اس وقت دنیا میں ایک ایسی جگہ بھی موجود ہے جس کے رہنے والے انٹرنیٹ کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انٹرنیٹ جیسی کوئی چیز بھی ہوتی ہے، تو شاید آپ ہمارا یقین نہ کریں۔ انٹرنیٹ تو دور انکو یہ بھی علم نہیں کہ انسان روشنی کے لیے بجلی کے بلب کا استعمال کرتا ہے، ٹھنڈی ہوا کے لیے اے سی اور پنکھے موجود ہیں، سڑکیں، جہاز، ریل گاڑیاں، یہاں تک کہ ان لوگوں کو نت نئے ڈیزائن کے گھروں کا بھی کچھ اندازہ نہیں، کیوں کہ انہوں نے کبھی یہ سب چیزیں دیکھی ہی نہیں، دوستو ہم بات کر رہے ہیں ایک ایسے جزیرے کی، جو دنیا کاایسا حصہ ہے جہاں آج بھی لوگ پتھر کے دور میں جی رہے ہیں۔ پچھلے ساٹھ ہزار سال سے یہ لوگ اس جزیرے سے باہر نہیں نکلے، نہ ہی یہاں کسی کو آنے دیتے ہیں۔ کوئی آنے کی کوشش کرے تو اس پر تیروں سے حملہ کرتے ہیں، یہاں تک کہ انکو مار بھی دیتے ہیں۔ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے یہ آج بھی ہزاروں سال پرانی والی زندگی جی رہے ہیں۔
آخر یہ لوگ کون ہیں، یہ دنیا سے کٹ کر کیوں رہنا چاہتے ہیں؟ مختلف ادوار میں جب ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو کیا کچھ ہوا؟ دو ہزار اٹھارہ میں ایک برطانوی سیاح غیر قانونی طور پر اس جزیرے پر پہنچا تو اس نے کیا کچھ دیکھا؟ کیا وہ یہاں سے بچ کر نکل پایا؟ آ
نارتھ سینٹینل آئی لینڈ – محل وقوع
دوستو اس الگ تھلگ جزیرے کا نام نارتھ سینٹینل آئی لینڈ ہے۔ یہ بھارت کے انڈیمان نکوبار (andaman and nicobar) آئی لینڈز کے 572 جزیروں میں سے ایک جزیرہ ہے۔ ۔جزائر انڈمان و نکوبار خلیج بنگال میں بحر ہند کا حصہ ہیں۔ ان جزائر میں سے صرف 38 پر آبادی ہے۔ یہ جزیرے فاصلے کے حساب سے انڈیا کے شہروں کی بہ نسبت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جیسا کہ میانمار اور انڈونیشیا کے زیادہ قریب ہیں. ان جزیروں کا الگ انتظامی نظام ہے۔ انکا دارالحکومت پورٹ بلیئر ہے۔ انڈمان اور نکوبار کا علاقہ کل تین اضلاع پر مشتمل ہے۔ان کی کل آبادی چار لاکھ کے قریب ہے۔
یہاں زیادہ تر تامل،ملیالم اور انڈمانی زبانیں بولے جاتے ہیں۔یہ جزیرے شاندار ساحلوں، سمندری حیات، ساحلی خوبصورتی اور جنگلات کے حوالے سے مشہور ہیں ۔
ویسے تو نارتھ سینٹینل آئی لینڈ بھارت کا حصہ ہے، لیکن دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس جزیرے کے باسیوں کو یہ تک معلوم نہیں ہوگا کہ وہ بھارت میں رہتے ہیں یا انکے دیس کا نام کیا ہے۔
نارتھ سینٹینل جزیرہ رقبے کے لحاظ سے ساٹھ کلو میٹر سکوئر تک پھیلا ہوا ہے۔ اسکے ساحل کے کناروں پر ریت ہے جبکہ باقی سارا علاقہ درختوں سے گھرا ہوا ہے۔
یہ جزیرہ دنیا کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جس کے بارے میں ہمیں زیادہ معلومات نہیں، اور ہم صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں، کیوں کہ آج تک کوئی اس جزیرے کو مکمل طور پر ایکسپلور کر ہی نہیں پایا۔ اندازہ ہے کہ اس جزیرے پر ڈیڑھ سو سے پانچ سو کے درمیان لوگ آباد ہیں۔ انکو سینٹینلیز Sentinelese کہا جاتا ہے، لیکن یہ لوگ خود کو کیا کہتے ہیں، اپنے قبیلے کا کیا نام لیتے ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ یہ قبیلہ آج سے ہزاروں سال پہلے افریقہ سے ہجرت کرکے اس جزیرے پر آباد ہوا ہوگا اور چونکہ یہ جزیرہ انڈیمان نکوبار کے باقی جزیروں سے نسبتا کٹا ہوا تھا،اس لئے یہاں کے لوگ باقی قبائل سے دور ہوتے گئے۔ اور انہوں نے اپنی دنیا الگ ہی بسا لی۔
تاریخ
American ecological society کی ایک رپورٹ کے مطابق آج سے ساٹھ ہزار سال پہلے کچھ افریقی ہجرت کر کے اس جزیرے پر آباد ہوئے۔ پرانے وقتوں میں انڈیمان نکوبار کے دوسرے جزیرے کے لوگ اس جزیرے اور یہاں آباد اس قبیلے سے باخبر تھے۔ یعنی وہ جانتے تھے کہ یہاں اس جزیرے پر کچھ لوگ آباد ہیں۔ شروع شروع میں انکا کلچر بھی آپس میں ملتا جلتا تھا، البتہ بعد میں سب سے دور رہنے کی وجہ سے نارتھ سینٹینل کے لوگوں کا کلچر اور زبان ویسا ہی رہا جبکہ باقی جزیرے کے لوگ چونکہ آپس میں ملتے جلتے تھے، اس لئے انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بدل لیا۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے مطابق سترہ سو اکہتر 1771 میں پہلی بار اس جزیرے کو نوٹس کیا گیا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک بحری جہاز اس جزیرے کے قریب سے گزرا اور اس جہاز میں سوار افراد نے اس جزیرے پر روشنیاں دیکھیں۔
البتہ اس نے ان لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نارتھ Sentinelese سے پہلا آمنا سامنا اٹھارہ سو سڑسٹھ 1867 میں حادثاتی طور پر ہوا جب ایک تجارتی بحری جہاز کو ایک حادثہ پیش آیا اور اس جہاز میں سوار ایک سو چھ مسافروں نے اس جزیرے پر پناہ لی۔ البتہ ان لوگوں کو دیکھ کر یہاں کے لوگ بالکل خوش نہیں ہوئے، بلکہ وہ ان اجنبیوں کو دیکھ کر ان پر تیر برسانے لگے۔ تب برٹش رائل نیوی نے بہت مشکل سے انکی جان بچائی۔
رابطے کی کوششیں
ایسا نہیں ہے کہ کبھی اس قبیلے کے لوگوں سے کسی نے ملنے کی اور اس جزیرے پر جانے کی کوشش نہ کی ہو۔ مختلف دہائیوں میں کئی بار ان سے ملنے اور انکو اس جزیرے کے باہر ماڈرن دنیا سے ملانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن دوستو جیسے ہی کوئی بھی اس جزیرے کے قریب پہنچتا، یہ لوگ اس پر تیروں کی بارش شروع کر دیتے۔ آئیے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اٹھارہ سو سڑسٹھ میں اس جزیرے پر بحری جہاز کے رکنے والے واقعے کے بعد اٹھارہ سو اسی 1880 میں ایک برطانوی نیوی افسر Vidal Portman نے پہلی بار اس جزیرے پر جانے اور یہاں کے لوگوں سے ملنے کا ارداہ کیا۔ وہ ان پر ایک ریسرچ کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ اس جزیرے پر اترا تو اس نے دیکھا کہ یہاں کے لوگوں نے اس جزیرے پر مختلف راستے بنائے ہوئے ہیں اور رہنے کے لیے چھوٹی چھوٹی huts ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے یہیں ایک بوڑھا آدمی اور ایک بوڑھی عورت نظر آئے جن کے ساتھ چار بچے بھی تھے۔ پورٹ مین نے یہاں ایک سنگین غلطی کی۔ وہ ان چھے لوگوں کو اغوا کر کے اس جزیرے سے لے گیا۔ یہ لوگ اور انکے آبا و اجداد ساٹھ ہزار سال سے اس جزیرے سے باہر نہیں نکلے تھے، ان کا جسم آج کل کے معمولی جراثیم سے بھی نہیں لڑ سکتا تھا۔ جیسے ہی ان کو یہاں سے باہر لے جایا گیا، یہ بوڑھا جوڑا بیمار ہو کر جان کی بازی ہار گیا، جبکہ چاروں بچے بھی بیمار پڑ گئے۔ تب پورٹ مین کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا اور وہ ان بچوں کو واپس اسی جزیرے پر چھوڑ آیا۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ یہ بات یقینی ہے کہ یہ بچے جب واپس اس جزیرے پر گئے ہونگے تو یہ اپنے ساتھ جراثیم بھی لے کر گئے ہونگے جنہوں نے اس جزیرے کے دیگر لوگوں کو بھی بیمار کیا ہوگا۔ اس سے اموات کتنی ہوئی ہونگی، یہ تو کسی کو نہیں معلوم، لیکن اس واقعے کے بعد جتنی بار بھی ان لوگوں سے رابطے کرنے کی کوشش کی گئی، ان لوگوں کی طرف سے سخت ری ایکشن دیکھنے میں آیا۔ پورٹ مین نے اٹھارہ سو تراسی 1883 م یں ایک بار پھر اس جزیرے کا رخ کیا۔ اس بار وہ اپنے ساتھ کچھ تحائف بھی کے کر گیا تھا جو وہ اسی جزیرے پر رکھ آیا۔ انیس سو سڑسٹھ 1967میں ایک انڈین anthropologist یعنی ماہر انسانیات اپنی ٹیم کے ہمراہ اس جزیرے پر پہنچے۔ البتہ انہیں وہاں کوئی دکھائی نہ دیا اور یہ کچھ ناریل اور دیگر تحفے یہاں چھوڑ کر واپس آگئے۔ 1974 میں نیشنل جیوگرافک کی ٹیم نے ایک ڈاکیومنٹری بنانے کی غرض سے یہاں کا وزٹ کیا۔ انہوں نے بہت سارے کوکونٹس، اور کچھ مٹی کے برتن وغیرہ اس جزیرے کے ساحل پر رکھ دئیے اور خود تھوڑے فاصلے سے یہاں کے لوگوں کا رد عمل دیکھنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس قبیلے کے لوگ آگ بگولہ ہو کر ساحل پر آئے اور سمندر میں موجود اس ٹیم پر تیروں سے حملہ کرنے لگے۔ ڈاکیومنٹری ٹیم کا ایک شخص تیر لگنے سے زخمی بھی ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس قبیلے کے لوگوں کو کیمرے پر عکس بند کیا گیا تھا۔
1981 میں ایک کارگو بحری جہاز بنگلہ دیش سے آسٹریلیا جاتے ہوئے نارتھ سینٹینل آئی لینڈ کے قریب پھنس گیا۔ جہاز کے کیپٹن نے دیکھا کہ اس جزیرے کے لوگ کشتیاں بنا رہے ہیں، ان لوگوں نے تیر کمان بھی تھام رکھے تھے۔ کیپٹن کو شک پڑا کہ یہ ان کشتیوں میں سوار ہو کر اسکے جہاز میں موجود لوگوں پر حملہ کرنے آئیں گے۔ اس نے فورا حکام کو آگاہ کیا اور ایک ہیلی کاپٹر نے انکو ریسکیو کیا۔ البتہ لکڑی اور لوہے کا بنا یہ بحری جہاز وہیں جزیرے کے قریب رہ گیا۔ قبیلے کے لوگوں نے پہلی بار اس بحری جہاز کی شکل میں لوہے کو دیکھا تھا۔ ان لوگوں نے اپنے تیروں میں اسی جہاز کے لوہے کا استعمال شروع کر دیا۔
دوستو ان Sentinelese سے پہلا نارمل interaction 1991 میں ہوا۔ بھارتی ری سرچرز کی ایک ٹیم اس جزیرے پر اتری۔ خوشگوار طور پر اس بار ان لوگوں نے کوئی تیر نہیں برسائے۔ بھارتی ٹیم انکے لئے کوکونٹ اور کچھ دیگر تحفے لے کر گئی۔ یہ لوگ ان چیزوں کو وصول کرتے رہے۔ اس بار قریب سے انکی لینگویج کو بھی سنا گیا، البتہ کچھ سمجھ نہ آسکا۔ اس ٹیم میں ایک عورت بھی شامل تھی۔ ان خاتون کے مطابق جب انکی ٹیم اس جزیرے کے ساحل پر پہنچی تو اس قبیلے کے کچھ افراد تیر کمان لئے انکے قریب آئے، البتہ انہوں نے فورا انکی طرف کوکونٹ پھینکنے شروع کر دئیے اور حیرت انگیز طور پر ان لوگوں نے تیر کمان چھوڑ کر وہ ناریل پکڑنا شروع کر دئیے۔ ان خاتون کے مطابق اس قبیلے کے ایک فرد نے انکی رائفل اٹھانے کی کوشش بھی کی، شاید وہ اسے لوہے کا ٹکڑا سمجھ رہا تھا۔ 1991 کے بعد بھی ان لوگوں سے رابطہ رکھنے کی کوشش کی گئی البتہ ہر بار وہی پہلے والا ردعمل دیکھنے میں آیا۔ یعنی یہ لوگ باہر کے لوگوں کو دیکھ کر بھڑک اٹھتے اور تیروں کی برسات شروع کر دیتے۔1991 میں نا جانے کیاوجہ تھی کہ یہ سینٹینلیز اچانک اتنے peaceful ہوگئے تھے، اور پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ پھر سے پرانے رویے پر اتر آئے۔
آخر کار 1997 میں بھارتی حکومت نے اس جزیرے پر جانے پر پابندی لگا دی۔ دو ہزار چار میں اس علاقے میں ایک زبردست زلزلہ آیا، لیکن یہ لوگ اسے بھی بغیر کسی مدد کے سروائیو کر گئے۔
پھر دو ہزار چھ میں دو بھارتی ماہی گیر غلطی سے اس جزیرے کی طرف نکل گئے، جنہیں ان Sentinelese نے مار ڈالا۔ اس کے بعد بھارت کی سرکار نے اس جزیرے کے آس پاس کے تقریباً نو کلو میٹر کے سمندری علاقے میں داخل ہونے پر بھی پابندی لگا دی۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ سب تو پرانے واقعات تھے، کیا آج بھی یہ لوگ دنیا سے کٹ کر رہ رہے ہیں؟ تو دو ہزار اٹھارہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس سوال کا جواب دیدیا۔ ایک امریکی شخص اپنے مذہب کی تبلیغ کی غرض سے غیر قانونی طور پر اس جزیرے پر گیا، ان لوگوں نے اس پر تیروں سے حملہ کردیا۔ پہلی بار تو وہ کسی نہ کسی طرح یہاں سے بچ کر نکل آیا۔ لیکن اس پر ایک جنون سوار تھا لہذا وہ دوبارہ اس جزیرے پر پہنچ گیا اور اس بار واپسی کے سارے رستے بند کر کے آیا۔ بھارتی حکام کو جب اس کی خبر ہوئی، تو وہ اس جزیرے کے قریب پہنچے، انہوں نے دیکھا کہ Sentinelese لوگ ایک شخص کو دفنا رہے ہیں، تب انہیں یہ اندازہ ہوگیا کہ یہ وہی امریکی ہے، اور یہ اپنی جان کھو بیٹھا ہے ۔جبکہ امریکہ نے اس حوالے سے اس قبیلے کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
رہن سہن، کلچر اور حیاتیات
دوستو مختلف وقتوں میں جن لوگوں نے ان Sentinelese سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، انہوں نے انکے کلچر اور رہن سہن کے حوالے سے چند باتیں نوٹ کیں۔ یہ لوگ ایسی زبان بولتے ہیں جو بہت قدیم ہے۔ یہاں کے لوگ اس قدر پتھر کے زمانے میں ہیں کہ ابھی تک انہیں لباس پہننے کا تصور نہیں ہے۔ اور آج بھی یہ خود کو مختلف چیزوں سے ڈھانپتے ہیں۔ مرد اور خواتین گلے، کندھوں اور سر پر سجاوٹ کے لئے ہار پہنتے ہیں۔کھانے پینے کے لئے درختوں کے پھل اور سمندر سے مچھلیاں کام آتی ہیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے بہت چھوٹی چھوٹی کشتیاں بھی بنا رکھی ہیں۔ یہاں کچھ جھونپڑیاں بڑی ہیں جبکہ کچھ چھوٹی۔ ماہرین کے مطابق یہاں متعدد اقسام کے ایسے پودے، پرندے اور جانور بھی پائے جاتے ہونگے جو شاید دنیا کے کسی اور حصے میں نہ ہوں۔ البتہ چونکہ یہاں کبھی کوئی سروے کرنا ممکن نہیں ہو پایا، اس لئے اس بارے میں صرف اندازے ہی لگائے جاتے ہیں۔ یہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت تیس ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ کم سے کم تئیس ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔
رواں سال یعنی دو ہزار بائیس میں ایک بار پھر نارتھ سینٹینل آئی لینڈ کو بہت ڈسکس کیا گیا جب ایک مشہور برطانوی سیاح نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس جزیرے کو وزٹ کرنے کے حوالے سے ایک پوسٹ کی۔ اس سیاح نے ایک پلان پیش کیا کہ ہم دو چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر اس جزیرے کے قریب جائیں گے، ہمیں دیکھ کر یہاں کے لوگ تیر لے کر ساحل پر آجائیں گے۔ تب ہماری ایک کشتی کے لوگ انکو کسی طرح distract کریں گے، جبکہ دوسری کشتی کے افراد چپکے سے اس جزیرے پر اتر جائیں گے، اس طرح ہم اس جزیرے پر کچھ کیمرے، انٹرنیٹ ڈیوائس اور سولر پینل چھپا کر رکھ آئیں گے، جس سے ہم ان پر نظر رکھ سکتے ہیں اور انکے بارے میں کافی کچھ جان سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کسی ڈرون کیمرے سے بھی انکو مانیٹر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک آئیڈیا تھا۔ اس پر ظاہر ہے عمل کرنا اتنا آسان نہیں۔
نارتھ سینٹینل آئی لینڈ شاید اس وقت دنیا میں واحد ایسا علاقہ ہے جس کے بارے میں آج بھی ہمیں زیادہ معلومات نہیں۔ یہ لوگ نہ کسی سے ملنا چاہتے ہیں نہ اس جزیرے سے باہر گھومنا پھرنا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید وہی پورٹ مین والا واقعہ ہے، یا شاید کوئی اور وجہ ہے، یہ حقیقت کوئی نہیں جانتا۔ ایک حیران کن بات یہ ہے کہ سب سے کٹ کر رہنے کے باوجود یہ لوگ سروائیو کر رہے ہیں، دنیا بھر میں چاہے کوئی وبا پھیلے یا کسی بحران کا سامنا ہو، یا جنگ کا دور ہو، یہ لوگ اس سب سے بے خبر اسی جزیرے پر آباد رہتے ہیں، اور کامیابی سے اپنی نسل بھی آگے بڑھاتے ہیں، ،یہ دیکھنے میں کافی صحت مند بھی لگتے ہیں، اس کی وجہ شاید نیچر کے قریب رہنا اور جسمانی مشقت کرنا ہے-
اس جزیرے سے متعلق دو مؤقف سامنے آتے ہیں، ایک یہ کہ ہمیں ان سے ملنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے، یہ بھی دنیا دیکھیں، نئی نئی چیزیں سیکھیں، جبکہ دوسرا مؤقف یہ ہے کہ انکو انکے حال پر چھوڑ دینا چاہیے، یہ اپنی دنیا میں خوش ہیں، اور انکے جسم میں آج کل کے جراثیم سے نمٹنے کی امیونٹی بھی نہیں ہے۔