڈا ہے، جہاں انیس سے بیاسی میں علیحدگی کیلئے ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوچکا ہے۔
اب کچھ دوسری ریاستوں میں بھی علیحدگی پسندوں کی تحریکوں کا تذکرہ کرلیں توجناب! سپریم کورٹ نے 2006 میں الاسکا میں علیحدگی کی کوششوں کو غیر قانونی قراردیدیا اور فیصلہ دیا کہ اس موضوع پر ریفرنڈم بھی نہیں ہوسکتا۔۔ مینی سوٹا میں ایک گروہ نے انیس سو ستانوے میں امریکی حکومت کی ماہی گیری پر پابندیوں کی وجہ سے امریکا سے الگ ہوکر کینیڈا سے الحاق کرنے کی مہم چلائی تھی۔ ہوائی میں ہواویئن ساورنٹی موومنٹ Hawaiian sovereignty movement عرصے سے علیحدگی کی مہم چلا رہی ہے۔ نیوہمپشائر میں 2012 میں آزادی کانعرہ لگاتے ہوئے نیوہمپشائر لبریشن پارٹی قائم کی گئی۔ مونٹانا میں 2008 سے علیحدگی کی مہم چل رہی ہے۔اوریگون میں 2016 میں علیحدگی کی ایک کوشش ہوچکی ہے تاہم ریاست میں خانہ جنگی کے خدشے کی وجہ سے عدالت سےعلیحدگی کی پٹیشن واپس لے لی گئی۔۔۔2003 میں ورمونٹ میں بھی مہم چلائی گئی کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ آزادیاں دی جائیں یاپھر ہماری فیڈریشن سے علیحدگی کی بات مان لیں۔ دوسری جانب امریکا میں چند شہر اور ریجنز بھی ریاست کے اندر علیحدگی کی مہم چلاچکے ہیں۔۔۔
اگر امریکہ ٹوٹ گیا تو۔۔۔؟
یوں تو امریکا کا ٹوٹنا ناقابلِ یقین اور ناممکن ہی لگتا ہے لیکن آزادی کی تحریکیں توچل رہی ہیں، ایسے میں امریکا کسی بحران کا شکار ہوا تو دنیا کی سپرپاور کو بھی جان کے لالے پڑسکتے ہیں، یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں امریکا میں پولرائزیشن بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ ملک کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی رپبلکن اور ڈیموکریٹک کے حامی آئے روز سخت گیر ہو رہے ہیں۔۔پھر کچھ لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ بعض ریاستوں میں نسل پرستی کے واقعات بڑھنے سے صورتحال اوربھی سنگین ہوچکی ہے۔ اور ایسا 100 سال میں پہ لی بار ہورہا ہے۔
تو جناب! کون سی ریاست امریکا سے الگ ہوسکتی ہے، اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اب ذرا اس کا جائزہ لے لیتے ہیں۔۔ سب سے پہلے بات امریکا کی سب سے بڑی اور امیر ترین ریاست کیلی فورنیا کی۔ تو گزشتہ چند دہائیوں میں یہاں کے رہنے والوں کے باقی امریکیوں سے اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں، ایک تجویز تو یہ سامنے آئی کہ کیلی فورنیا کو امریکا سے الگ کرالیا جائے جبکہ کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ کیلی فورنیا چاہے امریکا کا حصہ رہے لیکن اس کو مزید چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کیلیفورنیا کے لوگوں کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ مرکزی حکومت ان کے مفادات کاتحفظ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔۔ کیلی فورنیا امریکی ریاست کا پاور ہاؤس ہے۔ یہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے اوراس ریاست کے الیکٹرول ووٹوں کی تعداد 2020 کی نئی مردم شماری کے مطابق 54 ہوگئی ہے، یعنی یہ ریاست الگ ہوئی تو امریکا میں شاید ہی کبھی ڈیموکریٹس کا صدر بن سکے۔۔تاہم ری پبلکن کے حامی اس ریاست کے الگ ہونے پر خوشیاں ہی منائیں گے۔۔دوسری جانب کیلیفورنیا کی ریاست علیحدہ ہوتی ہے تو امریکی معیشت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔۔ آزادی کی صورت میں کیلیفورنیا دنیا کی پانچویں یا چھٹی سب سے بڑی معیشت ہو گی۔ آپ کو سن کر اور بھی حیرانی ہوگی کہ اس کی اقتصادی طاقت برطانیہ سے بھی زیادہ رہے گی ۔۔ کیلی فورنیا کا جی ڈی پی 3 ہزار ارب ڈالرسے زائد ہے۔ کیلی فورنیا کی اہمیت اس لحاظ سے بھی مسلمہ ہے کہ امریکا میں سب سے زیادہ ٹیکس اسی ریاست سے اکٹھا کیا جاتا ہے، ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ریاست الگ ہوئی توامریکی ڈالر کی طاقت کم ہو جائے گی اور اس کی جگہ چین کی کرنسی یوآن طاقتور ہوجائے گی۔۔۔۔ یہی نہیں کیلیفورنیا کے علیحدہ ہونے کے بعد امریکہ سپر پاور بھی نہیں رہے گا اور اس کے پڑوسی ممالک کینیڈا اورمیکسیکو سے تعلقات اچھے نہیں رہیں گے۔ کیونکہ ری پبلکنز کے دورمیں ان دو ملکوں سے تعلقات اکثراوقات کشیدہ ہی رہتے ہیں ۔ کیلی فورنیا چونکہ اعتدال پسند ریاست سمجھی جاتی ہے، اس لئے اسکی علیحدگی سے امریکا میں انتہاپسندی بڑھے گی۔ ایک اثریہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری لینڈ سے لے کر پنسلوانیا تک اکثر لبرل ریاستیں بھی امریکہ سے علیحدگی کا مطالبہ کردیں۔ کیلی فورنیا علیحدہ ہوا تو امریکا کی دوسری خوشحال ریاستوں میں بھی آزادی کی خواہش جاگے گی۔۔ ایسا ہوا تو امریکا کی دوسری امیرترین ریاست ٹیکساس دنیا کی دسویں، نیویارک گیارہویں اور فلوریڈا دنیا کی سولہویں بڑی معاشی طاقت ہوگی۔ یوں امریکا کی یہ چار خوشحال ترین ریاستیں سعودی عرب، سوئٹزرلینڈ، ترکی اور سویڈن سے بھی امیر ملک ہوں گی۔
دوسری جانب آپ کو یہ بھی بتادیں کہ ٹیکساس انیس سواسی سے ری پبلکنز کی حامی ریاست ثابت ہوئی ہے۔۔ اس کے الیکٹرول ووٹوں کی تعداد دوہزار بیس کی مردم شماری کے مطابق 40 ہوگئی ہے جوکیلی فورنیا کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔۔ فلوریڈا کے 30 اور نیویارک کے 28 الیکٹرول ووٹس ہیں۔۔ یہ دونوں ریاستیں زیادہ تر ڈیموکریٹس کوہی کامیاب کراتی ہیں۔ یعنی اگریہ دونوں ریاستیں امریکا سے الگ ہوجائیں تو ری پبلکنز کی موجیں لگ جائیں گی۔۔ لیکن امریکا کا خاصا معاشی نقصان ہوجائے گا اور وہ کسی صورت بھی سپرپاور نہیں رہے گا۔