ہم اکثر رئیل اسٹیٹ کی ڈیلز کرتے ہیں، اگر نہیں بھی کرتے تو کسی ڈیل کے بارے میں سنتے ضرور ہیں، دوستو اگر آپ نے نہیں بھی سنا تو کوئی بات نہیں، ہم آپ کو سنا دیتے ہیں۔لئے چلتے ہیں آپ کو انیسویں صدی میں، اور ذکر کرتے ہیں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ ڈیل کی۔یہ کہانی ہے اس ڈیل کی جس نے اس وقت کے نو مولود اور آج کے سپر پاور امریکہ کا رقبہ صرف 3 سینٹس فی ایکڑ کے حساب سے ایک دم سے تقریبا” دوگنا کر دیا۔دوستو ہم بات کررہے Louisiana Purchase Deal کی۔اس bargain نے نا صرف امریکہ کی westward یعنی بحرالکاہل تک پہنچنے کی خواہشات کی تکمیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کیوں یہ ڈیل کرنا چاہتا تھا اور اس نے کیسے یہ ڈیل کی؟ کیا یہ کوئی آسان کام تھا یا پھر اس میں امریکہ کو کچھ مشکلات بھی پیش آئیں؟ اور اس ڈیل کا امریکہ کو بعد میں کیا فائدہ ہوا ؟
دوستو مشرق سے مغرب میں بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل تک، جبکہ شمال سے جنوب Arctic Ocean اور کینیڈین بارڈر سے میکسیکو تک پھیلا یہ میپ دنیا کی اکلوتی سپر پاور رستہائے متحدہ امریکہ کا ہے۔لیکن یہ سپر پاور اور عظیم الشان امریکہ 1803 تک محض دریائے مسی سپی(Mississippi) کے مشرق تک محدود تھا۔ پھر 1803 میں امریکہ نے تاریخ کی سب سے بڑی لوزیانا پرچیز ڈیل کے ذریعے اپنا رقبہ دوگنا کر لیا اور اس کی سرحدیں مغرب میں Rocky Mountains تک پہنچ گئیں۔اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ امریکہ طاقتور ہوتا چلا گیا اور کہیں جنگ کے ذریعے تو کہیں بات چیت کے ذریعے مزید علاقے ایکوائر کرتا کرتا بحرالکاہل تک پہنچ گیا۔
فرانس نے یہ علاقہ کیوں بیچا؟
پس منظر
یہ بات نے سترہویں صدی کی جب کولونئیل پاورز پوری دنیا کے مختلف علاقوں کو یا تو اپنے زیر اثر کر چکی تھیں یا پھر کر رہی تھیں۔اسی دوران فرانس نے شمالی امریکہ میں Mississippi River Valley کے علاقوں کو Explore کیا اور یہاں اپنی Settelements بنانی شروع کر دیں۔اٹھارہویں صدی کے وسط تک فرانس شمالی امریکہ کے اس خطے کےایک بڑے حصےکو اپنے کنٹرول میں لے چکا تھا۔دوستو اس وقت شمالی امریکہ کا زیادہ تر علاقہ فرانس کے علاوہ برطانیہ اور سپین کے کنٹرول میں بھی تھا۔
اسی دوران یورپئین پاورز کے درمیان 1756 سے 1763 تک ہونے والی سات سالہ جنگ میں فرانس کو برطانیہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور فرانس کافی کمزور ہو گیا۔اس شکست کے بعد فرانس Mississippi River کے مغرب سے Rocky Mountains تک کا لوزیانہ کا علاقہ سپین کے حوالے کر دیا، جبکہ شمالی امریکہ میں بچے کھچے تقریبا تمام علاقے فرانس نے برطانیہ کو دے دئیے۔
1776 کو امریکہ میں 13 برطانوی کالونیز نے امریکہ کی آزادی کا اعلان بھی کر دیا، اور اس کے دوران ہونے والی American War of Revolution کے بعد امریکہ کا مغربی بارڈر ان 13 ابتدائی کالونیز سے Mississippi River تک پھیل چکا تھا، یعنی امریکہ سائز میں بڑا ہو چکا تھا۔
جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ لوزیانہ کا علاقہ فرانس نے سپین کو دے دیا تھا،لیکن سپین بھی اب کوئی اتنی طاقتور کولونئیل پاور نہیں رہا تھا، تو ان حالات میں سپین نے اگلی 3 دہائیوں کے دوران لوزیانہ کی تعمیر و ترقی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔
نو مولود امریکہ کے لئے لوزیانہ کی اہمیت
یہ علاقہ اٹھارہویں صدی کے اختتام تک اب نومولود امریکہ کے لئے بہت اہمیت اخیتار کرتا جارہا تھا، اور وہ اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس کی دو وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ یہ کہ امریکہ اپنے ویسٹرن بارڈرز کو بحرالکاہل تک پھیلانے کا خواہشمند تھا۔
دوسری وجہ کو اگر دیکھیں تو اس وقت امریکہ کے مغربی بارڈر یعنی دریائے مسی سپی کے مشرقی کنارے کے آس پاس میں پیدا ہونے والے اناج کو امریکہ کے مشرقی بارڈر اور باقی دنیا تک پہنچانے کے لئے یہ دریا ہی واحد راستہ تھا، جس کے ذریعے اناج وغیرہ کو گلف آف میکسیکو تک پہنچایا جاتا تھا، پھر بحری جہازوں کے ذریعے اسے امریکہ کے مشرقی بارڈر تک اور باقی دنیا تک پہنچایا جاتا تھا، یہ تجارت زمینی راستوں سے اس لئے ممکن نہیں تھی کیونکہ وہ بہت طویل تھے یا اس دور میں اتنے Developed نہیں تھے۔
سپین کے کیا اقدام کیا؟
دوستو دریائے مسی سپی نیو اورلین(New Orlean) کے مقام پر آکر سمندر میں گرتا تھا اور یہ پورا علاقہ سپین کے کنٹرول میں تھا، نا صرف یہ علاقہ بلکہ فلوریڈا بھی سارا کا سارا سپین کے کنٹرول میں تھا، یعنی جنوبی حصے میں مکمل طور پر سپین قابض تھا، اس صورتحال میں سپین نے 1790 کی دہائی میں اس وقت کے مغربی امریکہ کے کسانوں کو نیو اورلین میں اپنی اشیا کو سٹور کرنے اور یہاں سے باقی دنیا کے ساتھ تجارت کرنے سے روک دیا۔Spain کا یہ قدم امریکہ کے لئے خاصہ تشویش کا باعث تھا۔
خیر اس مسئلے کا حل تو جلد نکل آیا، جب 1795 میں امریکہ اور سپین نے ایک معاہدہ Treaty of San Lorenzo سائن کیا۔معاہدے کی شرائط کے مطابق سپین نے امریکہ سودا گروں، اور کسانوں کو نیو اورلینز(New Orlean) میں اشیا کو عارضی طور پر سٹور کرنے اور یہاں سے سمندر کے ذریعے ترسیل کرنے حق بھی دیا۔لیکن دوستو یہ تو عارضی حل تھا، سپین کسی بھی وقت معاہدے سے پیچھے ہٹ سکتا تھا۔اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔سپین جلد ہی معاہدے کی شرائط سے پیچھے ہٹ گیا اور اس طرح امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔اب اٹھارہویں صدی کا اختتام بھی ہو چکا تھا، 1800 میں ادھر فرانس مشہور زمانہ جنگجو نپولئین بوناپارٹ (Napoleon Bonaparte) کی قیادت میں ایک بار پھر متحد ہوتا جا رہا تھا، طاقت پکڑتا جا رہا تھا۔نپولئیین شمالی امریکہ میں ایک مرتبہ پھر اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے خواہشمند تھے۔اپنے انھی ارادوں کی تکمیل کی خاطر انھوں نے 1801 میں انتہائی خفیہ طور پر سپین سے ایک معاہدے کے ذریعے لوزیانہ کا علاقہ واپس فرانس کے زیر اثر لے لیا۔
فرانس اور سپین کے آپسی میل جول اور اس خفیہ ڈیل کو رپورٹس جب امریکہ کے پاس پہنچیں اس کی بے چینی پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی۔اس ڈیل کے بعد یہ بھی عین ممکن تھا کہ امریکہ کی Westward Expansion کی کوششوں میں بھی فرانس ایک دیوار کی طرح حائل ہو جاتا، اور وہ دریائے مسی سپی امریکی تجارت کے لئے مکمل بند بھی کر سکتا تھا۔
فرانس اور امریکہ کے درمیان بات چیت
1801 میں تھامس جیفرسن (Thomas Jefferson) نے امریکہ کے تیسرے صدر کا عہدہ سنبھالا تو ان کے پیش نظر یہی تھا کہ وہ لوزیانہ کا علاقہ فرانس سے ایک ساتھ نہیں بلکہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں خرید لیں گے۔اس مقصد کے لئے انھوں نے پیرس میں امریکہ کے منسٹر رابرٹ لیونگ سٹون(Robert Livingstone) کو نپولئین کے منسٹر سے اس خریداری کے بارے میں بات کرنے کا کہا، لیکن نپولئین کے منسٹر سے یہ بات چیت کوئی نتیجہ خیز ثابت نا ہوئی۔
لیکن اس دوران ایسا ہوا کہ 1802 فرانس کو امریکی سرزمین سینٹ ڈامنگو (Saint Domingo) میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس شکست کے بعد فرانس کے معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گیا جبکہ برطانیہ کے ساتھ جنگ کے خطرات بھی منڈلا رہے تھے۔
اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لیونگ سٹون نے ایک اور ٹرمپ کارڈ کھیلا، اور خوب کھیلا، وہ یہ کہ “فرانس برطانیہ” جنگ میں امریکہ، برطانیہ کا ساتھ دیگا، لیونگ سٹون کو یہ تو معلوم تھا فرانس برطانیہ کے ساتھ جنگ کرنے جا رہا ہے لیکن اس کی معاشی مشکلات آڑے آرہی ہیں، ان مشکلات کا اندازہ نپولئین کو بھی تھا، لہذا امریکہ برطانیہ کا یہ گٹھ جوڑ فرانس کے لئے کسی صورت خطرے سے خالی نہیں تھا۔
اس دوران امریکہ سے جیمز منرو(James Munro) نے بھی لیونگ سٹون کو جوائن کر لیا۔لیکن ان کے پہنچنے سے نپولئین کی ہدایات پر امریکہ کو پوری کی پوری Louisiana Territory خریدنے کی آفر فرانس کی طرف سے دی جا چکی تھی۔ حالانکہ امریکہ صرف نیو اورلین اور فلوریڈاز کا علاقہ خریدنا چاہتا تھا۔دوستو یہاں مسئلہ یہ تھا لیونگ سٹون اور جیمز منرو کو اس خریداری کے لئے امریکی صدر کی طرف سے 10 ملین ڈالرز تک خرچ کرنے کی اجازت تھی۔لیکن فرانس کی طرف سے پورے لوزیانا کو 15 ملین ڈالرز کے عوض خریدنے کی آفر نے دونوں امریکی منسٹرز کو نا صرف حیران کر دیا بلکہ جلد فیصلہ کرنے کی ایک مشکل پوزیشن میں بھی ڈال دیا۔خیر کافی سوچ بچار کے بعد دونوں منسٹرز نے آخر یہ فیصلہ لے لیا کہ امریکہ یہ سارا علاقہ فرانس سے خرید لے گا۔یوں دونوں ممالک نے درمیان 2 مئی 1803 کو خریداری کے معاہدے پر سائن کر لئے گئے۔دوستو یہ یاد رہے کہ اس معاہدے پر 30 اپریل کی تاریخ لکھی گئی ہے۔
خریداری میں مسائل کیا تھے؟
منرو اور لیونگ سٹون کے فرانس سے امریکہ پہنچنے پر اس خبر کا باقاعدہ اعلان 4 جولائی 1803 کو کیا گیا، لیکن یہاں ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا، مسئلہ یہ تھا کہ امریکی صدر اور بالخصوص کچھ فیڈرلسٹس کے خیال میں یہ خریداری آئین کے مطابق درست نہیں تھی۔اس مسئلے کے حل کے لئے کہ، کیا یہ خریداری آئین کے مطابق درست ہے یا نہیں، House of Representative کا اجلاس بلایا گیا اور ووٹنگ کروائی گئی۔دوستو ووٹنگ میں اس ڈیل کے حق میں 59 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 57 ووٹ پڑے۔
اس کے بعد فیڈرلسٹس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی کہ یہ علاقہ سپین کے کنٹرول میں تھا تو فرانس کے ساتھ معایدہ کیسے کیا جا سکتا ہے، لیکن ریکارڈز سے یہ ثابت تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں، فرانس یہ علاقہ واپس لے چکا ہے۔
ایک اور سنگین مسئلہ یہ بھی تھا کہ معاہدے کے شرائط کے مطابق امریکہ لوزیانہ میں آباد فرنچ، سپینش اور فری بلیکس (Free Blacks) کو شہریت دینے کا پابند بھی تھا۔ کانگریس میں ناقدین کا خیال یہ تھا کہ جمہوریت سے ناواقف ان لوگوں کو شہریت دینا بالکل بھی درست نہیں۔یہاں یہ یاد رہے کہ اس وقت لوزیانا میں 70 ہزار کے قریب لوگ آباد تھے جن میں 60 ہزار کے لگ بھگ Non-Native امریکنز تھے یعنی وہ لوگ جن کے بارے میں ناقدین شدید concerned تھے۔
یہاں سپین کا اعتراض یہ تھا کہ فرانس نے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، وہ ایسے کے جب فرانس نے لوزیانہ کا علاقہ سپین سے واپس لیا تو اس وقت یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ فرانس یہ علاقہ کسی تھرڈ پارٹی یعنی کسی اور ملک کو نہیں دے گا، خیر فرانس نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کوئی خاص اہمیت نا دی۔
دوستو ان تمام اعتراضات پر ایک لمبی Debate کے بعد امریکی سینیٹ نے بالاخر آئین میں ترمیم کئے بغیر 20 اکتوبر 1803 کو معاہدے کی توثیق کر دی۔
امریکہ نے کیا پایا؟
امریکہ نے اس ڈیل میں 828000 مربع میل کا علاقہ، بلکہ آسانی کے لئے آپ یوں سمجھیں کے پاکستان جتنے تقریبا تین ممالک کا رقبہ اپنے ملک میں شامل کیا، جس سے امریکہ کا کل رقبہ ڈبل ہو گیا، یہ کتنا بڑا رقبہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا لیں کہ اس وقت امریکہ کی کل پچاس میں سے پندرہ ریاستیں یا تو مکلمل طور پر Louisiana Terrritory میں آتی ہیں یا پھر ان کا کچھ رقبہ لوزیانا Territoty کا حصہ ہے.
دوستو لوزیانہ کی مشرقی باؤنڈری مسیسپی دریا تھا، لیکن اس کے علاوہ اس کی باؤنڈریز well Defined نہیں تھیں۔ کیونکہ شمال میں اس کی کچھ علاقہ کینیڈا کے موجودہ بارڈر سے بھی اوپر تک پھیلا ہوا تھا، کینیڈا اس وقت ایک برٹس کالونی تھا، یہاں امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے کے ذریعے 49th parallel کو بارڈر مان لیا اور 49th پیرالل سے شمال کا علاقہ برطانیہ کو دے دیا جبکہ اس کے بدلے میں برطانیہ نے 49th پیرالل سے جنوب کا علاقہ امریکہ کے حوالے کر دیا۔ جبکہ مغرب میں Rocky Mountain کو لوزیانہ کا بارڈر مان لیا گیا۔
لوزیانہ ڈیل تھامس جیفر سن کے دورِ صدارت کی سب سے بڑی اچیومنٹس میں سے ایک ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ کی تاریخ کی سب سے اچیومنٹ تو بے جا نا ہو گا۔
اس ڈیل کے بعد امریکہ کی Westward Expansion کی راہ ہموار ہوئی اور اس نے ٹیکساس، میکسیکو کے شمالی علاقے بھی آہستہ آہستہ اپنے رقبے میں شامل کئے اور بالاخر امریکہ مغربی بارڈر پھیلتا پھیلتا بحرالاہل تک پہنچ گیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ کے جغرافیہ نے بھی اس کے سپر پاور بننے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر امریکہ یہ ڈیل نا کرتا تو شاید آج سپر پاور نا ہوتا۔ اس ڈیل سے جہاں امریکہ Westward Expansion کی راہ ہموار ہوئی وہیں لوزیانہ میں دریافت ہونے والے معدنی ذخائز نے امریکہ معیشت کی مضبوطی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔