خوبصورت ساحلوں اور ترقی یافتہ شہروں والا ملک آسٹریلیا جو اتنا بڑا ہے کہ اس میں پاکستان جیسے 9 ملک سما جائیں۔ یہی نہیں انڈیا جیسے دو ملک مل جائیں تو ایک آسٹریلیا بنے گا۔۔ یقیناً یہ رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے لیکن اس کی آبادی اتنی کم ہے کہ اس کے رقبے کو لوگوں میں تقسیم کرنے کا اعلان ہوجائے تو ہر شخص کے حصے میں 585 کنال یعنی 73 ایکٹر کے لگ بھگ زمین آئے گی۔ پاکستان کے حساب سے بات کریں تو یہ زمین تقریباً 3 مربع بنے گی۔ لیکن حیران کن طورپر یہ ملک اس قدر غیرگنجان آباد ہے کہ اس کے ایک کلومیٹر رقبے پر اوسطاً 4 سے بھی کم لوگ رہتے ہیں۔اس کی آبادی کی فی کلومیٹر شرح 3.4 فیصد ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ملک میں 80 فیصد سے زائد لوگ ساحلوں کے قریب ترین رہتے ہیں۔ اور ملک کا 95 فیصد حصہ بالکل خالی پڑا ہے۔لوگوں کے اس طرح رہنے کی وجہ کیا ہے۔۔ آسٹریلیا میں آبادی اتنی کم کیوں ہے۔ اور اتنا وسیع رقبہ خالی ہونے کے باوجود اس ملک کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کیوں ہوتا
آسٹریلیا کتنا بڑا ہے؟
دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم کے سب سے بڑے ملک آسٹریلیا کو دنیا کے کئی ماہرین ارضیات دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ مانتے ہیں۔ جس کا رقبہ 76 لاکھ 88 ہزار مربع کلومیٹرسے زائد ہے، یوں یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ یہ بھارت سے دگنا اور پاکستان سے 9 گنا بڑا ہے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد جبکہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔تاہم آسٹریلیا کی آبادی صرف 2 کروڑ 60 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کا رقبہ امریکہ کی 48 ریاستوں کے برابر ہے۔ تاہم اس کی آبادی کیلی فورنیا سے بھی کم ہے، حتیٰ کہ ٹیکساس کی آبادی بھی آسٹریلیا سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب آسٹریلیا کے رقبے اور آبادی کے تناسب کا یورپ سے موازنہ کریں تو صرف انگلینڈ کی آبادی آسٹریلیا سے دگنی ہے، جبکہ آسٹریلیا انگلینڈ سے رقبے میں 32 گنا بڑا ہے۔۔ یہی نہیں دنیا میں کئی جزیروں کی آبادی بھی آسٹریلیا سے زیادہ ہے، مثال کے طور پر صرف انڈونیشیائی جزیرے جاوا کی آبادی آسٹریلیا سے 6 گنا زیادہ ہے، تاہم اس کا رقبہ آسٹریلیا سے 60 گنا کم ہے۔
آبادی کی حیران کن تقسیم
آسٹریلیا یوں تو دور دور تک پھیلا ہوا ہے لیکن اس کی آبادی صرف ساحلوں تک سمٹ گئی ہے۔ اس کے 7 میٹروپولیٹن شہروں میں سے میلبورن، سڈنی، برسبین، پرتھ اور ایڈیلیڈ ایسے شہرہیں، جن کی آبادی آسٹریلیا کی کل آبادی کے دو تہائی سے زیادہ ہے۔ شہری آبادی کے لحاظ سے آسٹریلیا اس قدر آگے ہے کہ یہاں کی لگ بھگ 87 فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔اور یہ ساری شہری آبادی ملک کے کل رقبے کے ایک فیصد سے بھی کم علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ آسٹریلیا میں آبادی کی اس قدر حیران کن تقسیم کا جائزہ آپ کو اور بھی حیران کردے گا۔
آپ کو بتائیں کہ ریاست ویسٹرن آسٹریلیا۔۔ ملک کے 33 فیصد سے زائد رقبے کی حامل ہے، جس کے ایک شہر ایسٹ پلبارا شائرا East Pilbara shire کا رقبہ جاپان جتنا یعنی پونے چار لاکھ مربع کلومیٹر ہی ہے لیکن اس شہر میں صرف ساڑھے 10 ہزار لوگ ہی رہائش پذیر ہیں۔ دوسری جانب جاپان کی آبادی ساڑھے 12 کروڑ افراد سے بھی زائد ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسٹ پل بارا شائرا کی کل آبادی میں سے بھی آدھے لوگ صرف ایک چھوٹے سے علاقے نیو مین New Man میں رہتے ہیں، یعنی یہاں نیو مین کے علاوہ دیگر تمام علاقے کے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کیلئے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔۔ دوستو! آپ کو یہ بھی بتادیں کہ دنیا میں گائیوں کا سب بڑا کیٹل سٹیشن cattle station یا سب سے بڑے رقبے پر پھیلا کیٹل فارم بھی آسٹریلیا میں ہی ہے۔ ساؤتھ آسٹریلیا کے علاقے اینا کریک Anna Creek کا یہ کیٹل سٹیشن 24 ہزار مربع کلومیٹر پرپھیلا ہوا ہے۔ لیکن یہاں صرف چند ایک افراد ہی رہتے ہیں، جو 10 ہزار سے زائد گائیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
طویل اور سنسان سڑکیں
آسٹریلیا اتنا بڑا ہے کہ اس میں ایک ہی ریاست میں موجود دو شہر بھی ایک دوسرے سے ہزاروں کلومیٹر دور ہیں۔ان میں سے ایک شمال میں موجود کونونورا kununurra ہے تو دوسرا جنوب میں موجود ایسپیرنس Esperance۔۔ دونوں ایک دوسرے سے اتنے دور ہیں کہ گاڑی سے ہائی وے کے راستے جائیں تو منزل پر پہنچنے میں 36 گھنٹے لگ جائیں گے۔ ان کے درمیان 3 ہزار 2 سو کلومیٹر سے بھی زائد کا فاصلہ ہے، حیرانگی کی بات ہے کہ دونوں شہروں کو ملانے والی سڑک ہائی وے ون High way 1 کا حصہ ہے جو ویرانی کا منظر پیش کرتی ہے اور انتہائی سنسان ہے، کیونکہ اس کے اردگرد کے قریبی علاقوں میں 70 ہزار سے بھی کم لوگ آباد ہیں۔
اس کے علاوہ آسٹریلیا کی سنسنان اور طویل سڑکوں میں آؤٹ بیک ہائی وے ،گریٹ ناردرن ہائی وے Great Northern Highway، سٹیورٹ ہائی وے Stuart Highway، آئر ہائی وے Eyre Highway، بروس ہائی وے Bruce Highway شامل ہیں۔
آسٹریلیا کا وسیع رقبہ خالی کیوں؟
آسٹریلیا میں لوگ ساحلوں کے قریب قریب ہی کیوں رہتے ہیں اور اس کا درمیانی لاکھوں مربع کلومیٹر پر پھیلا رقبہ اتنا خالی کیوں ہے۔ تو اس کی سب سے بڑی وجہ قحط سالی، صحرائی علاقے اور بنجر زمین ہے۔ آسٹریلیا کا پہاڑی سلسلہ اس کے مشرق میں شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا ہے۔ اس سلسلہ کوہ، کو گریٹ ڈیوائیڈنگ رینج Great Dividing Range کہا جاتا ہے۔ 3 ہزار 5 سو کلومیٹر طویل اور تقریباً 300 کلومیٹر چوڑا یہ پہاڑی علاقہ دنیا کا پانچواں بڑا سلسلہ ہائے کوہ ہے۔ جس میں چوٹیاں صرف 2 ہزار میٹر تک اونچی ہی نہیں بلکہ حیران کن طور پر کافی چوڑی بھی ہیں۔ ماہرین موسمیات کے مطابق انہی چوٹیوں کی وجہ سے مشرق کی طرف سے آنے والی ہوائیں مشرقی، شمال مشرقی اور جنوب مشرقی ساحلی علاقوں میں ہی بادل برسا کر تھم جاتی ہیں اور ان کی شدت میدانی علاقوں تک آتے آتے انتہائی کم رہ جاتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں بارش نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ آسٹریلیا کے دو تہائی حصے میں سالانہ 500 ملی میٹر سے بھی کم بارش کا ہوتی ہے۔ دوسری جانب آسٹریلیا کے جنوب میں انٹارکٹیکا سے آنے والی سردہوائیں بارش برسانے والی ہواؤں کی جان ہی نکال دیتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آسٹریلیا کا 18 فیصد یعنی پونے 14 لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ مکمل طور پر صحرا ہے جبکہ مجموعی طور پر 35 فیصد رقبے کو صحرائی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس کا مکمل صحرائی رقبہ جنوبی افریقہ،کولمبیا، مصر نائجیریا اور پاکستان جیسے بڑے بڑے ملکوں کے کل رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ آسٹریلیا کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ اس کے بنجر اور نیم بنجر علاقے کو بھی شامل کرلیں تو آسٹریلیا کا ناقابلِ کاشت رقبہ کل رقبے کا 70 فیصد بن جاتا ہے۔۔ ایک طرف آسٹریلیا صحرائی رقبے کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ ممالک میں شامل ہے تو دوسری جانب یہ جنگلات کے رقبے کے لحاظ سے بھی دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے، جس کے جنگلات 31 کروڑ ایکڑرقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، یہ رقبہ آسٹریلیا کے کل رقبے کا 18 فیصد ہے۔۔ایک اور اہم بات کہ آسٹریلیا کے جنگلات زیادہ تر ساحلی علاقوں کے قریب ہیں۔ آسٹریلیا میں موسم اتنا شدید ہے کہ اس کے نیوساؤتھ ویلز کے جنگلوں میں اکثرگرمی کی وجہ سے آگ لگ جاتی ہے۔ 2019 اور 2020 میں لگنے والی آگ نے 6 کروڑ ایکڑ سے زائد رقبے کو اتنا متاثر کیا تھا کہ اکثرمقامات پر درخت جل کر کوئلہ بن گئے تھے۔ ایسے میں یہاں رہنے والی جانوروں کی ہزاروں نسلیں بھی متاثر ہوئیں۔آسٹریلیا میں چونکہ آباد کاری کافی دیر سے شروع ہوئی اور آبادی اب بھی بہت ہی کم ہے تو اس وجہ سے یہاں کے جنگلوں میں جانوروں کو وہ نسلیں بھی پائی جاتی ہیں، جو دنیا میں کہیں نہیں ملتیں۔ آسٹریلیا میں موسم کی شدت ان نسلوں کیلئے موت کا پیغام بنتی جارہی ہیں کیونکہ آسٹریلیا میں گزشتہ چند دہائیوں میں 10 میں سے 7 گرم ترین سال صرف 2005 کے بعد آئے ہیں، جن کی وجہ سے دریائی علاقے بھی پانی کی شدید قلت کا شکار ہورہے ہیں۔
اس کے علاوہ آسٹریلیا کے زیادہ تر دریا بھی ساحلی علاقوں میں ہی ہیں اور درمیانی علاقوں میں دریا نا ہونے کے برابر ہیں، اس کی وجہ سے بھی وسطی علاقے بنجر ہیں۔تو دوستو! اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آسٹریلیا ایک ترقی یافتہ ملک ہے، اس کے پاس وسائل کی کمی نہیں، تو پھر اس نے خشک سالی پر قابو پانے اور ملک کے وسطی علاقوں میں موجود صحرا ئی اور بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کیلئے کوئی اقدامات کیوں نہیں کئے۔ تو آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 1938 میں ایک آسٹریلوی انجینئر ڈاکٹر جان بریڈ فیلڈ Dr John Bradfield نے اپنے ملک کی قحط سالی دور کرنے کیلئے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جسے بریڈفیلڈ سکیم کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے تحت شمالی کوئنز لینڈ میں بہنے والے دریاؤں کے پانی کو پائپ لائنوں، سرنگوں، پمپز اور ڈیمز کے ذریعے ان علاقوں تک پہنچانے کا پلان بنایا گیا، جہاں پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وسیع رقبہ ویران پڑا ہے۔ اس نظامِ آبپاشی کی مجوزہ لمبائی 7 ہزار 8 سو کلومیٹر ہونا تھی۔ اس منصوبے کو انتہائی مہنگا اور ناقابلِ عمل ہونے کی وجہ سے مسترد کردیا گیا تھا۔یہ منصوبہ تو آج تک شروع نہیں ہوسکا لیکن دوسرے ماہرین نے اس سکیم کو بنیاد بناکر اپنے اپنے منصوبے بھی پیش کردیئے ہیں۔ ڈاکٹر جان بریڈ فیلڈ کے منصوبے پر30 ارب ڈالر تک لاگت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آسٹریلیا کا اگر 70 فیصد حصہ صحرائی یا بنجرہے تو اس میں پانی تو ملتا ہی نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ آسٹریلیا میں چھوٹے بڑے دریاؤں کی تعداد 4 سو سے بھی زائد ہے، ان میں سے سات تو اتنے بڑے ہیں کہ سب سے چھوٹے دریا ۔ پارو ریور۔ Paroo River کی لمبائی 1200 کلومیٹرسے زائد ہے۔ جبکہ آسٹریلیا کا سب سے طویل دریا۔مری ریور Murray River ہے، جس کی لمبائی 24 سو کلومیٹر کے قریب ہے۔ یہ دریا میلبورن، سڈنی، برسبین اور ایڈیلیڈ جیسے گنجان آباد شہروں میں سے گزرتا ہے۔ ہزاروں کلومیٹر طویل دریا۔ سال کے کئی کئی مہینے خشک بھی رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں اوسطاً پانی پاکستانی دریاؤں سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کے پاس تازہ پانی کے 492 کیوبک کلومیٹرواٹر ریسورسز ہیں جو پاکستان سے تقریباً دوگنا ہیں۔ یہاں ایک اور حقیقت کافی دلچسپ ہے کہ آسٹریلیا کے پاس پاکستان سے دوگنا پانی ہونے کے باوجود اس کے 30 فیصد قابلِ کاشت رقبے میں سے بھی صرف 6 فیصد زمین پرہی کاشتکاری کی جارہی ہے، حیران کن طورپر یہ زمین سات ملکوں انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، ویت نام، لاؤس اور کمبوڈیا کے کل زرعی رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ ان تمام ملکوں کی مجموعی آبادی 54 کروڑ سے زائد ہے لیکن آسٹریلیا کی آبادی ان کے مقابلے میں صرف ڈھائی کروڑ ہے، یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں آسٹریلیا اپنے شہریوں کو خوراک کی فراہمی میں خود کفیل ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی زرعی زمین 9 کروڑ افراد کو خوراک کی تمام سہولتیں فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس کی آبادی صرف 2 کروڑ 60 لاکھ سے کچھ ہی زائد ہے۔۔
آسٹریلیا کے زرعی اور معدنی وسائل
آسٹریلیا دالوں کی پیداوار میں دنیا بھر میں تیسرے، گندم کی پیداوارمیں 13 ویں اور کپاس کی پیداوار میں چھٹے نمبرپرہے۔آسٹریلیا دنیا میں چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ چارہ پیدا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں بھیڑوں اورگائیوں کے بڑے بڑے فارم موجود ہیں، اس کے علاوہ آسٹریلیا میں جانوروں کی کئی نایاب نسلیں موجود ہیں، جن میں کینگروز سرفہرست ہیں۔ آسٹریلیا معدنی وسائل کی ٹاپ ٹین لسٹ میں بھی شامل ہے۔ خام لوہے کی فہرست میں تمام ممالک آسٹریلیا سے پیچھے ہیں تو سونے کی پیداوار میں اس کا چین کے بعد دوسرا نمبرہے۔ کوئلے، گیس، تانبے، ایلومینیئم، ڈائمنڈ، پلاٹینیئم، چاندی، نِکل، اور زنک کی پیداوارکی کوئی بھی ٹاپ ٹین لسٹ آسٹریلیا کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
قدیم آسٹریلین باشندے
ماہرین کے مطابق آسٹریلیا میں انسانوں کی موجودگی کے قدیم ترین شواہد 60 سے 70 ہزار سال پرانے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق تو آسٹریلیا کا علاقہ پلبارا Pilbara قدیم ترین زندگی کے مقامات میں سے ایک ہے۔ ایک وقت تھا کہ آسٹریلیا میں سمندر کی سطح اتنی بلند نہیں تھی اور لوگ ایشیائی ممالک سے بھی یہاں خشکی کے راستے آجاسکتے تھے لیکن پھر ہزاروں سال پہلے یہ زمینی خطے پانی میں ڈوب گئے اور پھر یہ زمین کا یہ ٹکڑا ایشیا سے الگ ہوگیا، یوں ہم کہہ سکتے ہیں یہاں آباد ہونے والے ابتدائی افراد ایشیائی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق یہ افراد وسطی ایشیائی ممالک اور خلیجی ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ انہی علاقوں سے لوگ افغانستان اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں آکر آباد ہوئے۔ اس طرح یہ بھی کہا جا سکتا یے کہ آسٹریلوی نسل کے لوگوں کا تعلق پاکستان میں رہنے والے بلوچوں اور پٹھانوں سے بنتا ہو۔
آسٹریلیا کی جدید آباد کاری
آسٹریلیا میں جدید نسلوں کی آباد کاری کا جائزہ لیں تو یہاں سب سے پہلے 1606 میں ڈچ آکر آباد ہوئے۔ پھر یورپ کے مختلف ملکوں سے لوگ سونے کی تلاش میں یہاں آنے لگے اور1850 کے بعد یورپی نسلوں کے لوگوں نے یہاں مستقل رہائش اختیار کرنا شروع کردی۔ کیونکہ یہاں انسان دور دور نظر آتے تھے اور باقی زمین ہی زمین تھی۔ آسٹریلیا کی آبادی نہ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ان کی نسل پرستی بھی تھی، کیونکہ 1901 میں یورپی ملکوں کے گوروں کے علاوہ تمام دیگر ممالک کے آسٹریلیا میں رہنے پر پابندی لگادی گئی۔ اس پابندی کا سب سے زیادہ اطلاق ایشیائی خصوصاً چائنز نسل کے لوگوں پر کیا گیا۔ اس دوران امریکا نے ایشیائی لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے اور آج دو کروڑ ایشیائی یا ایشیائی نژاد لوگ امریکا میں رہ رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپان نے آسٹریلیا پر حملہ کردیا تو آسٹریلیا کو اپنی آبادی بڑھانے کی فکر پڑی، اس دوران ایک طرف پولینڈ سمیت مختلف ملکوں سے عالمی جنگ کے ستائے لوگوں نے آسٹریلیا کا رخ کیا تو دوسری طرف آسٹریلیا نے 1949 سے مرحلہ وار وائٹ آسٹریلین پالیسی کا خاتمہ کرنا شروع کردیا۔ پھر 1973 میں مکمل طور پر نسلی تعصب پر مبنی قوانین کو ختم کردیا گیا اور آسٹریلیا کے دروازے ایشیائی اور افریقی باشندوں کیلئے بھی کھل گئے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ آسٹریلیا کو آنے والے برسوں میں قحط سالی اور خشک سالی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس لئے اسے فوری طور پر اپنے صحرائی علاقوں کو ناصرف زرعی علاقوں میں بدلنا ہوگا بلکہ بڑے پیمانے پر آبادی کاری بھی شروع کرنا ہوگی تاکہ اتنے بڑے ملک کا نظام چلایا جاسکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آسٹریلیا کہ آبادی 2050 تک بھی صرف 4 کروڑکے لگ بھگ ہی ہوگی۔