جاپان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اسکی کامیابیوں اور معاشی ترقی کے چرچے دنیا بھر میں ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق سال دو ہزار بیس میں جاپان کی فی کس جی ڈی پی تقریباً چالیس ہزار امریکی ڈالر تھی۔ یہ کتنی زیادہ ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اسی سال یعنی دو ہزار بیس میں پاکستان کی فی کس جی ڈی پی صرف تیرہ سو ساٹھ امریکی ڈالر تھی- یہ جو بلند و بالا عمارتیں آپ دیکھ رہے ہیں یہ دراصل جاپان کا شہر ٹوکیو ہے، جسے دنیا کا جدید ترین شہر بھی مانا جاتا ہے۔ دوستو دلچسپ بات یہ ہے کہ آسمان کو چھوتی یہ عمارتیں ہر روز اوسطا تین سے چار زلزلوں کو برداشت کرتی ہیں۔ جاپان صرف اپنی معیشت کی وجہ سے ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں شامل نہیں ہے، بلکہ ان ممالک کی لسٹ میں بھی اول درجے پر ہے جہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ ایک سال میں پندرہ سو کے قریب زلزلوں اور دن بھر کئی بار زلزلے کے جھٹکوں کے باوجود جاپان کی ترقی کس طرح ممکن ہے؟ جاپان کی عمارتیں زلزلے کو کیسے برداشت کر لیتی ہیں؟ جاپانی قوم کے پاس ان زلزلوں سے بچنے کا کونسا فورمولا، یا اہم راز موجود ہے؟جاپان میں زیادہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟
سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ جاپان میں اتنے زیادہ زلزلوں کی وجہ کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جاپان کی لوکیشن ہے۔ جاپان ایک جزیرہ ہے جو مشرقی ایشیا میں پیسفک اوشن، بحرالکاہل کے شمال مغربی جانب واقع ہے۔ جاپان دراصل ring of fire کہلانے والی زمینی پٹی کے اوپر موجود ہے۔ ring of fire پیسفک اوشن کا چالیس ہزار کلو میٹر لمبا علاقہ ہے جہاں زمین کی پیسیفک پلیٹ دوسری ٹیکٹونک پلیٹس یعنی ارضیاتی پلیٹس سے ملتی ہیں۔پندرہ کے قریب ممالک اس رِنگ آف فائر پر واقع ہیں، جاپان کے علاوہ ان میں امریکہ، انڈونیشیا، میکسیکو، ، چائنہ، کینڈا اور پیرو بھی شامل ہیں۔ اس حصے کے گرد چار سو پچاس کے قریب آتش فشاں بھی پائے جاتے ہیں۔ زلزلہ آنے کی یہی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک تو ٹیکٹونک یعنی زمینی پلیٹس کی حرکات اور دوسرا آتش فشاں کا پھٹنا۔ اب اگر جاپان کی بات کی جائے تو جاپان میں ڈھائی سو کے قریب ایکٹوو وولکینوز موجود ہیں۔ جبکہ یہ چار ارضیاتی پلیٹس کے سنگم پر واقع ہیں۔ ان میں پیسفک، فلپائن ، یوریشیائی ، اور نارتھ امریکی ارضیاتی پلیٹس شامل ہیں۔ یہی پلیٹس زلزلے کا سبب بنتی ہیں۔ دوستو پیسفک اوشن کے شمال مغربی جانب آٹھ ہزار میٹر گہری اور آٹھ سو میٹر لمبی ایک زیرِ سمندر خندق موجود ہے۔اسے جاپان ٹرینچ کہا جاتا ہے۔ دو ہزار چھ میں اس خندق کے اندر بھی ایکٹوو وولکینوز کو دریافت کیا گیا۔ یہ خندق بھی جاپان کے زلزلوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عام طور پر زلزلے کے فورا بعد جاپان کو سونامی جیسی آفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ زلزلہ کے جھٹکے سمندر میں بڑی بڑی لہروں کو جنم دیتے ہیں جو سونامی کا سبب بن جاتے ہیں-
جاپان میں زلزلے سے ہونے والی بڑی تباہیوں کی داستان
اب بات کرلیتے ہیں جاپان میں ہونے والی زلزلے کی بڑی تباہ کاریوں کی۔ ان واقعات کی جن سے جاپان نے سبق سیکھا اور پھر زلزلے جیسی بڑی قدرتی آفت سے لڑنا اور بچنا بھی سیکھ لیا۔ اس ملک کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب یہاں زلزلے کے جھٹکے، چاہے معمولی نوعیت کے ہی ہوں، محسوس نہ کئے گئے ہوں۔ ریسرچ کے مطابق اس خطہء زمین پر پہلی بار زلزلہ چار سو سولہ عیسوی میں آیا تھا۔ تب شاید یہاں آبادی کا نام و نشان بھی نہ ہو۔ البتہ ریکارڈ کے مطابق اموات کے لحاظ سے چودہ سو اٹھانوے میں ایک خطرناک زلزلہ آیا جس سے اکتیس ہزار لوگوں کی موت ہوگئی۔ اسی طرح سولہ سو گیارہ میں جاپان کا علاقہ ہونشو Honshu ایک زبردست زلزلے سے لرز گیا جس سے بیس ہزار کے قریب مکانات ملبے میں بدل گئے اور سینتیس سو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس زلزلے کی شدت چھ اعشاریہ نو تھی۔ انیس سو اکہتر میں جاپان کے یائے یامہ yaeyama جزائر پر زلزلہ آیا ، جو بعد ازاں سونامی کا باعث بھی بنا۔ اس سے چودہ ہزار اموات ہوئیں۔البتہ انیس سو اڑتالیس کے بعد جاپان میں زلزلے کے باعث ہونے والی اموات میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن مارچ دو ہزار گیارہ میں ایک بار پھر زلزلے نے بڑی تباہی مچائی۔ جاپان کے علاقے ٹوہوکو Tohoku میں نو اعشاریہ ایک شدت کا قیامت خیز زلزلہ آیا جو سونامی کا سبب بھی بنا۔ جس سے انیس ہزار افراد موت کی وادی میں اتر گئے۔ اس حادثے کو دنیا کی تاریخ کے پانچ خطرناک ترین زلزلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی دوران جاپان کے ایٹمی پلانٹ فوکوشیما میں بھی سونامی اور زلزلے کے بدولت بڑی تباہی مچی۔جس نے جاپان کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا۔
جاپان نے زلزلوں کا مقابلہ کیسے کیا؟
جاپانی ایک ذہین قوم ہے۔ سال ہا سال تباہی مچانے والے زلزلوں کے بعد ہر دور میں کسی نہ کسی طرح وہ ان کی وجوہات اور اثرات پر ریسرچ کر رہے تھے۔ البتہ ان میں تیزی انیسویں صدی میں آئی ۔ زلزلوں پر تحقیق کرنے والے چند ادارے وجود میں آئے۔ ان اداروں نے جاپانی زلزلوں کی تاریخ کو بھی پڑھنا شروع کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس ریسرچ میں جِدت آتی گئی۔ یہ ادارے جدید سے جدید تر ہوتے گئے۔ لوگوں میں شعور بڑھتا گیا۔ اور انہوں نے اس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا۔ آئیے جانتے ہیں جاپان کی زلزلوں سے بچنے کی کیا حکمت عملی ہے۔
نئی طرز کی عمارات
زلزلے کے دوران سب سے زیادہ نقصان عمارتوں کے گرنے کے باعث ہوتا ہے۔ عمارتیں ملنے کا ڈھیر بن جاتی ہیں اور سیکنڑوں افراد اس ملبے تلے اپنے جان کھو دیتے ہیں۔ جاپان اس سے بچنے کا حل ڈھونڈ چکا ہے۔ عام طور پر لوگوں کا ماننا ہے کہ لکڑی کے بنے گھر زلزلے کی صورت میں تباہی سے محفوظ رہتے ہیں۔ اور یہ بات ریسرچ سے بھی ثابت ہوئی ہے کہ اگر زلزلہ بہت زیادہ شدت کا نہ ہو تو لکڑی کے گھر سیمنٹ کے گھروں کی نسبت زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ شدید نوعیت کے زلزلے کو برادشت نہیں کرپاتے۔ جاپانی عام طور پر لکڑی کے گھروں کی دیواریں اونچی، چوڑی اور مضبوط بناتے ہیں، اس سے گھر کے گرنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ انیس سو چوبیس میں جاپان نے بلڈنگز کی تعمیر کے حوالے سے ایک قانون بھی بنایا۔ اور لازم کیا کہ جاپان کے تمام شہری اس قانون کی پاسداری کریں گے۔ انیس سو اکیاسی میں اس بِل میں کچھ ترامیم بھی کی گئیں ۔ اور نئے فنِ تعمیر کے جدید طریقوں کو اس کا حصہ بنایا گیا۔ لازم کیا گیا کہ تمام عمارتوں کے مالکان نئے قانون پر پورا اترنے کے لئے اپنی بلڈنگز کی تعمیر ومرمت کروائیں گے۔ اب بلڈنگز اس قانون کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس طرز پر بنائی جانے لگیں کہ یہ زلزلے کے جھٹکوں کو جذب کر لیتیں۔ یا پھر ان جھٹکوں کے ساتھ جھولتیں اور حرکت تو کرتیں لیکن گرتی نہیں ۔ اس کے لیے زمین کی سطح اور بلڈنگ کے فلور کے درمیان کچھ خلا رہنے دیا جاتا تاکہ زمین کے نیچے ہونے والی موومنٹ اور زلزلے کے جھٹکوں سے بلڈنگ کو بچایا جا سکے۔ اسی طرح بعض عمارتوں میں ربڑ یا ایسا ہی کوئی اور میٹریل استعمال کیا جاتا ہے جو زلزلے کی لہریں کو جذب کر سکے۔ جبکہ کچھ عمارات اس طرح سے بنائی جاتی ہیں کہ ہر منزل پر یہ زلزلے کے اثرات کو کم کرتی ہیں۔ ان میں بھی ایسا مٹیریل یوز کیا جاتا ہے جو ان لہروں اور موومنٹ کو کم کرتا ہے۔ یعنی آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جاپان کی بلڈنگز کسی حد تک flexible ہیں ۔ جاپان کی یہ مشہور عمارات اسی طریقے کو استعمال کر کے تعمیر کی گئی ہیں۔(یہاں پر پکچر یا ویڈیو آئے گی مخصوص بلڈنگز کی). جاپان کے قانون کے مطابق یہاں بلڈنگ کی میکسیمم اونچائی انیس سو تریسٹھ تک 31 میٹر تھی۔ البتہ اسکے بعد اس requirement کو ختم کردیا گیا۔ جبکہ آج جاپان کی tallest building کی ہائٹ چھ سو چونتیس میٹر ہے,۔جبکہ ٹوکیو میں آئفل ٹاور جیسا ایک ٹاور بھی تعمیر کیا گیا ہے جسکی اونچائی 330 میٹر ہے۔ جاپان آج بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ اونچی بلڈنگز نہیں بناتا۔ اسکی بلڈنگز نئے طریقوں کے استعمال کے بعد پہلے سے زیادہ محفوظ تو ہیں، لیکن آج بھی جاپان کے بعض علاقوں میں رہائشی عمارتوں کی اونچائی زیادہ سے زیادہ بارہ میٹر تک ہے۔ رہائشی اور کمرشل عمارتوں کی requirements انکی لوکیشن کے حساب سے مختلف ہیں۔
ایمرجنسی الرٹ سسٹم
جاپان میں ہر موبائل فون میں پہلے سے زلزلے اور سونامی کی صورت میں الرٹ کرنے والا سسٹم انسٹال ہوتا ہے۔اسکے علاوہ بھی بہت سی ایپس آپ خود بھی ڈائنلوڈ کر سکتے ہیں۔ یہ بھی زلزلے اور سونامی جیسی آفت کی صورت میں کچھ سیکنڈز پہلے آپکو خبردار کر دیتی ہیں۔ حکومتی اداروں کی جانب سے بھی آپکو موبائل فون پر میسج موصول ہوجاتا ہے۔ جاپان میں ریلوے ٹرینز میں بھی earthquake کو detect کرنے والا سسٹم نصب ہوتا ہے۔ ٹرین کسی بھی دور دراز علاقے سے گزر رہی ہو، زلزلے کے وقت یہ سسٹم سگنل دیتا ہےاور آٹومیٹک بریکس لگا دیتا ہے، یعنی گاڑی فورا خود ہی رک جاتی ہے ۔ ریلوے ٹریکس بھی زلزلوں کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں۔ earthquakeکے دوران بلڈنگز کے گیس، پانی اور بجلی کے کنیکشنز بھی خودکار سسٹم کے تحت بند ہو جاتے ہیں تاکہ آگ لگنے یا گیس اور پانی کی لیکج جیسے حادثات سے بچا جا سکے۔ دوستو سونامی اور سیلاب سے بچاؤ کے لئے ٹوکیو شہر کے مضافات میں ایک بہت بڑی واٹر ڈسچارج ٹنل بھی بنائی گئی ہے۔ پانی کے اخراج کی یہ دنیا کی سب سے بڑی خندق ہے۔ اسے تیرہ سال کی محنت کے بعد دو ہزار چھ میں مکمل کیا گیا۔ اس پر تین بلین ڈالر کی لاگت آئی۔ اس خندق کا مقصد سیلاب اور سونامی کی صورت میں شہر سے پانی کا اخراج کرنا ہے تاکہ شہر کو بچایا جا سکے۔
لوگوں میں آگہی اور شعور
جاپان کے یہ سب اقدامات بے سود ہوتے جب تک وہ اپنے لوگوں میں یہ شعور پیدا نہ کر پاتے کہ زلزلے کی صورت میں انکو کس طرح خود کو اور اپنے پیاروں کو بچانا ہے۔ اس مقصد کے لئے چھوٹی عمر سے ہی سکولوں میں بچوں کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ بچے ٹرینگ کے دوران ڈیسک یا ٹیبل کے نیچے چھپ جاتے ہیں یا اگر گراونڈ میں ہوں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ زلزلے کے دوران گراؤنڈ کے عین درمیان میں کھڑے ہونا ہے۔ بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ آپ نے ایسی صورت میں panic نہیں ہونا۔ خاص طور پر ڈر اور خوف پر قابو پانے کی تاکید کی جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت زلزلے کی پیشگوئی کرلی جاتی ہے اور لوگوں کو پہلے سے ہی خبردار کر دیا جاتا ہے۔ جاپان کے ہر گھر میں ہر وقت کسی بھی وقت ایمرجنسی نافذ ہونے کی صورت میں ہر فرد کی ضرورت کا سامان اسکےbag میں موجود ہوتا ہے۔ جس میں اسکی بنیادی ضرورت کی اشیاء ، دوائیاں ، بیٹریاں یا جو بھی اس شخص کو ہر حال میں چاہیے ہو، اس بیگ میں موجود ہوتا ہے۔ یعنی کسی بھی ہنگامی صورتحال میں آپ بس اپنا بیگ اٹھائیں اور بھاگ نکلیں۔ ہر گھر میں earthquake survival kit بھی ہر وقت
رکھی ہوتی ہے، جس میں فرسٹ ایڈ کِٹ، دستانے، فیس ماسک، torches، اور ریڈیوز بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ حالات سے بھی باخبر رہا جائے ۔ زلزلے کے دوران تمام ٹی وی چینلز پر عوام کو ہنگامی صورتحال سے آگاہ رکھنے کے لیے خبریں چلائی جاتی ہیں۔ پیکچ چلائے جاتے ہیں کہ زلزلے کے دوران کیا کرنا ہے، کیسے بچنا ہے۔ جاپان میں ہر چھوٹے بڑے شخص کو بچپن سے یہ ہدایات یاد ہوتی ہیں ۔ اگر آپ گھر پر ہیں تو میز، یا کسی دوسرے فرنیچر کے نیچے چھپ جائیں ، اپنے سر کی خاص طور پر حفاظت کریں، کھڑکیوں سے دور رہیں، باہر کی جانب مت بھاگیں ، elevator کا استعمال بالکل مت کریں کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں بجلی کا کنیکشن منقطع ہو جائے گا اور آپ لفٹ میں ہی پھنس جائیں گے ۔ البتہ اگر آپ زلزلے کے وقت باہر ہی ہیں تو کوشش کریں کہ عمارات سے دور ہٹ کر کسی کھلی جگہ کھڑے ہو جائیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں ہیلپ لائن پر کال کر سکتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زلزلے اور سونامی چاپانی قوم کی زندگیوں میں ایک معمول بن چکی ہیں۔ البتہ وہ ان سے بچنے کا طریقہ جان چکے ہیں۔ جو قوم ہیروشیما ناگاساکی میں ہونے والے ایٹمی حملوں کے بعد چند سالوں میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہے، اس میں حیرت کی بات نہیں کہ وہ قوم زلزلوں کا مقابلہ بھی کر رہی ہے۔ جاپانی قوم ہمیں سبق دیتی ہے کہ اگر آپ چاہیں تو کتنے ہی مشکل حالات کیوں نہ ہوں، اگر آپ ایک قوم بن کر اسکا مقابلہ کریں تو آپ ضرور ہر مشکل سے لڑ سکتے ہیں۔ یہ اصول شاید جاپان کی ترقی کا راز بھی ہے۔