دنیا میں یوں توکئی شہرجدید سہولیات سے آراستہ ہیں اور کئی شہروں کو جدید انداز میں بنایا جارہا ہے۔ لیکن ایک شہر ایسا بھی بسانے کا مںصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے بارے میں اس کا خواب دیکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس سے جدید شہر آج تک بسایا ہی نہیں گیا۔ یہ شہر کہاں بسایا جا رہا ہے؟ کون بسا رہا ہے؟ اور اس کے جدید ترین ہونے کا دعویٰ کیوں کیا جارہا ہے۔
مستقبل کا شہر
دنیا میں جدید ترین سہولیات سے آراستہ شہر کا منصوبہ بنایا گیا ہے کسی اور ملک میں نہیں بلکہ جزیرہ نما سعودی عرب میں۔ جہاں اندھیرے میں جگمگاتے ساحل ہوں گے۔ صحرا میں جنگل ہوگا۔ 10 کروڑ درخت لگا کر ماحول کو صحت بخش بنایا جائے گا۔ مقناطیسی قوت سے زمین کے اوپر دوڑتی مسافر ٹرینیں ہوں گی اور بلندوبالا عمارتیں بنائی جائیں گی۔ یہی نہیں بلکہ ایک نقلی چاند بھی بنایا جائے گا، جس سے پورا شہر روشن ہوسکے گا۔ ۔ اس شہر کا نام رکھا گیا۔۔ نیوم NEOM یعنی نیا مستقبل ۔ نیوم شہر کا منصوبہ 24 اکتوبر2017 میں منظرِ عام پر لایا گیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے جنہوں نے منصوبے کی رونمائی کی۔ یہ شہر ان کے ویژن 2030 کا اہم ترین حصہ ہے۔
نیوم سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع صوبہ تبوک میں سمندر کنارے بسایا جارہا ہے۔ یہ شہر بحیرہ احمر کے شمال، مصر کے مشرق اور اردن کے جنوب میں واقع ہوگا۔ یعنی پہاڑ، صحرا، میدان اور سمندر سب ایک جگہ ہوں گے۔۔اس کا مجوزہ رقبہ ساڑھے 26 ہزار مربع کلومیٹر ہوگا۔۔ یعنی کویت جیسے چھوٹے ملک سے بڑا۔۔یہ سمندر کے ساتھ ساتھ 460کلومیٹر تک پھیلا ہوگا۔۔ سعودی حکومت کی خواہش ہے کہ اس شہر کا پہلا فیز2025 میں ہی مکمل کرلیا جائے۔۔صحرائے عرب میں یہ شہر ناصرف سرسبز وشاداب علاقوں پر مشتمل ہوگا بلکہ اس میں وہ سہولیات بھی موجود ہوں گی۔ جو آج کسی بھی ایک شہر میں سب کی سب موجود نہیں۔۔
نرالی سہولتیں
اس شہر کو اس خواب کی تعبیر قراردیا جارہا ہے جو 1882 میں ہسپانوی ماہرِ تعمیرات آرتھرو سوریا وائے ماتا Arturo Soria y Mata نے دیکھا تھا۔ کیونکہ یہ شہر ان کے تصورسے بالکل ملتا جلتا ہے۔ انہوں نے اپنے خواب کو لائنیئر سٹی Linear city کا نام دیا تھا، جس میں بلڈنگز بھی ہواؤں کے رخ کے مطابق بننا تھیں اور سورج کی شعاعوں کے بہتراستعمال کو بھی یقینی بنایا جانا تھا۔ اس شہرمیں ریلوے لائنز کیلئے الگ زون ہونا تھا۔ مختلف تحقیقاتی، تعلیمی اور صنعتی اداروں کیلئے الگ الگ زونز بنائے جانے تھے۔ ۔ایک علاقہ ایسا تجویز کیا گیا، جس میں صرف گھربنائے جانا تھے، جن میں خاص طورپر بچوں اور خواتین کی سہولیات کا خیال رکھا گیا تھا، مختلف پارکس اور زرعی فارمزبننا تھے، تاکہ شہر میں انتہائی صحت مند ماحول فراہم کیا جاسکے۔۔اس طرح کے ایک شہر یابڑے ٹاؤن کی بنیاد 1920 میں میڈرڈ میں رکھی گئی۔ پھراس سے ملتی جلتی خصوصیات کا حامل شہر جرمنی میں فرینکفرٹ کے نام سے بسایا گیا۔ اب سعودی عرب میں نیوم شہرکے اندر ایک علاقہ لائن سٹی کے نام سے بنایا جائے گا۔ جس میں نہ کاریں ہوں گی اور نہ کاربن پھیلانے کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ ہوگا۔ ایک بڑا منصوبہ یہ بھی ہے کہ نیوم میں صاف پانی کی فراہمی کیلئے ری نیوایبل انرجی سے ایندھن فراہم کیا جائے گا، دوسری جانب نمکین پانی کو سمندر میں واپس پھینکنے کے بجائے اسے صنعتی خام مال کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
صحرامیں سکی انگ
نیوم شہر کے حسن کو دوبالا کرنے کیلئے ایک مصنوعی سکی انگ ریزروٹ بنانے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے، اس کا نام ٹروجینا Trojena رکھا گیا ہے، اس پروجیکٹ پر کام کا آغاز مارچ 2022 میں کیا گیا ہے۔یہ پورے جزیرہ نما عرب میں برف پوش پہاڑوں سے ڈھکا پہلا سکی انگ پوائنٹ ہوگا۔ جس کی بلندی 15 سو سے 26 سو میٹرتک ہوگی۔ یہ سعودی عرب کے سب سے بلندپہاڑی علاقے میں بنایا جارہا ہے، جو خلیج عقابہ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اس علاقے کا درجہ حرارت پورے نیوم سے انتہائی مختلف ہوگا۔ ویسے بھی سردیوں میں اس علاقے کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر جاتا ہے۔۔
نیوم بے
نیوم میں ایک عالمی معیار کا ایئرپورٹ بنانے کا بھی منصوبہ ہے، جس میں پہلے پہل پروازیں اندرونِ ملک چلیں گی، خاص کر دارالحکومت ریاض سے نیوم کے درمیان۔۔اس کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے بھی سیاحوں کو یہاں لانے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا ہے۔نیوم ایئرپورٹ کے رن وے کی مجوزہ لمبائی 3 ہزار 757 کلومیٹر رکھی گئی ہے۔اور یہ ایئرپورٹ 20مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوگا۔۔ نیوم شہر منصوبے کے اس حصہ کو نیوم بے Neom Bay کا نام دیا گیا ہے۔۔
امیروں کی جنت
نیوم شہر پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 500 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔ سعودی حکومت کو یقین ہے کہ اس سے اس کی قومی آمدن میں سالانہ 48 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا جبکہ 3 لاکھ 80 ہزار نوکریاں بھی پیدا کی جاسکیں گی۔ یہاں پر فطرتی حسن کو 95 فیصد تک محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائےگی۔ شہر میں بجلی کی سہولت ایندھن کے متبادل قدرتی ذرائع یعنی renewable energy سے فراہم کی جائے گی۔ جس سے ماحول انتہائی صحت مند ہوگا۔ پیدل چلنے والوں کیلئے شہر میں الگ سے راستے ہوں گے جبکہ ٹرانسپورٹ اور رہائشی گھروں تک رسائی کیلئے الگ سے انفراسٹرکچر بنے گا۔ شہر میں تیزرفتار ٹرین چلائی جائے گی، جو ایک کونے سے دوسرے کونے تک صرف 20 منٹ میں پہنچ جائے گی۔ اس کی رفتار 500 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد ہوگی۔۔ یہاں کی آبادی کا تخمینہ دس لاکھ افراد کا لگایا گیا ہے۔ جدید سہولیات سے آراستہ اس شہر میں صرف انتہائی امیر افراد ہی اپنا گھر بناسکیں گے یا اس کے سیون سٹارز ہوٹلوں میں قیام کرسکیں گے۔ سعودی حکام کی کوشش ہے کہ 2024 میں یہاں پہلے فرد کو رہائش مہیا کردی جائے۔ شہر میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ضروریات زندگی کی تمام سہولیات شہر میں صرف پانچ منٹ کی واک پر دستیاب ہوں۔ اسی طرح کے سپربلاکس سپین کے شہر بارسلونا میں بھی ہیں۔ نیوم کی خاص بات یہ بھی ہوگی کہ اس میں سعودی عرب کے قوانین لاگو نہیں ہوں گے، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ یہ ایک خودمختارعلاقہ ہوگا، جس میں اپنے ٹیکس اورلیبرکے قوانین ہوں گے اوراپنا خودمختارعدالتی نظام ہوگا، یعنی یہاں نظام سعودی عرب کے قوانین سے ہٹ کرعالمی قوانین کے تابع ہوگا۔ اس شہر میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے بے پناہ سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ سعودی حکام اس شہر کو سیاحتی اور کاروباری مقاصد کا مرکز بنا کرتیل پر معاشی انحصار کی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔نیوم کا تجارتی یا کمرشل مرکز بھی اپنی مثال آپ ہوگا، یہ ایسا منفرد منصوبہ ہے کہ یہ پانی پہ تیرتا ہوا چھوٹا سے ٹاؤن ہوگا، منصوبے کے مطابق نیوم کا تجارتی مرکز 7 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا تیرتا ہوا تعمیراتی ڈھانچہ ہو گا۔ دوسری طرف سعودی حکومت نے بحیرہ احمر میں موجود 50 جزیروں کو انتہائی پرکشش سیرگاہوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے نیوم شہر میں سیاحتی سرگرمیوں کو اور بھی فائدہ ہوگا۔
نیوم انڈسٹریل سٹی
نیوم شہر کے مرکزی علاقے سے کچھ فاصلے پر نیوم انڈسٹریل سٹی بھی بسایا جائے گا۔ جو تبوک کے چھوٹے سے خوبصورت شہر دوبا Duba کے شمال میں 25 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہوگا ۔۔اس شہر کے لئے 200 سے 250 مربع کلومیٹر کا علاقہ مختص کئے جانے کا امکان ہے۔۔نیوم شہر میں صرف صنعتی زون ہی نہیں بننا بلکہ اس میں 16 ہزار ایکڑ کا رقبہ زرعی مقاصد کیلئے بھی رکھا گیا ہے، جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت فصلیں کاشت کی جائیں گی۔ اس میں عمودی کاشتکاری اور گرین ہاؤسز کا تصور دیا گیا ہے، جو انقلابی حیثیت کا حامل ہے۔ سعودی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ نیوم خوراک کے حوالے سے دنیا کا سب سے زیادہ خود کفیل شہر ہو گا۔ ، واضح رہے کہ سعودی عرب اس وقت اپنی خوراک کا تقریباً 80 فیصد بیرونی ممالک سے درآمد کرتا ہے۔۔
منفی پہلو
اب نیوم شہرکے منصوبے کے منفی پہلوؤں کا بھی جائزہ لےلیتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہاں پہلے سے آباد لوگ ہیں، جو صدیوں سے خانہ بندوشوں کی زندگی بسرکررہے ہیں، ان کا شکوہ ہے کہ ایک تو ہمیں اس علاقے سے بیدخل کیا جارہا ہے تو دوسری طرف ہمیں ملازمتوں میں کوئی حصہ بھی نہیں دیا جارہا۔ ایک رپورٹ کے مطابق خانہ بدوش بدو ’الحویطات قبیلے‘ کے 20 ہزار افراد کو علاقے سے مناسب معاوضے کے بغیر ہی بیدخل کیا گیا ہے۔ اس شہر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ نیوم امیروں اور شہزادوں کو ایک آزاد ماحول فراہم کرنے کیلئے بسایا جارہا ہے، جہاں صرف چمک دمک اور گلیمر ہوگا اور لوگ سعودی قوانین سے بچنے کیلئے یہاں کا رخ کریں گے۔ ۔یہاں گالف کلب ہوگا، ہیلی پیڈز ہیں، سوئمنگ پولز بنائے جائیں گے اور شہزادوں کو محلات بنانے کی اجازت ہوگی۔ پھر یہ تنقید بھی ہورہی ہے کہ تیل کی دولت سے مالامال ملک متبادل ذرائع سے مہنگی بجلی کیوں حاصل کرے گا اور صحرائی خطے میں اتنی سرسبز ترقی کیسے نظرآئے گی۔ کچھ لوگوں نے اسے دیوانے کا خواب قرار دیا ہے تو چند لوگوں نے اس شہر کو دجال کی آمد سے بھی جوڑ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس شہر کو بسانے کا مقصد دجالی پیروکاروں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنا ہے، اس شہر میں وہ ٹیکنالوجی ہوگی جو خصوصی طورپر اس شہر کیلئے بنائی جائے گی، جو اس شہر کو ایک حیرت کدہ بنادے گی۔