Home History کیا 1947 کی تقسیمِ بر صغیر منصفانہ تھی؟

کیا 1947 کی تقسیمِ بر صغیر منصفانہ تھی؟

by Adnan Shafiq
0 comment

بلا شبہ بیسویں صدی میں ہونے والے دو بڑے واقعات جنگ عظیم اول اور دوم ہیں، لیکن ایک تیسرا بڑا ایونٹ جو اس صدی میں ہوا وہ برصغیر کی تقسیم تھا۔ بعض مورخین اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تقسیم یعنی The Great Divide کے نام سے بھی جانتے ہیں۔اس تقسیم کے نتیجے میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مائیگریشن ہوئی اور لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو ایک علاقے سے اٹھ کر دوسرے علاقوں میں آباد ہونا پڑا ۔ پھر اس دوران ہونے والی خون ریزیوں، اور پر تشدد واقعات کی داستانوں نے تاریخ کی کتابوں میں ایسے ایسے باب رقم کیے کہ آج بھی انھیں پڑھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن اس تقسیم کا ایک پہلو اور بھی ہے جو ہمارا موضوع ہے، یہ تقسیم آخر کس criteria کے تحت کی گئی تھی،کیا سرے سے کوئی کرائیٹیریا موجود بھی تھا کہ نہیں؟اور اگر تھا تو criteria پر عمل بھی کیا گیا تھا یا نہیں؟ کیا اس تقسیم میں ہندو مسلمان یا سکھ کوئی فریق تعصب کا نشانہ تو نہیں بنا؟ آج  ہم اعداد و شمار کے ساتھ ان سب باتوں کا جائزہ لیں گے

پس منظر

یہ بات ہے 1947 کی، جب انگریزوں پر یہ بات  بالکل واضح ہونے لگی کہ برصغیر کی تقسیم اب ناگزیر ہو چکی ہے، اس کے علاوہ کوئی حل نہیں، کوئی چارہ نہیں۔اس صورتحال میں وائسرائے ہند لارڈ ماوؑنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا ایک منصوبہ پیش کیا،  جسے 3 جون پلان یا ماوؑنٹ بیٹن پلان  کہا جاتا ہے۔ماوؑنٹ بیٹن کو چند ماہ پہلے ہی وائسرائے مقرر کیا گیا تھا،ان کو بھیجا ہی صرف ہندوستان کی تقسیم کے معاملات کو نبٹانے کیلیے گیا تھا۔3 جون کے منصوبے میں ہندوستان کی تقسیم کے مطالبے کو بالآخر مان لیا گیا اور پلان کے مطابق برصغیر کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور بنگال کو مسلم اور نان مسلم اکثریت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا حتمی فیصلہ بھی لے گیا۔اس وقت چونکہ برٹش انڈیا میں 6 سو کے لگ بھگ ریاستیں بھی تھیں، جن پر راجے مہاراجے حکمرانی کرتے تھے۔انھیں بھی اپنے جغرافیے اور وہاں موجود لوگوں کی خواہشات کے مدنظر رکھتے ہوئے نئی وجود میں آنے والی ریاستوں میں سے کسی ایک کے ساتھ  الحاق کا اختیار دے دیا گیا۔

ماوؑنٹ بیٹن پلان اعلان کے بعد ایک برطانوی ماہر قانون سائرل ریڈ کلف کی سربراہی میں ایک باوؑنڈری کمیشن تشکیل دیا گیا، یہاں یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ ریڈکلف کو اس وقت برصغیر کے زمینی حقائق کے بارے میں بالکل بھی نہیں جانتے تھے  اور وہ اس سے پہلے کبھی برصغیر نہیں آئے تھے۔پنجاب کے باوؑنڈری کمیشن میں مسلم لیگ اور کانگریس کی طرف سے  دو, دو ججز کا بطور ممبر باوؑنڈری کمیشن انتخاب کیا گیا۔یہ کمیشن 30 جولائی 1947 کو تشکیل دیا گیا تھا، اور اسے 15 اگست تک یعنی صرف پندرہ دن کے اندر فائنل باوؑنڈری پر اتفاق رائے کی ڈیڈلائن بھی دی گئی، یہ باوؑنڈری ایوارڈ  17 اگست 1947 کو یعنی تقسیم کے 3 دن بعد اناوؑنس کیا گیا۔اس کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا جس کے بارے میں ہم ابھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔آگے بڑھنے سے پہلے جو ایک بات  یاد رکھنی ضروری ہے وہ یہ کہ برٹش انڈیا میں آخری مردم شماری 1941 میں ہوئی تھی اور یہ تقسیم بھی اسی مردم شماری کے ڈیٹا کی بنیاد پر ہوئی تھی،

تقسیم کیسے ہوئی؟

 متحدہ ہندوستان  اور ریڈ لائن ، بھارت اور پاکستان کا موجودہ بارڈر یا ریڈ کلف لائن ہے۔  ہم چلتے ہیں تقسیم ہونے والے صوبہ پنجاب کی طرف،  جانے والا میپ متحدہ صوبہ پنجاب کا ہے، یعنی تقسیم سے پہلے کا صوبہ پنجاب۔ تقسیم کے وقت پورے پنجاب میں تین بڑے گروہ مسلمان، ہندو اور سکھ آباد تھے، مسلمان کل آبادی کا 53.22 فیصد، ہندو 30.13 فیصد، سکھ 14.91 فیصد جبکہ کرسچنز کی پرسنٹیج محض 1.44 فیصد تھی۔ تقسیم کے لئے ہونے والی گروپنگ میں ہندو اور سکھ ملکر ایک گروپ بن گئے تھے تھا جبکہ کرسچنز نے اپنا اتحاد زیادہ تر علاقوں میں مسلمانوں کے ساتھ کر لیا تھا اور یہ دوسرا فریق تھے۔

پنجاب کا صوبہ ریاستوں کو چھوڑ کر پانچ ڈویژنز ملتان، راولپنڈی، لاہور، جالندھر اور امبالہ پر مشتمل تھا جسے برٹش پنجاب کہا جاتا تھا اور اسے ہی تقسیم ہونا تھا، جب تقسیم کا فارمولا اپلائی کیا گیا تو پنجاب کی ملتان اور راولپنڈی، دو ڈویژنز تمام اضلاع میں مسلم اکثریتی بنیاد پر آج کے پاکستان، جبکہ اس وقت کے مغربی پاکستان کے حوالے کر دی گئیں، ایسے ہی امبالہ اور جالندھر کی غیر مسلم اکثریتی ڈویژنز بھارت کو مل گئیں، اب باقی رہ گئی پانچویں ڈویژن یعنی لاہور ڈویژن ۔یاد رہے کہ لاہور ڈویژن میں بھی مسلمان 58 فیصد کے ساتھ واضح اکثریت میں تھے۔ لیکن یہ ڈویزن پوری کی پوری پاکستان کو دینے کی بجائے نا جانے کن وجوہات کی بنا پر تقسیم کر دی گئی۔یہ یاد رہے کہ یہاں موضوع بحث صرف برٹش پنجاب اور ریڈکلف لائن ہے، اس میں ریاستیں شامل نہیں۔

لاہور ڈویژن کی تقسیم کے مسئلے کو ذرا آسان کرنے کے لئے اب ہم ڈویژن سے ڈسڑکٹ لیول پر جاتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، لاہور ڈویژن 1947 میں چھ اضلاع گورداسپور، امرتسر، لاہور، شیخوپورہ، گجرانوالہ، اور سیالکوٹ پر مشتمل تھی، جب تقسیم کی لکیر کھینچی گئی تو شیخوپورہ، گجرانوالہ اور سیالکوٹ کے تین اضلاع کو مسلم اکثریت ہونے کیوجہ سے پاکستان جبکہ ضلع امرتسر کو ہندو اور سکھ یعنی غیر مسلم اکثریتی ضلع ہونے کی بنیاد  پر بھارت کو دے دیا گیا،  یہاں تک تو یہ بات  درست لگتی ہے کہ  مسلم اکثریتی اضلاع پاکستان کو  مل گئے اور غیر مسلم اکثریتی علاقے انڈیا کو، لاہور ڈویژن کے چھ میں چار اضلاع کا فیصلہ تو  ہو گیا باقی رہ گئے دو، ضلع گرداسپور اور ضلع لاہور۔

پہلے ذکر کرتے ہیں ضلع گورداسپور کا، اس ضلعے کی مسلم آبادی 51 فیصد، یعنی اکثریت میں تھی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مکمل طور پر پاکستان کے حوالے کیا جاتا،  یہ ضلع چار تحصیلوں پٹھانکوٹ، گرداسپور،  بٹالہ اور  شکر گڑھ پر مشتمل تھا، تحصیل وائز بھی دیکھیں تو تین تحصیلوں میں مسلم مجارٹی تھی جبکہ صرف ایک پٹھانکوٹ میں مسلمان اقلیت میں تھے۔  لیکن حیران کن طور پر یہاں صرف ایک تحصیل پاکستان کو دی گئی، جبکہ باقی کی تین تحصیلیں بھارت کو سونپ دی گئیں، ان تین میں سے بھی دو تحصیلوں گورداسپور اور بٹالہ میں مسلم اکثریت تھی نا صرف اکثریت تھی بلکہ یہ تحصیلیں پاکستان کے موجودہ بارڈر کے ساتھ متصل بھی تھیں۔یہاں اگر تقسیم کے criteria کو دیکھیں تو واضح طور پر بھارت کے حق میں فیصلہ کیا گیا،فیصلہ اگر تحصیل لیول پر جا کر کرنا ہی تھا تو دو مزید تحصیلیں پاکستان کو ملنی چاہیے تھیں۔

اب دیکھتے ہیں لاہور ڈویژن کے دوسرے ضلع لاہور کا معاملہ، یہ ضلع تین تحصیلوں، قصور، چونیاں اور لاہور پر مشتمل تھا۔ تینوں تحصیلوں میں واضح مسلم اکثریت کے ساتھ یہ ضلع 61 فیصد مسلم آبادی کے ساتھ مکمل طور پر پاکستان کو ملنا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں بارڈر کا تعین کرتے وقت مسلم اکثریتی تحصیل، قصور کو ہی تقسیم کر دیا گیا اور اس کا 1162 مربع کلومیڑ، موجودہ پتی کا علاقہ بھارت کو سونپ دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس پوری تقسیم کے دوران کسی اور تحصیل کو تقسیم نہیں کیا گیا چاہے وہاں نان مسلم مجارٹی تھی یا مسلم مجارٹی۔ قصور وہ واحد تحصیل تھی جسے مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود divide کیا گیا۔

ان دونوں اضلاع میں تقسیم کو اگر دیکھا جائے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ، کوئی بھی criteria نہیں دیکھا گیا، حالانکہ کوئی تو criteria ہونا چاہیے تھا، چاہے وہ ضلع میں اکثریت کی بنیاد پر یا پھر تحصیل میں اکثریت کی بنیاد پر ہوتا۔ دوستو اب ہم دونوں Criterias کو ون بائی ون دیکھیں گے۔

ضلع کی بنیاد پر تقسیم کیا ہوتی؟

 اگر تقسیم اگر ضلع میں مجارٹی کی بنیاد پر ہوتی، یعنی criteria ضلع میں اکثریت ہوتا تو ہوتا گورداسپور مسلم اکثریتی ضلع ہونے کی وجہ مکمل طور پر پاکستان کو ملنا چاہیے تھا، ایسے ہی لاہور کا ضلع واضح طور مسلم اکثریتی ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر پاکستان کو دیا جانا چاہیے تھا-

اب دیکھتے ہیں کہ اگر تحصیل تقسیم کا  criteria ہوتی تو کیا ہوتا؟

تحصیل کی بنیاد پر تقسیم کیا ہوتی؟

اگر تحصیل کو پارٹیشن کا  criteria مان لیا جاتا تو جالندھر ڈویژن کے ضلع فیروز پور کی تحصیل فیروز پور اور تحصیل زیرہ میں بھی مسلمان واضح طور پر اکثریت میں تھے۔ نا صرف مسلمان واضح اکثریت میں تھے، بلکہ یہ تحصیلیں پاکستان کے موجودہ بارڈر کے ساتھ متصل بھی  تھیں یعنی contiguous تھیں، پھر تو یہ پاکستان میں شامل کی جا سکتی تھیں۔متصل ہونے اور تحصیل لیول پر جا کر تقسیم کے Criteria کو اگر دیکھا جائے تو جالندھر ڈویزن ہی کے ضلع جالندھر کی  دو مزید تحصیلوں ناکودر اور جالندھر میں بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی، یہ دونوں تحصیلیں ضلع فیروز پور کی مسلم اکثریتی تحصیل زیرا کے ساتھ متصل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں شامل ہو سکتی تھیں، اس کے بعد آتی ہے جالندھر ڈویزن ہی کے ضلع ہوشیار پور کی تحصیل داسویا، یہاں بھی مسلم اور کرسچن گروپنگ کے مطابق، اکثریت مسلم آبادی کی ہی بنتی تھی، اس طرح یہ تحصیل  بھی پاکستان کو مل سکتی تھی۔

 لاہور ڈویژن کی طرف جس کے ضلع گورداسپور کی دو تحصیلیں گرداسپور اور بٹالہ مسلم اکثریتی تھیں اور یہ پاکستان کے موجودہ ریڈکلف لائن بارڈر کے ساتھ متصل بھی  تھیں۔اس طرح ان پر بھی پاکستان کا ہی حق بنتا تھا۔

اس کے بعد آتی ہے لاہور ڈویزن ہی کے ضلع امرتسر کی مسلم اکثریتی تحصیل اجنالہ، یہ بھی پاکستان کے موجود بارڈر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو آسانی سے مل سکتی تھی، اور اس طرح آخر میں ضلع لاہور کی تحصیل قصور کو بھی مکمل طور پر پاکستان میں شامل کیا جا سکتا تھا۔

یوں ہونے والی تقسیم کی وجہ سے یہ بھی ممکن تھا کہ واضح طور پر مسلم اکثریتی ریاست کپورتھلہ بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیتی،اگر چہ اس کا مہا راجہ ایک سکھ تھا، ہاں اس صورت میں یہ ضرور تھا کہ ضلع امرتسر کی تحصیل امرتسر اور ترن تاران ایک انکلیو بن جاتے۔

ریڈ کلف ایوارڈ کی وجہ سے پانی کا مسئلہ؟

پانچ دریاوؑں کی سرزمین پنجاب برصغیر کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ایک ہے، برطانیہ نے جب اس صوبے کا کنٹرول حاصل کیا تو یہاں نہروں کا ایک بڑا نیٹ ورک تعمیر کیا جس سے پنجاب کے مغربی علاقوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی ہوا۔ جب ریڈ کلف ایوراڈ کا اعلان ہوا تو مغربی پنجاب کی زمین کو سیراب کرنے والی نہروں کے  دو مین ہیڈ ورکس، مادھوپور اور فیروز بھی انڈیا کو دے دیے گئے۔پاکستان کا اعتراض یہاں پر یہ تھا کہ دونوں ہیڈ ورکس پاکستان کو ملنے چاہیے تھے۔

پہلا ہیڈوک مادھوپور، ضلع گرداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ میں دریائے راوی پر تعمیر کیا گیا تھا، تقسیم سے پہلے اس ہیڈ ورک سے نکلنے والی نہریں لاہور، گرد اسپور اور  امرتسر کی زمینوں کو سیراب کرتی تھیں۔ اگر ڈسٹرکٹ مجارٹی کو تقسیم کا criteria مان لیا جائے تو ضلع گرداسپور پاکستان کو ملنے کی صورت میں یہ ہیڈورک پاکستان کو مل سکتا تھا۔

دوسرا ہیڈ ورک فیروز پور، ضلع  فیروز پور میں دریائے ستلج پر تعمیر کیا گیا تھا، تقسیم سے پہلے اس ہیڈ ورک سے نکلنے والی نہریں لاہور، مونٹگومری، فیروزپور، اور ریاست بہاولپور کو سیراب کرتی تھیں۔اگر تحصیل  کو criteria مان لیا جائے تو تحصیل فیروز پور پاکستان کو ملنے کی صورت میں یہ ہیڈ ورک پاکستان کو مل سکتا تھا۔

 تقسیم کے اگر کسی ایک ہی  criteria کو اگر consider  کیا جائے تو ہر صورت میں دو نا سہی ایک ہیڈ ورک پاکستان کو ضرور ملنا چاہیے تھا۔خیر ہیڈورکس کی تقسیم کے لئے کوئی بھی criteria نہیں دیکھا گیا اور پاکستان کے حصے میں ایک بھی ہیڈ ورک نہیں آیا۔

بہتر حل کیا ہو سکتا تھا؟

 ریڈکلف ایوارڈ کے کچھ متبادل حل کا زکر کرتے ہیں جو ہو سکتے تھے، سب سے پہلے آلٹرنیٹ کو اگر دیکھا جائے تو وہ یہ ہے کہ تقسیم کے cirteria کو ضلع میں اکثریت تک ہی محدود رکھا جاتا، اس طرح ضلع گرداسپور اور ضلع لاہور مکمل طور پر پاکستان کو مل جاتے، اور یوں مادھوپور ہیڈورک بھی پاکستان کے حصے میں آجاتا، بارڈر complexity بھی کم رہتی اور سکھوں کا مقدس مقام امرتسر بھی انھیں مل جاتا۔

دوسرا متبادل یہ ہو سکتا تھا کہ تقسیم کے criteria کو تحصیل لیول تک لے جایا جاتا، اس طرح پاکستان کو فیروز پور ہیڈورک تو مل جاتا لیکن اس صورت میں امرتسر اور ترن تاران انکلیو بن جاتے، انکلیوز کا حل یہ ہو سکتا تھا کہ جالندھر تحصیل بھارت دے دی جاتی اور کپورتھلہ کا سکھ مہا راجہ بھی بھارت کے ساتھ الحاق کر لیتا تو اس طرح تحصیل امرتسر اور ترن تاران بھارتی سرحد کے ساتھ منسلک ہو سکتی تھیں۔

تیسرا متبادل یہ ہو سکتا تھا کہ سکھ مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کر لیتے اس صورت میں ضلع امرتسر، فیروز پور، جالندھر لدھیانہ اور کچھ مزید علاقے پاکستان کو مل جاتے۔اس طرح سکھوں کے وہ مقدس مقامات جو آج پاکستان میں ہیں انھیں مل جاتے۔

پاکستان کو ملنے والے رقبے پر اعتراض

بعض مبصرین ایک اعتراض یہ بھی کرتے ہیں  کہ برٹش پنجاب میں مسلمان اور کرسچنز کل آبادی کا 59 فیصد تھے اور جبکہ انھیں رقبے کا 62 فیصد ملا ہے، یعنی انھیں زیادہ رقبہ ملا ہے۔لیکن یہ بات درست نہیں، بلکہ یہ رقبہ اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے تھا۔چلئے جانتے ہیں وہ کیسے؟

 فرض کریں اگر ضلع کو ہی criteria مان لیا جائے تو پاکستان کو ضلع گورداسپور اپنی چاروں تحصیلوں سمیت مکمل طور پر مل جاتا۔اس کے علاوہ ضلع لاہور کی تحصیل قصور  کا وہ حصہ جو بھارت کو دیا گیا وہ بھی پاکستان کا حصہ بن جاتا، یوں یہ رقبہ 62 فیصد نہیں بلکہ 64 فیصد ہو جاتا۔

اب اگر تحصیل کو criteria مان لیا جائے تو اس صورت میں پاکستان کو ضلع گورداسپور کی تحصیل گرداسپور اور بٹالہ  ضلع فیروزپور کی تحصیل فیروز پور اور زیرہ، ضلع جالندھر کی تحصیل جالندھر اور ناکودر ، ضلع  ہوشیار پور کی تحصیل داسویا جبکہ ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ اور تحصیل قصور کا باقی ماندہ حصہ بھی ملنا چاہئیے تھا اور پھر یہ رقبہ موجودہ 62 فیصد سے بڑھ کر 67 فیصد ہو جاتا۔

آسان الفاظ میں آپ یوں سمجھ لیں کہ 59 فیصد مسلمان اور عیسائی برٹش پنجاب کے انسٹھ فیصد سے زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے، جبکہ ہندو اور سکھ بے شک تعداد میں 41 فیصد لیکن وہ اکتالیس فیصد سے کم رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔

کونسا فریق کتنا متاثر ہوا اس کو ایک اور طریقے سے بھی دیکھ لیتے ہیں، تقسیم کے وقت بڑٹش پنجاب کی پانچوں ڈویژنز میں 29 اضلاع تھے، جن میں سے 17 میں مسلم اکثریت تھی جبکہ 12 میں غیر مسلم اکثریت تھی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سترہ کے سترہ اضلاع پاکستان کو ملتے لیکن پاکستان کے حصے میں 15 اضلاع  آئے جبکہ 2 اضلاع لاہور اور گورداسپور کو تقسیم کر دیا گیا-

اسی طرح تقسیم کے وقت برٹش پنجاب میں 115 تحصیلیں تھیں جن میں سے 71 تحصیلوں میں مسلمان مجارٹی میں تھے، جبکہ پاکستان کو ملنے والی تحصیلوں کی کل تعداد 60 ہے، جس میں قصور کی آدھی تحصیل کو اگر شامل بھی کر لیا جائے تو یہ تعداد 61 بنتی ہے۔اس لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو ملنے والا رقبہ کافی کم ہے۔ یعنی دس مزید تحصیلیں پاکستان کو ملنا چاہیے تھیں اور ان دس میں سے اگر گڑگائوں ضلع کی دو تحصیلیں جو پاکستان سے متصل نہیں تھیں نکال بھی دیں تو 8 مزید تحصلیں پاکستان کو مل سکتی تھیں۔

ریڈ کلف کو اتنی جلد بازی میں کیوں برطانیہ سے بلایا گیا؟ ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان آزادی کے 2، 3  دن بعد کیوں کیا گیا؟ ریڈ کلف اس کے فورا بعد کیوں برطانیہ چلے گئے؟ اور نوٹس کیوں جلا دئیے گئے اس پر مورخین نے بہت کچھ کہا ہے؟ شاید ان سوالوں کے جواب کبھی مل سکیں؟

ہمارا آج کا موضوع بحث  ریڈکلف لائن کا صرف پنجاب اور اس میں بھی برٹش پنجاب کا حصہ تھا شاہی ریاستیں اس میں شامل نہیں تھیں کیونکہ انکے راجہ اور عوام اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھے،  بنگال کی تقسیم بھی اسی ریڈکلف ایوارڈ کے تحت ہی کی گئی تھی اسکا زکر پھر کبھی کر یں گے۔

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu