Home Interesting Facts معاشی پابندیاں کیا موثرثابت ہوتی ہیں؟

معاشی پابندیاں کیا موثرثابت ہوتی ہیں؟

by Adnan Shafiq
0 comment

عالمی منظرنامے پر جب کوئی تنازعہ زور پکڑتا ہے تو ہمیں اکثر بڑی معاشی طاقتوں کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کے اعلانات سننے کو ملتے ہیں اور کسی ملک پر مختلف معاشی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔لیکن دوستو یہ معاشی پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں اور کس کے پاس انھیں عائد کرنے کا اختیار ہے؟کیا ان پابندیوں سے اس ٹارگٹ ملک کی معیشت کو کسطرح نقصان پہنچتا ہے اور پاکستان پر کب کب پابندیاں عائد کی گئی ہیں؟ کیا یہ پابندیاں اپنا اصل مقصد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوتی ہیں یا نہیں؟وہ ممالک جو ان پابندیوں کا شکار ہوتے ہیں انھیں بائی پاس کیسے کرتے ہیں اور ان پر ماہرین تنقید کیا کرتے ہیں؟

معاشی پابندیاں کیا ہوتی ہیں؟

 معاشی پابندی کسی ایک ملک، یا مختلف ممالک کی طرف سے عائد کی  جانے والی تجارتی یا مالی بندشیں ہوتی ہیں، جو ٹارگٹ ملک کو یعنی جس ملک پر یہ پابندیاں عائد کرنا ہوتی ہیں، کسی بین الاقوامی اصول کی خلاف ورزی کرنے پر عائد کی جاتی ہے، عام طور پر یہ خلاف ورزی اس ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی، نسلی امتیاز برتنے پر، اس ملک کی طرف سے چھیڑی گئی جنگ یا پھر کسی انتہا پسند گروپ کی حمایت ہو سکتی ہے۔دوستو پابندیاں صرف کسی ملک کے خلاف ہی نہیں بلکہ کسی گروہ جماعت یا پھر کسی Individual کے خلاف بھی ہو سکتی ہیں۔

ان پابندیوں کا مقصد بظاہر تو ٹارگٹ ملک کو سبق سکھانا اور اسے اپنے رویے میں تبدیلی لانے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔حال ہی میں آپ نے روس یوکرین جنگ کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کی گئی پابندیوں کی بازگشت تو ضرور سن رکھی ہوگی، ان پابندیوں کا مقصد روس کو جنگ سے باز رکھنا تھا۔ایران کو اپنا نیو کلئیر پروگرام ترک کرنے کے لئے بھی کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا کئی دہائیوں سے کرنا پڑ رہا ہے۔

اب ہم چلتے ہیں اپنے اس سوال کی طرف کہ معاشی پابندیاں کون لگا سکتا ہے اور یہ کتنی اقسام کی ہوتی ہیں؟

 عملی طور پر معاشی پابندیاں ہر ملک لگا سکتا ہے لیکن عموما” یہ بڑی طاقتوں یا آرگنائزیشن کی طرف سے ہی لگائی جاتی ہیں جن میں یونائٹڈ نیشنز، امریکہ، یورپی یونین، چین، روس جیسے طاقتور ممالک شامل ہیں۔اگر کوئی ایک ہی ملک کسی دوسرے ملک پر یہ معاشی پابندیاں عائد کرے تو یونی لیٹرل، جبکہ دو یا دو سے زیادہ ممالک اگر یہ پابندیاں عائد کریں تو ملٹی لیٹرل اکانومک سینکشنز کہلاتی ہیں۔

معاشی پابندیوں کی مختلف فارمز ہو سکتی ہیں جن میں ٹریول رسٹرکشن یعنی اپنی ائیر سپیش کو کلوز کر دینا اور کسی ملک کے شہریوں کا داخلہ اپنے ملک میں روک دینا، تجارتی پابندیاں یعنی کسی ملک سے کوئی چیز خریدنے یا اسکو کوئی چیز بیچنے پر بندش لگا دینا یعنی امپورٹس یا ایکسپورٹس یا پھر دونوں پر پابندی عائد کر دینا، اپنے ملک میں موجود ٹارگٹ ملک کے اثاثے منجمد کردینا یا پھر اس ملک سے  آنے والی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کر دینا شامل ہے۔

اب جانتے ہیں کہ یورپی یونین، امریکہ اور یونائیٹد نیشنز میں کسی بھی ملک پر پابندیاں عائد کرنے کا پراسس کیا ہے؟

 یورپی یونین 27 طاقتور  اور انتہائی امیر یورپی ممالک کا اتحاد ہے، یورپی یونین کی طرف سے کسی بھی ملک کی طرف سے مبینہ اشتعال انگیزی یا عالمی امن کو برباد کرنے کی کاروائیوں کا جواب معاشی پابندیوں کی صورت میں دیا جاتا ہے، یہی اس اتحاد کا مشترکہ اور طاقتور ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ یورپی اتحاد کی طرف سے کسی ملک پر پابندیاں عائد کرنے فیصلہ تمام ممبر ممالک کا متفقہ ہوتا ہے، جس کی حتمی منظوری کونسل آف یورپئین یونین دیتی ہے۔یورپی یونین اپنے قیام کے لے کر اب تک تیس مرتبہ مختلف ممالک پر اپنے اس ہتھیار کا استعمال کر چکی ہے۔اس کے ٹارگٹ کئے گئے ممالک میں شمالی کوریا، عراق کے علاوہ امریکہ، روس اور چین جیسے طاقتور ممالک بھی شامل ہیں۔ 

دوسرے نمبر پر اگر سپر پاور امریکہ کو دیکھا جائے تو یہاں کسی بھی ملک پر پابندیاں عائد کرنے کا اختیار کانگریس اور صدر دونوں یعنی  لیجسلیٹو(Legislative) اور ایگزیکٹو(Executive) برانچ کے پاس ہے۔صدر اپنے اس اختیار کا استعمال براہ راست ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کرتا ہے اور زیادہ تر کیسز میں ایسے ہی ہوتا ہے، اس کے علاوہ کانگریس بھی کسی ملک ملک کے خلاف پابندیوں کا بل پاس کر سکتی ہے، لیکن اس  صورت میں بھی حتمی فیصلہ بہرحال صدر ہی کرتا ہے۔امریکہ، روس، چین، بھارت، پاکستان اور ایران کے خلاف اس ہتھیار کا استعمال کئی مرتبہ کر چکا ہے، یونائیٹد سٹیس میں کسی ملک پر پابندیوں کے معاملات Treasury Department دیکھتا ہے۔امریکہ میں اس وقت بھی مختلف ممالک اور گروہوں کے خلاف پابندیوں کے دو درجن سے زائد Active Programs چل رہے ہیں۔2021 میں جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو امریکہ نے افغانستان کے 7 ارب ڈالرز کے اثاثے جو فیڈرل ریزرو بنک آف نیویارک میں پڑے ہوئے تھے وہ منجمد کر دئیے تھے۔

تیسرے نمبر پر آتی ہے اقوام متحدہ، یہاں کسی بھی ملک کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے لئے یو این سیکیورٹی کونسل کے 15 ممبر ممالک میں سے اکثریت کا اس فیصلے کے حق میں ہونا لازمی ہے، لیکن دوستو یہاں پانچ مستقل ممبرز برطانیہ، فرانس، امریکہ، روس اور چین کو ویٹو کا حق بھی حاصل ہے ۔حال ہی میں جب شمالی کوریا پر پہلے سے عائد پابندیوں کو مزید سخت کرنے کے لئے امریکہ نے ایک قرارداد پیش کی تو چین اور روس دونوں نے اپنی ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے شمالی کوریا کو مزید پابندیوں سے بچا لیا تھا، حالانکہ 15 میں سے 13 ممبرز اس قرارداد کے حق میں تھے۔اس سے دوستو ایک بات تو یہ بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یونائیٹیڈ نیشنز اپنے پانچ مستقل ممبران کے خلاف ایسی کوئی پابندیاں نہیں عائد کر سکتی ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے القاعدہ، طالبان، عراق، ایران پر لگائی گئی Sanctions سر فہرست ہیں۔

معاشی پابندیوں کے مقاصد

معاشی پابندیوں کا پہلا مقصد یہ ہے کہ پابندیاں کسی بھی ملک کے قومی مفاد کو تحفظ فراہم کرتی ہیں، اور اس ملک کی خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار بھی ہوتی ہیں، جنہیں وہ استعمال کرتے ہوئے ملکی یا عالمی سطح پر امن و امان کی  صورت حال کو خراب کرنے والے عناصر کو کنٹرول کرتا ہے۔یورپی یونین اور امریکہ کے مطابق ایران پر پابندیاں اسی مقصد کے تحت لگائی گئی ہیں۔روس نے بھی اپنے اس ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے مغربی بلاک کی طرف جھکاؤ رکھنے والے یوکرین کو نیٹو یا یورپی یونین میں شامل ہونے سے روکا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ روس نے یوکرین کو گیس کی فراہمی بھی بند کی ہوئی ہے۔ 

معاشی پابندیاں کسی ملک کی ڈومیسٹک پالیسی یا حکومت کو تبدیل کرنے کیلیے بھی عائد کی جاتی ہیں۔اس کی ایک بہترین مثال Anti Apartheid Act 1986 ہے۔اس ایکٹ کے ذریعے امریکی کانگریس نے ساؤتھ افریقہ پر کڑی معاشی پابندیاں عائد کیں۔ان پابندیوں کا مقصد جنوبی افریقہ کی حکومت کو ملک میں جاری نسلی امتیاز ختم کرنے پر مجبور کرنا تھا۔امریکہ  نے ان معاشی پابندیوں کو اٹھانے کے  لئے پانچ شرائط بھی رکھی تھیں، ان شرائط میں نیلسن منڈیلا اور باقی قیدیوں کو ریلیز کرنا بھی شامل تھی۔امریکہ کا یہ اقدام کافی کامیاب ثابت ہوا اور بالاخر 1990  میں نسلی امتیاز پر جاری نظام کے خاتمے کا آغاز نیلسن منڈیلا کی رہائی کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔

 اس کے علاوہ معاشی پابندیاں چونکہ نان ملٹری ہتھیار ہیں۔لہذا انھیں کسی ملٹری تھریٹ کو بالکل ختم یا اس کے اثرات کو کم کرنے کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی بہترین مثال 1956 کا سوئز کرائسز ہے، جب امریکہ کی طرف سے اسرائیل، برطانیہ اور فرانس پر معاشی پابندیوں کی دھمکی نے ہی کام کر دکھایا تھا اور انھیں مصر کے خلاف بظاہر جیتی ہوئی جنگ سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ایران کو اس کے جوہری پروگرام سے باز رکھنے کے لئے یونائیٹد نیشنز کے اقدامات کو بھی مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

بعض اوقات معاشی پابندیوں کا استعمال عالمی مارکیٹ میں Competive gain حاصل کرنے کے لئے اور اسے Maintain رکھنے کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔اس کے بہترین مثال 1973 میں OPEC کی طرف سے امریکہ اور یورپی یونین پر عائد کیا گیا آئل امبارگو ہے۔اس امبارگو کا مقصد عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو سپورٹ کرنے والے ممالک کو روکنا اور عالمی مارکیٹ میں ایڈوانٹیج حاصل کرنا بھی تھا۔

معاشی پابندیوں پر اعتراضات

 معاشی پابندیوں کے جہاں کچھ فوائد ہیں تو وہیں ان پر ماہرین کی طرف سے شدید تنقید بھی کی جاتی ہے۔

سب سے پہلا اعتراض جو کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ، معاشی پابندیاں کسی بھی ملک کے عام شہریوں کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔مثال کے طور پر اگر ایک ملک کسی دوسرے ملک کو اپنی ایکسپورٹس پر پابندی عائد کر دیتا ہے تو سینکشن کئے گئے ملک میں ان ایکسپورٹس سے تیار ہونے والی پراڈکٹس نہیں بنیں گی۔ اس صورتحال میں اس ملک میں کمپنیز کو اپنے آپریشنز بند بھی کرنے پر سکتے ہیں، یا پھر کوئی مہنگا آلٹرنیٹو تلاش کرنا پڑسکتا ہے۔یوں پراڈکٹس بھی مہنگی ہونگی  اور عام لوگوں کو روزگاز سے ہاتھ بھی دھونا پڑیں گے۔

ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایلیٹس کو پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، وہ مہنگی اشیا خریدنے کی سکت بھی رکھتے ہیں اور کہیں کسی اور ملک میں اپنا کاروبار بھی کر سکتے ہیں۔ایسے ہی اگر کسی ملک سے امپورٹ ہونے والی اشیا پر ٹیکسز یا مکمل پابندی عائد کر دی جائے اس صورت میں سینکشن کئے گئے ملک کی پراڈکٹس جب مارکیٹ میں نہیں جائیں گی تو اس ملک کو معاشی طور پر شدید نقصان ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین معاشیات ان پابندیوں کو Weapons of Mass Destruction کہتے ہیں۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ معاشی پابندیاں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی ہیں، بلکہ کسی ملک کے حکمرانوں کو اپنی پالیسیز یا اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور بھی نہیں کر پاتی ہیں اس کی بہترین مثال میانمار ہے، جہاں 1962 میں کنٹرول ملٹری گورنمنٹ نے سنبھال لیا تھا، اور اس کے بعد حکومت کی طرف سے اقلیتی کمیونٹی کا پر ظلم اور تشدد جاری رہا، حالانکہ امریکہ اور برطانیہ نے میانمار کی حکومت پر پابندیاں بھی لگا رکھی تھیں، لیکن میانمار کی حکومت نے اپنی پالیسیز میں کسی قسم کی کوئی لچک نہیں دکھائی۔اس کی حالیہ مثال روس پر یورپی ممالک اور امریکہ کی طرف سے عائد کی گئی پابندیاں ہیں، جو بالکل بے ضرر ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں، اور روس یوکرین جنگ ابھی تک جاری ہے۔ایسے ہی شمالی کوریا پر بھی دہائیوں سے امریکہ، یورپی یونین اور دوسرے ممالک نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ معاشی پابندیاں اور بالخصوص درآمدات یا برامدات سے متعلق پابندیاں عائد کرنے سے ٹارگٹ ملک جلد یا بدیر کوئی متبادل تو تلاش کر ہی لیتا ہے، یا پھر پابندی لگانے والے ملک کے مخالف بلاک میں جانے پر مجبور ہو جاتا ہے جس کا Ultimately نقصان پابندی لگانے والے ملک کا اپنا ہی ہوتا ہے۔مزید یہ کہ اگر کوئی ملک ٹارگٹ ملک کو اپنی برآمدات پر پابندی عائد کرے تو اس ملک کی اپنی جی ڈی پی پر بھی برا اثر پڑے گا۔

کیا امریکہ پر بھی کبھی پابندیاں لگیں؟

 اب یہ سوال کہ، کیا کبھی پابندیاں عائد کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہنے والے امریکہ پر بھی کبھی پابندیاں لگی تو “جی ہاں” امریکہ پر بھی دوسرے ممالک کی طرف سے کئی مرتبہ پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔ 2014 میں جب روس نے کریمیا پر حملہ کیا تو امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے جواب میں روس نے بھی امریکہ سے امپورٹ ہونے والی کھانے پینے سے متعلق اشیا پر پابندی عائد کر دی تھی۔اس کے بعد پھر 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں تیار ہونے والی پراڈکٹس کی خریداری کو فروغ دینے کے لئے دوسرے ممالک سے آنے والی اشیا پر بھاری ٹیرف عائد کر دئیے تھے، امریکہ کے اس اقدام کا یورپی یونین، کینیڈا، چین اور روس نے بھرپور جواب دیا اور بدلے میں امریکی پراڈکٹس جن میں سٹیل، ایلومنییم اور کچھ دوسری پراڈکٹس شامل تھیں، ان پر بھاری ٹیکسز عائد کر دئیے تھے۔

کیا پاکستان پر بھی کبھی پابندیاں لگیں؟

 پاکستان پر بھی آزادی کے بعد سے کئی مرتبہ معاشی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں، بالخصوص 1970 کی دہائی میں بھارت نے جب ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان نے بھی ایٹمی طاقت بننے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، امریکہ کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو اس نے پاکستان پر کچھ ملٹری اور معاشی پابندیاں عائد کر دی تھیں، اس کے بعد بھی یہ سلسلہ آنے والی دہائیوں میں جاری رہا 1990 میں امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی بھی روک دی تھی۔1998 میں پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کئے تو امریکہ نے مزید کئی طرح کی معاشی پابندیاں پاکستان پر عائد کر دی تھیں، جن میں فارن ایڈ کی معطلی، ٹیکنالوجی سے متعلق اشیا کی ایکسپورٹ پر کنڑول اور کچھ دوسری پابندیاں شامل تھی۔

کیا معاشی پابندیوں کو بائی پاس کیا جا سکتا ہے؟

 جب کسی ملک پر کوئی پابندی لگائی جاتی ہے تو کئی ممالک انھیں بائی پاس کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، تاکہ انھیں پابندیوں کا زیادہ نقصان نا پہنچے، حال ہی میں جب امریکہ نے روس یوکرین جنگ کے بعد روس سے امپورٹ ہونے والی لکڑی پر پابندی عائد کر دی تھی، اس کے بعد اس نے یہی لکڑی ویتنام سے امپورٹ کرنی شروع کر دی، اب چونکہ امریکہ کی ڈیمانڈ زیادہ تھی تو روس نے لکڑی چین کے ذریعے ویتنام کو ایکسپورٹ کرنی شروع کر دی جہاں سے پھر وہی رشیین لکڑی امریکہ کو ایکسپورٹ ہونے لگی۔

ایسے ہی جب روس کی ائیر لائنز کمپنیز پر یورپی ممالک کی ائیر سپیس استعمال کرنے کی پابندی عائد کی گئی تو روسی شہری ترکی کے راستے یورپ پہنچنے لگے تھے۔ہاں البتہ پابندیوں کو بائی پاس کرنے کا یہ ایک مہنگا طریقہ ہے۔

دوستو دنیا میں مالیاتی ادارروں کے درمیان تیز اور سکیور(Secure) ادائیگیوں کے لئے آنلائن پیمنٹ سسسٹم Swift کو استعمال کیا جاتا ہے، جب کسی ملک پر کڑی معاشی پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو اس ملک کے بنکوں کو بھی Swift کے ذریعے پیمنٹ وصول کرنے یا بھیجنے سے Ban ک ر دیا جاتا ہے۔تو اس صورتحال میں ممالک کسی آلٹرنیٹو کی تلاش میں لگ جاتے ہیں، ایران کے بنکوں کو چونکہ سوفٹ سے بین کیا گیا ہے لہذا یورپی یونین نے اس کو Avoid کرنے اور ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کے لئے اپنا ایک نظام Instex متعارف کروایا ہے، ایسے ہی چائنہ نے یونین پے نامی سسٹم بنا رکھا ہے۔ لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جب دنیا میں کئی پیرالل نظام بن جائیں گے تو گلوبل پیمنٹ سسٹم Fragmentation یعنی تقسیم کا شکار ہو جائے گا۔ 

 یہ چیز تو بالکل واضح ہے کہ معاشی پابندیاں کسی بھی ملک کے حکمران طبقے کو اپنا رویہ تبدیل کرنے میں بہت کم ہی موثر ثابت ہوتی ہیں، اور ان کا Success Rate انتہائی کم رہتا ہے، زیادہ تر کیسز میں یہ فیل ہی ہو جاتی ہیں۔ شمالی کوریا، ایران، کیوبا اور روس دہائیوں سے پابندیوں کی زد میں رہنے کے باوجود اپنی پالیسیز پر آج بھی گامزن ہیں، ہاں البتہ ان پر عائد پابندیوں سے انکی عوام، مڈل کلاس اور چھوٹے کاروباری طبقے نے ضرور نقصان اٹھایا ہے۔  

 آپکا کیا خیال ہے یہ سینکشنز کسی ملک کیخلاف ایک موئثر ہتھیار ہیں یا انکا نقصان صرف عام طبقے کو ہی ہوتا ہے،اپنی قیمتی رائے سے ہمیں ضرور آگاہ کریں 

You may also like

Leave a Comment

رابطہ کریں

error: Content is protected!!
urUrdu