Home Interesting Facts سات قدیم شہر جو پانی میں ڈوب گئے

سات قدیم شہر جو پانی میں ڈوب گئے

by Adnan Shafiq
0 comment

دنیا خوبصورت شہروں سے بھری پڑی ہے، کہیں میلوں طویل بڑی بڑی تعمیرات اور دیوارِ چین جیسے عجوبے ہیں تو کہیں آسمان کو چھوتی بلند عمارتیں۔۔ جن کو دیکھ کر اسے بنانے والوں کی کاریگری پر رشک آتا ہے، لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ کل کو یہ عمارتیں سمندریا دریا برد ہوجائیں گی تو کتنا عجیب لگے گا مگر ہم آج آپ کو ان 8 شہروں کے بارے میں بتائیں گے جو کبھی کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھے لیکن آج انہیں دیکھنے کیلئے آپ کو پانی کی سطح سے بھی نیچے جانا پڑتا ہے۔

بایا، اٹلی

تو جناب! سب سے پہلے بات کرتے ہیں، اٹلی کے شہربایا Baiae کی تو یہ شہر100 قبل مسیح سے 500 عیسوی کے درمیان مختلف ادوارمیں بسایا اورخوبصورت عمارتوں سے سجایا گیا۔ یہ اپنے دورکا ایک جدید ترین شہر تھا، جو اپنے گرم چشموں، دیدہ زیب تالابوں اور غیرمعمولی عمارتوں کی وجہ سے مشہورتھا، کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں یہ شہرقدیم رومنزکیلئے سیاحت اور تفریح کا سب سے بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔۔ یہاں رومن بادشاہوں جولیس سیزر اور نیرو نے اپنے بڑے بڑے محلات بنا رکھے تھے جو اُس وقت دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔۔ یہی نہیں بادشاہ کیلی گولا Caligula سمیت مختلف رومنز بادشاہوں نے اس شہر کی خوبصورتی بڑھانے کیلئے ناصرف مختلف عمارتیں بنوائیں، بلکہ اس کو دوسرے علاقوں سے ملانے کیلئے پل بھی تعمیر کئے ۔ بایا میں دیوی وینس اورڈیانا کے مندر بھی نہ ایت شاندار تھے۔ اس شہرکا تذکرہ کئی قدیمی یونانی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ بدقسمتی سے اس شہر میں ج س آتش فشاں کی وجہ سے گرم پانی کے چشمے بنے تھے، وہی سپرآتش فشاں کیمپی فلیگرئی Campi Flegrei اس کی تباہی کا باعث بھی بن گیا اوریہ شہراس کے پھٹنے سے پانی میں ڈوب گیا۔ یہ شہرموجودہ نیپلز کے نزدیک بسایا گیا تھا، گزشتہ 2 ہزارسال میں ۔ بایا۔۔ کی زمین اکثرمقامات پر چار سے چھ میٹر تک  جبکہ کچھ مقامات پر10 میٹر تک زمین میں دھنس چکی ہے۔ یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ بایا کا زیریں علاقہ تو آٹھویں صدی عیسوی تک ہی سمندر برد ہوچکا تھا۔ تاہم بالائی علاقہ آہستہ آہستہ ڈوبتا چلا گیا۔۔ اس شہرکی باقیات کو دریافت کرنے کا سلسلہ 1941 میں شروع ہوا۔۔۔ 2002 کے بعد اس شہرکی سیر کیلئے صرف لائسنس یافتہ ماہر غوطہ خور ہی جاسکتے ہیں۔یعنی آپ اس شہر کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو خصوصی تربیت لینا ہوگی۔۔

پورٹ رائل، جمیکا

اب بات ہوجائے۔۔۔ جزائرغرب الہند یا کیریبیئن Caribbean کے ملک جمیکا کے شہر پورٹ رائل  Port Royal کی۔ توآپ کوبتائیں کہ ماہی گیروں کی یہ بستی ہسپانوی حملہ آوروں نے 1494 میں کنگسٹن سے تقریباً 33 کلومیٹردور بسائی تھی اوریہ شہرسترہویں صدی تک اپنے بحری قزاقوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام تھا۔۔یہ اپنے دورکا ایک جدید شہر ہوا کرتا تھا کیونکہ یہاں لوگ اینٹوں کے مکانوں میں رہتے تھے، جن میں سے بعض چارمنزلہ بھی تھے۔یہاں کم و بیش 2 ہزارمکانات تھے۔ پورٹ رائل کی آبادی 1692 میں ساڑھے چھ ہزار سے دس ہزار نفوس پر مشتمل تھی اوریہاں سے غلاموں کی تجارت بھی ہوتی تھی۔۔ اس کا شمار جزائر غرب الہند کے اپنے وقت کے بڑے شہروں میں ہوتا تھا، جس میں  پانچ قلعے بھی تھے۔۔7  جون 1692 کا دن یہاں تباہی لے کرآیا اور پورٹ رائل خطرناک اور طاقتور ترین زلزلے کے بعد سونامی کی لپیٹ میں آگیا اور اس کا دوتہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ سونامی کی وجہ سے دوہزار کے قریب لوگ جان کی بازی ہار گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ اس شہرکو آنے والے کئی برسوں میں زلزلوں اور سمندری طوفانوں نے نقصان پہنچایا، یہاں 1907 میں بھی ایک بڑا زلزلہ آیا تھا۔۔ پورٹ رائل کے کئی کھنڈرات اب بھی پانی میں تقریباً 40 فٹ تک گہرائی میں موجود ہیں۔۔ سمندری طوفان کی وجہ سے سینکڑوں جہازبھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان مقامات کو عالمی ورثہ قراردیا گیا ہے اور یہاں صرف ماہرغوطہ خورہی مقامی حکام کی  اجازت سے سیرکیلئے جاسکتے ہیں۔۔

تھونیس ہیراکلیون، مصر

زمین سے پانی کی نذرہونے والا ایک علاقہ۔ مصر کا شہر تھونیس ہیراکلیون Thonis-Heracleion بھی ہے۔ یہ شہر دریائے نیل کے مغربی کنارے پراسکندریہ سے 32 کلومیٹر دور واقع ایک خوشحال اور ترقی یافتہ بندرگاہ ہوا کرتا تھا۔  جو 2 صدی قبل مسیح میں ڈوبا اور سن 2000 میں دوبارہ دریافت کیا گیا۔ یہاں کے زیرآب علاقے سے دریافت ہونے والے 60 بحری جہازوں اور 700 سے زائد لنگروں سے بھی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ کافی اہم تجارتی راستہ ہوا کرتا تھا۔ اس شہر کا تذکرہ کئی قدیم یونانی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ ایک کہانی کے مطابق یونانیوں کا دیوتا ہرکولیس بھی مصرآیا تو اس نے پہلا قدم اسی شہرمیں رکھا تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس شہر کا نام صرف تھیونس تھا اور ہرکولیس کی وجہ سے ہی اس کے ساتھ ہیراکلیون کا اضافہ کیا گیا تھا ۔۔ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ ٹروجن جنگ کی ہیلن  Helen اوراس سے محبت کرنے والے بادشاہ پیرس Paris نے بھی اس شہر کا دورہ کیا تھا۔ ماہرین کو اس ڈوبے ہوئے شہر سے ایک ایسا خوبصورت اور دلکش انداز میں کندہ کیا گیا پتھرملا ہے، جسے ڈکری آف ساس Decree of Saïs کہا جاتا ہے۔ سیاہ رنگ کے اس دومیٹراونچے تخت نما پتھر کو سٹیلے  stelae کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس پتھر پر چوتھی صدی قبلِ مسیح کے مصری ٹیکس سسٹم کی تفصیلات کندہ کی گئی ہیں۔۔۔ 2001 میں غوطہ خوروں کو یہاں سے مصری دیوتا ہاپی Hapi کا سرخ گرینائٹ سے بنا مجسمہ بھی ملا تھا۔۔ تھونیس ہیراکلیون کی باقیات اب بھی تیس فٹ تک پانی کے نیچے موجود ہیں۔ ڈوبا کب تھا؟ دریافت کب ہوا دوبارہ؟

وِلا اپیکیوین، ارجنٹائن

ارجنٹائن کا شہروِلا اپیکیوین Villa Epecuén بھی کبھی پانی سے باہرایک خوبصورت شہرہوا کرتا تھا۔ یہ دارالحکومت بیونس آئرس سے 538 کلومیٹر دورواقع تھا۔ یہ شہر 1920 میں اپنی نمکین پانی کی جھیل کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکزبنا رہا۔۔کہا جاتا تھا کہ اس جھیل کے پانی سے نہانے کے بعد کئی بیماریوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ اس جھیل میں پانی قدرتی طورپرخود ہی جمع اور خشک ہوجایا کرتا تھا لیکن 1980 کے بعد کئی برس تک اس علاقے میں شدید بارشیں ہوئیں اور پانی کی سطح تیزی سے ایسی بلند ہوتی چلی گئی کہ اس نے اس شہرکو ہی ڈبودیا۔ یہ 1985 کی بات ہے کہ شہر کی دیواریں گرنے سے وِلا اپیکیوین  10 میٹر گہرے پانی میں چلا گیا۔ اس وقت یہاں کی آبادی تقریباً ڈیڑھ ہزارافراد پرمشتمل تھی یہ شہرتقریباً 25 سال تک پانی میں ڈوبے رہنے کے بعد ایک بار 2009 میں منظرِعام پر آیا تھا۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگرپانی کی سطح مسلسل گرتی رہی تو یہ شہر آنے والے کچھ برسوں میں ایک بار پھر مکمل طورپر پانی سے باہر آجائے گا۔

پاولوپیٹری، یونان

اب بات یونان کے شہر پاولو پیٹری  Pavlopetri کی۔ جو دارالحکومت ایتھنز سے ایک سو چھہترکلومیٹردور واقع تھا اسے زیرآب قدیم ترین شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شہرپانچ ہزارسال پہلے آباد کیا گیا تھا اور یہاں تین ہزار سال پہلے پے درپے زلزلوں کے بعد سیلاب آیا جس نے اس شہرکو پانی برد کردیا۔ اس شہرکو 1967 میں دریافت کرکے محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کردیا گیا۔ اس شہر کی باقیات کو محفوظ رکھنے کیلئے 2009 سے جدید طریقے سے کام جاری ہے ۔ سمندر کی تہہ پر موجود یہ شہرکافی ترقی یافتہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہاں سڑکیں، عمارتیں، مقبرے، مذہبی کمپلیکس اور باغات کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔

دوارکا،بھارت

بھارتی ریاست گجرات کا ساحلی شہر دوارکا Dwarka بھی اپنے اندرصدیوں پرانی تہذیب سموئے ہوئے ہے۔ تقریباً  10 ہزار سال پہلے آباد ہونے والا یہ شہر صوبائی دارالحکومت گاندھی نگرسے 462 کلومیٹردوربحیرہ عرب کے ساحل پرواقع ہے۔ تقریباً 96 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا یہ شہرکم وبیش ساڑھے 3 ہزار سال پہلےسمندربرد ہوا تھا۔ اس کی آبادی اُس وقت چند ہزار افراد پرمشتمل تھی۔ یہاں پر پرانے شہر کے کھنڈرات سطح سمندر سے 131 فٹ نیچے دریافت ہوئے ہیں۔ پرانے شہر کے یہ کھنڈرات صرف بحیرہ عرب میں ہی نہیں بلکہ نئے شہرکے نیچے بھی ہیں۔ پرانے شہرکی تلاش کیلئے کام 1963 میں شروع ہوا۔ ماہرین کے مطابق ۔۔دوارکا۔۔ ساحلی کٹاؤ کا شکارہوکر پانی میں ڈوبتا چلا  گیا۔ اس شہر کی پیچیدگیوں اورخوبصورتی نے ماہرینِ تعمیرات کوحیران کر کے رکھ دیا ہے۔ لوک داستانوں کے مطابق، دوارکا ہندوؤں کے بھگوان کرشنا کا آبائی شہرہے۔

اہرامِ یوناگونی جیما، جاپان

جاپان کے قدیم شہر یونا گونی جیما Yonaguni Jima کی تاریخ 12 ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ یوں اسے زیرآب شہروں میں قدیم ترین بھی قراردیا جاسکتا ہے۔ یہ شہر ویسے توجاپان کا حصہ ہے لیکن یہ تائیوان سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔ 2 ہزار سال سے بحرِالکاہل کے پانی کے اندر پڑے اس  شہر کے اہرام پُراسراریت سے بھرپورہیں، ماہرین تو ابھی تک اسی بات پر تحقیق کررہے ہیں کہ ان اہرام کو انسانوں نے بنایا یا کسی اورمخلوق نے ان کی تخلیق کی۔ تاہم بعض ماہرین کی  رائے یہ بھی ہے کہ یہاں یہ اہرام زلزلوں سمیت مختلف موسمی تغیراتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی طورپربن گئے۔۔ دیکھنے میں  یونا گونی کے اہرام میکسیکو میں پائے جانے والے اہرام سے کافی مشابہت رکھتے ہیں۔ اس شہر کی باقیات پانی میں 26 میٹرتک گہرائی میں ہیں جوایک مربع کلومیٹرسے بھی کم رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان باقیات کو ڈوبنے کے بعد پہلی بار1986 میں دریافت کیا گیا۔۔۔

وان، ترکی

 ترکی کا ایک قدیم شہر وان Van بھی ڈوبے ہوئے شہروں میں شامل ہے۔  یوں تو یہاں پر سات ہزار سال پہلے بھی آبادی کے آثارملے ہیں۔ تاہم موجودہ وان شہرتین ہزار سال پہلے سے آباد ہے۔ یہاں کرد اورآرمینائی نسل کے لوگ آباد ہیں لیکن آپ کو یہ سن کرحیرت ہوگی کہ یہاں جھیل وان کی تہہ میں قدیم شہرکی باقیات بھی ملی ہیں، جن میں سے ایک قلعہ سب سے اہم ہے، یہ قلعہ سطح سمندر سے ایک سو پچاس میٹرتک نیچے ہے، اس قلعہ کی دیواریں آج بھی 10 سے 13 فٹ تک بلند ہیں۔ قلعہ کے اندراور اردگرد زیرآب شہرکی دوسری عمارتیں بھی موجود ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ وان کا قدیمی شہرجھیل میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے کئی سال میں آہستہ آہستہ پانی برد ہوا اور شاید نویں صدی عیسوی میں مکمل طورپرڈوب گیا۔ اس شہرکی باقیات کو 2017 میں غوطہ خوروں کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے۔ شہرکی باقیات ایک مربع کلومیٹرسے زائد علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں۔۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu