زمین پر انسان کے رہنے کے لیے قدرت نے ہر انتظام کر رکھا ہے۔ مختلف قسم کے موسم، دھوپ، چھاؤں، بارش، پھول، پودے، اور پھل وغیرہ قدرت کی ایسی نعمتیں ہیں جن کا نعم البدل میسر نہیں۔ درختوں کی اہمیت تو آپ سب جانتے ہیں، کیوں کہ یہی درخت اور پودے ہیں جو زمین پر انسانوں کے وجود کو ممکن بناتے ہیں۔ ویسے تو یہ ہمیں خوراک مہیا کرتے ہیں لیکن ان کا ایک اور اہم کردار سانس لینے کے لئے آکسیجن کی فراہمی اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرنا ہے جس سے دنیا کا درجہ حرارت کنٹرول میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جنگل کو دنیا کے پھیپھڑے (lungs of planet) کہا جاتا ہے۔ ہم بات کر رہے ہیں جنوبی امریکہ میں 55 لاکھ سکوئر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے جنگل، ایمازون رین فارسٹ کی۔ جو رقبے کے لحاظ سے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے بھی دوگنا بڑا ہے۔ اس جنگل میں کل چار سو ارب درخت ہیں لہذا یہ دنیا میں ہونے والی بارشوں کا سبب بھی بنتا ہے اور کل دنیا میں ہونے والا photosynthesis یعنی پودوں میں خوراک اور آکسیجن بننے کا ایک تہائی عمل اس جنگل میں ہوتا ہے ۔ لیکن دوستو حالیہ سالوں میں ہماری دنیا کے یہ lungs شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ایمازون فارسٹ کا بہت سا علاقہ خالی ہو چکا ہے، اور یہ جنگل تباہ ہو رہا ہے۔ کیا یہ سب کسی پلاننگ کے تحت ہورہا ہے؟ ایمازون جنگل کی تباہی کے پیچھے کونسی وجوہات ہیں؟ اگر ایمازون جنگل ختم ہو گیا تو اس کے اثرات دنیا پر کیا ہونگے؟ آج کی ویڈیو میں ہم اسی بارے میں جانیں گے۔
ایمازون – تعارف اور محل وقوع
ایمازون کا یہ جنگل جنوبی امریکہ میں واقع ہے۔ اسکا ساٹھ فی صد حصہ تو برازیل میں ہے جبکہ باقی چالیس فیصد بولیویا، کولمبیا، ایکواڈور، گیانہ، پیرو اور وینزویلا وغیرہ کے حصے میں آتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا دریا ایمازون بھی اسی جنگل سے گزرتا ہوا بحر اوقیانوس میں جا گرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ جنگل کروڑوں سال پرانا ہے۔ اسے پندرہ سو اکتالیس (1541) میں ایک سپینش مہم جو نے دریافت کیا تھا۔ ایمازون میں پودوں اور جانوروں کی لاکھوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ ریسرچرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرہ ارض پر موجود تمام جانداروں کا بیس سے تیس فی صد حصہ اس جنگل میں موجود ہے۔ اس کی ایک مثال یوں بھی دی جاتی ہے کہ ایمازون کے جنگل کے محض ایک درخت پر چیونٹیوں کی اقسام اتنی زیادہ ہیں جتنی پورے برطانیہ میں بھی نہیں ہیں۔
ایمازون کے جنگل کو ایمازون رین فارسٹ کہا جاتا ہے۔ دوستو رین فارسٹ دراصل ایک ایسے جنگل کو کہا جاتا ہے جہاں اوسط سالانہ بارش کم سے کم 2 میٹر ہو اور جہاں بے شمار درخت ہوں۔ جبکہ اس جنگل میں ایک سال میں اوسطاً چار میٹر بارش ہوتی ہے۔
کیا ایمازون ختم ہو رہا ہے؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایمازون جنگل تباہی کا شکار ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں صورت حال کافی گھمبیر ہو چکی ہے اور تازہ ترین رپورٹس کے مطابق دو ہزار بائیس کے پہلے چھ ماہ میں ایمازون کی deforestation یعنی تباہی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ سیٹلائیٹ تصاویر سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صرف رواں سال اب تک اس جنگل کا لگ بھگ چار ہزار سکوئر کلومیٹر کا علاقہ برباد ہو چکا ہے جو گذشتہ سال کے انہی چھ ماہ کے مقابلے میں دس فی صد زیادہ ہے یعنی ہر سال ایمازون کی تباہی میں تیزی آ رہی ہے۔ صرف جون 2022 کے ایک مہینے میں 1120 سکوئر کلومیٹر کا علاقہ صاف ہو چکا ہے جو اس سال کی اب تک کی سب سے زیادہ شرح ہے۔
مجموعی طور پر بات کی جائے تو اب تک ماہرین کے مطابق ایمازون کا تقریباً 20 فی صد حصہ تباہ ہو چکا ہے جبکہ پچھلی پانچ دہائیوں میں اس جنگل کا دس لاکھ سکوئر کلومیٹر کا علاقہ صاف ہوا ہے۔ ہر گزرتے دن اس جنگل کی ہزاروں ایکڑ کی زمین سے درختوں کا صفایا ہو رہا ہے اور رپورٹس کے مطابق اگر ایسا ہی چلتا رہا تو دو ہزار چونسٹھ 2064 تک ہم پورے ایمازون کو کھو دیں گے یعنی یہ سارا علاقہ صاف ہو جائے گا۔ اور دنیا اپنے lungs سے محروم ہو جائے گی
ایمازون نہ رہا تو کیا ہوگا؟
ماہرین کے مطابق ایمازون جنگل ختم ہونے کے سنگین نتائج ہونگے۔ اس سارے علاقے کے آس پاس کی جگہوں پر بارشیں بہت کم ہوا کریں گی۔ یاد رہے کہ یہ جنگل کل 9 ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ یعنی ان تمام ممالک میں موسمیاتی تبدیلیاں آئیں گی۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے دریا سوکھ جائیں گے۔ زمینیں خشک ہو جائیں گی، خوراک اور پانی کی قلت ہو جائے گی اور قحط کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ یہ تمام ممالک ترقی پزیر ہیں لہذا انکی معاشی حالت بھی بدتر ہوتی چلی جائے گی۔ ایمازون کے اربوں درختوں کے باعث آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ گیسیز کا سائیکل نارمل رہتا ہے۔ یہ درخت آکسیجن خارج کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانوں کے سانس لینے کے لیے ضروری ہے۔ جبکہ دوسری طرف کاربن ڈائی آکسائڈ سے گلوبل وارمنگ کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ یعنی اس سے درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ ایمازون کی مکمل تباہی کے بعد دنیا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بہت بڑھ جائے گی جس سے گلوبل وارمنگ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا اور اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔
ایمازون جانداروں کی بہت سی اقسام کا گھر ہے۔ یہاں بیس سے تیس لاکھ مختلف قسم کے جاندار آباد ہیں۔ اسکے علاوہ یہاں لاکھوں انسان بھی رہائش پذیر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق deforestation کی وجہ سے مختلف جانداروں کی دس لاکھ سے زائد اقسام کو ناپید ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔ اگر یہ جنگل ختم ہو جائے گا تو ان میں سے بہت سے جاندار ناپید ہو جائیں گے اور ساتھ ہی یہاں بسنے والے لاکھوں انسانوں کو بھی نئے سرے سے آباد کاری کرنا ہوگی۔
اس جنگل سے دنیا کے بڑے دییائوں میں سے ایک بڑا دریا ایمازون river بھی گزرتا ہے۔ اس جنگل کی تباہی کے اثرات اس دریا پر بھی پڑیں گے، آبی آلودگی میں اضافہ ہوگا، جس سے اس دریا میں رہنے والے جانداروں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ درختوں کے ختم ہونے سے ماحولیاتی نظام یعنی ecosystem تباہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں کبھی تو دریائے ایمازون میں پانی کا لیول انتہائی کم ہوا کرے گا تو کبھی شدید طغیانی سے سیلاب آ جائے گا۔
ایمازون کی تباہی کی وجوہات
اس جنگل کا نصف سے بھی زائد حصہ برازیل میں ہے۔ برازیل امریکہ اور چائنا جیسے بڑے ممالک کو گوشت سپلائی کرتا ہے۔ 2019 میں برازیل کی گوشت کی ایکسپورٹ اٹھارہ لاکھ ٹن کے لگ بھگ تھی۔ برازیل میں بہت سی کمپنیوں نے اس جنگل میں مویشی خانے بنا رکھے ہیں۔ یہ لوگ درخت صاف کر کے وہاں مویشیوں کی چراگاہیں بھی بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح یہاں مختلف لوگ درخت اکھاڑ کر کاشت کاری شروع کر دیتے ہیں۔ انکو بڑی بڑی کمپنیز کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔اس جنگل میں کافی، چائے، چینی، ایواکاڈو، چاکلیٹ ، مختلف قسم کے خشک میوہ جات اور پائن ایپل کی باقاعدہ کاشت کاری کی جاتی ہے۔ یہاں بعض اوقات درختوں کو ختم کرنے اور زمین کو صاف کرنے، کھیتی باڈی شروع کرنے اور مویشی پالنے کی غرض سے خود آگ لگائی جاتی ہے، اور بعض اوقات حادثاتی طور پر آگ لگ جاتی ہے۔ عام طور پر اس طرح کے جنگل میں آگ لگنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک rainforest ہے اور یہاں آب و ہوا میں نمی پائی جاتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے deforestation زیادہ ہو رہی ہے ، اور درختوں کا خاتمہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے یہاں آگ لگنا یا پھر آگ لگانا معمول بن چکا ہے۔ 2021 میں ایمازون جنگل میں مختلف مقامات پر آگ لگنے کے ہزاروں واقعات سامنے آئے جن میں سے 76 فی صد برازیل سے تھے۔ ایمازون کے جنگلوں میں انتہائی قیمتی اور بے شمار اقسام کی لکڑی پائی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اس کی بہت مانگ ہے۔ اس لکڑی کو حاصل کرنے کے لیے بھی ایمازون جنگل کے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ایمازون جنگل کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ مافیا ہے جو اپنا کاروبار چمکانے کے لیے اس جنگل کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس جنگل کی بربادی کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ یہاں سڑکیں بنائی جارہی ہیں تاکہ یہاں مختلف غرض سے آنے والے افراد کو نقل و حمل اور ٹرانسپورٹ میں آسانی ہو۔ mining یعنی کان کنی کیوجہ سے بھی اس جنگل کے قدرتی حسن کو نقصان پہنچتا ہے۔ ان سب عناصر کی وجہ سے یہاں آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو اس جنگل کے لیے خطرناک ہے۔
ذمہ دار کون؟
کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ ایمازون کی بربادی کی اصل وجہ وہ کمپنیز ہیں جن کے کاروبار ایمازون سے منسلک ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو سویا بین اور گوشت وغیرہ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ یہ سویا بین ایمازون کے جنگلوں سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ گوشت بھی وہیں پلنے والے مویشیوں کا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض کمپنیاں اس جنگل سے پام آئل حاصل کرتی ہے۔ ایسی مزید بھی کئی ہزار کمپنیز موجود ہیں جن کا انحصار بالواسطہ طور پر ایمازون کے جنگل پر ہے۔ ان میں بہت سے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کمپنیاں برازیلی نہیں ہیں-
دوستو دو ہزار اٹھارہ میں برازیل میں ہونے والے الیکشن کے بعد اور jair bolsorno (جائیر بولسورنو) کے صدر منتخب ہونے کے بعد صرف ایک سال کے اندر یعنی دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار انیس میں ایمازون کی deforestation میں چونتیس فی صد اضافہ ہوا۔ اور دو ہزار بائیس میں اب تک پچھلے چھے ماہ میں ریکارڈ deforestation ہوئی ہے۔ ناقدین کے مطابق برازیل کی حکومت نے ماحولیاتی قوانین میں نرمی کر رکھی ہے اور ایمازون میں جاری مختلف سرگرمیوں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، بہت سی پابندیوں کو ہٹا دیا گیا ہے جس کے باعث کئی قانونی سرگرمیاں اس جنگل میں جاری ہیں اور حکومت ان سب کی کسی نہ کسی طرح مدد کر رہی ہے۔
ایمازون کی تباہی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق وہ وقت دور نہیں کہ جب کئی ملینز سکوئر کلومیٹر پر پھیلے ایمازون کے جنگلات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ایمازون کی بربادی کو روکنے کے لیے متعلقہ حکام اور اداروں کو ہنگامی اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔