دماغ انسانی جسم کا سب سے پیچیدہ عضو ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق آج ہم کائنات میں پھیلے لاکھوں، کروڑوں ستاروں کے بارے میں تو بہت کچھ جان چکے ہیں البتہ ہمارے اپنے ہی جسم کا سب سے اہم حصہ آج بھی ہمارے لئے پراسرار ہی ہے۔ انسانی دماغ کتنا پاور فل ہے، کیا انسان کےدماغ اور ایک کمپیوٹر کا موازنہ کیا جا سکتا ہے، دونوں میں سے طاقتور کون ہے، ہم اپنے دماغ کا کتنے فیصد حصہ استعمال کر پاتے ہیں ؟
دماغ کیا کام کرتا ہے؟
دماغ ایک ایسا organ ہے جو ہمارے پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں، جو کچھ بھی کرتے ہیں، یہ سب دماغ کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ سانس لینا، حرکت کرنا، چیزوں کو دیکھ پانا،درد کا محسوس ہونا، بھوک پیاس لگنا، سردی گرمی کا محسوس ہونا، مختلف قسم کے جذبات اور احساسات بھی دماغ ہی کی وجہ سے ہیں۔ یہ ہماری سٹورج ڈیوائس بھی ہے جہاں ہماری تمام یادیں جمع ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ہمارے پورے جسم کو کیمیکل اور الیکٹریکل signals بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔ یہ سگنلز مختلف قسم کے پراسیسز کو کنٹرول کرتے ہیں اور ہمارا دماغ ان سگنلز کو سمجھتا ہے اور پھر ان کے مطابق ہی ری ایکٹ کرتا ہے۔ انسانی دماغ میں بہت سی blood vessels, nerves اور neurons وغیرہ ہوتے ہیں۔ دوستو neuron کو آپ انسانی دماغ کا messenger یعنی پیغام رساں بھی کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ یہی وہ cells ہیں جو دماغ کے مختلف حصوں میں ، اور انسانی جسم کے مختلف اعضاء تک پیغامات یعنی سگنلز پہنچاتے ہیں۔ انسان کی ذہانت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک سکور کیلکولیٹ کیا جاتا ہے جسے آئی کیو یعنی Intelligence Quotient کہتےہیں۔ آئی کیو سکور کا تصور انیس سو بارہ میں ایک جرمن سایئکولوجسٹ William Stern نے دیا تھا۔ آئی کیو کیلکولیٹ کرنے کے لیے آج کئی طرح کے tests موجود ہیں۔
انسانی دماغ کتنا طاقتور ہے؟
آپ یہ جان کر یقینا حیرت میں پڑ جائیں گے کہ انسانی دماغ میں پائے جانے والے neurons کی کل تعداد ایک سو بلین ہے۔ یعنی جتنے ستارے پوری ملکی وے گیلیکسی میں پائے جاتے ہیں، اتنے ہی نیورون ہمارے اس تین پاؤنڈز کے دماغ میں موجود ہیں۔ یہ نیورون بڑی تیزی سے پورے جسم میں پیغامات ڈیلیور کرتے ہیں۔ اگر دماغ میں موجود تمام نیورونز کو ایک قطار میں رکھا جائے تو یہ قطار چھ سو میل لمبی ہوگی۔ انہی نیورونز کی وجہ سے ہمارے دماغ کی انفارمیشن پراسیس کرنے کی سپیڈ بعض ماہرین کے مطابق 60 bits per second ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانی دماغ ساٹھ سے ستر سال کے عرصہء حیات میں ایک لاکھ سے بھی زائد giga bytes انفارمیشن پراسیس کرتا ہے۔ ایک سیکنڈ میں اس میں ایک لاکھ کیمیکل ری ایکشنز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر دماغ میں موجود تمام blood vessels کو باہر نکال کر پھیلایا جائے تو یہ ایک لاکھ میل دور تک جائیں گی۔ دماغ ہمارے پورے جسم کا بیس فیصد خون استعمال کرتا ہے جبکہ آکسیجن کی فراہمی بھی انسانی دماغ کے لیے بہت اہم ہے۔ ہمارے دماغ کا ساٹھ فی صد حصہ fat یعنی چربی کا بنا ہوا ہے۔ جبکہ باقی چالیس فی صد پانی، پروٹینز اور نمکیات وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چالیس سال کی عمر تک ہمارے دماغ کی نشوونما جاری رہتی ہے۔ انسانی دماغ کا اگلا حصہ بچپن میں مکمل تو ہو جاتا ہے البتہ عمر کے مختلف حصوں میں اس میں مختلف تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق دو سال کی عمرمیں ہمارے دماغ میں سب سے زیادہ سیلز پائے جاتے ہیں اسی لیے اس عمر میں ہمیں نئی چیزیں سیکھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ late 20’s میں ہمیں لوگوں کے چہرے یاد رکھنے میں مشکل ہونے لگتی ہے۔ پینتیس سال کے بعد اکثر ہمیں لوگوں کے نام یاد نہیں رہتے اور ستر سالوں کے بعد تو ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی یاد رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
انسانی دماغ اور ایک عام کمپیوٹر کا موازنہ
آپ نے سن رکھا ہوگا کہ انسانی دماغ ایک کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ آئیے ان دونوں کا موازنہ کرتے ہیں کہ دونوں میں سے زیادہ پاورفل کون ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا سب سے بہترین کمپیوٹر بھی انسانی دماغ ہی کی ایجاد ہے۔ انسانی دماغ اور کمپیوٹر دونوں ہی کئی طرح کی calculations کرنے، پیچیدہ مسائل حل کرنے، انفارمیشن سٹور کرنے، انفارمیشن پراسیس کرنے اور دوسرے کئی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس طرح ہمارے دماغ میں نیورونز ہوتے ہیں اسی طرح کمپیوٹر میں بھی آرٹیفیشل نیورونز پائے جاتے ہیں جو سگنلز کی ترسیل کا کام کرتے ہیں۔
جب آپ کسی پرندے کی آواز سنیں تو آپ محض آواز سے ہی یہ جان لیں گے کہ یہ کونسا پرندہ ہے۔ لیکن کمپیوٹر ایسا نہیں کرسکتا۔ کمپیوٹر میں ہمیں پہلے کچھ پروگرامنگ کرنی پڑے گی، آواز کے لئےکوئی سینسر لگانا پڑے گا، تب ہی کمپیوٹر اس مخصوص پرندے کو detect کر پائے گا۔ یوں سمجھ لیں کہ انسانی دماغ میں ایک built-in system پایا جاتاہے، کامن سینس پائی جاتی ہے۔ دماغ زیادہ آسانی سے نئی چیزیں سیکھ سکتا ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں ہمارے جسم میں ہونے والے مختلف functions کو بھی دیکھتا ہے اور یادداشت کا کام بھی کرتا ہے، جبکہ کمپیوٹر صرف وہی کام کرسکتا ہے جو ہم اسے بتاتے ہیں۔ انسانوں میں مختلف احساسات ہوتے ہیں، ہمارا دماغ مختلف اموشنز سے deal کرسکتا ہے، جبکہ کمپیوٹر صرف ایک مشین ہے جس کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔
کمپیوٹر جتنا بھی کام کرلے، وہ تھکتا نہیں ہے۔ البتہ انسانی دماغ کبھی کبھار تھک بھی جاتا ہے۔ لیکن جب آپ بہت تھکے بھی ہوں تو تب بھی آپ کسی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ، صبح کے وقت جب آپ نیند سے بیدار ہوں تو اگرچہ آپ پوری طرح ہوش میں نہیں ہوتے، لیکن آپ پھر بھی اردگرد سے باخبر ہوتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ بہت کم انرجی استعمال کرتا ہے۔ انسانی دماغ کو کام کرنے کے لیے دس سے بیس watt جبکہ ایک عام کمپیوٹر کو کام کرنے کے لیے کم ازکم 100 watt انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی دماغ کا سورس آف انرجی آکسیجن اور شوگر ہے جبکہ کمپیوٹر کو بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ کام کرنے کی سپیڈ کمپیوٹر کی زیادہ ہے۔ کمپیوٹر ایک منٹ میں کئی کیلکولیشنز کرسکتا ہے۔ لیکن چیزوں کو سمجھنے میں، اور حالات کے مطابق مسائل کا حل نکالنے میں دماغ زیادہ بہتر کام کرسکتا ہے۔ دوستو محض ایک وائرس پورے کمپیوٹر کا ڈیٹا ڈیلیٹ کرسکتا ہے۔ جبکہ انسانی دماغ پر بھی کئی طرح کی بیماریاں حملہ آور ہوسکتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق انسانی دماغ کی اسٹورج capacity تقریباً پچیس لاکھ gigabytes (جی بی) ہوتی ہے۔ جبکہ دنیا کے سب سے بہترین کمپیوٹرز کی سٹورج کیپاسٹی ایک لاکھ ساٹھ ہزار gigabytes تک ہے۔ دس ہزار سے ایک لاکھ کمپیوٹرز ایک انسانی دماغ کے برابر کام کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی کمپیوٹر کی بجلی کی فراہمی بند کردیں تو وہ کام نہیں کر سکتا۔ لیکن انسانی دماغ بہت کم انرجی پر بھی بہترین کام کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی دماغ کو کمپیوٹر کی نسبت زیادہ پاورفل مانا جاتا ہے۔ تصوراتی طور پر اگر انسانی دماغ کو کسی بلب سے جوڑا جائے تو دماغ میں اتنی انرجی موجود ہوتی ہے کے ایک دس سے بیس واٹ کا بلب آسانی سے روشن کیا جا سکتا ہے۔
انسانی دماغ کا کتنے فی صد حصہ کام کرتا ہے؟
آپ نے یہ بھی بہت بار یہ سن رکھا ہوگا کہ انسانی دماغ کا صرف دس فی صد حصہ ہی ایکٹوو ہوتا ہے۔ اور اگر ہمارا دماغ سو فیصد ایکٹوو ہو جائے تو انسان کئی کارنامے سر انجام دے سکتا ہے۔ اسی موضوع پر ہالی وڈ کی ایک مووی lucy بہت مشہور ہوئی تھی۔ ایک امریکی ریسرچ کے مطابق پینسٹھ فی صد امریکی واقعی اس بات کو سچ مانتے ہیں کہ انسانی دماغ کا نوے فیصد حصہ ہر وقت سویا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ سائنس دانوں کے مطابق natural selection کے ذریعے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر مختلف قسم کی brain injuries بے اثر ہوتیں۔ یعنی اگر انسان کو کام کرنے کے لیے صرف دس فیصد دماغ ہی درکار ہے تو پھر باقی نوے فیصد اگر damage بھی ہو جائے تو انسان ک و نارمل ہی کام کرنا چاہیے ۔البتہ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوستو سائنس دانوں نے مختلف قسم کی latest medical techniques جیسا کہ ایم آر آئی وغیرہ سے بھی یہ بات ثابت کی ہے کہ دس فیصد والی بات محض ایک myth ہے۔ اور کئی کام ایسے ہیں جن میں انسان کا سو فی صد دماغ استعمال ہوتا ہے ،
کیا آج کا انسان زیادہ عقل مند ہے؟
ماہرین کے مطابق آج سے چار لاکھ سال پہلے کے انسان کے دماغ کا سائز بارہ سو cubic centimeters تھا۔ جبکہ آج کے انسان کا دماغ تیرہ سو کیوبک سینٹی میٹرز ہے۔ انسانی دماغ کا ایک اہم حصہ cerebral cortex ہے جو دماغ کی بیرونی تہہ بناتا ہے۔ ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اس حصے میں نئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ انہی تبدیلوں کی بدولت آج کا انسان ایسے کئی کام بہت آسانی سے کرسکتا ہے جو پہلے وقتوں کا انسان نہیں کرسکتا تھا۔ حالیہ دور کا ایک درمیانے درجے کا آئی کیو رکھنے والا شخص اگرسال انیس سو بیس میں زندہ ہوتا تو لوگ اسے ایک بہت بڑا جینئس سمجھتے۔ یہ بات نیوزی لینڈ کے ایک ریسرچر نے ایک تحقیق کے بعد کہی۔ 1987 میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق پچھلے ایک سو سالوں میں لوگوں کے اوسط آئی کیو لیول میں پانچ سے پچیس پوائنٹس اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ البتہ 2018 میں ناروے میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے نتائج کے مطابق کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی پربےجا انحصار کے باعث نئی نسل کے اوسط آئی کیو لیول میں کمی ہورہی ہے۔ اور آج کا انسان سست ہو رہا ہے۔
Deja Vu کیا ہے
آپ کو بعض اوقات ایسا لگتا ہوگا کہ جو کچھ ہو رہا ہے ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ سائنسی اعتبار سے اس سچویشن کو deja vu کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسا نیورولوجیکل glitch یعنی کسی نقص کے باعث وقتی طور پر ہوتا ہے۔ البتہ سائنس دان ابھی تک اسکو مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے۔ deja vu دراصل فرانسیسی زبان کا لفظ ہے اور اسکے معنی “پہلے سے دیکھا ہوا ” کے ہیں۔ اس موضوع پر بہت سی فلمیں بن چکی ہیں۔
اسی طرح ایک اور بات بہت مشہور ہے کہ کچھ لوگ right brained اور کچھ left brained ہوتے ہیں، یعنی انکے دماغ کی دائیں یا بائیں سائیڈ زیادہ ایکٹوو ہوتی ہے اور اسی اعتبار سے انکی صلاحیتیوں میں فرق آ جاتا ہے، البتہ ماہرین کے مطابق ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
اگر آپکا سر اچانک کسی بھاری شے سے ٹکرا جائے تو آپکو دن میں تارے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایسا دراصل دماغ میں موجود سیلز کو لگنے والے جھٹکے کے باعث ہوتا ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ارسطو کا ماننا تھا کہ تمام خیالات اور سوچوں کا مرکز دل ہے۔ اور دماغ کا مقصد صرف دل کو ٹھنڈا رکھنا ہے۔ آخر کار چھٹی صدی قبل مسیح میں ایک یونانی ماہر طبیعیات نے دعوی کیا کہ تمام حرکات و سکنات اور خیالات کا مرکز دل نہیں دماغ ہے۔
ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین اور مرد حضرات کے دماغ میں فرق ہوتا ہے۔ دماغ کا اگلا حصہ خواتین میں مردوں کی نسبت بڑا ہوتا ہے۔ یہ حصہ پرابلم سولونگ، decision making ، میں مدد دیتا ہے اور مختلف ایموشنز کو کنٹرول کرتا ہے۔ البتہ مجموعی طور پر موازنہ کیا جائے تو مردوں کا دماغ عورتوں کی نسبت زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ لیکن سائز کا آپکے intelligence level پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اسی طرح مختلف ریسرچزسے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنس کا آئی کیو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
آئنسٹائن کو آج تک ایک بہت بڑا جینئیس مانا جاتا ہے۔ اسکا آئی کیو لیول 160-180 کے درمیان تھا۔ 1955میں اسکی وفات کے محض آٹھ گھنٹے بعد آئنسٹائن کا دماغ ایک ڈاکٹر نے چوری کر لیا۔ اور اس کے کئی حصے کر کے دوسرے ڈاکٹرز کو بھی بھجوا دئیے۔ بعد ازاں اس ڈاکٹر کو سزا سنا دی گئی تھی۔ آئنسٹائن کے دماغ پر مختلف ریسرچز سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کے دماغ میں cells کی تعداد عام انسان کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ دماغ کے پچھلے حصے میں ایک حصہ اضافی تھا جو ایک عام طور پر انسان کے دماغ میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے باوجود آئنسٹائن کے دماغ کا وزن اسکی عمر کے انسان کے دماغ کے مقابلے میں کم تھا۔ اور صرف دو اعشاریہ سات پاؤنڈز تھا۔ آجکل آئنسٹائن کا دماغ امریکہ کے ایک میڈیکل میوزیم میں محفوظ ہے.
انیس سو چھیالیس میں پیدا ہونے والی ایک امریکی کالمنسٹ کو آجکل کی سب سے ذہین خاتون مانا جاتا ہے۔ انکا آئی کیو 228 ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دوستو لیونارڈو ڈا ونچی کا آئی کیو 220، آئیساک نیوٹن کا 192، اور سٹیفن ہاکنگ کا 160 ریکارڈ کیا گیا تھا۔
ریکارڈ کے مطابق دنیا کا سب سے وزنی دماغ رشین رائٹر ایوان ٹرگینیوو( ivan turgenev )کا تھا۔ انکی وفات 1883 میں ہوئی۔ ان کے دماغ کا وزن 4.43 پاؤنڈز تھا۔ عام طور پر ایک نارمل صحتمند انسان کے دماغ کا وزن تین پاؤنڈز ہوتا ہے۔