Home Interesting Facts فیفا ورلڈکپ (قطر) 2022 حقائق اور تنازعات

فیفا ورلڈکپ (قطر) 2022 حقائق اور تنازعات

by Adnan Shafiq
0 comment

اس وقت دنیا میں کم و بیش آٹھ ہزار سے ذائد مقامی اور بین الاقوامی کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ لیکن دوستوں فٹبال ایک ایسا کھیل ہے جسے پوری دنیا میں 25 کروڑ سے زائد افراد کھیلتے ہیں۔ اس کے فینز دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں موجود ہیں اور دنیا کی نصف آبادی یعنی تقریباً 4 ارب افراد اسے فالو کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، 2018 میں فرانس اور کروشیا کے درمیان کھیلے جانے والے فٹبال ورلڈکپ فائنل کو کم و بیش 3.5 ارب افراد نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دیکھا تھا۔

فٹبال ورلڈ کپ جسے فیفا ورلڈ کپ بھی کہا جاتا ہے، دنیا میں کسی بھی کھیل کا سب سے بڑا مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس بار 2022 میں یہ ٹورنامنٹ قطر میں کھیلا جا رہا ہے، جس میں دنیا بھر سے 32 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ قطر نے اس بڑے ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لیے ریکارڈ 220 ارب ڈالر کے اخراجات کیے ہیں۔ اس ورلڈ کپ کے انفراسٹرکچر میں، آٹھ اسٹیڈیم، ایک ہوائی اڈے کی توسیع، ایک نیا ٹرانزٹ سسٹم، متعدد ہوٹل، شاپنگ سینٹرز اور کئی کلومیٹر لمبی نئی سڑکیں شامل ہیں۔

 آج کی اس ویڈیو میں ہم فیفا ورلڈکپ کی میزبانی سے متعلق دلچسپ حقائق جانیں گے اور قطر ورلڈکپ کے حوالے سے کی گئی منفرد تیاریوں اور اس سے جڑے تنازعات پر بھی ایک نظر ڈالیں گے۔

فٹبال اور فیفا ورلڈکپ کی تاریخ:

 فٹبال کو ایک قدیم کھیل سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فٹبال کا کھیل چین میں 476 قبل مسیح کے قریب ایجاد ہوا تھا، جہاں اسے Cuju (کھیو جا) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تاہم جدید فٹبال کی ابتدا انیسوی صدی میں برطانیہ سے ہوئی تھی۔

فٹ بال کو مینیج کرنے اور پوری دنیا میں اس کھیل کو ترقی دینے کے لیے FIFA یعنی “انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایسوسی ایشن فٹبال” کے نام سے ایک بین الاقوامی گورنگ باڈی موجود ہے۔ 1930 میں آغاز ہونے والا فیفا ورلڈکپ ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے، سوائے 1942 اور 1946 کے، جب دوسری جنگ عظیم کے دوران اس ٹورنامنٹ کا انعقاد نہیں ہو سکا۔ اب تک 21 بار منعقد ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں برازیل نے سب سے زیادہ یعنی 5 مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے۔

فیفا ورلڈکپ کھیلنے کے لیے ہر ٹیم کو ایک طویل اور کٹھن کوالیفائنگ مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے، اور اس مرحلے میں کامیاب ہونیوالی ٹیمیں ہی ورلڈکپ کے لئے کوالیفائی کرتی ہیں۔

بالکل اسی طرح ورلڈکپ کی میزبانی حاصل کرنا بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ دوستوں ورلڈکپ کے لیے آنے والے لاکھوں کی تعداد میں سیاح اور فٹبال فینز، ہزاروں کھلاڑیوں اور سٹاف اور سینکڑوں VIPs کی میزبانی کرنا یقیناً باعث فخر تو ہوتا ہے اور میزبان ملک کی اکانومی کے لیے کسی حد تک فائدہ مند بھی، لیکن کوئی بھی ملک جو ورلڈکپ کی میزبانی کرنا چاہتا ہو، اسے سب سے پہلے فیفا کے مقرر کردہ معیار، انفراسٹرکچر اورانتظامی امور کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔

ان کم از کم ضروریات میں اسٹیڈیم، ہوٹل، ٹرانزٹ اور کمیونیکیشنز اور الیکٹرکل گرڈ کے معیار شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ممکنہ میزبان کو bidding کے ایک جامع عمل سے گرنا پڑتا ہے۔ آخر میں ووٹنگ کا ایک پراسس ہوتا ہے اور پھر ایک پروقار تقریب میں میزبان ملک کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔ 

فیفا ورلڈکپ قطر 2022

قطر اسلامی دنیا کا پہلا ملک ہے جسے فیفا ورلڈکپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے۔ صرف 11,586 مربع کلومیٹر پر محیط  30 لاکھ سے بھی کم آبادی والے ملک قطر کا یہ بھی اعزاز ہے کہ وہ فیفا ورلڈکپ کی میزبانی کرنے والا سب سے چھوٹا ملک ھے۔ ورلڈ کپ 2022 کی میزبانی کے لیے 2010 میں ہونے والی تقریب میں، فیفا کی ایگزیکٹو کمیٹی نے امریکا، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور جاپان کے بجائے قطر کو 14 میں سے 8 ووٹ دے کر ایونٹ کی میزبانی سے نوازا تھا۔

قطر کی قومی فٹ بال ٹیم نے اب تک کسی ایک بھی فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کیا تھا، تاہم FIFA کے رولز کے مطابق میزبان ملک بغیر کوالیفائنگ راونڈ کھیلے ورلڈکپ میں شامل ہو جاتا ہے، اس لحاظ سے قطر کی ٹیم پہلی بار ورلڈکپ کھیلے گی۔

2022 کے ورلڈکپ میں فرانس کی ٹیم اپن ے ٹائٹل کا دفاع کرے گی۔ اس ورلڈکپ میں بہت سے بڑے بڑے کھلاڑی جیسا کہ پرتگال کے کرسٹیانو رونالڈو اور ارجنٹینا کے لائنل میسی آخری بار ایکشن میں نظر آئیں گے کیونکہ ممکنہ طور پر یہ 2026 کے ورلڈکپ تک ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔

ورلڈکپ کے لیے قطر میں داخل ہونے اور میچوں میں شرکت کے لیے آنے والے شائقین اور سیاحوں کو ویزا کی ظرورت نہیں ہو گی، بلکہ قطر کی حکومت نے اس مقصد کے لیے Hayya Card (حیا کارڈ) متعارف کروایا ہے۔ حیا کارڈ رکھنے والے 23 جنوری 2023 تک قطر میں رہ سکیں گے۔ 

، کیونکہ یہ کسی بھی مسلم ملک میں منعقد ہونے والا پہلا ورلڈ کپ ہے اس لیے دوسرے ممالک سے آئے ہوئے شائقین کے زہنوں میں الکوہول یعنی شراب کی دستیابی اور اس کے استعمال کے حوالے سے بہت سے خدشات ہیں۔ قطر میں عام طور پر شراب بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود، منتظمین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹورنامنٹ کے دوران شائقین کو اس قسم کے مشروبات اسٹیڈیمز کے اندر منتخب جگہوں پر پیش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ لائسنس یافتہ ہوٹلز اور بارز میں بھی الکوہلک ڈرنکس دستیاب ہو گی۔  

قطر کی میزبانی متنازعہ کیوں ہے۔ 

 2022 کے فٹبال ورلڈکپ کے جہاں اتنے منفرد  اور دلچسپ پہلو ہیں وہاں یہ بہت سے تنازعات میں بھی گھرا ہوا ہے۔ 

فیفا ورلڈ کپ عام طور پر جون اور جولائی کے مہینوں میں ہوتا ہے لیکن قطر میں ان مہینوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور اتنے گر  م موسم میں 90 منٹ کا میچ کھیلنا کھلاڑیوں کے لیے محفوظ نہیں، لہذا فیفا کی جانب سے قطر میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ کو موسم سرما میں منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے بہت سے ممالک کے ‘کلب فٹبال’ سیزن میں بھی خلل آئے گا۔ اس فیصلے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے فیفا انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

2010 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کے اعلان کے فوراً بعد یہ الزامات بھی عائد کیے گئے تھے کہ قطر میں ورلڈ کپ کے انعقاد کے لیے فیفا حکام کو رشوت دی گئی ہے۔ بعد میں فیفا کی جانب سے کی گئی آزادانہ تحقیقات میں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔

فیفا کے اس وقت کے صدر سیپ بلاٹر (Sepp Blatter) نے کئی سال بعد، ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ  قطر کو ٹورنامنٹ کی میزبانی دینا اچھا فیصلہ نہیں تھا اور میں اس وقت صدر کی حیثیت سے اس کا ذمہ دار تھا۔ یوئیفا (UEFA) یعنی یونین آف یورپین فٹبال ایسوسی ایشن کے سابق صدر مائیکل  پلاٹینی  اور ان کی ٹیم کے چار ووٹوں کی بدولت ورلڈ کپ کی میزبانی امریکا کے بجائے قطر کو مل گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ قطر ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے ایک  بہت چھوٹا ملک ہےاور فٹبال ورلڈ کپ اس کے لیے بہت بڑا ہے۔

اس کے علاوہ قطر کی حکومت کو ان نئے پروجیکٹس پر کام کرنے والے 30 ہزار غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ 2016 میں انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قطر پر جبری مشقت کا الزام عائد کیا تھا۔ ان الزامات کے مطابق بہت سے ملازمین ناقص رہائش میں رہ رہے تھے، ان کو مناسب تنخواہیں نہیں دی جاتی تھیں جبکہ ان کے پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے گئے تھے۔ 2017 سے حکومت نے غیر ملکی مزدوروں کو ضرورت سے زیادہ گرمی میں کام کرنے سے بچانے، ان کے کام کے اوقات کو محدود کرنے اور رہائشی کیمپوں میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات متعارف کرائے۔

ایک برطانوی اخبار کے مطابق ورلڈکپ کی تعمیرات کے دوران، قطر میں انڈیا، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 6500 ملازمین کی موت ہو چکی ہے۔ تاہم قطر کا کہنا ہے کہ 2014 سے 2020 کے دوران ورلڈ کپ سٹیڈیم پر کام کرنے والے 37 مزدوروں کی اموات ہوئیں لیکن ان میں سے 34 اموات دوران کام نہیں ہوئیں۔

بہرحال تقریباً ہر بڑے ٹورنامنٹ یا ایونٹ میں تنازعات لازمی جنم لیتے ہیں اور میزبان کی طرف سے اس کا جوابی دفاع بھی کیا جاتا ہے۔

ورلڈکپ کے انتظامات:

دوستوں میزبان ممالک کی جانب سے ورلڈکپ کی بھرپور انداز میں تیاریاں اور اس مناسبت سے نئے infrastructure کی تعمیر ہمیشہ سے ہی ہوتی رہی ہے۔ جیسا کہ 2018 کے ورلڈکپ میں میزبان روس نے ورلڈکپ کی تیاریوں پر 11.6 ارب ڈالر خرچ کئے جبکہ برازیل نے 2014 کے ورلڈکپ پر 15 ارب ڈالر خرچ کئے۔ لیکن حیران کن طور پر قطر 2022 کے فیفا ورلڈکپ پر تقریبا 220 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔

عام طور پر اسٹیڈیم کی تعمیر یا موجودہ اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن سے وابستہ اخراجات ہی ورلڈ کپ کے مجموعی اخراجات کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں، لیکن قطر میں اسٹیڈیم کے اخراجات ایک اندازے کے مطابق صرف 10 بلین ڈالر کے قریب ہیں، جبکہ باقی $210 بلین ڈالر جدید ترین infrastructure کی تعمیر پر خرچ ہو رہے ہیں جو بالواسطہ طور پر قطر نیشنل ویزن 2030 کے منصوبے کا حصہ ہیں جس کا مقصد قطر کو ایک  جدید اور ترقی یافتہ ملک بنانا اور اپنے لوگوں کے لیے اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کے تحت ورلڈکپ میں آنے والے مہمانوں کے لیے ہوٹلز اور ریسٹورینٹس کی تعمیر، جدید ترین ٹرانسپورٹ سسٹم،  ئئی سڑکوں کا نیٹورک، شاپنگ سنٹرز اور دیگر تفریحی مقامات شامل ہیں۔ یہ تمام انفراسٹرکچر ورلڈکپ کے بعد بھی قطر کے شہریوں کو سہولیات فراہم کرتا رہے گا۔

قطر نے اس ورلڈکپ کے لیے آٹھ اسٹیڈیمز تیار کیے ہیں۔ گرمی سے بچنے کے لیے ہر اسٹیڈیم میں جدید ائر کنڈیشنڈ سسٹم موجود ہے، جو اسٹیڈیم کا درجہ حرارت 27 ڈگری سینٹی گریڈ پر قائم رکھے گا۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر اسٹیڈیم کا ڈیزائن عرب ورثے کے کسی منفرد پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔ ان میں سے اکثر سٹیڈیمز کو ماڈ ولر ڈیزائن کے ساتھ اس طریقے سے بنایا گیا ہے کہ ٹورنامنٹ کے بعد انہیں دوبارہ ترتیب دیا جائے اور یہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال ہو سکیں۔ ٹورنامنٹ کے بعد، تقریباً 170,000 نشستیں ان سٹیڈیمز سے الگ کی جائیں گی اور ترقی پذیر ممالک کو  ان کے کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد کے لیے فراہم کی جائیں گی۔

ان اسٹیڈیمز کے منفرد ڈیزائنز پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔

لوسیل (Lusail) سٹیڈیم، قطر کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے جس میں ورلڈکپ کے فائنل کے علاوہ دیگر اہم میچز کھیلے جائیں گے۔ اس  سٹیڈیم میں 80 ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اسٹیڈیم کو عرب کی روایتی فنار لالٹین کی روشنی اور سائے کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے۔ سٹیڈیم کی شکل اور ڈیزائن اسلامی تہذیب کے عروج کے دوران تمام عرب اور اسلامی دنیا میں پائے جانے والے ہاتھ سے تیار کردہ برتنوں، پیالوں اور آرٹ کے فن پاروں کی عکاسی کرتا ہے۔

قطر کے دوسرے بڑے سٹیڈیم ال بیت سٹیڈیم میں 60,000 افراد کی گنجائش ہے اور اس میں ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب منعقد کی جائے گی۔ ال بیت اسٹیڈیم عرب کے روایتی خیمے، بیت الشعار کے ڈیزائن کے مطابق تیار کیا گیا ہے، یہ خیمے تاریخی طور پر قطر کے خانہ بدوش لوگ استعمال کرتے تھے۔

احمد بن علی اسٹیڈیم کا ڈیزائن، اور اس کے آس پاس کی عمارتیں، مقامی ثقافت اور روایات کے پہلوؤں کی آئینہ دار ہیں۔ سٹیڈیم کا فرنٹ ریت کے ٹیلوں کی لہروں کی عکاسی کرتا ہے جبکہ اس میں موجود جیومیٹریکل پیٹرن صحرا کی خوب صورتی، دیسی نباتات اور حیوانات کے ساتھ ساتھ مقامی اور بین الاقوامی تجارت کی عکاسی کرتے ہیں۔

الجنوب اسٹیڈیم جنوبی شہر الوقرہ (Al Wakrah) میں واقع ہے، جو قطر کے سب سے قدیم اور مسلسل آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔ اسٹیڈیم کا دلکش ڈیزائن قطر کی روایتی کشتیوں کے ہوا سے بھرے بادبانوں کی عکاسی کرتا ہے اور ال وقرہ کے ماہی گیری اور غوطہ خوروں کے ماضی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

ال ثمامہ اسٹیڈیم  کی منفرد اور تخیلاتی شکل مقامی ثقافت اور روایات کی آئنہ دار ہے۔ اس کا ڈیزائن روایتی جالی دارعربی ٹوپی قحفيہ کی عکاسی کرتا ہے جو خاندانی زندگی کا ایک لازمی حصہ اور روایات کا مرکز ہے۔ 

ایجوکیشن سٹی اسٹیڈیم کا انتہائی جدید ڈیزائن روایتی اسلامی فن تعمیر کی جیومیٹری کی شکلوں سے متاثر ہے۔بیرونی حصے پر، مثلث یعنی triangles کی مدد سے بنا ہیرے کی شکل کا سٹرکچر ہے، جو سورج کی روشنی کے ساتھ مختلف رنگوں میں چمکتا ہے۔ رات کے وقت، ایک ڈیجیٹل لائٹ شو شائقین کو ایک منفرد منظر فراہم کر تا ہے۔ 40000 شائقین کی گنجائش والا یہ اسٹیڈیم متعدد معروف جامعات میں گھرا ہوا ہے۔

1976 میں تعمیر کردہ خلیفہ انٹرنیشنل اسٹیڈیم  اب تک متعدد بڑے میچوں کی میزبانی کر چکا ہے۔ اب اس اسٹیڈیم کو عالمی کپ کے لیے دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے– اسٹیڈیم کی شاندار دوہری محرابیں ہمیشہ سے اس کی سب سے زیادہ پہچانی جانے والی خصوصیات میں سے تھیں۔ ان کو برقرار رکھتے ہوئے اب ان کے نیچے ایک وسیع کینوپی بھی بنائی گئی ہے۔ نئی تعمیر میں 12000 نشستوں کا اضافہ کیا گیا ہے اور اب اس اسٹیڈیم میں 40000  افراد کی گنجائش ہے۔

اسٹیڈیم 974 نے اپنے پہلے میچ سے پہلے ہی تاریخ رقم کر دی ہے۔ مکمل طور پر شپنگ کنٹینرز اور ماڈیولر اسٹیل سے تعمیر کیے گئے اس سٹیڈیم میں تقریباً چالیس ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ اس کا منفرد ڈیزائن اور لوکیشن قطر کی عالمی تجارت اور سمندری سفر کی دیرینہ روایت کی عکاسی کرتا ہے۔ نمبر 974 قطر کا نا صرف بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ ہے، بلکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والے شپنگ کنٹینرز کی صحیح تعداد بھی ہے۔ یہ فیفا ورلڈ کپ کی تاریخ کا پہلا عارضی سٹیڈیم ہے، یعنی ورلڈکپ کے بعد سٹیڈیم میں استعمال ہونے والے شپنگ کنٹینر اور سیٹیں ختم کر دی جائیں گی۔

ٹرانسپورٹ سسٹم

 قطر ورلڈکپ کے لیے تعمیر کیے گئے تمام آٹھ اسٹیڈیمز قطر کے دارالحکومت دوہا کے گرد و نواح میں واقع ہیں۔ ایک جدید ترین میٹرو ٹرانسپورٹ سسٹم اور اس سے منسلک بسوں کا ایک نیٹورک، خاص ورلڈکپ کے شائقین کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس ٹرانسپورٹ سسٹم کے ذریعے تمام سٹیڈیمز تک رسائی نہایت آسان ہوگئی ہے اور شائقین کم ترین وقت میں ایک اسٹیڈیم سے دوسرے سٹیڈیم تک پہنچ سکتے ہیں اور ایک ہی دن میں منعقد ہونے والے تمام مقابلے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ شائقین کی سہولت اور تفریح کے لیے ہر سٹیڈیم کے گردونواح میں ہوٹلز، ریسٹورانٹس اور شاپنگ سینٹرز بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، دبئی اور عمان نے صرف اس فیفا ورلڈکپ کے شرکاء کے لیے ایک نیا ملٹی انٹری ٹورسٹ ویزا شروع کیا ہے۔ اس کے تحت حیا کارڈ ہولڈرز سعودی عرب اور عمان میں 60 دن اور دبئی میں 90 دن تک قیام کر سکیں گے، اور اس کے لیے قطر میں پہلے سے داخلے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ ان تمام ملکوں کے درمیان کم فاصلہ ہونے کے باعث، بہت سے سیاح ورلڈکپ کے دوران سعودی عرب، دبئی یا عمان میں بھی قیام کرسکیں گے۔

 

ورلڈ کپ میں پاکستان کا کردار

 خوش آئند بات یہ ہے کہ پہلے بہت سے ورلڈکپ کی طرح اس ورلڈ کپ میں بھی استعمال ہونے والی آفیشل میچ بال پاکستان میں تیار کی گئی ہے۔ اس گیند کو ال ریحلہ (Al Rihla) کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے ‘سفر’۔ اسے سیالکوٹ کی ایک کمپنی ‘فارورڈ سپورٹس’ کے ذریعے ایڈیڈاس نے تیار کیا ہے۔

اس ورلڈکپ میں پاکستان کا ایک اور نہایت اہم کردار بھی ہے۔ قطری حکومت نے پاکستان سے فیفا ورلڈ کپ 2022 کے دوران سیکیورٹی میں معاونت کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد وفاقی کابینہ نے فیفا ورلڈ کپ کی سیکیورٹی کے لئے قطر کو معاونت فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔ اور پاک فوج کے دستے جن میں افسران، جونیئر کمیشنڈ افسران اور جوان شامل ہیں، ورلڈکپ کی سیکیورٹی سنبھالنے قطر پہنچ گئے تھے۔ ورلڈکپ 2022 کی شاندار اور پروقار افتتاحی تقریب 20 نومبر کو ہونے جا رہی ہے۔ اور اس کا فائنل 18 دسمبر کو کھیلا جائے گا۔ 

  

You may also like

Leave a Comment

error: Content is protected!!
urUrdu